دینی مدارس میں اخلاقی اقدار کی تعلیم

درج ذیل اقتباسات سید حامدؒ کی مختلف تقریروں سے ماخوذ ہیں ۔ مرحوم سید حامد دینی مدارس کے ارتقاء کے سلسلے میں فکر مند اور کوشاں رہتے تھے، انھوں نے جہاں دوسرے اہم پہلووں کی طرف متوجہ کیا وہیںہندوستان کے تکثیری معاشرے میں قائم وجاری دینی مدارس کے اخلاقی کرداراور وہاں اخلاقی اقدار کی تعلیم کے سلسلے میں بھی اساتذہ مدارس اور ذمہ داران مدارس کو بار بار مخاطب کیا۔  بدلتے ہوئے ہندوستان میں اس توجہ دہانی کی اہمیت بڑھتی محسوس ہورہی ہے۔ اس لیےبہتر سمجھا گیا کہ مرحوم کی اس توجہ دہانی کو اہل فکر ونظرکے سامنے لایا جائے، اور ان کی قیمتی رایوں اور تجاویز کے ساتھ انہیں شائع کیا جائے۔مضمون کے ذیل میں درج تبصرے ان اہل فکر ونظر کے ہیں جو دینی مدارس سے فارغ ہیں، اور مدارس کی ترقی کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔اس سلسلے میں مزید تجاویز کا استقبال ہے۔(ادارہ)

کردار بنانا اور اقدار کو فروغ دینا اور علم وآگہی کی اشاعت کرنا وہ مقصد ہے جس پر ہم سب متفق ہیں۔ ہم سب کو اس کا اندازہ بھی ہے کہ زندگی ہر لمحہ زیادہ تیز گام ہوتی جارہی ہے۔ زندگی اب آزمائش کی گھڑیوں اور مقابلہ کی جانفشانیوں سے عبارت ہے۔ اس ہر آن سمٹتی ہوئی بدلتی ہوئی دنیا میں جو گروہ یا جماعت آزمائش سے جی چرائے گی اور مقابلہ کے لیے کمر کسنے سے الکسائے گی وہ بے درد قانون قدرت کے مطابق بقا سے ہاتھ وھولے گی۔

ہمیںاساتذہ مدارس کی کوششوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنا ہے کہ دینی مدارس کے فارغین بہ حیثیت شہری کے اپنے مدنی فرائض کو دوسروں سے بہتر انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے گھر اور قرب وجوار کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ صحت اور صفائی اور راحت اور امداد کے سرکاری اور عوامی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر خدمت خلق کی خاطر حصہ لیتے ہیں۔ بیماریوں اور وباؤں اور ارضی وسماوی حوادث کے آشوب کو دور کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اپنے گردوپیش کے ماحول کو آلودگی اور بربادی سے بچاتے ہیں۔ وطن کی تعمیر اور ترقی کے کاموں سے انھیں عملی وابستگی رہتی ہے۔ قوانین کی پابندی اور محصولات کی ادائیگی میں لیت ولعل نہیں کرتے۔ وہ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے حقوق سے بھی واقف ہیں اور ظلم وزیادتی کے خلاف احتجاج میں تامل نہیں کرتے۔انسانی حقوق کی عمل آوری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

جہاں تک تعلیم کے وسیلہ سے ثقافت اور اقدار کو مضبوط کرنے کا تعلق ہے، دینی مدارس میں قدروں کو ہمیشہ سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ انھیں سدا صدرمیں بٹھایا گیا ہے اور مدارس کے طلبا بالعموم اطوار وکردار کے لحاظ سے جدید اسکولوں کے طلبا سے بہتر ہیں۔ لیکن ہمیں نہ صرف ان حالات اور تغیرات سے عہدہ برآ ہونا ہے جو علوم کی ہوش ربا ترقی اورٹیکنا لوجی کی محیر العقول پیش رفت کے لائے ہوئے ہیں بلکہ اپنے وسیع کثیر المذاہب، وکثیر اللسان وطن کی گنگا جمنی تہذیب کو بھی ملحوظ رکھنا ہےاور فراخ مشربی اور رواداری اور عام خیر اندیشی کا سبق بھی دینا ہے۔ خوش ہمسائیگی اور طمانیت قلب کی خاطر ہمیں بہت سی باتوں کو انگیز کرنا ہوگا ااور دوسروں کی بابت رائے قائم کرنے میں لچک کو راہ دینی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے طلبا کود وسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ خوش دلی سے اٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائیں۔ انھیں بتائیں کہ اپنے دین کے بنیادی اصولوں پر کار بند رہنے کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے اہل وطن کے جذبات واحساسات کا لحاظ بھی رکھنا ہے۔ دین کی تعلیم دیتے وقت شاید طلبا کے ذہن نشین یہ بات کردینا ضروری ہو کہ بہ حیثیت دین اسلام کے بنیادی عناصر اور مابہ الامتیاز اوصاف کیا ہیں اور یہ بھی کہ دعوت وتلقین کا سب سے موثر ذریعہ افعال واطوار ہیں اور شخصیت اور کردار کی تعمیر وتکمیل میں تعلیم کو بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اختلاف رائے کو گوارا کرنا اور اختلاف کو مخالفت نہ بننے دینا مہذب ہونے کی ایک نشانی ہے اور اعتدال، میانہ روی اور توازن ایسے اوصاف ہیں جن کے برتنے پر افراد اور جماعتیں باہمی روابط کو استوار اور خوش گوار رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ دوسرے مذاہب اور دوسری تہذیبوں میں بہت سی اچھائیاں اور قابل قدر اور لائق اخذ باتیں ہیں۔ انتہا پسندی اور تشدد سے مسائل حل نہیں ہوتے ، زیادہ پیچیدہ اور سنگین ہوجاتے ہیں۔

ہمارے اسکولوں میں اقدار کی تعلیم کے لیے ایک نصاب خیابان حیات یا Garden of Life کے نام سے رائج ہے۔ اس میں مختلف اقدار اور اوصاف کو ذہن نشین بلکہ دلنشین کرنے کے لیے بہت سے دلکش طریقے اختیار کیے گئے ہیں جن میں سے ایک کہانی اور تمثیل ہے۔ یہ طریقہ ایسا ہے جسے دینی مدارس کے اساتذہ انتہائی کامیابی کے ساتھ برت سکتے ہیں۔ قرآن کے قصص، آنحضرتﷺ کی سیرت، صحابہ کرام کی حیات، خلفائے راشدین کے سوانح زندگی حتی کہ سلاطین کی تواریخ اور دوسرے انسانوں کی زندگی کے حوادث سے قدروں کو مجسم کرکے طالب علم کے روبرو لایا جاسکتا ہے۔ اس طرح کہ یہ نقوش کبھی محو نہ ہوں۔ ان قدروں کی فہرست خاصی طویل ہے جو کردار کی تشکیل کرتی ہیں اور جو برسبیل تدریس ذہن نشین کی جاسکتی ہیں۔ مثلا ایمان داری، صفائی ، شگفتگی ، رحم ، خیر اندیشی، رجائیت، حیرت ، محبت، جانوروں پر رحم ، قناعت ، بہادری ، جرأت، بزرگوں کی عزت، عفو خوش گوئی وخوش اطواری، ورزش ، ہم دردی ، سادگی، تخلیق کی صلاحیت، سچائی، خدمت، خود اعتمادی، حب الوطنی، عقیدت، یکسوئی وارتکاز، مساوات ، اخوت، حریت، عبودیت، مہم جوئی، محنت کا وقار، شادمانی، مہارت، دوستی، ایفائے عہد، مطالعہ کا شوق، مدد کرنا، یقین کی طاقت، استقامت، مسئولیت، قانون پر عمل، ان تھک کوشش، استاذوں کی عزت اور ان کا خیال، مکافات عمل، گندم از گندم بروید جوز جو، مستعدی، خاکساری۔

ہمارے دینی مدارس میں اخلاقی اقدار پر زور سدا سے دیا جاتا رہا ہے۔ آپ کو ان ازلی اقدار کی وضاحت کرنی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ان کی تعلیم وتلقین کو وسعت بھی دینا ہے۔ ان بنیادی اقدار کے گرد آپ کو ان حاشیائی قدروں کو بھی زیر نظر لانا ہے جنھیں ان تغیرات اور انقلابات نے جنم دیا ہے جنھوں نے زندگی کی کایا پلٹ دی۔ ان قدروں میں ماحول کا تحفظ ، انسانی حقوق کی حفاظت، جمہوری زاویہ نگاہ، بین الاقوامی تنازعات کو گفتگو کے ذریعہ حل کرنا، نئی نئی بیماریوں کا سدباب ، صنعت اور مدنیت کے لائے ہوئے نت نئے مسائل اور دنیا کے مٹ جانے کے گوناگوں مضمرات شامل ہیں۔ ان مسائل اور اس قبیل کے مسائل کی طرف آپ ملتفت ہوں گے۔

مدارس کے بدخواہوں کا یہ الزام بھی تردید طلب ہے کہ ان فارغین کی صلاحیت انھیں مسجد ومدرسہ سے آگے نہیں بڑھنے دیتی، دنیا میں کیا ہورہا ہے اس سے بے خبر رہتے ہیں اور ان کا طریق تعلیم فرسودہ اور جدید زمانے سے دور از کار ہے۔ ہمیں یہ ثابت کردکھانا ہے کہ وہ باخبر اور ذمہ دار شہری ہیں، اور وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی اور بار آوری کے ساتھ داخل ہوسکتے ہیں اور ملک کے ارتقا میں برابر کے شریک اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ہوا دینے میں وہ پیش پیش ہیں۔ مذہبی تعلیم انھیں امن پسند، عافیت پیشہ، خوش اقدار وخوش اطوار بناتی ہے۔

ہم اس بات کو تسلیم کرکے چلتے ہیں کہ ہمارے دین کی غرض وغایت یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ شرافت اور بھلائی کا برتاؤ کرے۔ سوال صرف طریق کار کا ہے۔ دوران تعلیم اخلاقی اقدار کو ذہنوں میں کس طرح پیوست کیا جائے۔  (ماخوذ از کتاب: پیکر فکر وعمل: سید حامد، مرتبہ: سید منصور آغا)

تبصرہ (۱)

 محمد عمر اسلم اصلاحی، شیخ التفسیر مدرسۃ الاصلاح ، اعظم گڑھ

مدارس اسلامیہ کے قیام کا بنیادی مقصد دین اسلام کا تحفظ اور اس کی اشاعت ہے۔ مدارس اسلامیہ نے ان دونوں پہلوؤں سے ماضی میں جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اسی کی دین ہے کہ آج اسلام نہ صرف یہ کہ زندہ ہے بلکہ اس کی تعلیمات عام انسانی سماج کے گوشہ گوشہ تک پہنچ چکی ہیں۔ فارغینِ مدارس نے زندگی کے جن جن شعبوں میں قدم رکھا ان کو متحرک بھی کیا اور پاکیزگی و تقدس بھی بخشا۔ اسی وجہ سے اہل مدارس سماج میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن مدارس کا موجودہ کردار ایسا نہیں ہے کہ اس پر بہر پہلو اطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔ خصوصاً ان کی اخلاقی قدریں اس حد تک پامال ہوئی ہیں کہ خود اہل مدارس بھی شاکی نظر آ رہے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کل اور آج میں ایسا کیا فرق آ گیا ہے کہ جن کی اخلاقی اقدار انسانی معاشرہ کا تاجِ فخر تھیں اب ان پر اطمینان تک نہیں رہا۔ میرے نزدیک اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

1۔ پہلے مدارس میں دین کی تعلیم کا اہتمام تھا۔ نصاب تعلیم کا غالب عنصر دینیات پر مشتمل تھا، اساتذہ کا رہن سہن، ان کا دینی مزاج، ان کی نشست وبرخاست، ان کا ایثار، طلبا کے لیے ان کی دردمندی، ان کے مستقبل کو تاب ناک بنانے کی فکر اور تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پر خصوصی توجہ قابل رشک حد تک پائی جاتی تھیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب تدریس خدمت سے زیادہ پیشہ ہے۔ اپنے متعلق مضامین اور مقررہ اوقات کے علاوہ طلبا کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں۔ اس لیے کل اور آج کے نتائج میں جو فرق واقع ہونا چاہیے تھا وہ ہے۔

علاوہ ازیں مدارس اسلامیہ دین سے زیادہ مسالک اور افکار کے نمائندہ ادارے بن گئے ہیں۔ اپنے متعین کردہ خطوط، خود ساختہ نظریات اور دین اسلام کا تنگ نظری پر مبنی ڈھانچہ ان اخلاقی اقدار کو فروغ دینے میں مانع ہے جو کل ہمارا مابہٖ الامتیاز سرمایہ تھا۔

حالات خواہ کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں، مسلکی تنگ نائے نے ہمارے سامنے کتنے ہی بڑے بڑے مسائل کیوں نہ کھڑے کر دیے ہیں، مسلکی تشدد نے بے شمار ملی مسائل ہی کیوں نہ جنم دیے ہو، فتنے فوج بلا موج کی صورت ہی کیوں نہ اختیار کر گئے ہیں لیکن اہل مدارس اپنے متعین کردہ خطوط سے ہٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ مدارس کی اخلاقی قدروں کی پامالی کا یہ ایک بہت بڑا سبب ہے۔ جس سے مزید چشم پوشی مزید مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لیے جس قدر جلد اہل مدارس کے اندر اس زیاں کا احساس جاگ جائے بہتر ہے۔ ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

2۔ دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ جس طرح پہلے مدارس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا اور بستیوں سے نکل کر بچے مدارس کی فضا میں آ جاتے تھے تو اہل خانہ کو اطمینان ہو جاتا تھا کہ ہمارے بچے ان کارخانوں میں پہنچ گئے ہیں جہاں سے ڈھل کر وہ نکلیں گے تو ملت و وطن کے لیے ایک مفید کل اور قیمتی سرمایہ ہوں۔ بد قسمتی سے موجودہ مدارس اسلامیہ کا وہ سابقہ کردار باقی نہیں رہا۔ ہر چند کہ تعلیمی معیار میں بھی انحطاط آیا ہے لیکن تربیت کا شعبہ تو بالکل تاریک ہے۔

طلبا کب اور کیا پڑھ رہے ہیں؟ کس طرح پڑھ رہے ہیں؟ کہاں کہاں وقت گزار رہے ہیں اور کس طرح گزار رہے ہیں؟ مدارس کے نظام میں اب یہ کوئی لازمی اور مستقل شعبہ نہیں ہے۔ بعض مدارس میں کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری پابندیاں ہیں اور بعض میں ایسی آزادی جس میں کوئی ضروری پابندی بھی نہیں۔ ہر دو طرح کے مدارس میں اخلاقی اقدار کی بلندی پر خصوصی توجہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

علاوہ ازیں تحریر، تقریر، تعلیم جس پہلو سے بھی انھیں رہنمائی کی ضرورت ہو، ہمارے مدارس میں اس کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ تعلیم کے ہر شعبہ میں رہنما افراد کی باقاعدہ ایک ٹیم ہو جو تشنہ لبوں کی سیرابی کا مفید ذریعہ ہوں۔

3۔ تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں اخلاقیات کا کوئی مخصوص گوشہ نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید، حدیث شریف اور دینیات کی دیگر کتابیں اس خلا کو پر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بلاشبہ اگر قرآن مجید کی تعلیم بے آمیز ہو، احادیثِ شریفہ میں اخلاقیات کے پہلو کو نمایاں کیا جائے اور دینیات کے مضامین اعمال و کردار کے لیے کسوٹی کا کام دیں تو یہ مضامین بھی اخلاقی اقدار کی بلندی کے ضامن ہوں گے۔ لیکن ان سارے بنیادی مضامین کی تدریس کا جو نظام ہے جس میں افراد کے انتخاب میں صرف علمی استعداد پر ہی توجہ ہوتی ہے، اخلاقی معیار کا جائزہ نہیں لیا جاتا، اس کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ باقاعدہ اخلاقیات کے مضامین بھی داخل نصاب کیے جائیں اور ان میں واقعی کامیابی کے بغیر سند نہ دی جائے۔ اب اگر اس کے لیے خود کو بھی بدلنے کی ضرورت ہو تو ضرور بدلا جائے ورنہ مدارس کے قیام کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

مدارس اسلامیہ کے فضلا جس سماج میں جائیں وہاں ان کے علمی تفوق کے ساتھ ان کی اخلاقی عظمت کا بھی اعتراف کیا جائے، تب یہ سمجھا جائے گا کہ مدارس اپنا حقیقی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ورنہ مدارس کے مثبت نتائج کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

پھر جس سماج سے اہلِ مدارس کا واسطہ ہے اس سماج میں معروف کو فروغ دینے والے اور منکر سے روکنے والے بھی ہیں اور منکر کو فروغ دینے والے اور معروف سے روکنے والے بھی ہیں۔ ہمیں یہ شعور بھی ہونا چاہیے کہ کہاں ریشم کی طرح نرم اور کہاں فولاد کی طرح سخت ہوں۔ تب سماج کو وہ دیا جا سکتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔

4۔ چوتھا اہم سبب یہ ہے کہ پہلے مدارس میں جو طلبا تعلیم کے لیے آتے یا بھیجے جاتے تھے، آنے والے بھی دین سیکھنے کے لیے آتے تھے اور بھیجنے والے بھی دین کا علمبردار بنانے کے لیے بھیجتے تھے۔ اب صورتِ حال ماضی سے یکسر نہ سہی لیکن بہت حد تک مختلف ہے۔ اب مدارس بہت حد تک بائی پاس رہ گئے ہیں۔ نشانہ کچھ اور ہوتا ہے، راستہ ان کا اختیار کیا جاتا ہے۔ جب فکر ہی اخلاقی اقدار سے خالی ہو تو نتیجۂ فکر اخلاقی اقدار پر مشتمل کیوں کر سامنے آ سکتا ہے؟

طلبا کی توجہ اس پر تو ضرور ہوتی ہے کہ کسی طرح امتحان پاس کر لیں لیکن ایسے طلبا کی تعداد بہت کم ہے جو تعلیم سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ منتہی درجات کے طلبا بھی سنجیدہ سے سنجیدہ مضمون میں بھی غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ تذکرہ جنت کا ہو یا جہنم کا، ان پر کسی قسم کا کوئی تاثر قائم نہیں ہوتا۔ ملک و ملت کے مسائل گفتنی ہوں یا ناگفتنی، ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تو ظاہر ہے کہ جب اس معیار اور قماش کے طلبا مدارس میں شب و روز گزاریں گے تو مدارس سے کسی بہت عمدہ کارکردگی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

5۔ پانچواں اہم سبب یہ ہے کہ مدارس کے اس فکر میں بھی تبدیلی آ گئی ہے کہ ہم خادم ہیں اور عوام مخدوم ۔ پہلے اہل مدارس یہ سمجھتے تھے کہ مدارس کا قیام اس لیے عمل میں آیا ہے کہ وہ ملک و ملت کی خدمت کریں۔ ان کی روحانی ضروریات کی تکمیل کریں، ان کی علمی و فکری رہنمائی کریں اور ان کے لیے پاور ہاؤس کا کام کریں۔ اسی وجہ سے وہ عوام اور ان کے مسائل سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اب صورتِ حال بہت حد تک مختلف ہے۔ اب مدارس کا تعلق عوام سے صرف اس حد تک رہ گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے یہاں بھیجیں اور ہماری مالی مدد بلکہ مکمل کفالت کریں۔ مدارس کو ضرورت ہے کہ عوام ان کی طرف متوجہ رہیں۔ مدارس کا اصل کام تعلیم دینا ہے نہ کہ عوامی مسائل حل کرنا۔ گویا مدارس کی ذمہ داری صرف عوام کے بچوں کو پڑھانا لکھانا اور ان کے اندر تحریر و تقریر کی صلاحیت پیدا کر دینا ہے۔ اس کے بعد وہ بچے اور سرپرست سمجھیں کہ ان کا مصرف کیا ہے؟ خواہ وہ روپیہ کمانے کی مشین بنیں یا ملک و ملت کی خدمت کریں، ان میں سے جس کام میں بھی انھیں لگنا ہو اس کی الگ سے تربیت حاصل کریں اور اپنی پسند کے پیشہ سے وابستہ ہو جائیں۔ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنا، نہ کرنا ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ہر چند کہ مدارس کے دستور العمل اب بھی بہت اعلیٰ ہیں لیکن عملاً صورتِ حال وہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ اس سلسلہ میں مدارس کے موجودہ کردار پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ  یہ مدارس عاملوں کی کھیپ تو تیار کرتے رہیں گے، دل و دماغ باہر ہی سے مستعار لینے پڑیں گے۔

6۔ چھٹا اہم سبب یہ ہے کہ اہل مدارس نے اس نکتہ کو بھی فراموش کردیا ہے کہ مدارس کے قیام کا ایک اہم مقصد دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت بھی تھا۔ کیا یہ امر غور طلب نہیں ہے کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کن لوگوں کے درمیان کرنی ہے؟ آیا ان کے درمیان جو دین اسلام کے حامل ہیں یا ان کے درمیان جو دین سے نا آشنا ہیں؟ اگر دین سے ناآشنا افراد تک دین پہنچانا ہی تبلیغ و اشاعت ہے تو اہل مدارس غور فرمائیں کہ کیا یہ مدارس اپنا یہ کردار ادا کر رہے ہیں؟ آج فضلائے مدارس میں کتنے فیصد ایسے لوگ ہیں جو برادران وطن کی مادری زبان ہندی میں کچھ لکھ سکتے ہیں یا بول سکتے ہیں؟ اور اگر فضلائے مدارس لسانِ ترسیل ہی سے نا آشنا ہوں تو ابلاغ و ترسیل کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے ہیں؟

اس وقت صرف دو زبانیں ایسی ہیں جن کو عالمی زبان قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک عربی دوسری انگریزی۔ غور فرمائیں کہ عربی اور انگریزی میں تحریر وخطابت کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی شرح کیا ہے؟ جن اخلاقی اقدار کے اہل مدارس پاسدار ہیں ان کی اشاعت کا ان کے پاس کیا پروگرام ہے؟ کیا اس موضوع پر سنجیدہ غور و فکر نہیں کیا جانا چاہیے؟

7۔ ساتواں اہم سبب یہ ہے کہ خوش ہمسائیگی اور اعلیٰ ظرفی جو کبھی فضلاے مدارس کا طغراے امتیاز رہی ہے، اب عنقا ہے۔ ہمسائے ہم مذہب بھی ہوتے ہیں اور دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی۔ اگر ہمسائے ہم مذہب ہوں اور ان کے ساتھ سلوک اچھا نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ ان کی طبیعتوں پر آپ کے کردار کا ذاتی منفی اثر پڑے گا، لیکن اگر ان کا تعلق غیر مذہب سے ہے تو یہ ناممکن ہے کہ بدسلوکی کا جو منفی اثر ان ہمسایوں پر ہوگا اس میں ہماری ذات کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہب کی تصویر بھی خراب نہ ہو۔ آخر درس گاہِ نبوی کے فیض یافتگان کی زندگیاں ہمارے لیے اسوہ نہیں ہیں؟ اس مثالی درس گاہ کے مستفیدین نے اخلاقی اقدار پر مشتمل جو معاشرہ تشکیل دیا تھا اسی طرح کا معاشرہ تشکیل دینا تو کجا ہم اس معاشرے کو باقی رکھنے میں بھی کامیاب نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اور برادرانِ وطن اس زہریلے ماحول اور مسموم فضا میں جس عطر بیز معاشرہ کے محتاج ہیں وہ معاشرہ فراہم کرنے میں ہم بری طرح ناکام ہیں۔

ہمیں تسلیم ہے کہ فضا کو مکدر کرنے کی ناپاک کوششوں کا ایک طویل تسلسل ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بدبودار ماحول میں خوش بو کی اہمیت دوچند ہی نہیں ہزار چند ہو جاتی ہے۔ ہماری اخلاقی طاقت کے بنیادی سرچشمے مدارس سے اگر یہ توقع نہ کی جائے تو کن سے کی جائے؟

مدارس کے اخلاقی اقدار سے متعلق یہ تلخ حقیقتیں ہیں جن کا اعتراف کھلے دل سے کیا جانا چاہیے ع

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

تبصرہ  (۲)

سدید ازہر فلاحی، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ سماجیات، دی نیو کالج، چنئی

تعلیم اور اخلاق کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ ایک لمبے عرصے تک تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاق کی تعمیر ہی رہا ہے۔جدید دور میں تعلیم کا پیشوں (Professions) سےتعلق قائم ہوگیا ہے۔جس کے نتیجے میں تعلیم کا بازاری کرن ہوا ہے اور تعلیم برائے کسب معاش (learning for earning) کا چلن عام ہوگیا ہے۔اس صورت حال نے جدید تعلیمی نظام میں تعلیم و اخلاق کے رشتہ کو منقطع کردیاہے۔ تعلیمی منظرنامے میں اس نمایاں تبدیلی کے باوجود دینی مدارس کے مقاصد میںاخلاقی اقدار کی تعلیم کو اصولاً مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

دین کا اصل مقصد انسان کی اخلاقی شخصیت کی نشونما ہے۔اسی کو قرآن تزکیہ سے تعبیر کرتا ہے۔ خدا کا دین زندگی کے تمام شعبوں میں اخلاقی رہنمائی کرتا ہے۔ مثلاً انسان کی سیاسی زندگی کے بے شمار مسائل ہیں۔خدا نے انسانوںکوعقل دی ہے تاکہ وہ ان مسائل کا حل دریافت کرلیں۔ ان مسائل میں خدا کا دین صرف وہاں رہنمائی فراہم کرے گا جہاں کوئی اخلاقی سوال درپیش ہو۔یہی معاملہ دیگر شعبہ ہائے حیات کا بھی ہے۔ اسلام میںعام تصور کے برعکس اخلاق کوئی جزوی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کو محیط ہے۔ دین کا یہ تصور اگر پیش نظر ہو تو دینی مدارس میں اخلاقی اقدار کی تعلیم بھی کوئی جزوی مسئلہ نہیں رہے گا بلکہ مدارس کے پورے تعلیمی نظام میں روح کی طرح سرایت کرجائے گا۔

جدید تعلیمی اداروں میںدیگر مضامین کے علاوہ value education کو بھی ایک اضافی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب کیا جاتا ہے۔میرے خیال میں مدارس کے موجودہ نصاب میں اخلاقی اقدار کی تعلیم کے لیے کسی اضافی مضمون کی ضرورت نہیں ہے بلکہ موجودہ مضامین ہی کی تدریس میں ارتکاز(focus) اخلاقی اقدار کی طرف ہو۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم اخلاقیات کے منبع کی حیثیت سے ہونی چاہیے۔اس سلسلے میں کسی جزوی رد و بدل یا حذف و اضافہ کے بجائے اساسی تبدیلی (paradigm shift)کی ضرورت ہے۔

عام طورپر مدارس میں قرآن کی تدریس کا مطلب جلالین و بیضاوی کی ورق گردانی ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ میں قرآن اس حیثیت سے ایک نمایاں اور لاثانی کتاب ہے کہ اس نے اپنے مخاطبین کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کردیا تھا۔اس کی آیات تعمیراخلاق کے پہلو سے انتہائی مؤثر ہیں۔قرآن کو ایسی کتاب کی حیثیت سے پڑھا یا جانا چاہیے جو زندگی کے مسائل میں انسان کو نہ صرف اخلاقی رہنمائی فراہم کرتی ہے بلکہ جادۂ اخلاق پر قائم رہنے کے لیے اسے ابھارتی ہے۔

حدیث مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے جانے والے نبی کے کلام اور اسوہ کا ریکارڈ ہے۔ حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ فضائل اخلاق اور رذائل اخلاق کے بیان پر مشتمل ہے۔جو مدارس حدیث کی تعلیم و تدریس پر زور دیتے ہیں ان کے یہاں بھی احادیث کے تربیتی پہلوکو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔وہ بس احکام سے متعلق احادیث کو لیتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر جدل کا بازار گرم کرتے ہیں۔

اسلامی فقہ فہم شریعت کی انسانی کوشش کا نام ہے۔شریعت یا اسلامی قانون اصل میں اخلاقی اقدار کی ضابطہ بندی ہے۔مثلاًانسان کا اخلاقی وجود اپنے پروردگار کے آگے خضوع وفروتنی اختیار کرنا چاہتاہے۔نماز اپنے عجز اور خدا کی بڑائی کا اظہار ہے۔ نماز میں قیام ، رکوع اور سجود کے ذریعہ اسی فطری طلب کی ضابطہ بندی کردی گئی ہے۔ہماری فقہ میںنماز کے مسائل کی تعلیم تو ہوتی ہے لیکن اس کی روح کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کا‘صحیح’طریقہ جاننے کے بعد آدمی کبر کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنی نماز کے علاوہ ہر ایک کی نماز پر فتوی داغنے لگتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ فقہ نے اپنے اسکوپ کو ظاہری احکام کے بیان تک محدود کرلیا ہے۔ لیکن روح (spirit) کو نظر انداز کرکے صرف احکام کے ظاہری پہلو(form)کی تعلیم کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر مذہبیت(religiosity)تو پیدا ہوجاتی ہے مگراخلاق سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔بنی اسرائیل کے علماء میں اندر یہی مرض در آیا تھا جس کے سبب وہ عیسی ؑ کے بقول مچھروں کو چھانتے تھے لیکن اونٹ نگل جاتے تھے۔

اس پہلو سے قرآن مجید کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ہر جگہ احکام و قوانین کے پہلو بہ پہلو اخلاقی اقدار کی تعلیم پر خاص توجہ دیتا ہے۔سورۂ انفال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بدر کے بعد مال غنیمت کے سلسلے میں جب لوگوں کا سوال سامنے آیا تو قرآن نے مسئلہ بعد میں بیان کیا مگر اخلاقی اقدار کی طرف توجہ پہلے مبذول کرائی۔ مال غنیمت کو نفل یعنی زائد قرار دے کر بتایا کہ مال غنیمت اصل مقصود نہیں ہے ۔پھر بتایا کہ یہ انفال اصلاً اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔تمہارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ تم اللہ سے ڈرتے رہو اور اصلاح ذات البین کی طرف توجہ دو۔یہ ایک مثال ہے ۔قرآن مجید کا عام اسلوب یہی ہے کہ وہ مسائل کے بیان کے ساتھ اخلاقی اقدار کی تلقین کی طرف بھرپور توجہ دیتا ہے۔

جدید تعلیمی اداروں میں مراجع (reference books)اور نصابی کتابوں میں فرق ہوتا ہے۔ہمارے یہاں عام طور پریہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔خصوصاً فقہ کی تعلیم قدیم کلاسیکی درجہ کی کتابوں ہی کے ذریعہ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلبا کی ضرورت ، ان کی استعداد اور موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت نہیں ہوپاتی۔ برصغیر کے مدارس میں چونکہ فقہ ہی کے محور پر قرآن و حدیث جیسے مضامین بھی گھومتے ہیںاس لیے یہاں کے فارغین دین کو ایک مجموعۂ قوانین سے زیادہ نہیں سمجھتے اور اسی انداز سے اس کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔

دینی مدارس کے نصاب کا ایک اہم جز عقیدہ کی تعلیم ہے۔اس میں بنیادی ایمانیات سے آگے بڑھ کر علم کلام کی معرکہ آرائیاں موضوع بحث ہوتی ہیں۔لیکن یہ بات واضح نہیں ہوپاتی کہ عقیدہ کی بنیادبھی اخلاق ہی ہے۔قرآن نے جگہ جگہ شرک کی ممانعت سے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ شرک کی ممانعت کی اصل وجہ اس کی اخلاقی قباحت ہے۔قرآن یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اسے پال پوس کر بڑا کرنے والے ماں باپ کا احساس شناس بنے اور یہی احسان شناسی اس کے اندر خدا کی ربوبیت کا شعور اور منعم حقیقی کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرے گی۔

دینی مدارس میں عربی ادب کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔جاہلی کلام میں جہاں شجاعت و سخاوت جیسی اعلی اخلاقی قدروں کا بیان ملتا ہے وہیںبعض اشعار واردات حسن و عشق کے بیان سے آگے بڑھ کر فحاشی کے حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔کلیلہ و دمنہ عام طور پر مدارس میں داخل نصاب ہے۔ اس میں بعض مقامات نہایت فحش ہیں۔ڈاکٹر ف عبدالرحیم نے اس پرتنقید بھی کی ہے اور اس کے متبادل کے طور پر اسلامی نصوص پر مشتمل ادبی شہ پارے بھی اپنی بعض کتابوں میں جمع کردیے ہیں۔ اس نوعیت کی کوششوں کو بھی داخل نصاب کیا جاسکتا ہے۔

دینی مدارس چونکہ طلبا کو دین کا عالم اور انبیاء کا وارث بنانا چاہتے ہیں اس لیے ان کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ وہ معلمین اخلاق کی فوج تیار کریں۔ دینی مدارس عموما ًدین کے بجائے مسلک کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات پہلے دن سے طے کردی جاتی ہے کہ اس مدرسہ کا فارغ حنفی ہوگا یا اہل حدیث، بریلوی ہوگا یا دیوبندی۔ یہ بات علم کی اخلاقیات کے سراسر منافی ہے۔دین کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ آدمی حق کے آگے سر تسلیم خم کردے۔ہر طرح کے مفادات اور تعصبات سے پاک ہو کر حق کا علمبردار ہونااخلاق کا اعلی ترین مقام ہے۔

ہمارے مدارس میں یہ بات نہیں سکھائی جاتی ہے کہ علمی بددیانتی ایک اخلاقی برائی ہے۔ ان مدارس کے فارغین میں خال خال ہی ایسے افراد ہیں جو فریق مخالف کی بات کو من و عن بیان کرکے اس پر علمی نقد کرناجانتے ہیں۔اپنے مسلک سے ہٹ کر رائے رکھنے والے کے سلسلے میں دروغ گوئی، بہتان تراشی، اس کی تحریروں میں کتربیونت کرناان کا عام رویہ ہے۔ ہمارے مدارس میں ‘باطل فرقوں’کے رد کے لیے جو شعبے قائم ہیں ان میں یہ بتایا ہی نہیں جاتا ہے کہ علمی دیانت داری بھی ایک اخلاقی قدر ہے۔ ہمارا دین کلمہ سواء کی بنیاد پر اہل کتاب سے اشتراک کی بات کرتا ہے مگر ہمارے مدارس میں یہ سکھایا نہیں جاتا کہ علمی آراء کے اختلاف کے باوجود بھی شخصیات کا احترام ممکن ہے۔

مدارس کے نصاب سے ہٹ کر مدارس کے نظام اور ماحول سے متعلق بہت سارے اخلاقی مسائل ہیں۔ان کا تعلق مدارس کے ذمہ داران سے بھی ہے اور اساتذہ سے بھی۔ ہمارے مدارس میں ذمہ داریوں کی تفویض قابلیت، شفافیت اور شورائیت جیسی اخلاقی قدروں کو پامال کرکے موروثیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔اساتذہ میں معاصرانہ چشمک ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بعض اساتذہ درشت خوئی و دشنام طرازی اور زد و کوب کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ طلبا سے ذاتی خدمت لینا اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا بھی بعض مدرسین کا شیوہ ہے۔‘ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک ’ کی تعلیم پانے والے اس عملی ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

تکثیری سماج میں اخلاقی رویہ کے سلسلے میں قرآن و حدیث میں واضح رہنمائی موجود ہے۔قرآن تعاون علی البرو التقوی، غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک و انصاف جیسی قدروں پر صاف الفاظ میں زور دیتا ہے۔وہ ہمیں انصاف کی گواہ اور انصاف پر قائم رہنے والی امت کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔وہ یہ کہتا ہے کہ اپنوں کی محبت یا دوسروں سے دشمنی تمہیں جادۂ انصاف سے منحرف نہ کردے۔لیکن تکثیری سماج میں اخلاقی رہنمائی ان مدارس کا کنسرن نہیں ہے اس لیے کہ ان کے یہاں اسلام دین دعوت نہیں ہے بلکہ ایک دائرے کا نام ہے جس کے دیگر مسالک و مشارب کے لوگوں کو خارج کرناان کا فرض منصبی ہے۔

خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں اخلاقی اقدار سے متعلق مضمون کی پیوند کاری کے بجائے اس کے پورے رخ(orientation)کو تبدیل کیا جائے تاکہ ان مدارس کے فارغین اسلامی اخلاقیات کے نمونہ اور علمبردار بن سکیں۔

تبصرہ (۳)

زبیر ملک فلاحی، لکھنؤ

واضح رہے کہ اقدار کی تعلیم کا مسئلہ موجودہ دور کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کا ہے۔ موجودہ دور کی تشریح بڑی لمبی ہے۔ ہمارے مدارس اسلامیہ کسی اور ہی دور کی یادگار ہیں اور مکمل یادگار ہیں۔

کیا ہمارے مدارس ہمارے معاشرہ کا حصہ ہیں؟۔ حقیقت میں یہ جس معاشرہ کا حصہ تھے اور جس تہذیب و ثقافت کے پروردہ تھے اسے ہم آسانی کے لیے مشرقی تہذیب کہہ لیتے ہیں۔ یہ تہذیب اب باقی نہیں رہی اور نہ ہی وہ معاشرہ باقی رہا، اس لیے اس کا ہر کونا موجودہ تہذیب کے سوراخ میں پھنستا ہے۔

رہا مسئلہ متعین طور پر اخلاقی اقدار کا اور ان کی تعلیم کا تو جہاں شروع سے آخر تک قرآن اور حدیث کی کتابیں ہی پڑھائی جاتی ہوں وہاں اقدار تو بہت ہلکی بات ہے۔ فرائض و عقائد سے لے کر مستحبات، آداب اور فضائل تک گھول کر پلایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے ہی نہیں مسئلہ شاکہے کا ہے۔

بھلا بتائیے کیا کوئی پودا اپنے ماحول اور آب و ہوا سے بے نیاز ہو کر بارآور اور ثمر بار ہو سکتا ہے۔ اہل مدارس جدید یعنی موجودہ معاشرے کو جانتے ہی نہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ سراسر غلط اور پلید ہے۔ پھر اصلاح کے لیے بھی اس کا مطالعہ نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے لیے آئیڈیل ان کی مرحومہ مشرقی تہذیب ہی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے جو اپنے دور ہی کو نہ جانے وہ اس سے کیا لے سکتا ہے اور کیا دے سکتا ہے۔

مدارس میں ہمارا جو بیانیہ ہے وہ فیصلہ کرنے کا ہے۔ یہ صحیح ہے وہ غلط، یہ حق وہ ناحق، فلاں موحد باقی سب شرک و بدعات سے آلودہ، ضال مضل وغیرہ وغیرہ۔ لہذا جیسا Input ہے ویسا ہی Output ہے۔ میرا خیال ہے کہ مدارس کا پورا نصاب اور اس کا بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے طلبا واساتذہ کو عہد حاضر میں لا کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاملہ کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ مدارس میں طلبا آتے کہاں سے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مدارس میں بیش تر طلبا برضا و رغبت نہیں آتے ہیں۔ نہ ان کے والدین انھیں دین کی محبت میں وہاں بھیجتے ہیں۔ الا ماشا ء اللہ۔

جہاں تک تکثیری معاشرے کی بات ہےانھیں اس کی خبر ہی نہیں۔ ہم مدارس میں یہود و نصاریٰ اور عرب مشرکین کے دقیق معتقدات کا علم حاصل کرتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ جو قوم ہمارا مدعائے اول ہے اس کے معتقدات، نفسیات، رسوم و رواج، اس کی کتابوں اور اس کے رجال کے بارے میں ہماری معلومات بمنزلہ صفر ہیں۔ جہاں علم ہی نہیں وہاں تاثیر و تاثر کی نوبت کہاں آئے گی۔ پٹی پٹائی ڈگر ہے اس پر صم بکم چلے جارہے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ مدارس کے طلبا کو شروع سے ہی حالات سے جوڑ دیا جائے، کارگہِ حیات میں لاکھڑا کیا جائے پھر سمجھ میں خود بخود آ جائے گا کہ زمین سخت ہے کہ نرم ہے۔ غالباً سید قطب شہید نے کہیں لکھا ہے کہ الفقہ ولید الدعوۃ۔مطلب یہ کہ داعی کو حالات سب کچھ سکھا دیتے ہیں۔

اصلاح حال کے لیے موجودہ صورت حال میں بہت سے راستے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً: ان موضوعات پر کارگاہیں منعقد کی جائیں، توسیعی خطبات کے ذریعے صورت حال واضح کی جائے، منتخب طلبا کا دورہ علمیہ کرا یا جائے، غیر دینی مدارس کے اہل علم کو مدارس میں کچھ دنوں تک استاذِ زائر کی حیثیت سے رکھا جائے، قرب وجوار کی آبادیوں میں معقول اساتذہ کی رہنمائی میں لے جایا جائے، سروے کرایا جائے، محلہ اور گاؤں کی سطح پر وہاں کے مسائل کا سروے کرایا جائے اور حکومت کی اسکیموں کے بارے میں بتایا جائے اور اس میں عوام کی مدد کے طریقے بتائے جائیں، غیر مسلم اہل علم اور شخصیات سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

تبصرہ (۴)

وارث مظہری، ( اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اسلامک اسٹڈیز،جامعہ ہم درد،نئی دہلی)

طلبا کی تربیت اور ان کی تعمیرسیرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ  ذوق جمال اور خوش سلیقگی سے آشنا ہوں ۔بھدا پن اوربدسلیقگی ان کے مزاج میںنہ ہو۔ آج یہ عمومی شکایت مدارس کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ وہاں نظافت کے اسلامی اور طبعی اصولوں کو برتا نہیں جاتا۔وہاں صفائی ستھرائی کا معقول اہتمام نہیں ۔ دارالاقامے کی عمارت اورا س کی ظاہری حالت خواہ کتنی ہی قابل رشک ہو، طلبا کا رہائشی ماحول نہایت بھدے پن کا شکار ہوتا ہے۔بیت الخلا اور نہانے دھونے کا نظام نہایت ناقص ۔ ہر جگہ گندگی نظر آتی ہے۔ خاص طور پرشمالی ہند کے اکثر مدارس کا ماحول نظافت کے اسلامی اصول و ذوق کے برعکس ہوتا ہے۔ اس سے ایک طرف طلبا کا ذہن خراب بگڑتا ہے تودوسری طرف باہر سے آنے والوں کا مدارس کے بارے میں تاثر خراب ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نیویارک ٹائمس کی ایک نمائندہ سیلیاوی ڈگر (Celia W Dugger )نے چند سال قبل ملک کے ایک مشہور بلکہ ام المدارس سمجھے جانے والے ادارے کا دورہ کیا اور اس کے بعد ایک تحریر اس عنوان سے لکھی:  but not in politics  Brothers in Islam

اس میں انہوں نے لکھا:

‘‘دیوبند سے ایک میل سے کم کی مسافت پر واقع ‘‘لبکری’’ نامی ایک مسلم اکثریت والاگائوں ہے۔ اس کے باشندے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن دارالعلوم کے علما کی پیش کردہ اسلامی عمل کی پاکیزگی و طہارت اس کے قریب ترین گائوں تک بھی نہیں پہنچ پائی ہے’’۔(The New York Times,26 Feb 2002)

اسلامی تعلیم کی روایت میں تربیت اخلاق کو تعلیم کا اصل جوہر تصور کیا جاتا رہا ہے۔ امام احمد کے بارے میںا ن کے بعض شاگر دوں نے لکھا ہے کہ میں ان کے درس میں ان سے حدیثیں نہیں لکھتا بلکہ ان سے تربیت اور اخلاق سیکھتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ دور میں تربیت اور تعلیم دونوں الگ الگ  شعبے ہوگئے ہیں۔اساتذہ صرف معلم بن کر رہ گئے  ہیں۔ وہ مربی نہیں رہے۔

ہندوستان کے کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی معاشرے کا اپنا ایک مزاج ،اپنی روایات واقدار اور اپنی حساسیتیں اور نزاکتیں ہیں۔ اس تناظر میں اہل مدارس کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔برادران وطن انہیں مسلمانوں کے قائدین ونمائندگان کی شکل میں دیکھتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ وہ قولی وعملی ،انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اعلی انسانی اخلاق کا نمونہ ہوں۔ اہل مدارس کی طرف سے انفرادی اخلاق کے مظاہرتو بلاشبہ نظر آتے ہیں لیکن اجتماعی اخلاق کے مظاہر بہت کم سامنے آتے ہیں۔ اجتماعی اخلاقیات کا پہلا اصول یا بنیاد وہ ہے جس کا ذکر حدیث میں ان لفظوں کے ساتھ آیا ہے کہ: ‘‘تم دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو، جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔’’ (مسلم:کتاب الایمان) اوراجتماعی اخلاق کے مظاہر میں سب سے زیادہ اہم خدمت خلق کا جذبہ ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہل مدارس کا یہ جذبہ عمومی سطح پر بہت حدتک صرف مسلمانوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔مدارس، تنظیمیں،خدمت خلق کے ادارے ،تحریکیں سب مسلم رخی ہوتی ہیں۔ ایسی مثالیں بمشکل نظر آتی ہیں کہ،مثلا تعلیم وصحت کے ادارے کے قیام کا مقصود اپنی ملت سے اوپر اٹھ کر عمومی سطح پر لوگوں کی خدمت کرنا ہو ۔اس وقت ہندوستان کا سماج بہت سی ایسی خرابیوں اوربیماریوں کی زد میں ہے جن سے اس کا تانا بانا کم زور اور بکھر کر رہ گیا۔ناخواندگی ،منشیات کا پھیلاؤ ،فرقہ وارانہ فسادات ،جرائم کی کثرت اور ماحولیات سے تعلق رکھنے والے مسائل ہیں۔طلبا مدارس کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس طرح کے مسائل میں ان کا عملی رویہ کیا ہونا چاہیے؟ وہ اس طرح کے مسائل کا اسلام کی روشنی میں کیا حل دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں؟

مسلمانوں میں خدمت خلق کے جذبے اورکوششوں کو پروان چڑھانے اور اس توقع کو روبہ عمل لانے کے لیے کہ خدمت خلق اور تعاون باہمی کے ادارے ضروری تعداد میں مسلمانوں میں بھی قائم ہوسکیں،خود ہمارے طلبا و فضلاے مدارس کو آگے آنے کی ضرورت ہے جس کا سبق ہمیں‘‘ حلف الفضول’’ کے واقعے میں ملتا ہے۔ حدیث رسول کے مطابق:’‘یہ دنیا خدا کا کنبہ ہے’’(الخلق عیال اللہ۔بیہقی)۔حلف الفضول کی اسپرٹ یہ ہے کہ اس کنبے کو باہم جوڑے رکھنے ،انسانیت کی مشترک قدروں کی حفاظت اورفروغ کے لیے متحدہ جدو جہد کی جائے۔حقیقت یہ ہے کہ آج ایسے مسائل زیادہ ہیں جن کے حل کے لیے بین مذہبی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس نوع کے اتحاد و اشتراک عمل کے بغیر یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے اور تباہی وبربادی کی طرف بڑھتی ہوئی انسانیت کے قدم نہیںرک سکتے۔طلبا وفضلاے مدارس کو برادران وطن کے ساتھ مل کر ایسی تحریکیں اور تنظیمیں وجود میں لانی چاہئییں جوان کے مسائل کے حل میں معاون ہوں۔ قدرتی آفات ومصائب کے مواقع پر ہمارے طلبا وفضلاے مدارس کا مطلوبہ رویہ اہل سیاست کی طر ح محض اظہارغم اور بیان بازی کے بجائے خود عملی طور پر درد مندی کے اظہار اور غم کو بانٹنے کا ہونا چاہیے۔ انسانی نفسیات پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔برادران وطن کے درمیان مدارس کی شبیہ کو بہتر بنانے اور اسکی اہمیت کواجاگر کرنے کا یہ ایک اہم وسیلہ ہے۔ ہم سبھوں کواس حقیقت کا علم ہے کہ عیسائی مشنریوں کے تبلیغی کاموں کی سب سے اہم بنیاد سماجی مسائل سے ان کی وابستگی اور ان کے حل میں ان کی نمایاںحصہ داری ہے۔وہ بیماری ،غربت اور ناخواندگی جیسے مسائل کے شکار لوگوں کی مسیحائی کرتے ہیں اور یہی ان کے مذہب کی تبلیغ کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

ہندوستان کے دینی مدارس میں اخلاقیات کی تعلیم اور مدارس کے طلبا وفضلا کے اندر اخلاقی شعور کو بیدار کرنے کے حوالے سے اوپر چند باتیں عرض کی گئیں۔اس حوالے سے چند اور اہم عملی نکات پرتوجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کا موجودہ نصاب ونظام تعلیم اخلاقی سطح پر اپنے طلبا وفضلا کی ایسی شخصیت سازی سے قاصرہے جو معاصر دنیا میںاپنا مطلوبہ رول ادا کرسکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پورے نظام ونصاب پرنظر ثانی کی جائے ۔نصاب کی سطح پرسب سے اہم اور ضروری امر یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کودرس وتدریس کے عمل میں خصوصی توجہ دی جائے۔اخلاق سے متعلق احادیث ابتدائی درجوں میں بچوں کو حفظ کرائی جائیں۔فقہ وحدیث کی تدریس کو صرف فقہی وقانونی امورواحکام کی تعلیم اور بحث ومباحثوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے مدارس کے فضلا کو اپنے فقہی مستدلات سے تعلق رکھنے والی احادیث تو متن کے ساتھ ازبر ہوتی ہیں لیکن اخلاقیات سے تعلق رکھنے والی احادیث بہ مشکل ہی ان کے ذہن کے کسی خانے میںمحفوظ ہوتی ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں سیرت رسول کو مطلقا نظر انداز کردیا گیا ہے۔اس لیے مدارس کے فضلااپنے مدارس کے تعلیمی دورانیے میں بمشکل ہی رسول اللہ کی سیرت کے مطالعے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔یہ ایک بڑی خامی ہے جس کودور کرنا چاہیے۔ اب فارسی درجات کی مدارس کے نظام میں کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ عربی کے ابتدائی درجات میں اخلاقیات کی تعلیم کے حوالے سے دو ایک کتابوں کو نصاب کا جز بنایا جائے۔جس کا مقصد فلسفہ اخلاقیات کوپڑھنا پڑھانا نہ ہو بلکہ عملی اخلاقیات کوسیکھنا سکھانا ہو۔ہمارے علمی تراث میں درجنوں ایسی کتابیں یا کتابوںکے ابواب ہیں جو اس مقصد کوپورا کرتے ہیں لیکن ہم نے انہیں نظر اندازکررکھا ہے: احیاء علوم الدین(غزالی) ادب الدنیا والدین(ماوردی) ،روضۃ العقلاء ونزہۃ الفضلاء(محمد بن حبان البستی)،اغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان(ابن قیم) ۔ یہ اور اس نوع کی دیگر نہایت اہم کتابوں کی فہرست طویل ہے۔

نصاب اور طریقہ تعلیم کی سطح پر تبدیلی کے علاوہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وقفے وقفے سے ادب واخلاق سے تعلق رکھنے والے مختلف موضوعات پر ورک شاپس منعقد کی جائیں۔یہ کام مدارس کے علاوہ  اسلامی تنظیمیں بھی کرسکتی ہیں۔لیکن پہل خود مدارس کی طرف سے ہونی چاہیے۔ غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ انٹرکشن اور میل جول کے لیے ایسے پروگرام وضع کیے جانے چاہئیں جو ملک کی سماجی صورت حال کو بہتر بنانے میں معاون ہوں۔مدارس کی طرف سے مختلف زبانوں میں ایسے لٹریچر کی اشاعت بھی ضروری ہے جن سے ایک طرف خود فضلا کی ذہنی تربیت کا کام لیا جاسکے اور دوسری طرف وہ دیگر مذاہب کے افراد سے تعلقات کواستوار کرنے اور ان کے اشتراک سے سماجی اصلاح کے کام کو آگے بڑھانے میں بنیادی منشور کا کام دے سکیں۔

ایک اہم مسئلہ جس پرتوجہ کی ضرورت ہے وہ غیر مسلموں کے ساتھ تعامل کے حوالے سے ہمارے فقہی اقوا ل واحکام ہیں۔غیر مسلموں کو سلام کرنا، ہدایا کا تبادلہ، ان کی تعزیت یا عیادت، ان کی ضیافت، تقریبات میں شرکت، تہواروں پر انھیں مبارکباد دینا، انھیں گواہ بنانا، ان کے برتنوں اور کپڑوں وغیرہ کا استعمال، یہ تمام مبحث ومباحثے جو ہماری متاخر دور کی فقہ نے پیدا کیے، ان میں سے بہت کچھ وہ ہیں جو عام انسانی واجتماعی اخلاق کے تصور سے بھی میل نہیں کھاتے کجا کہ ہم اسلام کے عالم گیر تصور اخلاق کے فریم ورک میں رکھ کر ان کی تردید کرسکیں ۔ ارباب مدارس کو سنجیدگی سے اس پرغور وخوض کرنے کی ضرورت ہے کہ سلام کے تہذیبی عروج کے دور میں ذمہ کے تصور کے فریم ورک میں تشکیل پانے والے ان فقہی تصورات واقوال کی ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں کیا معنویت باقی رہ گئی ہے؟

سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے طلبا وفضلائے مدارس کی اخلاقی تربیت سے متعلق یہ چند ضروری باتیں تھیںجو یہاں ذکر گئیں۔یہ اور اس طرح کے دوسرے اہم امور کوتوجہ کا عنوان بنائے بغیر فاضلین مدارس کی ایسی فاضل اور جامع شخصیت وجود میںنہیںآسکتی جودین اور ملک وملت کے تئیں اپنے اوپر عائد ہونے والی اخلاقی ذمہ داریوںسے عہدہ برآہوسکے اور موجودہ دور میںاسلام کی صحیح نمائندگی کا فریضہ انجام دے سکے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau