تحریک اسلامی نے ابتدا سے ہی مختلف سطح کے اجتماعات کو ایک اچھی روایت کی صورت میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ علاقائی، حلقہ جاتی اور کل ہند یہ سبھی اجتماعات ان اچھی روایتوں کے امین ہیں۔ یہ اجتماعات بہت سے شرکا کے لیے تبدیلی ساز (transformational) ثابت ہوئے ہیں۔ شرکائے اجتماع کی کثرت کے با وجود نظم و ضبط اور باہمی ربط و تعلق کا ماحول بنانے میں رفقائے جماعت کی رضاکارانہ کوشش کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ کہیں کوئی کمی بیشی نظر آ جائے تو از خود قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے یا بروقت ذمہ داران کو متوجہ کر دیا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر کسی ناگزیر دقت سے دوچار ہونا پڑے تو اسے ہنسی خوشی انگیزکیا جاتا ہے۔ اجتماع کے دوران رضائے الہی، تحریکی شوق اور اسلامی اخوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ تحریکی اجتماعات میں بیشتر لوگوں کے شرکت کی کہانی انہیں تین نکتوں کے گرد گھومتی رہتی ہے۔
میرا پہلا تحریکی اجتماع
تحریک اسلامی کا پہلا اجتماع جس میں میری شرکت ہوئی وہ حلقہ طلبہ اسلامی بہار کا سالانہ تربیتی اجتماع تھا۔ وہ سہ روزہ تربیتی اجتماع۱۹۷۸ء میں بتیا [مغربی چمپارن] میں ہونے والا تھا۔ تحریک سے وابستگی کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا۔ حلقہ طلبہ سے قریب ہونے والے نئے افراد میں سے میں تنہا شخص تھا جس نے سید محمد اقبال صاحب کے اصرار پرگیا شہر سے اس اجتماع میں شرکت کا ارادہ کیا۔ زندگی میں پہلی بار اتنا طویل سفر درپیش تھا۔ جب مظفرپور میں بس رکی تو دیکھا کہ چند نوجوان سوار ہوئے۔ چہرے بشرے سے اندازہ ہوا کہ شاید وہ بھی میری طرح اسی اجتماع میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔ علیک سلیک کے بعد معلوم ہوا کہ وہ نوجوان دربھنگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تین نام یاد ہیں، برادرم امتیاز احمد صاحب، نظیر احمد صاحب اور بدرالدین صاحب۔ اجتماع شروع ہونے سے پہلے تحریک کے ایک بزرگ رہنما مولانا محمد اسد صاحب [محترم حسنین سید صاحب کے داماد] نے اپنی افتتاحی گفتگو میں فرمایا کہ یہ اسلامی بستی تین دنوں کے لیے بسائی گئی ہے۔ یہ اجتماع دراصل ایک چھوٹا سا اور چند دنوں کا نمونہ ہے اس سماج کا جسے قائم کرنے کے لیے ہم تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے ہیں۔ ان کی باتوں کا اثر تھا یا بالکل ایک نئے طرز کے اجتماع میں پہلی شرکت کا جوش و جذبہ، محسوس ہوا کہ تحریک اسلامی جس نظام کا خواب دکھا رہی ہے وہ تو سامنے موجود ہے۔ رضاکارانہ نظم و ضبط، باہمی رفاقت ، روحانی سرشاری کی کیفیت، سیکھنے سکھانے کا ماحول اوربے آرامی کی لذت، ان سب نے مل جل کر ایسا تاثر پیدا کیا کہ اجتماع کے شب و روز کیسے گزر گئے پتہ ہی نہ چلا۔ شرکائے اجتماع کی تعداد تو خیر کم تھی، یہی کوئی سو، سوا سو نوجوان ہوں گے۔ لیکن ان تین دنوں میں ہم سب لوگ ایک دوسرے کا پتہ نوٹ کرتے رہے تاکہ بعد میں خط و کتابت ہو سکے۔ اس پہلے اجتماع میں جو نوجوان شریک تھے تقریبا سب کے سب زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے ہمدم و دمساز بن گئے۔ جب اجتماع ختم ہو رہا تھا اور بچھڑنے کی گھڑی قریب آ رہی تھی تو سب کا تاثر یہی تھا کہ کاش اجتماع کچھ اور دن جاری رہتا۔ یہ اجتماع ہر شخص کے قلب میں ایک مثالی اسلامی بستی کے خواب کی صورت جاگزیں ہو گیا۔ ہو سکتا ہے اس کیفیت کے پیچھے پہلے پہل کی شرکت کا نفسیاتی اثر ہو۔ تاہم اس اجتماع میں کوئی خاص بات تو ہوگی کہ وہ ایک خوش گوار یاد بن کر آج بھی زندہ ہے۔بعد کے زمانے میں جب کبھی اس اجتماع کا تذکرہ ہوا تو دوسرے ساتھیوں کا بھی یہی تاثر سامنے آیا۔ معاملہ صرف اسی اجتماع تک محدود نہیں ہے بلکہ بعد کے برسوں میں جو دیگر اجتماعات ہوئے ان کا ماحول اور اثر بھی اسی طرح تا دیر قائم رہا۔ ممکن ہے ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ جو لوگ ان اجتماعات میں شریک ہوتے تھے وہ ایک جذبے اور ایک خواب کے ساتھ آتے تھے اور اجتماع کو اپنے تحریکی سفر میں ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا کرتے تھے۔اس زمانے میں اس طرح کے اجتماعات کو اسلامی اجتماعیت کا مظہر سمجھنے کا رجحان اتنا حاوی تھا کہ ہر اجتماع کے بعد یہ یقین تازہ ہو جاتا کہ بگاڑ کے اس دور میں آج بھی اسلامی اجتماعیت کا قیام ممکن ہے۔
تحریکی اجتماع کو عارضی اسلامی بستی سمجھنے کا رجحان اتنا عام تھا کہ جماعت کے سیدھے سادے لوگ بھی جب دوسروں کو کسی اجتماع میں شرکت کی ترغیب دیتے تو اس پہلو کا تذکرہ کیا کرتے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایمرجنسی کے بعد جب پٹنہ میں جماعت کا اجتماع ہونے والا تھا، جس میں مرکز سے جناب سیدحامد حسین صاحب کی آمد کا چرچا تھا، تو حافظ ہاشم صاحب نے ہم چند نوجوانوں کو کہا کہ پٹنہ اجتماع میں شریک ہو کر دیکھو کہ اسلامی بستی کیسی ہوتی ہے۔ عام طور پر اس زمانے میں رفقائے جماعت اس طرح کے چھوٹے بڑے تحریکی اجتماع میں بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوا کرتے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ چند روز کے لیے سہی ایک ایسی بستی بسائی جا رہی ہے جو ان کے آئیڈیل کی عکاس ہے۔ اسی لیے ہدایت دی جائے یا نہ دی جائے عام طور پر لوگ اس ماحول کو پاکیزہ اور خوش گوار بنائے رکھنے کی اپنی سی کوشش کیا کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی خوبیوں کو بھی اجتماع کی برکت گردانتے اور اسلامی نظام کیسا ہوگا، اس کا نمونہ قرار دیتے۔ مجھ پر تو اس زمانے میں اجتماع اور جلسے کا فرق واضح نہ تھا جب پہلی بار حافظ صاحب کے کہنے پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پٹنہ اجتماع میں شریک ہوا۔ اجتماع ہو یا جلسہ اس کا مطلب صرف ایک تھا کہ کتنی شاندار تقریریں ہوتی ہیں اور تفریح کا موقع ملتا ہے۔ اجتماع کے نظم و ضبط، داخلی ماحول ، شرکا کے رویے، وغیرہ کا پتہ نہ تھا۔ اور ہوا بھی یہی کہ اس اجتماع میں سب سے نمایاں چیز جس نے متاثر کیا وہ سید حامد حسین صاحب کا خطاب اور انداز خطابت تھا۔ تاہم اس پہلے اجتماع میں میرے لیے کچھ نیا پن ضرور تھا۔ استقبالیہ، رجسٹریشن، رہنمائی، ڈسپلن، بے تکی نعرے بازی اور داد و ستائش سے پرہیز، مقرر کے تعارف میں مبالغہ آرائی سے گریز، وغیرہ کئی پہلو رہے ہوں گے جن کا مجموعی تاثر اس اجتماع کو ایک نیا واقعہ، ایک نئی چیز بنانے میں مددگار ہوا ہوگا۔
میرا پہلا کل ہند اجتماع عام حیدرآباد
بات ہے ۱۹۸۱ء کی، اس وقت تک میں رکن نہیں بنا تھا۔ حیدرآباد میں ہونے والے کل ہند اجتماع عام کا چرچا تھا۔ جماعت کے ارکان و کارکنان اپنے جاننے والوں اور متفقین و متاثرین کو شرکت کی ترغیب دے رہے تھے۔ اس زمانے میں عام طور پراجتماعی سفر کے لیے بہت پہلے سے گروپ بنا کر ٹرین کے سلیپر کلاس میں اجتماعی طور پر برتھ رزرو کروائی جاتی تھی۔ دوران سفر کچھ کھانے پینے کا سامان بھی لوگ اپنے تھیلے میں رکھ لیتے تھے۔ کسی ایک شخص کو امیر سفر مقرر کر لیا جاتا۔ گیا شہر سے بڑی تعداد میں نئے پرانے لوگ شامل سفر ہوئے۔ کچھ کا رزرویشن نہیں تھا، انہیں بھی ٹکٹ لے کر شامل کر لیا گیا۔ کئی دنوں کا سفر درپیش تھا اور برتھیں کم تھیں۔ چنانچہ امیر سفر جناب محمد الیاس صاحب اور چند پرانے ارکان نے دیگر نئے شرکا کو اصرار کر کے برتھ پر لٹایا اور خود نیچے فرش پر لیٹ کر سفر کرتے رہے۔ اس زمانے میں پرانے رفقائے جماعت کے اندر اس طرح کے ایثار کا بے پایاں جذبہ پایا جاتا تھا۔ وہ لوگ اسے اسلامی اخوت کا تقاضا سمجھتے تھے ۔
اس پہلے کل ہند اجتماع میں تقریروں سے زیادہ اجتماع کے ماحول نے اثر ڈالا ؛ بڑی بڑی چٹانوں پر چمکتے حروف میں قرآنی آیات اور تحریکی پیغام ، اجتماع گاہ کی وسعت اور نظم و ضبط، رفقائے جماعت کی ایک دوسرے سے ملنے کی تڑپ، عالمی اسلامی تحریک کے نمائندوں کی موجودگی اور جماعت کے قائدین کی تقریریں سب نے مل جل کر رفقائے جماعت کے اندر پہلے سے موجود جذبے کو توانا کیا اور ہم جیسے نئے لوگوں کے اندر تحریکی اجتماعیت کی قدر و قیمت کے نقوش ثبت کر دیے۔ہم لوگوں نے ۱۹۷۹ کے انقلاب ایران میں سیاہ برقعہ پوش خواتین کے لاکھوں کے جلوس کی تصویریں دیکھی تھیں۔ تحریک اسلامی میں خواتین کے کردار پر بہت کچھ سنا اور پڑھا بھی تھا۔ لیکن عام طور پر خواتین کے لیے آڈیٹوریم سے بالکل الگ تھلگ ایک پنڈال ہوتا تھا۔ اخوانی رہنما زینب الغزالی کو خواتین سے خطاب کرنے کے لیے جب خواتین کی علیحدہ اجتماع گاہ کی طرف لے جایا جارہا تھا تو انہوں نے تعجب اور ناراضگی سے پوچھا کہ خواتین کو اس طرح الگ تھلگ رکھنے کا کیا جواز ہے۔ بہرحال ہندوستان کے روایتی معاشرے میں ایران اور مصر کی تقلید کرنا تو ممکن نہ تھا، اس لیے انہیں صبر کے ساتھ خواتین کی اجتماع گاہ میں ہی تقریر کرنی پڑی۔ علامہ خامنہ ای صاحب تو انقلاب ایران کے نمائندے بن کر آئے تھے۔ ان کی تقریر میں جوش و جذبے کی جو گھن گرج تھی اس میں خطیبانہ فنکاری کا کمال کم اور حقیقی انقلاب کی حرارت زیادہ پائی جاتی تھی۔ جناب احمد توتونجی، جنہیں مولانا مودودی نے قائد الشباب الاسلامی کہہ کر مخاطب کیا تھا، ان سے ملنے کا اشتیاق نوجوان شرکا میں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ جب توتونجی صاحب جناب اوصاف سعید وصفی صاحب [ریڈینس] کی رہنمائی میں نمائش گاہ دیکھنے تشریف لائے تو ان حضرات کے ساتھ میں بھی ہو لیا۔ اوصاف صاحب نے ان کے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تعریف کی۔ توتونجی صاحب نے ایک ظریفانہ جملہ کہا [جملہ تو یاد نہیں]، پھر انہیں مخاطب کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر بولے: Brother Ausaf, don’t believe in rumors۔ اس اجتماع کے دوران ایسے چھوٹے چھوٹے واقعے کوبھی لوگ دل پسند انداز میں ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے۔ ایک اور واقعہ یاد آیا۔ معاملہ تھا کھانے پینے کے انتظام کا۔ بہار کے شرکا نے اپنے ناظم مطبخ سے کہا، بھائی صاحب ذرا آگے جا کر دیکھیے کہ اترپردیش والوں نے کھانے کا کتنا اچھا انتظام کیا ہے اور آپ ہیں کہ بوٹی کا پتہ نہیں صرف شوربہ ہی شوربہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا، کھانے کے لیے آئے ہیں کیا؟ جو مل رہا ہے، قناعت کیجئے۔ خیر ، اس طرح کی باتیں ہنستے مسکراتے ہی ہو جایا کرتی تھیں۔ واپسی کے دوران اس طرح کے چھوٹے بڑے واقعات کے تذکرے اجتماع کے ہر جز کو اپنے دامن دل میں سمیٹ لینے کی آرزو کا پتہ دیتے تھے۔
ناظمِ اجتماع مولانا عبدالعزیز صاحب کی دوڑ بھاگ ، ان کا جوش و جذبہ اور ان کی جانفشانی قابل دید تھی۔ ہر کیمپ کا دورہ کرتے۔ سوز و گداز بھرے لہجے میں حال احوال معلوم کرتے۔ کبھی یہاں، کبھی وہاں، ہر گوشہ، ہر پہلو دیکھتے پھرتے کہ کوئی کمی تو نہیں رہ گئی ہے۔ بلاشبہ وہ اجتماع ان کی اور ان کے رضاکاروں کی شبانہ روز سعی و جہد کا ثمر تھا۔ اجتماع ظاہری طور پر بھی متاثر کن تھا اور اس کا پروگرام اور ماحول بھی اثر انگیز تھا۔
پہلی بار کسی کل ہند اجتماع میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ وادی ہدی، حیدرآباد میں واقع اجتماع گاہ کی عظمت (Grandeur) نے تمام شرکا پر گہرا اثر ڈالا۔ مقامی سطح پر ارکان و کارکنان کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں اچانک ایک بہت بڑے قافلے کا حصہ نظر آنے لگیں۔ اس اجتماع کی ایک خاص پر اثر تقریب ہندوستان کی تقریبًا ۱۲ زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کی تقریب رونمائی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس تقریب میں جناب کلدیپ نیر صاحب نے آخری پارے کا جو ترجمہ شائع ہوا تھا اس کی تعریف کرتے ہوئے دوست دارانہ شکوہ سنجی کے ساتھ فرمائش کی تھی کہ پنچابی زبان میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ شائع کیا جائے۔ قرآن مجید کے علاقائی زبانوں میں ترجمے اور اس خاص تقریب رونمائی کے دوران ہونے والی گفتگو نے کارکنوں میں بے پایاں احساس مسرت پیدا کیا تھا۔ ہندوستانی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کو تحریک اسلامی کی ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ اس تقریب نے رفقائے جماعت کے اندربرادران وطن سے دعوتی ربط کی راہ کشادہ کی اور ان کے اندر دعوتی اعتماد کو تقویت بخشی۔ چنانچہ برادران وطن تک قرآن کے ترجموں کو پہنچانے اور مختلف تقریبات میں بطور تحفہ دینے کا رواج عام ہوا۔
کل ہند ایس آئی او کانفرنس بنگلور کی یادیں
ایس آئی او کی تشکیل کو ابھی چار پانچ سال ہی ہوئے تھے کہ ایک کل ہند کانفرنس کا فیصلہ کیا گیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد بنگلور کو اجتماع کے لیے منتخب کیا گیا۔ محکمہ موسمیات سے حاصل کردہ گذشتہ کئی برسوں کے اعداد و شمار کی روشنی میں تاریخیں طے کی گئیں۔ اس زمانے میں اتنا سائنٹفک بن کر تاریخیں طے نہیں ہوتی تھیں۔ بس ایک اندازے سے طے کر لیا جاتا تھا کہ اس ماہ میں موسم کیسا رہے گا اور اسی کے مطابق شرکائے اجتماع کے لیے ہدایت جاری کر دی جاتی تھی۔ جماعت سے وابستہ طلبہ تنظیم کا یہ پہلا کل ہند اجتماع تھا۔ اس اجتماع نے اس نوتشکیل شدہ تنظیم کو کل ہند پہچان بنانے کا موقع فراہم کیا تھا۔
اجتماع گاہ کی تیاری اور نظم و انصرام میں کیرلا، کرناٹک اور آندھرا پردیش سےطلبہ اور نوجوان رضارکاروں کی ایک بڑی ٹیم سرگرم عمل تھی۔ مختلف حلقوں سے ایس آئی او کے چند ذمہ داروں نے اجتماع کی تیاری کے لیے کئی ماہ کا وقت فارغ کیا تھا۔ بہار سے اس اجتماع کے لیے دو باصلاحیت افراد نے اپنا وقت فارغ کیا تھا۔ سید محمد اقبال صاحب کو بیرون ملک مقیم وابستگان تحریک سے مل کر زیادہ سے زیادہ اعانت کے حصول کا کام سونپا گیا تھا۔ ہمارے درمیان اقبال صاحب واحد نوجوان تھے جن کی سفری کثرت ضرب المثل بن گئی تھی۔ اس زمانے میں آج کی طرح سفر کی آرام دہ سہولیات افورڈ کرنا مشکل تھا۔ اجتماع سے کئی ماہ پہلے ارشد اجمل صاحب بنگلور میں مقیم ہو کر تنویر احمد صاحب کے ساتھ میڈیا اور نشر و اشاعت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ سارے انتظامات وقت پر مکمل ہوگئے۔ ملک کی مختلف ریاستوں سے طلبہ اور نوجوانوں کے قافلے پہنچے لگے۔ طلبہ اور نوجوانوں کا شاید پہلی بار اتنا بڑا اجتماع ہو رہا تھا۔ امیر جماعت اور سرپرست اعلی مولانا ابواللیث صاحب، صدر تنظیم جناب اشفاق صاحب، ایس آئی او کی مرکزی مجلس کے ارکان اور جماعت کے قائدین اسٹیج پر موجود تھے۔ سب لوگ مطمئن تھے کہ سارا انتظام بحسن و خوبی انجام پا رہا ہے۔ شام ہوئی، محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے برخلاف بادل آئے اور دھواں دھار بارش شروع ہوگئی جو رات بھر کبھی زیادہ کبھی کم برستی رہی۔ اعلان ہوا کہ شرکائے اجتماع آس پاس کے محلے میں مکانوں اور دکانوں کے سائے میں پناہ لے لیں۔ لوگوں نے اپنا سامان تو قیام گاہوں میں ویسے ہی رہنے دیا اور آس پاس کے گھروں پر دستک دی۔ مقامی لوگوں نے کشادہ دلی سے عارضی پناہ فراہم کی۔ لیکن کیرلا اور دیگر ریاستوں کے رضا کار اور واچ اینڈ وارڈ کے نوجوان ساری رات بارش میں بھیگ کر اجتماع گاہ اور قیام گاہوں کی حفاظت کرتے رہے۔ صبح کا سورج نکلا، لوگ پناہ گاہوں سے نکلے اور اجتماع گاہ میں بھیڑ کا پھر وہی منظر۔ ہر شخص کا سامان محفوظ تھا۔ مستعد رضاکاروں نے ہر چیز کو دوبارہ ٹھیک ٹھاک کر دیا تھا۔ رات کی بارش اور صبح کی دھوپ نے اجتماع گاہ کے ماحول کو نکھار دیا تھا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024