انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ تنہا زندگی گزارنے کے مقابلے میں اجتماعی زندگی کا دلدادہ ہے۔اجتماعیت پسندی خاندان کی بنیاد بنتی ہے۔اور یہ چھوٹی چھوٹی خاندانی بنیادیں۔ گروہ اور قبیلے بن کر ایک سماج کی تشکیل کرتی ہیں جہاں سے تمدن و معاشرت جنم لیتے ہیں‘مقاصد حیات متعین ہوتے ہیںاور تاریخ کا سفر شروع ہوتاہے‘جس کے سادہ صفحات انسان کے الف پہلو کارناموںسے مزین ومملو ہو کر ماضی کی داستانوں کے امین اور مستقبل کی رنگ ریزی میںسبق آموز کردار ادا کرتے ہیں۔مقاصد زندگی کے تعین میں بہت سے عوامل کا فعال کردار ہوتاہے‘ مختلف وجوہات و ترجیحات انسانی اجتماعیتوں کو مختلف صحیح یا غلط مقاصد حیات کواختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔فطرت کے ان تقاضوں کے باوصف باشعورافراد و قومیںاپنا مقصد حیات خود متعین کرتی ہیں۔ اور اس کے حصول کے لیے نہ صرف مصروف جہد ہوتی ہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی انہی خطوط پر زندگی بنانے‘ سنوارنے‘بِتانے اور ڈھالنے کی تلقین بھی کرتی ہیں۔
دین اسلام خالق کون و مکاں کا بندوں کے لیے پسندیدہ نظام زندگی ہے اور اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا مندی کی مہر و سند بھی لگی ہوئی ہے(ان الدین عند اللہ الاسلام)۔اللہ کی فرمانبرداری اس میں ہے کہ خالق کے عطا کردہ مقصد حیات کو اپنا وظیفہ حیات بنایاجائے۔چونکہ دین حق میں زور زبردستی نہیں ہے اور انسان کو قبول یا رد کرنے کی آزادی عطا کی گئی ہے۔لیکن امتحان اس میں ہے کہ وہ دنیا میں زندگی کیسے اور کن اصولوں کے مطابق گزارتا ہے۔ تاہم انسان کی رہبری و رہنمائی کے لیے روز اول ہی سے انتظام و انصرام کیا گیاہے ۔چنانچہ اللہ کی جانب سے پہلا انسان راہبر وراہنما بناکر بھیجاگیا اور یہ سلسلہ دیڑھ تا دو لاکھ منتخب افراد انسانی(نبی و رسول) تک پھیلا ہوا ہے ۔زمین کا کوئی ملک و علاقہ اور زبان و تہذیب ایسی نہیں کہ وہاں پر اللہ کی تعلیمات جلوہ گر نہ ہوئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کو تحریری شکل میں بھی عطا کرتا رہا ہے چنانچہ مختلف زمانوں‘علاقوں اور مختلف رسولوں و نبیوں پر کتابوں اور صحیفوں کو نازل کیا جاتا رہا ہے۔یہ معاملہ کرم و رحم ہی کا نہیں بلکہ رہبری و رہنمائی کے علاوہ بندوں پر حق کی ترسیل نیز حجت کے اتمام کابھی تھا۔دنیا میں انسان کے قیام کو دوام حاصل نہیں ہے۔ اس کا اصل ٹھکانہ زمین نہیں بلکہ جنت ہے۔اور دنیا اصلاً ایک امتحان گاہ ہے ۔چنانچہ جائز و ضروری استفادہ و لطف اندوزی کی اجازت تو ہے لیکن انسان کی حیثیت بحرحال ایک مسافر کی سی ہے ۔بناء بریں اس کا دنیا میں قیام حقیقت میں اُخروی زندگی کے لیے صحیح کوشش و عمل سے عبارت ہونا چاہیے ۔حقیقت میںدنیا اور کاروبارِ دنیا کو ہمیشگی حاصل نہیں ہے ۔ اسی لیے بھی ضروری ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم کیا جائے؛صحیفوں ا ور کتابوں کے بھیجنے کو بھی موقوف کیا جائے؛ انسان ہی نہیں بلکہ دنیا کو بھی ختم کیا جائے تاکہ روز قیامت انسان اور اس کے سارے ہی اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے،اس کو کامیاب یا ناکام قرار دیا جائےاور اچھے کاموںپر جزا اور برے افعال پر سزا دی جائے،کامیابی پر ہمیشہ کے لیے نعمتوں اور جنتوں کا حقدار ٹہرایا جائے اور ناکامی پر عذاب و جہنم میں جھونک دیا جائے۔چنانچہ حضور اکرمؐ کی بحیثیت خاتم النبین تشریف آوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر قران مجید کا نزول فرمایا جو انسانوں کے لیے اللہ کا آخری کلام ہے۔ اب قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی صحیفہ یا کتاب نازل کی جائیگی۔ انفرادی و اجتماعی ہر دو حیثیت میں تاکیدی حکم “ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ”اور حضور اکرمؐ کا فرمان کہ “بلغوا عنی ولو آیۃ”اس ملت کے وظیفہ حیات اور مقصد حیات کو متعین کردیتے ہیں۔
نبوت کا اختتام ضرور ہوا ہے لیکن کارِ نبوت کامشن ختم نہیں ہوا ہے، ہنوز باقی ہے ۔ بلکہ دیگر انبیا کے جانشینوں سے زیادہ ذمہ داری امت مسلمۃ کی ہوجاتی ہے کہ وہ حضور اکرمؐ کے مشن کو جاری و ساری رکھے۔ دین کی تعلیمات‘مذہبی عقائد اور نبی ؐ سے عقیدتاً ہی نہیں بلکہ عقل و خرد کی رہنمائی بھی عقیدہ ختم نبوت کے پیش نظر تقاضہ کرتی ہے کہ خاتم النبینؐ کے مشن کو قیامت تک جاری و ساری رکھا جائے۔اس میں کوتاہی آخرت میں جوابدہی سے عبارت ہے۔قرآن وحدیث کے مغائیر صرف عقل و دانش کو امام بنایا جائے تب مقاصد حیات کے تعین میں اختلاف واقع ہوگا۔ اور جیسا کہ آج ملت میں نظر آرہا ہے۔ لیکن قران و حدیث “معیار حق” بنیں اور عقل و فہم و تفکر و تدبر کووسیلہ ظفر یابی کا موقع دیاجائے تب اللہ کے دین کے قیام سے ہٹ کر کوئی اورمقصد حیات متعین ہی نہیں ہوگا،اور اس کے تحت زندگی کے تمام شعبے آجاتے ہیں۔اسی طرح ہر وہ عمل۔ چاہے وہ عمل خیر ہی کیوں نہ محسوس کیا جاتا اور سمجھا جاتا ہو اور اس کے لیے لاکھ تاویلات گھڑلی جائیں اور حیلہ بازیوں کابازار گرم کیا جائے لیکن اگر اللہ کے دین کے اصل ہدف سے ٹکراتا ہو‘یا رفتار کار کو متاثر کرتاہو‘ تب وہ بھی ہر اعتبار سے صحیح نہیں ہوگا۔اللہ کے فرستادوں نے اسلام کی اقامت سے نہ سر مو انحراف کیا‘نہ ایک لمحہ کے لیے بھی غفلت برتی‘ اور نہ ہی جادہ مستقیم کے ساتھ ان ذیلی راستوں کو اختیار کیا ۔جن سے وقتی خوشنماء فائدے تو نظر آئیں لیکن اصل مقصد حیات پس پشت چلا جائے (بلکہ اپنے متبع اصحاب کرام کو بھی ایسے عمل سے روکے رکھا اور غافل نہ ہونے دیا)بلکہ ان تمام راہوں‘ نظم و انصرام و طور طریق(پالیسی و پروگرام بہ لہجہ جدید) سے خود کو روکے رکھا۔بلکہ من اللہ اُن راہوں سے روک بھی دیے گئے۔جو اللہ کے دین کی اقامت کی راہ کھوٹی کرے(ودوا لو تدھن فید ھنون ولا تطع کل حلاف مھین)۔
دور حاضر استعماری و سرمایہ دارانہ قوتوں کے زیر سایہ زندگی کے کم و بیش تمام ہی شعبوں پر اپنا نفوذ اور چھاپ چھوڑ چکا ہے۔ سوچ وفکر‘تہذیب و تمدن‘طرز بود و باش‘اصلاحات و اصطلاحات‘ فرد و ادارے‘ اجتماعی سرگرمیاں و پروگرامس غرض کونسا میدان ہے جہاں چار و ناچار‘ارادتاً وعادتاً‘شعوری و غیر شعوری طور پر اُسکی بنائی ہوئی اوراُسکی بتائی ہوئی ڈگر پر عمل نہ ہورہا ہو۔ اس عمومی دنیا و فضاء میں نظریاتی تحریکات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اشتراکیت کے کس بل بھی نکل چکے ہیں۔ اب وہ ایک ایسا استعمار گزیدہ ہے کہ جس کا زہر نکالا جاچکا ہے اور اب صرف رینگنے والی بے ضرر ہستی باقی رہ گئی ہے۔تاہم غور و احتساب کا مقام یہ ہے کہ اس پس منظر میں‘ آج اسلامی تحریکات کے نام لیوا کس مقام آہ و فغاں میں سانس لے رہے ہیں۔ایک اثر انگیز غالب دور وہ بھی تھا کہ سوپر پاور رومی حکمرانوں کے قیمتی قالینوں سے مزین دربارمیں اسلامی تحریک کے نام لیواؤں نے اسطرح بھی اپنا وجود منوایا تھا کہ اس رعب دار ایوانِ حکمرانی سے متاثر ہوئے بغیر۔ اپنے نیزے کی نوک سے قالینوں کو قصداً نشان زدہ کرتے ہوئے اور گھوڑے کی خاک آلود ٹاپوں سے روندتے ہوئے(تاکہ بیجا غرور کو خاک میں ملایا جائے اور عوام کے لیے قبولیت حق کی راہیں وَا ہوں) اسلامی تعلیمات کو پیش کیا تھا۔اور یہ ثابت کیا تھا کہ غالب نظریات سے مزین فکر و ذہن” مرعوبیت” کا شکار ہوتے ہیں نہ متاثر ہوتے ہیں۔ بلکہ اپنی ہی کَل کو سیدھی بتاتے ہیں‘دنیا چاہے آج تسلیم کرے یا کل مانے۔ اس مبحث سے دین اسلام کی” تعلیماتِ حکمت” کی افادیت و اختیار (کرنے)سے اعراض ہے نہ “جدال احسن” سے فرار ہے۔۔ نیز نئی اچھی چیزوں سے نہ نفرت ہے نہ ہی الرجی ۔بلکہ اعتراض و اعراض جو کچھ ہے وہ شعوری و لاشعوری مرعوبیت ہے‘ اور منفعلانہ ذہنیت کی نفی بھی مقصود ہے۔
نظریاتی تحریکات اپنے مزاج‘مقتضیات‘مطلوب توجہات‘توقف و حرکت‘لب و لہجہ‘اثر پذیری اور طریقہ کار میں منفرد شان رکھتی ہیں۔ انجمن‘کلب‘سوسائٹیاں اور اس طرح کے دیگر اجتماعی اداروں کے بالمقابل نظریاتی تحریکات بالخصوص اسلامی تحریک جداگانہ حیثیت اور بلند و بالا ‘الگ مرتبہ کی حامل ہوتی ہے۔لہٰذا اپنے متبعین سے بہت ہی پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس کے اس وقار و تعظیم کو قائم و دائم رکھے اور اپنے طرز عمل و برتاؤ میں بال برابر بھی کمی نہ آنے دے یعنی معاملات زندگی کی ہمہ ہمی میں” ترجیح اول اُسکا دین و تحریک ” بنی رہے۔وجہہ اس کی یہ بھی ہے کہ یہ بندے کی ضرورت ہے کہ وہ بندگی و وفا شعاری میں کمال پیدا کرے۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ ساری مخلوقات چاہے نہ چاہے‘ اللہ کی بندگی و اطاعت بجا لارہی ہے۔ چنانچہ ایک داعی‘مومن و مسلم کے لیے لازم ہے کہ دین کے احیاء و قیام کی تحریک کے ساتھ سکنڈ یا تھرڈ گریڈ وغیرہ کا معاملہ نہ کرے‘ اور آگاہ رہے کہ خالق کون و مکاں ‘اللہ تبارک و تعالیٰ بڑا بے نیاز اور بے انتہا غیور و قہار ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہمارے طرز عمل میں مطلوب پہلی سی گرم جوشی باقی نہیں رہی ہے۔ انفرادی ملاقاتوں‘مستقل روابط کے ذریعہ افرادکی ذہن سازی وتحریک میں شمولیت اب بھولی بسری یاد بنتی جارہی ہے۔اجتماعت میں شرکت اور وقت کی پابندی کو ہم نے اپنے نفس کے حوالے کردیا ہے۔بڑی کانفرنس و اجتماعات کے بعد کی سرد مہری اب عام اور فالو اپ(FollowUp) ناکام ہوتے جارہے ہیں۔قریب تین ربع صدی کو پہنچ رہی تحریک اسلامی اور اس کی رفتار کارو نفوذپذیری ،دور ِحاضرمیں داخل ہو کربالخصوص ہماری شخصیتوں کے زیر سایہ شرمندہ شرمندہ سی‘ شکایت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
خدمت خلق واقعی ایک بڑا ذریعہ ہے ‘اور ایک داعی ایک ضرورت مند کی زندگی کا حصہ بن کر اُس کے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں گھر بناتا ہے، اثر انداز ہوتا ہے۔لیکن خدمت خلق کی جدید تعبیر ہمارے خیال و فکر میںاب عموماً ہمارے ادارے ‘ ہمارے پراجکٹس اور” ہماراشعبہ خدمت خلق” بن چکے ہیں اور اس بیچ جس” بیچارے گمشدہ “کی تلاش ہے وہ داعی و خادم تحریک کی ذاتِ بابرکات ہے۔اب نہ اسپتالوں کی عیادتیں رہیں باقی‘ اورنہ ہی قبرستانوں کی زیارتیں آخرت کی یاد دہانی کا وسیلہ بنتی یا بنائی جاتی ہیں۔ناداروں اور ضعیفوں کے لیے ادارہ جاتی رقمی امداد” ذاتی خدمت” کا مداوا کیسے اور کیوں کر بن سکتی ہے ؟یہ ایک ایسا راست‘ٹھیٹھ اور چبھتا ہواسوال ہے جس کا جواب دینا ہماری ذات پر باقی اوربہ منزلہ واجب کے ہے اور اب تو مستحقین ناداروں اور ضعفاء کے جگر کی ٹھنڈک اور قلب کی گہرائیوں سے ابلنے والی بے اختیار دعاؤں کو حاصل کرنے کی لگن و تڑپ بھی دم توڑ چکی ہے۔ زندہ جاوید بیشتر بس اب ایک میکنزم ہے(کہ جسے ہم وجہ افتخاربنائے ہوئے ہیں) لیکن گزرے اَدوار کی صد افتخاروفور ہائے شوق‘چاہتیں وامنگیں اوربے تابیاں کم و بیش ندارد ہیں۔ شہروں کی وسعتوں اور ان میںآبادی کی کثرتوں کاآج یہ عالم ہوچکا ہے گویا چھوٹے ملک یا جزیرہ ہوں۔ بالخصوص امت مسلمۃبالعموم شہروں میں آباد ہے۔مختلف کلچر‘ زبان اور تعلیم و ہنر مندی اور متعدد صلاحیتوں سے معمور ان بڑے شہروں کے باشندوں میںاللہ کے دین کی دعوت اور اسکی تعلیمات کا پہنچانا بہت بڑی ضرورت بن چکا ہے۔کیونکہ جدید ترقیات نے شہروں کے اثرات و حالات کو ملک گیر اثر پیداکرنے والا بنادیا ہے۔ ربع صدی کے دوران شہر کی وسعتوں میں ہمارے” برف بار وجود “کے عبوری سنگ میل کے میزانیہ(Balance Sheet)پر نظر رکھنے کی شدیدضرورت ہے۔
اسلام کی تبلیغ و اشاعت و اقامت اور ادارہ جات کے ذریعے اس میں مدد و استحکام میں ایک ایسا تناسب ضروری ہے جو بوجھ نہ بن جائے،راہ کی مشکلات میں اضافہ اور پاؤں کی بیڑی نہ بن جائے، متناسب فائدوں کا حصول ہوسکے،موجود افرادی سرمایہ کا مناسب ومتناسب استعمال کیا جائے،کہ وہ نہ ضائع ہوں اور نہ ہی ان کو داؤ پر لگا کر نقصان اُٹھایا جائے۔لیکن حقیقت حال اس اُصولی و معروضی موقف کے مغائیر ہوتی جارہی ہے۔ان اداروں کی بھلی بُری دیکھ ریکھ اور نظم و انصرام کے چہار رخی دباؤ میں ہماری اور ہمارے ذمہ داروں کے شب و روزکا بیشتر حصہ اور صلاحتیں صرف وغرق ہوتی جارہی ہے۔گویا تحریک کی اقامت و اشاعت کے بالمقابل دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل و تعاقب میں قائم کیے گئے یہ ادارے اور شعبہ جات کی سرگرمیاں ایک ایسا “بلیک ہول” بن چکی ہیں جس میں فرد‘ ذمہ دار‘انفرادیت واجتماعیت کا ایک عظیم حصہ غرق و لاپتہ ہوتا چلا جارہا ہے۔بہ تمثیل مستعارگویایہ طرز ایک ایسے منحنی و مختصر اعضاء و جوارح لیکن اس پر ایک بھاری بھر کم بڑے سر(Head) کے صاحب ذی قدر کا سا ہے کہ اس “وجود اِیں قدو خال” کے خاتمہ کے لیے کسی خارجی قوت و عنصر کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے وجود کے طول کو عرض میں تبدیل کرنے کے لیے اس کااپنا “مبارک وبھاری بھر کم سر” کا وزن ہی کافی ہے۔ ایک ہوشیار تاجر سے کہیں زیادہ فہیم و بصیر ایک داعی کی بصارت و بصیرت وذکاوت ہوتی ہے(ہونی چاہیے)۔چنانچہ سرمایہ کاری کے تناسب اور نتائج و فوائد کے حصول پر انفرادی و اجتماعی غور وتوجہہ اور احتساب کیا لازم وملزوم نہیں بن چکے ہیں۔
جدید کلچر کے نت نئے سانچوں میں ڈھلے ذہن و فکر کی ساخت آج کے انسان کو ایک ایسی ڈیجیٹل گھڑی میں ڈھال دیا ہے جسکی ساری جان( و توانائی) ایک الکڑک سیل کی مرہون منت ہے۔چنانچہ دیدہ بینا کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ اس دور کے انسان اور اسکی سرگرمیوں کی موجودہ اوقات و ساخت اور اسکے مزاج کی یافت و دریافت کرتا رہے۔مثلاًہفتہ عشرہ منانا اور مہمات‘ اسکیمات کے اثرات اور اس کی دیر پائی کا عالم مصنوعی الکٹرک مقناطیسی میدان کے پیدا ہونے ختم ہونے کی طرح ہوچکا ہے کہ جب تک کرنٹ دوڑتا ہے پیدا ہوتا ہے اور ہر چیز اس کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہوتی ہے‘تاہم اِدھر کرنٹ غائب اور اُدھر ہر چیز اثرات سے آزاد ہوجاتی ہے۔زندگی کا سارا محور اسی دائرہ اثرمیں محو سفر محسوس ہوتا ہے۔ نظریاتی تحریکی افراد کی ذہن سازی میں مطالعہ و تحریر کے اثرات کا زبردست رول ہوتا ہے۔مطالعہ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے فکر کی پختگی اور (سوچ بچار اور فیصلوں میں)یکسانیت و قربت‘دعوت کی ترسیل میں جانفشانی‘ہمہ ہمی و سرگرمی پختہ تر ہوتی جاتی ہے اور یہ مطالعہ کا کرشمہ رہا ہے کہ جی جان سے ذات کو فی سبیل اللہ لگادینے کھپادینے کی انمٹ چاہت جنم لیتی ہے اور اس کے اثرات چار دانگ عالم میں محسوس کیے جاتے ہیں۔عقل و فہم و شعور کی بالیدگی اور بصیرت کی پختگی کے لیے مطالعہ کی عادت و کثرت کاعالم بصارت کے رخصت ہونے تک جاری رہتا تھا۔المیہ عظیم یہ بھی ہے کہ اس اہم ستون کا بھی انہدام بالعموم ہوتا جارہا ہے۔مطالعہ ایک کار دار والا معاملہ بن چکا ہے۔مطالعہ سے فرار نظریاتی تحریک کے لیے موت کے مماثل ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013