اس حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ تحریک اسلامی کے نصب العین کا پہلا مرحلہ فرد کی اخلاقی نشو و نما سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ایسی اجتماعیت کی تعمیر ممکن ہے جو مرضیات الہی کی آئینہ دار ہو۔ لہذا جو تحریک اخلاقی قدروں کی علم بردار ہو، اس کے ذمہ داران خود اپنے اخلاق و کردار کی نشوونما سے کیسے غافل رہ سکتے ہیں۔ کارکنان ہوں یا ذمہ داران ان سب کی اخلاقی ساکھ تحریک کی اصل قوت ہے۔ داخلی اور خارجی ماحول پر اثر اندازی کے اعتبار سے اعلی اخلاقی نمونے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ چوں کہ انسان فطری طور پر بھلے اور برے میں تمیز کرتا ہے، بھلے اور برے دونوں کی استعداد (potential) رکھتا ہے اور بھلے یا برے کو اختیار کرنے کی آزادی (freewill) رکھتا ہے، اس لیے اخلاقی جواب دہی اس کی فطرت کا عین تقاضا ہے۔ اخلاقی وجود کوسنوارنے کی ذمہ داری فی نفسہ ہر شخص پر عائد ہوتی ہے۔ اخلاقی وجود کی نشو و نما کیوں اور کیسے کی جائے؟ اس کی واضح رہ نمائی اللہ تعالی کی نازل کردہ ہدایت اور اس کے منتخب بندوں کی زندگی میں ملتی ہے۔ یہ رہ نمائی انسانی فطرت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں (إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ: موطا امام مالک -ح: ۲۶۳۳)۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اعلی ترین اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اور بے شک آپ عظیم اخلاقی مرتبے پر فائز ہیں (وَإِنَّكَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ سورہ القلم-۴)۔ آپ کے اخلاق کریمہ کی تفصیلات بے شمار ہیں جنھیں اپنانے کی مشق کرتے رہنا چاہیے۔ شمائل ترمذی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی اوصاف میں بیان کیا گیا ہے کہ: آپ نہ تو طبعاً بدگو تھے اور نہ ہی تکلفاً ایسے تھے، نہ بازاروں میں شور کرتے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے، آپ درگزر اور اعراض سے کام لیتے تھے (لم يكن فاحِشًا ولا مُتَفَحِّشًا ولا صَخَّابًا في الأسواق، ولا يَجْزي بالسيئةِ السيئةَ، ولكن يَعْفو ويَصْفَح)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو تین چیزوں سے پاک رکھا: جھگڑے سے، تکبر سے، اور لایعنی باتوں سے۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا کر رکھا: نہ کسی کی مذمت کرتے، نہ کسی کا عیب بیان کرتے، اور نہ کسی ایسی بات کی جستجو کرتے جو باعث عار ہو (قَدْ تَرَكَ نَفْسَهُ مِنْ ثَلاثٍ: الْمِرَاءِ، وَالإِكْثَارِ، وَمَا لا يَعْنِيهِ، وَتَرَكَ النَّاسَ مِنْ ثَلاثٍ: كَانَ لا يَذُمُّ أَحَدًا، وَلا يَعِيبُهُ، وَلا يَطْلُبُ عَوْرتَهُ،)۔
ذمہ دار جماعت کی اخلاقی حیثیت
انسان پر اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایک کارکن اور ایک ذمہ دار کی اخلاقی ذمہ داریوں میں کچھ چیزیں مشترک اور کچھ مخصوص ہوتی ہیں۔ اگر ذمہ دار جماعت اپنے منصبی مقام سے فروتر اخلاقی پوزیشن اختیار کرے تو اس کا منفی اثر اس کی ذات پر بھی پڑتا ہے اور وابستگان تحریک اور سماج پر بھی پڑتا ہے۔ لہذا جو افراد جماعت میں جس سطح کے ذمہ دار ہیں انھیں اسی اعتبار سے اپنی اخلاقی ذمہ داری کی طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں غفلت یا کوتاہی ان کی منصبی حیثیت کو مشکوک اور بے وزن بناتی چلی جاتی ہے۔ ذمہ دار جماعت کی اخلاقی ساکھ بڑی چیز ہے۔ یہ چیز اسلامی تحریک کو داخلی اور خارجی دونوں دائروں میں قوت فراہم کرتی ہے۔
ذمہ داران تحریک سے کیا مراد ہے؟ اسے ہم سب جانتے ہیں۔ تحریک اسلامی کو جب تنظیم کے سانچے میں ڈھالنے کا مرحلہ آیا تو نظم جماعت کا ایک فریم ورک تیار کیا گیا۔ اس فریم ورک کو دستور جماعت میں واضح اور مربوط شکل دی گئی ہے۔ نظم جماعت کو مرکز، حلقہ اور مقام کی سطح پر ذمہ دارانہ منصب کے ایک مخصوص نظام پر استوار کیا گیا ہے۔ مختلف مناصب پر منتخب یا مقرر ذمہ داران تربیت، نظم و ضبط اور طے کردہ منصوبوں کو روبہ عمل لاتے ہیں۔ ارکان و کارکنان ہی نہیں بلکہ سماج کے عام افراد بھی ذمہ داران جماعت کے بارے میں ان کے اخلاقی رویے کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں اور بسا اوقات اسی بنیاد پر جماعت کے بارے میں مثبت یا منفی تاثر کا اظہار کرتے ہیں۔
اخلاقی اعتبار سے مسلسل بہتری فی نفسہ ہر شخص سے مطلوب ہے کیوں کہ یہ آخرت میں کام یابی کا ذریعہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مومن کے میزان میں اچھے اَخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہو گی (مَا شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ)۔ لیکن ذمہ داران جماعت پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے: اوّل تو انفرادی حیثیت میں اخلاق و کردار کی پختگی فی نفسہ مطلوب ہے، دوم تحریک وتنظیم کی اچھی پہچان، استحکام اور توسیع کے لیے ضروری ہے کہ مختلف سطح کے ذمہ داران کا اخلاقی معیار دیگر افراد سے بہتر ہو۔ جن ارکان و کارکنان کی قیادت و اصلاح کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی ہے وہ فطری طور پر اپنے ذمہ دار کی طرف دیکھتے ہیں۔ اعلی اخلاقی اوصاف کے حامل ذمہ داران کے تذکرے کارکنوں کے اندر خود اعتمادی اور تحریکی وابستگی کو مضبوط کرتے ہیں۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر سماج میں اعلی اخلاقی نمونوں کا تذکرہ روایت کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ یہ اخلاقی نمونے روایات کا حصہ بن کر سماج میں اچھی اخلاقی قدروں کو مستحکم اور ان پر عمل آوری کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے مزاج اور داخلی ماحول کی تشکیل میں قرآن و سنت سے وابستگی اور تحریکی لٹریچر کے مطالعہ کے ساتھ جو چیز اہم کردار ادا کرتی ہے وہ تحریکی ذمہ داروں کے اخلاقی نمونے ہیں۔ دستوری طور پر جو افراد جس سطح کے ذمہ دار ہیں ان کو اپنے رفقا کی تربیت کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ یہ ان کی منصبی ذمہ داری میں شامل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگہ بان ہے اور اس کے زیر نگہ بانی افراد کے متعلق اس سے سوال ہوگا (كلُّكُمْ راعٍ وكلُّكُمْ مسؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)۔
ذمہ دار جماعت اور نظم سمع و طاعت
تحریکی ذمہ داران کو ایک اور پہلو سے بھی اپنی اخلاقی حیثیت کا جائزہ لینا چاہیے۔ اجتماعیت میں سمع و طاعت کا نظام کسی نہ کسی قوت نافذہ کی بنیاد پر چلتا ہے۔ تحریک اسلامی میں قوت نافذہ کا مدار اخلاق پر ہے۔ تحریکی ذمہ دار کی اخلاقی کشش سمع و طاعت کے عمل کو ضابطہ بندی سے اوپر اٹھا کر مسرت انگیز جذبے میں بدل دیتی ہے۔ تحریک اسلامی کا نظام ذمہ داروں اور کارکنوں کی اخلاقی حساسیت پر ٹکا رہتا ہے۔ اس پہلو سے ذرا اونچ نیچ ہوئی کہ کشتی ڈگمگانے لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اگر ذمہ داران کا اخلاق و کردار اچھا ہو تو لوگ صرف ان کی اخلاقی خوبیوں سے متاثر ہو کر لازمًا بے چوں و چرا اس کی رہ نمائی، ہدایت اور حکم کے مطابق کام کیا کریں گے اور نظم جماعت میں کوئی خلل واقع نہ ہوگا۔ سمع و طاعت کا تعلق ذمہ دار کی دیگر خوبیوں، صلاحیتوں اور کارکنوں کے مزاج و تربیت سے بھی ہے۔ اس کے علاوہ نظم جماعت کی برقراری کے لیے تذکیر، تنبیہ اور عدل وحکمت پر مبنی تادیبی کارروائی کا طریق کار بھی تحریکی نظام کا لازمی حصہ ہے۔ تاہم مجموعی طور پر ذمہ دارانِ جماعت کی اخلاقی بلندی تحریک اسلامی کے فروغ و استحکام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
اخلاقی تقاضوں کا تنوع اور توافق
اپنی حیثیت کا تعین کرنے اور اس کے اعتبار سے ذمہ داری کو سمجھنا اور مختلف حیثیتوں اور ان سے وابستہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں توافق اور توازن قائم رکھنا یقینًا دشوار عمل ہے۔ مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ مختلف قسم کی وابستگیوں کے متضاد تقاضوں کو کیسے درست طور پر پورا کیا جائے۔ انسان کی الگ الگ حیثیت مختلف اوقات میں ترجیحات طے کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن ہماری زندگی اتنی سادہ نہیں ہے کہ ہر حیثیت اور اس کی ذمہ داری الگ الگ خانوں میں آسان صورت میں ڈھلی ڈھلائی دستیاب ہو۔ ہمیں آزاد ارادے سے خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس وقت کس کے بارے میں ہماری اخلاقی ذمہ داری کیا ہے اور کتنی ہے۔ بسا اوقات، ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی مختلف حیثیتوں میں جن ذمہ داریوں کے مکلف ہیں ان میں سے کسی ایک کو صرف اسی صورت میں پورا کر سکتے ہیں جب دوسری ذمہ داری کو نظرانداز کر دیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب ہم خود کو مختلف وابستگیوں کے ٹکراؤ میں گھرا ہوا پاتے ہیں۔ یہ ٹکراؤ اس وقت الجھن پیدا کرتا ہے جب ہم خود کو دو یا دو سے زیادہ حیثیتوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بے بس سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اخلاقی ذمہ داری کی ادائیگی میں کسی جگہ پورے، کسی جگہ ادھورے اور کسی جگہ غائب نظر آتے ہیں۔ اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں یہ رویہ ہمارے اخلاقی فیصلوں میں اصابت رائے کی کمی اور اخلاقی کم زوری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم توازن کے ساتھ اپنی ہر حیثیت، وابستگی، ذمہ داری اور اس سب کے مابین ترجیحات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرنے کی کوشش کریں اور اطمینان قلب کے ساتھ ہر اخلاقی تقاضے کو پورا کریں۔
اخلاقی فیصلوں میں امتحان کی گھڑی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے منفی رویے کا رد عمل دیتے ہوئے زیادتی کو اخلاقی طور پر جائز سمجھنے لگتے ہیں۔ کسی دوسرے کی نادانستہ غلطی کا جواب دانستہ غیر اخلاقی رویہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ اگر کسی دوسرے سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوا جس سے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے، تو بھی اس شخص کے ساتھ برے اخلاقی سلوک کا جواز نہیں بنتا ہے۔ ہماری ذمہ داری اس سے بہتر اخلاقی رد عمل کا تقاضا کرتی ہے اس سے قطع نظر کہ دوسروں کے اخلاقی رویے کیا اور کیسے ہیں۔ آزاد مرضی کے ساتھ اخلاقی فیصلہ کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہمارا رویہ جذباتی رد عمل پر مبنی نہ ہو بلکہ ہماری ان قدروں کا غماز ہو جن پر ہم یقین رکھتے ہیں۔
اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی کے احساس اور نیت و شعور کی پاکیزگی کے باوجود بسا اوقات افراد کو ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں اخلاقی فیصلہ دیگر جائز تقاضوں سے ٹکراتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اخلاقی تقاضوں کو ترجیح دی جائے یا دیگر تقاضوں کو، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح کی بے شمار حالتوں میں سے چند ایک پر سرسری گفتگو مناسب معلوم ہوتی ہے۔
اخلاقی فیصلہ کرتے ہوئے کبھی کبھی قانون اور اخلاقیات کے تقاضوں میں ٹکرؤ کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ کچھ تقاضے رائج قانون کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کا اخلاقی قدروں سے فی نفسہ تعلق نہیں ہوتا، جیسے سڑک کے دائیں جانب یا بائیں جانب چلنے کا قانون۔ کچھ تقاضے اخلاقی ہوتے ہیں لیکن ان کا قانونی مطالبہ نہیں ہوتا، جیسے راستہ پرپڑی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا۔ لیکن بعض تقاضے اخلاق اور قانون دونوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے درمیان ٹکراؤ محسوس ہوتا ہے۔ اس مخمصہ (paradox)کو اس انگریزی افسانے میں بیان کیا گیا ہے جس میں ایک عورت سردی میں ٹھٹھرتے کتے کے بچے کو اٹھا کر لندن میٹرو بس میں سوار ہوتی ہے۔ کنڈکٹر اور خاتون کے درمیان قانونی اور اخلاقی تقاضے کی بحث شروع ہوجاتی ہے [ایک طرف جان کا تحفظ ہے، دوسری طرف قانون کی پاسداری ہے]۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب قانون سازی میں اخلاقی قدریں نظر انداز ہوجاتی ہیں یا کوئی غیر اخلاقی قدر سماجی یا مذہبی رواج کا حصہ بن جاتی ہے، جیسے غلامی، چھوت چھات اور ستی کا رواج۔ جدید مالیاتی قوانین میں بھی ایسی صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں جو فرد کے اخلاقی عمل پر بندش لگانے والی ثابت ہوتی ہیں، جیسے ضرورت مندوں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی خاموش مالی مدد کرنا، یا کسی صاحب خیر کا پوشیدہ صدقہ دینا، وغیرہ۔ قانون اور اخلاقی تقاضوں کا ٹکراؤ بھی ہمارے اخلاقی فیصلے پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
اسی طرح معاشی زندگی کے وہ معاملات جن میں اخلاقی اور معاشی دونوں ہی طرز عمل ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں وہاں تو اخلاقی فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جب ایسی صورتِ حال کا سامنا ہو کہ کوئی پالیسی یا اقدام معاشی طور پر تو درست لیکن اخلاقی طور ناپسندیدہ ہو جیسے شراب کی صنعت و تجارت تو اس موقع پر فیصلے کی بنیاد اخلاقی قدروں کو بنانا بسا اوقات حکومت اور صاحب ثروت تاجروں کے لیے امتحان ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ ایک عمل اخلاقی طور پر درست ہو لیکن معاشی طور پر غیر مناسب ہو جیسے مائکرو فائنانس کے بلا سودی اداروں کے ذریعے ایسے لوگوں کو قرض دینا جو ضرورت مند تو ہیں لیکن قرض واپسی کے لائق نہیں (non-loanable)ہیں [ایک طرف لوگوں کی ڈپازٹ کی ہوئی رقمیں ہیں جن کی حیثیت امانت کی ہے اور جن کا تحفظ اخلاقی اعتبار سے لازم ہے، تو دوسری طرف لوگوں کی ضرورتیں ہے جن کی تکمیل اخلاقی تقاضا ہے]۔ اس طرح کے مواقع پر اخلاقی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک اہم مسئلہ ذاتی مفاد اور اخلاقیات کے حوالے سے انسان کے سامنے آتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ذاتی مفاد اور اخلاقی قدریں دونوں ہم آہنگ ہوں۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اخلاقی رویے اور دوسروں کے مفاد کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہ ہو۔ لیکن دو صورتیں ایسی ہیں جن میں اخلاقی فیصلے کی ضرورت پڑتی ہے: ایک یہ کہ ہمارے اخلاقی فیصلے سے دوسرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ ہمارے اخلاقی فیصلے سے خود ہمارے ذاتی مفاد پر اثر پڑتا ہے۔
مندرجہ بالا نوعیت کے مختلف احوال سے ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ایسے میں اخلاقی فیصلہ کرتے ہوئے تین بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
اول، نہ خود کو نقصان پہنچے، نہ دوسرے کو؛
دوم، اجتماعی فائدے کے لیے ذاتی نقصان اٹھانا بہتر ہے؛ اور
سوم، جو مقصد اخلاقی لحاظ سے برتر ہے اسے اس سے کم تر پر ترجیح دی جائےگی۔
نیت کا مسئلہ
دوسروں کے ساتھ تعلق میں جو اخلاقی رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کے پیچھے نیت کیا ہے؟ کبھی کبھی لوگ اخلاقی رویے کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے نیت پر سوال کھڑا کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ نیت کا معاملہ دل سے تعلق رکھتا ہے جس کے بارے میں دوسرا شخص کوئی یقینی رائے نہیں بنا سکتا۔ لیکن جب کوئی ناپسندیدہ رویہ سامنے آتا ہے تو اس کی دو ممکنہ توجیہات میں سے اچھی توجیہ کے بجائے بعض لوگ بری توجیہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل ظاہری عمل سے زیادہ باطنی ارادے کے بارے میں گمان قائم کرکے اس عمل کے بارے میں فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر ایک شخص یہ غور کرے کہ اس کے رویوں کے بارے میں بھی اسی روش کو اپنایا جائے تو اس کو کیسا محسوس ہوگا؟
اخلاقی پاسداری کے تین اہم دائرے
اجتماعی زندگی کے تین دائرے ایسے ہیں جہاں بار بار اخلاق و کردار کی آزمائش اور اس کے نکھرنے کے مواقع آتے رہتے ہیں۔ ان دائروں میں اخلاقی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ اخلاقی قدروں کا فہم بھی ہو اور انھیں برتنے کی کوشش بھی کی جائے۔ ان دائروں میں کسی بھی درجہ میں ہونے والی کوتاہی ذمہ دار کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس نقصان کی بھرپائی کسی دوسرے ذریعے سے ممکن نہیں۔ وہ تین دائرے، جن میں ذمہ دار جماعت کو اپنے اخلاقی طرز عمل کا جائزہ لیتے رہنے اور اپنی کمی یا کم زوری پر قابو پانے کی ضرورت ہے، بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کے ان دائروں میں اخلاق و کردار کی مضبوطی اور بلندی کا پتہ چلتا ہے۔
اول، خاندانی معاملات میں حقوق کی ادائیگی، خبر گیری اور حسن سلوک؛
دوم، سماجی معاملات میں حساسیت، ذمہ داری کا شعور اور عملی شرکت؛
سوم، مالی معاملات میں امانت، دیانت، شفافیت اور وعدوں کی پاسداری۔
خاندانی معاملات
ذمہ دار جماعت کے لیے اخلاقی تقاضوں کو درست طور پر برتنے میں کبھی کبھی ایک نازک مسئلے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ مرحلہ خاندانی زندگی اور تحریکی زندگی کے مابین توازن کی برقراری کے دوران پیش آتا ہے۔ ذمہ داران اور ایک حد تک کارکنان جماعت کے اخلاقی رویے کی اصل آزمائش خاندان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے دوران ہوتی ہے۔ تحریکی ذمہ داریوں اور خاندانی ذمہ داریوں کو برتنے میں اعتدال و توازن پر قائم رہنا کبھی کبھی مشکل نظر آتا ہے۔ دونوں ذمہ داریوں کے تقاضوں میں سے کس وقت کون سا تقاضا ترجیحی توجہ کا مستحق ہے اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ کسی بھی تقاضے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ جماعتی ذمہ دار کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو خاندان کا اچھا فرد بھی بنائے اور اپنی منصبی ذمہ داریوں سے بھی غفلت نہ برتے۔ خاندان میں ذمہ دار جماعت کی اخلاقی ساکھ اس کے اخلاق و کردار کا اہم پیمانہ ہوتی ہے۔ خاندان وہ دائرہ ہے جہاں مصنوعی طریقے سے اخلاقی ساکھ قائم نہیں رہ سکتی۔ ذمہ دار جماعت کی اخلاقی خوبیاں اور کم زوریاں اہل خاندان سے پوشیدہ نہیں ہوتیں۔ ماں باپ، بیوی بچوں اور دیگر قرابت داروں کے ساتھ اس کا رویہ اگر حسن اخلاق کی گواہی دے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کی اخلاقی شخصیت قابل اعتبار ہے۔
تاہم جماعت اور خاندان سے متعلق اخلاقی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ایک پہلو سے چوکسی کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھی ایسا مرحلہ آ سکتا ہے جب شخصی حیثیت میں قرابت داری کو برتنا اور منصبی حیثیت میں قرابت داری سے بچنا دونوں ہی ضروری ہوتے ہیں۔ جو فوائد منصبی حیثیت میں پہنچائے جاسکتے ہیں ان سے قرابت داروں کو محروم رکھنا اولی ہے خواہ وہ اس کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں اورشخصی حیثیت سے نفع رسانی میں قرابت داروں کو ترجیح دینا اولی ہے خواہ وہ مستحق نہ بھی ہوں، کہ احسان کے رویے کا یہی تقاضا ہے۔ غرض ذمہ دار جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرابت داری اور اقربا نوازی (Nepotism) میں فرق کو ملحوظ رکھے۔
منصبی حیثیت کا یہ پہلو بھی بے حد اہم ہے کہ ذمہ دار جماعت مفادات کے ٹکراؤ (conflict of interest)کے سلسلے میں ہمیشہ چوکنا رہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات، خاندان یا تعلقات کے مفاد اور جماعت کے مفاد کو ایک دوسرے سے گڈ مڈ نہ کرے۔ کبھی کبھی نیک نیتی سے ایک ذمہ دار یہ سوچ سکتا ہے کہ جماعت کے مفاد کو پورا کرتے ہوئے اگر اپنی ذات یا خاندان یا متعلق افراد کو بھی فائدہ پہنچ جائے تو کیا حرج ہے۔ درحقیقت اس میں بہت حرج ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں، تجربہ بتاتا ہے کہ اس سے کئی طرح کے اخلاقی اور تنظیمی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اکا دکا واقعات ایسے بھی سامنے آتے ہیں جب ذمہ دار جماعت یا کارکنوں کو خاندانی رشتوں اور تحریکی تعلقات کے درمیان تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خصوصًا جب تحریکی بنیاد پر نئے خاندانی رشتے جنم لیتے ہیں۔ اگر ان رشتوں سے جذباتی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو تحریکی تعلق اور خانگی اختلاف کو الگ الگ طریقے سے برتنا عام طور پر مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ باہمی شکایت و رنجش کو ٹھیک ٹھیک اسی حد تک رہنے دیا جائے جو انصاف کا تقاضا ہے۔
سماجی معاملات
منصبی ذمہ داری کا ایک اہم تقاضا سماجی وابستگی ہے۔ جس سطح کی ذمہ داری ہو اس لحاظ سے خود کو منصبی حیثیت میں سماجی طور پر شامل رکھنا ضروری ہے۔ سماج سے الگ تھلگ رہنے کا رویہ تحریکی ذمہ دار کے لیے نامناسب ہے۔ یہ بات اجتماعی اخلاقیات سے بھی میل نہیں کھاتی کہ لوگوں سے کنارہ کشی اور منھ پھیر لینے کا رویہ اختیار کیا جائے۔ قرآن مجید میں ہدایت کی گئی ہے کہ: اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو (وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ: سورہ لقمان-۱۸)۔ ذمہ دارانِ جماعت کو سماجی زندگی کے تام جھام کے دوران ملنے والی پذیرائی سے ابھرنے والی خود فریبی پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔ یہ ایک ایسی بشری کم زوری ہے جو انسان کی اخلاقی صلابت کو متاثر کرتی ہے۔ سماجی وابستگی کا تقاضا ہے کہ ذمہ دار جماعت سماجی معاملات و مسائل سے آگاہ رہے، اسے حل کرنے میں شریک ہو اور دوسروں کو بھی شریک رکھنے کی کوشش کرے۔ سماج کے عام لوگ اس سے ملنے اور اپنے مسائل پر گفتگو کرنے میں تکلف محسوس نہ کریں۔ لیکن سماجی معاملات و مسائل میں شرکت اور انھیں برتنے میں چند اہم اوصاف سے متصف رہنا اور انھیں برتنا ضروری ہے۔
پہلی صفت حلم و بردباری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں جذبات کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لیا جائے۔ ناگہانی صورتِ حال میں بھی اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھا جائے۔ اسی کا نام جذباتی ذہانت ہے(emotional intelligence)۔
دوسری صفت اعتدال و توازن ہے۔ معاملات کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر عدل و توازن پر مبنی رہ نمائی کی جائے خواہ دوسرے لوگوں کو اس سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی ذاتی، سماجی اور تحریکی زندگی میں شدت پسندی، افراط و تفریط اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنے کی مشق مسلسل جاری رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی ہے کہ: اے محمدؐ! کہہ دیجیے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے (قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ، الاعراف: ۲۹)۔
تیسری صفت نرم خوئی ہے۔ اگر ذمہ دار نرم خو ہوگا تو سماج کے زیر ربط افراد اور خود تحریکی کارکنان کے دل میں بھی اس کے لیے محبت و عزت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ، جو کوئی بھی میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا اور اس نے سختی کی تو، تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی بھی میری امت کے کسی امر کا ولی بنا اور اس نے نرمی کی تو، تو بھی اس پر نرمی فرما‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ سخت مزاجی اپنے اثرات کے اعتبار سے نرم مزاجی کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔ لیکن برتاؤ میں نرم مزاجی کہیں ذمہ دار کو اصولوں، قدروں اور ضابطوں پر سمجھوتا پسندی کی راہ پر نہ ڈال دے، اس پر نگاہ رکھنی ضروری ہے۔
چوتھی صفت عفو درگزر ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ذمہ دار کے کسی رویے یا اقدام سے لوگ شاکی ہوں اور سخت تنقید بھی کریں، یہ جانے بغیر کہ کن اجتماعی مصالح اورمشکلات کے پیش نظر ذمہ دار نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح کی بے محابا تنقید اور شکایت سے فطری طور پر رنجش اور ناراضی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایسے موقعوں پر رسول اللہ ﷺ نے باہمی رعایت اور عفو و درگزر کی جو تلقین فرمائی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لینا چاہیے۔ عفو و درگزر کی وجہ سے سماجی تعلقات اور رشتوں میں ہم آہنگی اور الفت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے کہ: اور جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ تعالی محسنین کو پسند کرتا ہے(وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ، آل عمران: ۱۳۴)۔
پانچویں صفت رواداری ہے۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سماجی روابط میں رواداری کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ذمہ دار کو چاہیے کہ وہ اپنے ہم عقیدہ، ہم نظریہ اور ہم جماعت افراد سے ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی رواداری کا طرز عمل اپنائے۔ اسلام رواداری کی تلقین کرتا ہے اور اہل ایمان کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ دیگر باطل مذاہب کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے گریز کریں۔
مالی معاملات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کی اخلاقی پہچان کے لیے معاملات میں پرکھنے کی طرف متوجہ کیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں (لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ)۔ یوں تو مالی معاملات کا دائرہ کافی وسیع ہے، لیکن اس وقت ہم تین پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں: ذاتی لین دین، کاروباری شراکت اور تنظیمی مالیات۔ یہ تینوں چیزیں تمدنی زندگی کی ضرورت ہیں جن سے مفر نہیں۔ لیکن ان تینوں کے سلسلے میں اسلامی ہدایات اور مالیاتی احتیاط کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سی پیچیدگیاں اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔
قرض، اس کی واپسی، واپسی میں تاخیر، تاخیر کی اجازت جیسے امور قرض دہندہ اور قرض دار کے درمیان واضح نہ ہوں تو شکایتیں پیدا ہوتی ہیں جو کبھی کبھی تعلقات میں تلخی، قطع تعلق اور فساد کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ ذمہ دار جماعت کو اس معاملہ میں بہت زیادہ چوکس رہنا چاہیے کیوں کہ ذاتی لین دین کا معاملہ کبھی کبھی پوری جماعت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اول تو ذمہ دار جماعت کو قرض ہو یا کاروبار دونوں معاملات میں اپنی جماعتی حیثیت کو الگ رکھنا چاہیے۔ یعنی یہ کہ وہ جس کے ساتھ کاروباری معاملہ کر رہا ہے اس میں ذاتی تعلق نہ کہ جماعتی تعلق پیش نظر رہے، تحریری معاہدہ ہو نہ کہ زبانی وعدہ، نیز تمام معاملات ضروری تفصیلات اور مسلمہ أصول و شرائط (standard norms, practices)کے ساتھ انجام دیے جائیں۔ مالی معاملات میں، خواہ اس کا تعلق قرض سے ہو یا کاروبار سے، جماعت سے وابستگی اور جماعتی تعلق کو بنیاد بنائے کا عمل جماعتی حیثیت کا نامناسب استعمال بھی ہے۔ دوسری بات یہ کہ قرض اور کاروبار دونوں میں معاملہ کرتے ہوئے ممکنہ مشکلات اور امکانی خسارے سے دونوں فریق باخبر اور متفق ہوں۔ غیر تحریری یا کچھ تحریری کچھ زبانی معاہدوں کا معاملہ شاذ و نادر ہی الجھن سے خالی ہوتا ہے۔
ذمہ دار اپنی منصبی حیثیت کی وجہ سے وسیع تعلقات رکھتا ہے۔ بہت سے لوگ اس پر شخصی حیثیت میں اعتماد کرتے ہیں۔ اعتماد کرنا بھی چاہیے کہ ذمہ دار کی اگر سماجی ساکھ نہ ہو تو وہ جماعت کی قیادت کیا کرے گا۔ لیکن ذمہ دار جماعت کو مالی معاملات میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے۔ اجتماعی کاموں کے لیے دی جانے والی اعانت و تعاون کی رقم سے اس کا ہاتھ جتنا دور رہے، بہتر ہے۔ اس کام کے لیے اسے مالیات کے ذمہ داران کو مامور کرنا چاہیے۔ مالی معاملات شفافیت سے انجام دیے جا رہے ہیں اس پر اس کی نظر رہنی چاہیے۔ مالیات کے قانونی طریقوں اور جماعت کے ضوابط کی پابندی لازم ہے۔ مالی معاملات میں راست شرکت سے گریز ذمہ دار جماعت کو بہت سی الجھنوں سے بچا لیتا ہے۔
جماعت کے مالی معاملات میں ایک اہم مسئلہ صوابدیدی اختیار کے استعمال کا بھی ہے۔ دیگر اداروں میں بھی مالیات میں صوابدیدی اختیار کا استعمال بہت سی شرائط اور پابندیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ محض اچھا مقصد اور اچھی نیت ہی کافی نہیں ہے بلکہ درست طریقِ کار کی پابندی بھی ضروری ہے۔ جماعت کے مالیاتی ضوابط اور رائج الوقت مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی ذمہ دار کی حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ لہذا جہاں صوابدیدی اختیار کا استعمال ضروری ہو وہاں بھی احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا مناسب ہے۔ بلکہ اس کا استعمال کرنے میں ممکنہ مشاورت کرلی جائے تو بہتر ہے۔
ذمہ داران اور اخلاقی نشو و نما
سب سے پہلے تو اس مسلمہ حقیقت کو تسلیم کرنا لازم ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ ہر کوئی حالات کا غلط اندازہ لگاتا ہے۔ ہر کوئی اخلاقی غلطیاں کرتا ہے۔ ہر کوئی غلط نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ ہر کوئی وقتاً فوقتاً، خود فریبی میں یا کسی غلط فیصلے میں کسی نہ کسی طور پر حصہ دار بنتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ کبھی کبھار کچھ ایسا بھی کر گزرتے ہیں جس کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ غیر اخلاقی ہے۔ اپنی اس کمی یا کم زوری کا ادراک اور اس پر قابو پانے کی مسلسل کوشش ہی دراصل ہماری اخلاقی نشو و نما کا پہلا قدم ہے۔ انفرادی اخلاقی ذمہ داری کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ ہر شخص یہ خیال رکھے کہ جو اخلاقی رویہ وہ دوسروں کے ساتھ اپناتا ہے اسی کی توقع دوسرے سے بھی کی جاسکتی ہے۔ خود کے لیے نرم اور دوسروں کے لیے سخت معیار کی خواہش اخلاقی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔ اچھے کردار کا انسان بننا اور مسلسل خوبیوں کا مظاہرہ کرنا زندگی بھر جاری رہنے والا عمل ہے۔ ذمہ دارانِ جماعت کو خاص طور پر خود احتسابی بھی کرنی چاہیے اور دوسروں کے احتساب سے فائدہ بھی اٹھانا چاہیے۔ اگر کو ئی احتساب و تنقید برسر خود غلط بھی ہو اور غلط انداز میں بھی کی گئی ہو تو پہلے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ایسا ہوا ہی کیوں۔ اس کے بعد بہ حیثیت ذمہ دار ناقد کارکن کو تنقید و احتساب کا طریقہ سکھانا بھی ذمہ دار کا اخلاقی فرض ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2024