سیدقطبؒ سے استفادہ

چند اہم نکات

سیدقطبؒ کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے شہادتِ حق دیتے دیتے ’’شہادت‘‘ کے درجے تک پہنچنے کے لیے چن لیاتھا اور شاید اسی وجہ سے وہ عرب دنیا میں چلنے والی تحریکِ اسلامی کے قطب دارین بن چکے تھے اور تسلیم بھی کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عراقی صدر عبدالسلام عارفؒ نے جمال عبدالناصر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ سید قطب کو،تحریکِ اسلامی کو اور کارکنانِ تحریک اسلامی کو ان کے حوالے کردیں تاکہ وہ ان کو عراق لے جاکر ان کی خداداد ’’قطبانہ‘‘ صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں اور اسلام اور امت اسلامیہ اِن نادر صلاحیتوں سے مستفید ہوسکیں۔قطب کی حیثیت سے نہ صرف جمال عبدالناصر نے ان کو جانا اور مانا بلکہ اس وقت کے عالمِ کفرو الحاد کے مرکز و رہنما ماسکو نے یہ اعلان کرنے پر ’’مجبور‘‘ کیاکہ ان کی سزا اس بار موت ہی ہے۔ ’’مجبور‘‘ کا لفظ اس لیے صحیح ہے کہ کوئی غیرت مند رئیس اپنے ملک کی اندرونی صورت حال یا مسئلے کے بارے میں خواہ مخواہ بیرونِ ملک رائے زنی نہیں کرتا ہے اور اگر صحافیوں نے اسے کسی طرح گھیرگھارکر بات کرنے پر مجبور ہی کردیاہوتو وہ ٹال مٹول پر اتر آتا ہے اور گول مول بات کرکے جان چھڑالیتا ہے۔ برعکس اس کے یہاں جمال عبدالناصر کالہجہ تندو تیز اور دھمکی آمیز اور فیصلہ کن بھی تھا۔ موت کا حکم وہ بھی عدالت قائم ہونے، مقدمہ چلنے اور ججوں کے فیصلے صادر ہونے سے پہلے ہی سنادیاگیا۔ یہ خالص کمیونسٹ طریقۂ انصاف وعدالت ہے۔ یہی لینن اور اسٹالن کا انصاف تھااور یہی ان کے چیلے ’’اشتراکی‘‘ جمال عبدالناصر کا انصاف بھی تھی۔یہ سید قطبؒ کی اس ’’قطبی‘‘ حیثیت کااعتراف بھی تھا جو ان کو عالمِ عربی میں چلنے والی تحریک اسلامی میں حاصل تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ سید قطب کو تحریک اسلامی کی ’’فکری رہنمائی‘‘ کے میدان میں ’’قطب‘‘ کا درجہ ایک عرصے سے حاصل ہوچکاتھا۔ یہ ان کے اس قلم کی گل کاریوں کانتیجہ تھا جس سے عربی فصاحت وبلاغت کے چشمے نہیں دریا بہاکرتے تھے۔ یہ ملکہ ان میں قرآن فہمی کے شوق و ’’استغراق‘‘ نے پیدا کیا جو پہلے تو التصویر الغنی فی القرآن ’’قرآن کریم میں تصویر کشی کے فنی اصول و مبادیٔ‘‘ اور مناظر القیامہ فی القرآن ﴿قرآن کریم میں مناظرقیامت﴾ میں ظاہر ہوا اور بعد میں ان کی بے نظیرتفسیر فی ظلال القرآن میں ظاہرہوا، جو پہلے پہلے اس ماہنامہ میں قسط وار شائع ہوئی، جس کو ’’المسلمون‘‘ کے نام سے الامام الشہید حسن البنائؒ کے شعلہ بار مقرر اور صاحب فکر وعمل داماد ڈاکٹر سعید رمضان نے القاہرہ سے شائع کیاتھا۔جب یہ تفسیر کتابی شکل میں شائع ہوئی اور اس میں انھوںنے التصویر الفنیکو پوری مہارت اور چابک دستی سے برتا تو صاحب ’’بصیرت‘‘ لوگ جان گئے کہ یہ شخص تحریک اسلامی کا قطب بن چکاہے۔ اب یہی اس تحریک کو اپنی اس فکر کی بنیاد پر جو اس کو ’’قرآن کے زیرِ سایہ‘‘ زندگی گزارنے سے حاصل ہوئی ہے، رہنمائی کرے گا۔

’’قطب‘‘ عربی میں چکی کی اس کیل کو کہتے ہیں جس کے اطراف اس کا اوپری پاٹ گھوم کر اناج کو آٹا بناتاہے۔مجازاً وھوقطب قومہ لسیدھم۔ ان کے سردار کے لیے یہ لفظ مجازاً استعمال ہوتاہے۔ ﴿الزمحشری، اساس البلاغہ، تحقیق الاستاد عبدالرحیم محمود و تقدیم: الاستاذ امین الخلولی، دارالمعرفہ، بیروت، ۱۴۰۲ھ۱۹۸۲ ص:۳۷۰﴾

قرآن فہمی میںکمال اور شدتِ استغراق نے سید کو ’’قطب‘‘ کے درجے تک پہنچایا۔ انھوںنے اپنی تفسیر کے مقدمے کاآغازہی ان الفاظ سے کیاہے : ’’ قرآن کے زیرسایہ زندگی بسر کرنا بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک ایسی نعمت جو بڑی بابرکت ہے، جوعمر میں برکت ڈالتی ہے، فکر کو بابرکت بناتی ہے اور بحیثیت مجموعی خود زندگی کو برکت خیز کردیتی ہے۔جب وہ عالم استغراق میں قرآن فہمی کے سفر میں منزلوں پر منزلیں طے کرتے گئے تو ’’حالت استغراق‘‘ میں ان کے قلم سے ’’قطبانہ‘‘ عبارتوں کا صدور ہوا۔ البتہ یہ امر نادر تھا اور کبھی کبھار ہی ہوا کرتاتھا ۔ اس کی میں دو مثالیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کروںگا۔

عالم استغراق اور حالتِ استغراق کی پہلی مثال

میں ان حضرات کی خاطر جو عربی زبان سے واقف ہیں اوراس کے بلاغتی پہلوئوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، عربی متن خود سیدؒ کے ’’قطب قلم‘‘ سے نقل کرتاہوں:

’’یہ قوم عاد، قوم سیدنا ہود علیہ السلام کی تباہی کا وہ منظر ہے، جو سورۃ الاحقاف میں پیش کیاگیاہے۔ جب انھوں نے بادلوں کو اپنی وادیوں کی طرف حرکت پزیر ہوتے دیکھ کرکہاکہ : یہ بادل ہم پر بارش برسانے والے بادل ہیں۔‘‘ ﴿الاحقاف:۴۲﴾

ترجمہ: ’’اس کا جواب امر واقع کی شکل میں دیاگیا: بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی جلدی تم مچارہے تھے۔ یہ ایک ایسی ہوا ہے جس میں دردناک عذاب پوشیدہ ہے۔ یہ ایک ایسی ہوا ہے جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرتی ہے۔ یہ وہی ہوا ہے جس کو’’ صرصر کرتی ہوئی حد سے زیادہ قوت والی ہوا‘‘کے نام سے دوسری سورت میں یاد کیاگیاہے۔ سورۃ الحاقہ آیت نمبر ۷، علاوہ ازیں اس کی خصوصیت کے بارے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ’’یہ جب کسی چیز پر گزرتی ہے تو اس کو بورہ بورہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ ‘‘

﴿فی ظلال القرآن، ج:۵، ص: ۷۸۴۳﴾

قرآنی نص باد صرصر کی تصویرکشی اس طرح کرتاہے گویا کہ وہ ایک زندہ اور باشعور ہستی ہے، جس کو تباہی پر مامور کیاگیاہے: وہ ہر چیز اپنے رب کے حکم سے برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی کائناتی حقیقت ہے جس کا قرآن انسانی نفوس کو شعور دلانے کا خاص اہتمام کرتاہے۔ کیوںکہ یہ وجود ایک زندہ شے ہے اور اس میں پائی جانے والی ہرقوت اور طاقت باشعور ہے اور ﴿ان میں سے﴾ہر چیز اپنے رب کی طرف سے صادر ہونے والے حکم کا ادراک کرتی ہے اور اس چیز کے نافذ کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے، جس کی تنقید کااسے مکلف کیاگیاہے ﴿اس ہستی پر جلال کی طرف سے﴾ انسان بذات خود اِن قوتوں اور اُن طاقتوں میں سے ایک قوت اور طاقت ہے اور جب وہ اسی طرح ایمان لے آتا ہے،جس طرح ایمان لانے کاحق ہے اور جب وہ اپنے دل کے دروازے کو اس علم واصل کے لیے کھول دیتا ہے ﴿جو علم الٰہی سے جڑا ہوا اور ملاہوا ہے﴾ تو وہ اس امر پر قدرت حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اپنے اطراف پھیلی ہوئی کائناتی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ ہم نغمہ اور ہم سُر ہوسکے اور وہ ﴿بھی﴾ اس ﴿انسان﴾ کے ساتھ ہم آہنگ نغمہ اور سُر گنگنانے لگتے ہیں اور وہ ﴿خود﴾ دوسری زندہ اور باشعور موجودات کے ساتھ ہم نغمہ ہوتے ہیں۔ اس ظاہری شکل وصورت کے علی الرغم جن کو انسان زندگی اور شعور کے نام سے جانتے ہیں کیونکہ ہر چیز اور ہر شے میں روح اور زندگی پائی جاتی ہے لیکن ہم اس کاادراک نہیںکرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے سامنے ظاہری صورتیں اور شکلیں پردہ بن کر باطنی چیزوں اور حقائق سے ﴿ہماری نظریں اوجھل کردیتی ہیں﴾ اور وہ کائنات جو ہمارے اطراف پھیلی ہوئی ہے، اُن اسرار سے بھری پڑی ہے جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ﴿لیکن﴾ ان کا ادراک یعنی باطنی امور و حقائق کاادراک اہلِ بصیرت کرتے ہیں جب کہ وہ اہل بصر کو دکھائی نہیں دیتی ہیں۔

باد صر صر نے اس کام کو پورا کردیا۔ تباہی و بربادی کا کام۔ جس کو اسے حکم دیاگیاتھا: تو وہ یعنی قوم عاد، قوم ہود، ایسے ہوگئے کہ صرف اور صرف ان کے محلات، اونچے اونچے ارم ذات العماد یہی اس حالت میں دیکھے جاسکتے تھے کہ ان میں نہ تو کوئی ذی روح ہی چل پھر رہاہے اور نہ ان کے جانور ہی کہیں دکھائی پڑتے ہیں اور نہ ان کا سامان زیست کہیں نظرآتا ہے۔ وہ محض خالی محلات ہیں جن میں نہ تو کوئی ذی حرکت بستاہے اور نہ ان میں کوئی ﴿پکانے کے لیے﴾ آگ ہی روشن کرتاہے اور نہ اس آگ کی لو کو تیز کرنے کے لیے اس میں پھونک ہی مارتا ہے۔‘‘ اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے جرائم کا بدلہ دیتے ہیں۔‘‘ ﴿فی ظلال القرآن، ج:۵، ص:۴۶۲۳﴾

آپ غائر نظر سے اس کے ترجمے کامطالعہ فرمائیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ سیدؒ نے اس میں دراصل سورۃ الاحقاف آیت نمبر ۳۲ کے آخری حصے اور آیت نمبر ۴۲ کی تفسیرکی لیکن یہ تفسیر عام تفسیروں کی طرح تفسیر نہیں ہے کہ پہلے آیت لکھی پھر نامانوس کلمات کے معنی بیان کیے اور پھر آیت کی دوچار الفاظ میں تفسیر کردی۔ سیدؒ اس میں زیرتفسیر ڈیڑھ آیت کے۔

﴿الف﴾ ایک ایک لفظ کو اپنی فصیح و بلیغ عبارت کی لڑی میں بالکل پھولوں اور موتیوں اور مونگوں کی طرح پروکر اس کو ایک جاذب نظر، دلکش اور خوبصورت ہار میں بدلتے ہیں۔ پرونے کے اس عمل میں وہ زیرتفسیر آیت کی تشریح، قرآن کے دیگر مقامات پر وارد آیات کی مدد سے دیگر مفسرین کی طرح کرنے پر اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ خود ان آیات کو بھی زیرتفسیر آیات کی طرح ہار کے دھاگے میں پروکر ہار کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

یہ ایک ہی واقعہ کے بارے میں وارد متفرق آیات کو پرونے کے فن کا کمال ہے۔ یہ نہ صرف زیرتفسیر آیات میں نظم و ضبط بلکہ نظم ونسق قائم کرنے کی بڑی قابل داد کوشش ہے، بلکہ ایک ہی موضوع یا واقعہ کے متعلق متفرق مقامات پر پھیلی ہوئی آیات کو زیرِ تفسیر آیات میں سمونے اور ضم کرنے کی نادر زمانہ سعی ہے۔

ہم نے الامام الجلیل المفسرجلال الدین السیوطیؒ کو اپنی بے مثال تفسیر ’’قطب الازہار فی کثیف الاسرار‘‘ میں ایک ہی سورت کی ایک ایک آیت کے ایک ایک لفظ لفظ کو نظم کی ڈوری میں پروتے ہوئے تو دیکھا ہے لیکن سیدؒ خود بھی جلال الدین السیوطیؒ کی طرح السیوطی ﴿السیوطی﴾ ہیں، ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ایک ہی موضوع کی متفرق آیات کو مزید تفسیرآیات میں مدغم کردیا جس سے معنوں میں مزید نکھار اور فصاحت پیدا ہوئی جیساکہ میں نے ان آیات کے دیگر مقامات پر نشان دہی کرکے واضح کیاہے۔

﴿ب﴾ دوسرا ’’قطبانہ کمال‘‘ انھوں نے یہ کیاکہ نہ صرف تباہی و بربادی کرنے والی بادِ صرصر کو ایک جاندار، صاحب روح اور باشعور ہستی کے لباس میں پیدا کیا جو اپنے رب کے حکم کا ادراک کرتی اور اسے بخوبی نافذ بھی کرتی ہے، بلکہ انھوں نے ان باشعور اور ذی روح ہستیوں کے دائرے کو اتنی وسعت دی کہ اس میں زمین وآسمان کی ہر چیز کو شامل کرکے کہا: ہرچیز اور ہر شے میں روح اور زندگی پائی جاتی ہے۔اس طرح اس کائنات کاہر موجود موجد/خالق کے وجود کا نہ صرف تصرف ہے بلکہ پورے شعور وادراک کے ساتھ اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا رہ کر اس کے اوامر اور احکام کا انتظار کرتا ہے اور ان کو پوری مستعدی اور تن دہی سے نافذ بھی کرتاہے۔

یہ تو تھا موجد اور موجود اور خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق اور اس کی کیفیت۔

﴿ج﴾ آئیے اورآگے بڑھیے تو معلوم ہوگاکہ سیدؒ نے موجودات اور مخلوقات کے درمیان کامل ہم آہنگی کے راز کو دریافت کیا ہے۔اس کو میں ایک قرآنی مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کروںگا۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُسَبِّحُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّیْْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیْحَہُ  ﴿النور:۱۴﴾

’کیا تم نہیں دیکھتے کہ آسمانوں اورزمین کی ساری موجودات اللہ کی تسبیح بیان کرتی رہتی ہیں اور وہ پرندے بھی جو فضا میں پر پھیلائے اڑتے ہیں۔ ان میں ہر ایک اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے۔‘

یُسَبِّحُ لَہ، السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ وَاِن مِّن شَیْْئ ٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَ کِن لاَّ تَفْقَہُونَ تَسْبِیْحَہُم ﴿بنی اسرائیل:۴۴﴾

’ساتوں آسمان اور زمین اس کی تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں اور وہ ﴿بھی﴾ جو ان میں موجود ہیں اور کوئی ایسی چیز ﴿اس کائنات میں نہیں ہے﴾ جو اس کی تعریف کی تسبیح نہ الاپتی ہو لیکن تم اس کو نہیں سمجھتے ﴿ان کی زبان اور طریقہ تسبیح کو نہیں سمجھتے﴾‘

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم سبحان اللہ بحمدہ وسبحان اللہ العظیم کہہ کر تسبیح پڑھتے ہیں تو ہم اس کائنات کی ساری موجودات کے نغمے میں نغمہ ملاکر ہم آہنگی، عبدیت اور عبودیت کے گیت گاتے ہیں۔ اس وقت ہم میں اور دیگر ساری موجودات میں عبدیت ، عبودیت اور مخلوقیت کی بنیادپر یکسانی اور برابری کا رشتہ اور تعلق قائم ہوجاتاہے اور ہم اور وہ سب مل کر اپنے خالق اور رب کی تعریف و توصیف و تسبیح تکبیر میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں۔

اس مقام پر پہنچنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ہم ان تسبیحوںاور دیگرامور کاادراک محض اس لیے نہیں کرتے ہیں کہ ظاہری مظاہر اور اشکال کے پردے ان باطنی امور کو دیکھنے، سننے اور ان کا ادراک کرنے کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ مادیات اورمحسوسات کے رسیا ’اہل بقر‘ کی نظر صرف ظاہر پر، باہر پر اور خول اور غلاف تک جاکر اٹک جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اندرونی اور بیرونی طاہری اور باطنی، ڈھکے اور چھپے سارے امور اورپہلوئوں کا ادراک کرلیاہے جب کہ یہ ایک دھوکے کی ٹٹی ہے۔ وہ خوش فہمی اور غلط فہمی کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ ان امور وحقائق باطنی امور وحقائق کا ادراک صرف وہ اصحاب ’بصیرت‘ہی کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں جن کا علم کامل وشامل حاضر و غائب، ظاہر وباطن پر محیط علم الٰہی سے ملا ہوا اور جڑا ہوا ہوتا ہے اور جو علم ربانی کی نورانی کرنوں سے فیض یاب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ علم الٰہی اور وہ علم ربانی کیا ہے اور اس کی کیا ماہیت ہے؟ تو سنیے:

اِنَّ اللّہَ لاَ یَخْفَیٰ عَلَیْْہِ شَیْْئ ٌ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَائo ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِیْ الأَرْحَامِ کَیْْفَ یَشَائ     ﴿اٰل عمران: ۵،۶﴾

’ بے شک اللہ کے آگے زمین اور آسمان کی کوئی چیز چھپی ہوئی یا پوشیدہ نہیں ہے، وہی ہے جو مائوں کے رحموں سے تمھاری جس طرح چاہتاہے صورت گری کرتا ہے۔

مزید وضاحت اس دل کشا، دماغ کشا، چشم کشا اور آفاق فکر کشا آیت میں ملتی ہے:

وَعِندَہ، مَفَاتِحُ الْغَیْْبِ لاَ یَعْلَمُہَا اِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ اِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ﴿الانعام:۹۵﴾

’اس کے قبضہ قدرت میں غیب کی چابیاں ہیں جن کوکوئی نہیں جانتاہے الّا اس کے، وہ ان چیزوں کو ﴿بھی ﴾جانتاہے جو خشکی ﴿زمین﴾ اور تری ﴿سمندر﴾ میں پائی جاتی ہیں اور کوئی پتا ﴿اپنی شاخ سے﴾ نہیں گرتا ہے الاّ یہ کہ اس کو ﴿اس کے گرنے کا﴾ علم ہوتاہے اور زمین کے اندھیروں میںکوئی دانہ ایسا نہیں ہے اور نہ کوئی خشک یا تر چیز ہے جو ایک واضح کرنے والی کتاب میں ﴿لکھی ہوئی﴾ نہ ہو۔‘

جب کسی بندے کا علم اس علم محیط و علم کامل و شامل کی کرنوں سے فیض یاب ہوتا ہے، نہیں، بلکہ مل بھی جاتاہے تو ظاہر کا دھوکا دینے والے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ ’’العلم‘‘ کی روشنی میں وہ کچھ دیکھ لیتاہے جو اس ’’العلم‘‘ سے محروم دیکھ نہیں پاتے ہیں۔

عالم استغراق اورحالتِ استغراق کی دوسری مثال:

اس کا تعلق سورۃ الانفال آیت نمبر ۱۱ کے ابتدائی حصے سے ہے ۔

اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ أَمَنَۃً مِّنْہُ  ﴿الانفال:۱۱﴾

’یادکرو اس وقت اور کیفیت کو جب تم پر اللہ نے گہری غنودگی اس لیے طاری فرمارہاتھا تاکہ تم اطمینان اور بے خوفی محسوس کرسکو۔‘

سیدؒ اس کی تفسیرمیں یوں تحریر فرماتے ہیں:

’رہی اس غنودگی کی کہانی جو مسلمانوں پر طاری ہوئی تھی تو وہ ایک ایسی عجیب نفسیاتی حالت کی کہانی ہے جو صرف اللہ کے حکم ، اس کی تقدیر اور اس کی تدبیر سے واقع ہوتی ہے۔مسلمانوں کو خوف محسوس ہوا اس حال میں کہ وہ قلیل التعداد تھے،ایک ایسے خطرے کے مقابلے جس کا انھوںنے حساب نہیں لگایاتھا اور نہ اس کے لیے کوئی تیاری اور تدبیر ہی کی تھی۔ تو اچانک گہری غنودگی اور غشی ان کو دبوچ لیتی ہے۔ پھر وہ اس سے اس حالت میں جاگتے ہیں کہ اطمینان ان کے نفوس پر چھاگیاہوتا ہے اور سکینت ان کے دلوں کو اپنے فیض سے سیراب کرچکی ہوتی ہے ﴿ایسا ہی کچھ احد کے دن بھی ہوا۔ خوف کی تکرار ہوئی تو بحثی کی تکرار بھی ہوئی اور اطمینان بھی تبکرارحاصل ہوا﴾ میں ان آیتوں پر سے گزراکرتاتھا اور اس غنودگی کی خبریں پڑھاکرتاتھا، تو میں ان کا ادراک ایک ایسے وقوع شدہ واقعے کی حیثیت سے کیاکرتاتھا جس کاراز صرف اللہ ہی جانتاہے اور ﴿وہی﴾ اس خبر کی روایت بھی کرتا ہے۔ پھر اچانک میں ﴿جیل میں زدوکوب، اذیتوں اور ناقابل برداشت تکلیفوںکا﴾ شکارہوجاتاہوں اور مجھ پر ﴿قوت سے﴾ دبائو ہوئی تنگی اور تکلیف کے لمحے گزرنے لگتے ہیں۔ ایک موہوم سا پریشانی آمیز خوف کا لمحہ جو نفس اخیر کی دہائی دیتادکھائی دیتاتھا اس کے بعد مجھے غنودگی آمیز نیند اپنے آغوش میں لے لیاکرتی تھی۔ یہ غنودگی چند منٹ سے زیادہ مدت کی نہیں ہواکرتی تھی۔ میں ایک اجنبی انسان بن کر جاگاکرتاتھا جو اس انسان سے بالکل مختلف تھا جو اس غنودگی سے پہلے پایاجاتاتھا۔ ایک پُرسکون نفس کامالک انسان، ایک ایسا انسان جس کادل اطمینان سے لبریز تھا اور جو گہرے پُربھروسہ اطمینان کے سمندر میں ڈوبا ہواتھا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟ یہ اچانک تبدیلی کیسے واقع ہوئی؟ مجھے نہیں معلوم! لیکن اس ﴿تحریر﴾ کے بعد میں نے محسوس کیا اور اس حقیقت کو پایاکہ بدر و احد کی کہانیوں کی کیا ماہیت ہے۔ اس بار میں نے ان ﴿کہانیوںکا﴾ پہلی بار اپنے کامل وجود کے ساتھ ادراک کیاہے اور صرف عقل ہی سے نہیں، میں نے ان کو اپنے احساسات میں زندہ پایا ہے۔ اب وہ محض تصورشدہ قصے نہیں تھے!… میں نے ان میں دستِ الٰہی کو دیکھاہے اس حال میں کہ وہ براہِ راست چھپ کر اپنا کام کرجاتاہے اور میرا دل اطمینان سے ہمکنار ہوجاتاہے یہ غشی بدر کے دن اور وہ اطیمنان اس روز جماعت مسلمین کے لیے اللہ کی مددوں میں سے ایک مدد تھی۔ ’یغیثکم‘ کا لفظ اور لفظ ’النعاس‘ ﴿غنودگی﴾ اور لفظ ’آمنۃً‘

یہ سب الفاظ ایک لطیف اور شفاف سائے کو پیدا کرنے میں مشترکہ طورپر حصہ لیتے ہیں اور اس منظر کے عمومی سائے کو بنانے میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی اس دن کی حالت کی تصورکشی کرتے ہیں اور اس قیمتی فیصلہ کن نفسیاتی لحظے پر سے پردہ اٹھاتے ہیں جس میں مسلمان ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوئے تھے۔

﴿فی ظلال القرآن،ج:۳،ص:۴۸۴۱﴾

یہ ایک دوسرا ہی ذاتی تجربہ ہے جس سے سیدؒ اس حال میں گزرتے ہیں کہ شدتِ کرب اور ضیق سے نڈھال روح اور جسم پر یدِ خداوندی شفقت ومحبت کی لہریں دوڑاتا ہے ۔ جب انسان کو ﴿تقریباً﴾ اپنی موت کا یقین ہوجاتاہے۔ اچانک اس کے دکھ سے ٹوٹتے ہوئے اعضا وجوارح پر رحمت کے پھائے دستِ غیب سے رکھے جاتے ہوئے محسوس کرتاہے۔ گویا کہ چند لمحات پہلے وہ کسی کرب اور ضیق کاشکار ہی نہیں ہواتھا۔

پہلا تجربہ یا مثال جہاں حسی ،خیالی اور ادراکی مثال اور تجربہ تھاتو دوسرا ایک حقیقی اور واقعی تجربہ تھا جس سے وہ شخصی طورپر گزرے اور انھیں بدرو احد کی آیات کا صحیح ادراک ہوا۔ ان تجربات سے سیکڑوں بارگزار کر انھوںنے سرکے ساتھ دھڑبھی پھانسی کے تخت پر صبرو سکون کے ساتھ لٹکادینا گوارا کیا۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223