شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی تفسیر فتح العزیز

نسرین فاطمہ

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی پیدائش عہدمغلیہ کے آخری دور میں ہوئی یہ زمانہ ایسا پر آشوب تھا کہ سیاسی، اخلاقی ،معاشرتی ،معاشی بدحالی کے ساتھ تعلیمی اور مذہبی بے راہ روی بھی عام تھی۔قرآن پاک سے استفادہ مریضوں کے لئے تعویذ اور جھاڑپھونک کے لئے کیا جاتا تھا عوام اور خواص اپنی قدریں کھو چکے تھے ۔شاہ صاحب کے والد ماجد حضرت ولی اللہ محدث دہلوی نے  اس پامالی کو روکنے کے لیئے انتھک کوشش کیں۔ اور اپنی ساری زندگی قرآن و حدیث کی مذمت کے لئے وقف کر دی تھی آپ نے سب سے پہلے قرآن مجید کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا اس ترجمہ سے آپکا مقصد یہی تھا کہ آپ عوام کو قرآن کریم سے جوڑنا چاہتے تھے اور یہ تبھی ممکن تھا جب عوام قرآن کریم کے معنی و مطالب کو سمجھتے ۔اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے شاہ صاحب نے عوام کی زبان فارسی میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔

آپ کے بعد آپ کے بیٹے شاہ عبد العزیز دہلوی نے قرآن و حدیث کی بے لوث خدمت انجام دی ۔اور اپنے والد کے مشن کو جاری رکھا اور اپنے والد کی مسند پر بیٹھ کر لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے رہے ۔آپ نے دہلی میں بیٹھ کر علوم دینیہ سے تشنگان علم کو سیراب کیا شاہ صاحب نے ایک طرف جہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا تو دوسری طرف تصنیف و تالیف سے کام لیا۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ولادت:

آپ کی ولادت با سعادت ۱۱۵۹ھ بمطابق ۱۷۴۸ء کو دہلی میں ہوئی ۔عبدالعزیز نام اور لقب سراج الہند تھا۔بعض رفقاء اور احباب نے قرآن کریم سے آپ کا نام ــ غلام حلیم نکالا۔

فبشرناہ بغلام حلیم       ۱ ؎

آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے والد شاہ ولی اللہ سے کیا پانچ سال کی عمر سے ہی آپ نے قرآن پاک پڑھنا شروع کر دیا اور بہت جلد پڑھ کر فارغ ہو گئے آپ کامیلان بچپن سے ہی تعلیم کی طرف تھا۔ اسلئے بہت جلد تعلیم کے درجات عبور کرتے گئے۔آپ کے والد شاہ ولی ا للہ نے نہایت خوش اسلوبی سے آپ کو تعلیم دی جس کی وجہ سے شاہ عبد العزیز کے اندر بھی اپنے والد کی طرح دینی و تعلیمی جواہر پیوست ہو گئے۔شاہ صاحب نے اپنے والد کے علاوہ خواجہ امین کشمیری اور شاہ محمد عاشق پھلتی سے بھی تعلیم حاصل کی اسکے علاوہ فقہ کی تعلیم اپنے خسر مولانا نور اللہ بڑھانوی سے حاصل کی۔

پندرہ برس کی عمر تک آپ نے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ اور کمالات ظاہری و باطنی میں سند فراغت حاصل کر لی جیسا کہ مذکور ہے ۔

آپ علم تفسیر ،حدیث ،فقہ ،سیرت اور تاریخ میں شہرہ آفاق تھے ۔ہئیت و ہندسہ ،طبیعیات ، منطق میں یکتائے زمانہ تھے،،۲؎

سترہ سال کی عمر میں آپ کے والد شاہ ولی اللہ کا انتقال ہو گیا والد کے انتقال کے بعد آپ نے ان کی مسند پر فائز ہو کر درس و تدریس ، دعوت و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا ۔اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کو انجام دیتے رہے ۔لہٰذا آپ کی انتھک کو ششوں سے لوگوں کی مذہبی ،تعلیمی اور اخلاقی اصلاح ہوئی ۔ نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا  اور ہر گھر سے قرآن و حدیث کی صدائیں آنے لگیں۔

سید مولانا عبد الحئی کا بیان ہے:

’’شاہ عبد العزیز طلبہ کے علاوہ عوام الناس کے افادہ کے لئے ہفتہ میں دو مرتبہ سہ شنبہ (منگل)اور جمعہ کو درس گاہ میں مجلس وعظ منعقد فرماتے تھے جسمیں بے شمار شائقین شریک ہوتے تھے۔ــ‘‘۳؎

درس و تدریس وعظ و نصیحت سے عوام الناس کو رشد و ہدایت کرنے کے علاوہ ان کی ذہنی و فکری اصلاح بھی کی آپ نے اپنی قابلیت کے باعث لوگوں کو دین کی طرف راغب کیا اس کے علاوہ آپ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اندازہ آپ کے مایاں ناز تصنیفات سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے وقت کے لحاظ سے تحریر فرمائیں یہ تصنیفات آپ کی بے نظیر یاد گار ہیں آپ کی ہر تصنیف اپنی جگہ علم کا ایک وسیع ذخیرہ ہے ۔آپ کاشمار اسلامی ہند کے صف اول کے علماء میں ہوتا ہے آپ ہی کے ذریعے آپ کے خاندان کو ایک نئی روشنی ملی۔

تصانیف

شاہ صاحب کی اہم تصنیفات درج ذیل ہیں:

۱۔تحفہ اثنا عشریہ:

’’یہ فارسی زبان میںشیعیت کے رد میں بے مثال کتاب ہے شاہ صاحب کی یہ تصنیف اپنے موضوع  پر نہایت مدلّل و مفصّل ہے اسمیں آپکا انداز بیان نہایت حکیمانہ ہے ـ؛یہ کتاب ۱۲۰۴ھ بمطابق ۱۷۹۰ء میں پایئہ تکمیل کو پہنچی اور اس کی اشاعت ۱۲۱۵ھ۱۷۹۹ء میں کلکتہ سے ہوئی۔

عجالۂ نافعہ :

یہ رسالہ اصول حدیث کے موضوع پر بہت اہم ہے اس کی زبان بھی فارسی ہے ۔یہ مختصر رسالہ ہندستان میں لکھنؤ اور دہلی کے علاوہ پاکستان میں کئی دفعہ شائع ہو چکا ہے ۔

بستان المحدثین:

شاہ صاحب کی یہ تصنیف فن تاریخ کا ایک بہترین ذخیرہ ہے جامع اور معتبر ہونے کی وجہ سے قبول عام کا درجہ رکھتی ہے ۔اس تصنیف میں شاہ صاحب نے عالم اسلام کے تمام محدثین کے تاریخی حالات بیان کئے ہیں اور ساتھ ہی ان کی کتب حدیث کا تذکرہ کیا ہے ۔

فتاویٰ عزیزی:

فتاویٰ عزیزی شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی کے تبحّر علمی کا نچوڑ اور دینی معلومات کا وسیع سرمایہ ہے۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے آپکا یہ علمی مجموعہ تمام ملّت اسلامیہ کے لئے شمع ہدایت ہے ۔

السّر الجلیل فی مسئلہ التفضیل:

یہ رسالہ آپ نے اپنے کچھ دوستوں کے اصرار پر تحریر فرمایا ۔اس رسالہ میں عقلی و نقلی دلائل سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ کوئی چیز کسی چیز سے یا کوئی انسان کسی انسان سے کس بنا پر افضل ہے ۔ یہ رسالہ گیارہ مقدمات پر محیط ہے جس میں ایک کی دوسرے پر فوقیت یا فضیلت ان کے اعمال کے ذریعے ثابت کی گئی ہے ۔

ملفوظات شاہ عبد العزیز:

ملفوظات عزیز یہ شاہ صاحب کے ارشادات کا مجموعہ ہے اس میں آپ کے اقوال و ارشادات جمع ہیں جو  اپنے مریدوں و حاضرین کی مجلس میں ارشاد فرمائے۔

وسیلت النجات:

شاہ صاحب کا یہ مختصر رسالہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس میں شاہ صاحب نے نصوص قرآنی کو بنیاد بنا کر فرقہ ناجیہ،اہل سنت کو ثابت کیا ہے آپ نے اپنے دور میں پیش آنے والے شیعہ سنّی مسائل پر تفصیل سے بحث کی ہے اور دلائل سے اہل سنّت کو حق بجانب ثابت کیا ہے ۔

 سرّ الشہادتین :

شاہ عبد العزیز صاحب کا یہ رسالہ عربی زبان میں ہے اس میں آپ نے حسن و حسینؓکے فضائل اور شہادت کے واقعات نہایت موئثر انداز میں رقم فرمائے ہیں ۔

مذکورہ تصنیفات کے علاوہ آپکی تصانیف میں میزان المنطق،میزان العقائد ،میزان الکلام،اعجاز البلاغت،فیما یجب حفظ لہ للناظر،رسالہ فی الاساب،رسالہ تحقیق الرویا،رسالہ فیض عام،رسالی اصول مذہب حنفی،حاشیہ علی القول الجمیل،حاشیہ علی میر زاہد قطیبیہ حاشیہ علی الصدرا،حاشیہ علی میر زاہد ملّا جلال ،حاشیہ میر زاہد شرح مواقف،حاشیہ علی المقدمت السنیہفی انتصارالغرفت السنیہ،سرح ار جوزہالاصحمی،التضمین علی قصائد و قطعات ابیہ اور شرح علی قصیدہ البردہ شامل ہیں ۔تحقیق الرویا،الاحدیث الموضوعہ،حاشیہ علی مقدمت السنہ

ان تمام تصنیفات کے علاوہ دلائل و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کا کچھ ذخیرہ انقلاب زمانہ کی نذر ہو گیا۔

تفسیر فتح العزیز ایک مایہ ناز تفسیر:

شاہ عبد العزیز دہلوی کی قرآن پاک کی تفسیر ْفتح العزیز،،جو کہ تفسیر عزیزی کے نام سے مشہور ہے تفسیر عزیزی کو علمی حلقوں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔اس تفسیر کے پڑھنے کے بعد شاہ صاحب کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کیوںکہ شاہ صاحب نے اپنی ساری زندگی قرآن و حدیث کے لئے وقف کر دی تھی۔آپ کو قرآن سے ایک خاص قسم کا شغف تھا ۔آپ نے اپنی اس تفسیر کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کے معنی و مفاہم کو سمجھنے میں کافی مدد کی شاہ صاحب خوداپنی اس تفسیر پر بہت خوشی محسوس کرتے تھے ۔ جیسا کہ آپ کے قول سے ظاہر ہوتا ہے جب آپ نے اپنے شاگرد مرزا حسن علی محدّث کے ایک خط کے جواب میں جو تحفہ اثنیٰ عشریہ کے معترضین کے لئے اسمیں تحریر فرمایا ۔

تفسیر فتح العزیز و امثال ایں تصانیف را گر بہ فقیر نسبت کنند موجب شادمانی خاطر می گردو۔۴؎

یعنی تفسیر فتح العزیز اور اس قسم کی دوسری تصانیف اگر لوگ اس فقر کی طرف منسوب کرتے ہیں تو میرے لئے یہ موجب مسرّت ہے۔

شاہ صاحب کی یہ تصنیف فارسی زبان میںچار جلدوں میں دو اوّل اور دو آخر کی ملتی ہے تفسیر عزیزی کے سلسلہ میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ شاہ صاحب نے موجودہ دور میں دستیاب سوا تین پارے (شروع کے سوا سیپارے سے کچھ زائد اور آخر کے دو سیپارے)کی تفسیر ہی تحریر فرمائی یا  پورے قرآن کریم کی تفسیر تحریر کی تھی ۔اس سلسلہ میں بہت سی آراء ہیں ِ۔،،لیکن سب سے پہلے تفسیر کے مقدمہ کو پڑھنے سے یہ پتا لگتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد شیخ مصدق الدّین عبداللہ تھے جنکی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی۔ اور انہیں کو شاہ صاحب نے املا کرایا تھا اور یہ سلسلہ ۱۲۰۸ھ۱۷۹۳ء میں مکمل ہوا ۔۵؎

تفسیر عزیزی کے سلسہ میں دوسری رائے مولانا عبد الحئی کی یہ ہے کہ ،،یہ تفسیرکی ضخیم جلدوں میں تھی جسکا بیشتر حصّہ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ضائع ہو گیا امراض کی شدّت اور آنکھوں کی بصارت ذائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املا کرایا ہے ۔۶؎

علاوہ ازیں صاحب مقالات طریقت لکھتے ہیں کہ’’ـــ شاہ صاحب اپنی زندگی میں اس تفسیر کو مکمل نہ کر سکے اسلئے آپکے تلمیذ مولانا حیدر علی فیض آبادی (متوفی ۱۲۹۹ھ)صاحب منتہی الکلام نے نواب سکندر بیگم والیہ بھوپال کی خواہش پر اسکو ستائس جلدوں میں مکمل کیا اور حضرت شاہ صاحب قدس سرّہ کی یہ فارسی تفسیر اکبر آبادی کے قاضی کے ہاں موجود ہے مگر شائع نہیں ہے ۔۷؎

شاہ صاحب کی بہت سی تصانیف کی عبارت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے پورے قرآن کی تفسیر لکھی تھی ۔کیوںکہ آپ نے جگہ جگہ تفسیر فتح عزیزی کے حوالہ دئیے ہیں ۔جیسا کہ فتاویٰ عزیزیہ میں ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔مثلاً،(ثمّ اٗنشانا من بعدھم قرناً آخرین) اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔’’نقلاً ھٰذہ التفسیر من کتاب فتح العزیز ،،۸؎ اسی طرح ایک دوسری جگہ پر  ،،و ھوا الّذی خلق السموات والارض فی ستت ایام کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’چنانچہ تفصیل آں دفعات در سورہ سجدہ مذکور است و در تفسیر فتح العزیز ،شرح آن بوجہ متوفی مذکور شر چوں ایں وقت حواس درست بنود نقل از سودہ آن ممکن نشدہ ۔۹؎

ایک اور مقام پر ۔۔و انّا عرضنا الامانتہ ،کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ۔نقلاً عن سورہ فتح العزیز فی سورت آل عمران قولہ تعالی قل آمنّا با للّہ وما انزل علینا فقط ،،۱۰؎

آپ کی مکمل تفسیر کے سلسلے میں حکیم محمودبرکاتی اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں ۔آپ کے شاگرد مولوی یار محمد صاحب نے آپ کے درس قرآن کے کئی دوروں پر اپنے مصحف پر حواشی لکھ لئے تھے۔وہ انکے نواسے مولوی محمد اسحاق کے پاس موجود ہیں ،یہ مکمل قرآن مجید کی تفسیر ہے ایک اور روایت ہے کہ حاجی محمد حسین صاحب سہارن پوری مولوی نوراللّہ صاحب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب کیاایک فارسی تفسیر تمام قرآن مجید کی اکبر آباد کے قاضی کے یہاں موجود ہے ۔مگر چھپی نہیں ہے۔۱۱؎

ان قرائن کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پورے قرآن کی تفسیر املا کرا دی تھی لیکن آپکو نظر ثانی کا موقع نہ ملا اور اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔اورپھربعدمیں  ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں آپکی باقی تفسیر ضائع ہو گئی آج جو جلدیں ہمارے سامنے موجود ہیں صرف وہی دست برد زمانے سے محفوظ ہیں۔

علاوہ ازیں تفسیر فتح العزیز کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ نے اپنی تفسیر کو مکمل نہیں کیا تھا لیکن آپ اسکے آرزو مند ضرور تھے شاہ صاحب کی تحریروں میں جو جگہ جگہ غیر موجود تفسیر فتح العزیز کے حوالے ہیں ان سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ حصّہ ضبط تحریر میں آ ہی چکا  تھا بلکہ اکثر مصنفین کا عام دستور یہ ہوتا ہے کہ وہ آئندہ جو کچھ لکھنے والے ہوتے ہیں انکا حوالہ پہلے ہی دے دیتے ہیں مگر عمر کے وفانہ کرنے کے سبب وہ حصّہ لکھنے سے رہ جاتا ہے۔  بہر حال حقیقت جو بھی ہو لیکن تفسیر فتح العزیز کے ناقص رہ جانے کا احساس اہل علم کو شروع سے ہی رہا ہے ۔

تفسیر فتح العزیز کی نمایاں خصوصیات :

تفسیر فتح العزیز کی چند نمایاں خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ہر سورہ کا عنوان اور مضمون کی وضاحت

۲۔ربط آیات                                                                                                                                    ۳۔نظائرقرآن کا ذکر

۴۔قصص و احکام کے اسرار کا بیان

۵۔لطائف نظم قرآن                                                  ۶۔حروف مقطعات

سورہ بقرہ کی تلخیص شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل پانچ نکات میں کی ہے ۔

۱۔ اثبات صانع

۲۔ اثبات نبوت

۳۔ ثبوت استقامت

۴۔ ثبوت مجاہدہ

۵۔ اثبات معاہدہ

مضمون کا بیان:

شاہ صاحب نے قرآن مجید میں سورہ بقرہ کے مقام و مرتبہ کا تعین کیا ہے ۔:تفسیر فتح العزیز کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ شاہ عبد العزیز صاحب آیتوں کے ربط کے ساتھ ساتھ سورتوں کے  درمیان بھی ربط و مناسبت کے قا ئل تھے۔شاہ صاحب نے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کے درمیان ربط کی ایسی دلنشین وضاحت کی ہے کہ جس سے ربط آیات اور ربط سورہ دونوں ہی کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں۔

سورہ فاتحہ مجمل طور پر قرآن مجید کے تمام معنی پر محیط ہے اور سورہ بقرہ میں اس اجمال کی تفصیل ہے سورہ فاتحہ میں آیت ـــ،،اھدنا الصراط المستقیم ،، میں بندے کو ہدایت طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ہے تو سورہ بقرہ میں ھدی للمتقین،، سے لے کر اولائک علی ھدی من ربّھم تک یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ہدایت سے کس قسم کے لوگ سرفراز ہوتے ہیں ،،۔۱۲؎

نظائر قرآن :

تفسیر فتح العزیز کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اسمیں قرآن مجید کے نظائر بہ کثرت پیش کئے گئے ہیں واقعہ یہ ہے کہ شاہ عبد العزیز صاحب ،،القرآن یفسر بعضہ بعضاًکے قائل ہیں اور اپنی تفسیر میں انہوں نے اسکا خاص اہتمام کیا ۔قرآن مجید کو آپ اصل محکم سمجھتے تھے اور شریعت کے تمام ماخذ کا سر رشتہ اسی سے جوڑتے تھے جیسا کہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔

’’ پس در حقیقت اصل محکم جسکی پیروی ہر شخص پر واجب ہے خوا ہ وہ پیغمبر ہو یا امّت کے افراد مجتہد ہوں یا عام لوگ بس یہی قرآن ہے ۔‘‘۱۳

اسکے بعد شاہ صاحب نے قرآن مجید کے علاوہ شرعی احکام کے دوسرے مآخذ سنت،اجماع اور قیاس کی مفصل تشریح کی ہے اور انکو بھی کتاب اللہ کا تابع بتایا ہے ۔

قصص و احکام کے اسرار:

تفسیر فتح العزیز کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اسمیں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کئے گئے ہیں چنانچہ شاہ عبد العزیز نے مختلف واقعات کے اسرار بیان کئے ہیں ۔شاہ صاحب سورہ فاتحہ کی حکیمانہ تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’یہ جاننا چاہئے کہ انسان کے دل میں شیطان تین راہوں سے داخل ہوتا ہے ۔شہوت غضب اور ہوا۔ شہوت کو بہیمت ،غضب کو سبعیت اور ہوا کو شطنیت کہتے ہیں ۔ان میں بھی غضب شہوت کے مقابلے میں اور ہوا غضب کے مقابلے میں زیادہ قبیح ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسان شہوت کے سبب اپنے آپ پر اور غضب کی بنا ء پر دوسروں پر اور ہوا کے باعث خدا پر ظلم کرتا ہے اس تمہید کے بعد یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم جو تین اسمائے الٰہی مذکور ہیں ان سے یہ تینوں امراض ختم ہو جاتے ہیں اور سورہ فاتحہ کی ساتوں آیتیں ان سے پیدا ہونے والی بد اخلاقیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کو پہچان لیگا وہ ہوا کی شیطانیت سے محفوظ رہیگا اور جسکو رحمانیت کا علم نصیب ہوگا وہ غضب سے اپنے آپ کو دور رکھے گا اور جسکو رحمیت کی بصیرت حاصل ہوگی وہ اپنے نفس پر ظلم کرنا نا پسندنہ کریگا ۔‘‘۱۳؎

لطائف نظم قرآن:

اس تفسیر کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اسمیں نظم قرآن کا تذکرہ ہے۔ سورہ فاتحہ کی آخری آیت کے تحت لکھتے ہیں۔

’’یہ جاننا چاہئے کہ مغضوب علیھم کوضالین سے جو پہلے رکھا گیا ہے اسمیں یہ اشارہ ہے کہ یہ طبقہ زیادہ بدتر اور آخرت میں ضالین کے مقابلے میں زیادہ رسوا ہوگا چنانچہ تفسیر میں مغضوب علیھم کی بد بختی کے غلبہ کوملحوظ رکھنا چاہئے ۔تاکہ قرآنی ترتیب کی خلاف ورزی نہ ہو ‘‘۱۴؎

حروف مقطعات پر بحث:

شاہ صاحب نے حروف مقطعات پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے سورہ البقرہ کی پہلی آیت الم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں  ۔

’’الم کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصل محکم ہے جسکی پیروی ضروری ہے اور جو منکروں کے لئے معجزہ اور ماننے والوں کے لئے مفید اور واضح دلائل سے روشن ہے اور غلط قسم کے شبہات اور وسوسے زائل و محو کر دیتی ہے ‘‘۱۶؎

تفسیر عزیزی کو پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے ہر آیت کی تفسیر کو احسن طریقہ سے بیان فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم حقائق کا ایک بحر عمیق ہے جیسا کہ تفسیر عزیزی کے اردو ترجمہ نگار صاحب زادہ سیّد محمد محفوظ الحق چشتی صابری قادری فرما تے ہیں کہ’’ شاہ صاحب کی اس تفسیر میں فصاحت و بلاغت کے علاوہ دیگر محاسن بھی پیش کئے ہیں ۔اوّل یہ کہ اس کلام کا اسلوب بشری اسلوب کلام سے کہیں جدا گانہ ہے خصوصاً سورتوں کے آغاز اور اختتام میں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کلام ناقص اور اختلاف سے مبرااور پاک ہے  تیسری بات یہ ہے کہ اس کتاب میں گزشتہ زمانوں کے گزرے ہوئے واقعات مذکور ہیں اور آئندہ کے واقعات بھی کہیں صراحتاً اور کہیں اشارۃً اس سے معلوم ہوتے ہیں وہ واقعات بالکل اسی طرح رو نما ہوتے ہیں جس طرح اسمیں مذکور ہیں ‘‘۱۷؎

’’شاہ صاحب کی تفسیر آپ کے وسعت علم پر دلالت کرتی ہے ۔یہ تفسیر ہندس (کلکتہ) میں دو بار شائع ہو چکی ہے ۔پہلی دفعہ ۱۲۴۸ھ۱۸۳۱ء میں اور دوسری مرتبہ ۱۲۶۴ھ ۱۸۴۸ء میں بعد ازاں ۱۳۰۰ھ ۱۸۸۴ء اور ۱۳۴۱ھ ۱۹۲۵ء اردو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ بھی طبع ہوئی ‘‘۱۸؎

حواشی

۱۔ملفوظات عزیز۔شاہ عبد العزیز۔ص۔۸

۲۔وقائع عبد القادر خانی ،علم و عمل ۔جدوم ۔ص۲۴۶

۳۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور ۱۹۷۵۔ج ۱۱ ص۶۴۵

۴۔ڈاکٹر شریا ڈار ۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور انکی علمی خدمات ۔ص۲۷۳

۵۔شاہ عبد العزیز ،فتاوی عزیزی ۔ج۔۱۔ص۱۳۰۔۱۴۰

۶۔تفسیر فتح العزیز شاہ عبد العزیز۔ج۔۱۔ص۳مطبع حیدری بمبئی ۱۲۹۴ھ

۷۔نذہۃ الخواطر۔عبد الحئی۔ج۔۷۔ص۲۷۳

۸۔عبد الرحیم ضیا،مقالات طریقت ،ص۳۳

۹۔شاہ عبدالعزیز ،فتاوی عزیزی ۔ج۲ص۳۲

۱۰۔شاہ عبد العزیز ۔فتاوی عزیزی ۔ج۲،ص۴۲

۱۱۔شاہ عبد العزیز ،فتاوی عزیزی ۔ج۲،ص۴۲

۱۲۔مجلس اشاعت اسلام لاہور ص ۱۰۴                                                                           ۱۳۔تفسیر فتح العزیز ،ج،۱،ص۴۹

۱۴۔تفسیر فتح العزیز ،ج،۱۔ص۱۰۳                                                                                     ۱۵۔تفسیر فتح العزیز ،ج،۱۔ص۷۴

۱۶۔تفسیر فتح العزیز ،ج،۱۔ص۹۵                                                                                            ۱۷۔تفسیر فتح العزیز،ج،۱۔ص۵۱

۱۸۔جواہر عزیزی ترجمہ تفسیر عزیزی مترجم صاحب زادہ سیّد محمد محفوظ الحق ،ص مطبع اشتیاق ۱۷ مشتاق پرنٹر ز لاہور۔سن اشاعت حمادی الاوّل ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

۱۹۔ڈاکٹر ثریا ڈار ۔شاہ عبد العزیز دہلوی کی علمی خدمات ص۲۵۸

مشمولہ: شمارہ فروری 2019

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau