اگر اللہ کی اطاعت کی طرف بلانے کا جذبہ تو دل میں ٹھاٹھیں مار رہا ہو لیکن اللہ کی عبادت کرنے کا جذبہ سرد پڑا ہو تو اپنے سلسلے میں بہت زیادہ فکرمند ہوجانا چاہیے۔
اللہ کی محبت انسان کو اس کی عافیت گاہ سے نکال کر میدانِ کارزار میں لاتی ہے جہاں وہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کوشش و محنت کرتا ہے۔ اللہ کی محبت ہی انسان کو اس کی آرام گاہ سے اٹھاکر عبادت گاہ میں لاتی ہے جہاں وہ قیام و سجود کرتا ہے۔ اسلامی تحریک محبت کے ان دونوں مظاہر سے عبارت ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک کے ہر کارکن سے توقع کی جاتی ہے کہ اس کی شخصیت ان دونوں ہی خوبیوں سے آراستہ ہوگی۔
قرآن کی حسین و جمیل تصویریں
قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان والوں کی جو تصویریں پیش کی گئی ہیں ان میں یہ دونوں ہی پہلو روشن اور نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہم یہاں چند تصویریں پیش کریں گے:
وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِینَ یمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا. وَالَّذِینَ یبِیتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِیامًا. [الفرقان: 63-64]
(رحمن کے اصلی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں، اور جاہل ان کے منھ کو آئیں تو کہ دیتے ہیں تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں رات گزارتے ہیں)
پہلی آیت رحمان کے بندوں کی تحریکی محنت کی عکّاسی کرتی ہے۔ وہ کسی گوشے میں قید اور حجرے میں بند نہیں رہتے بلکہ انسانوں سے آباد زمین میں چلتے پھرتے ہیں۔ ان کی چال میں وقار و انکسار ہوتا ہے۔ وہ خاموش نہیں رہتے بلکہ انسانوں سے بات کرتے ہیں، تاہم نادانوں کے منھ نہیں لگتے، خوب صورتی سے ان کے ٹریپ سے بچ نکلتے ہیں۔
دوسری آیت رحمان کے بندوں کی عبادت گذاری کا ایمان افروز منظر پیش کرتی ہے کہ ان کی راتیں قیام و سجود اور ذکر و مناجات میں بسر ہوتی ہیں۔
سورہ مزمل کی ابتدائی آیتوں میں بھی یہ دونوں پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔
یاأَیهَا الْمُزَّمِّلُ. قُمِ اللَّیلَ إِلَّا قَلِیلًا. نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیلًا. أَوْ زِدْ عَلَیهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا. إِنَّا سَنُلْقِی عَلَیكَ قَوْلًا ثَقِیلًا. إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیلِ هِی أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا. إِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیلًا. [المزمل: 1–7]
(اے چادر میں لپٹنے والے ! رات میں قیام کر مگر تھوڑا حصہ۔ آدھی رات یا اس میں سے کچھ کم کردے۔ یا اس پر کچھ زیادہ کرلے اور قرآن کی تلاوت کر ٹھہر ٹھہر کر۔ ہم تم پر عنقریب ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ بےشک رات میں اٹھنا جم کر کھڑے ہونے اور صحیح تر بات ادا کرنے کے لیے نہایت خوب ہے۔ دن میں دوڑ دھوپ کا کافی موقع ہے۔ )
دعوت کے جذبے سے سرشار بندے کو دن بھر میں ایک طویل مہم سر کرنی ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ حق کا پیغام ان تک پہنچانا ہوتا ہے۔ دن بھر کی یہ لمبی سرگرمی روحانی غذا چاہتی ہے۔ لیکن دن میں اس کے لیے سازگار موقع نہیں ملتا۔ رات میں ایک تو فرصت ہوتی ہے، لوگ سو جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رات کی عبادت بڑی سازگار ہوتی ہے۔ قیام و سجود اور تلاوت و مناجات میں بے پناہ لطف آتا ہے۔ غرض مومن ہر دم سرگرم ہوتا ہے۔ دن میں دعوت و اصلاح اور تعلیم و تربیت کی سرگرمی اور رات میں قیام و سجود اور ذکر و مناجات کی سرگرمی۔
سورہ مدثر کی ابتدا میں بھی دونوں سرگرمیوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
قُمْ فَأَنْذِرْ . وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ . [المدثر: 2، 3]
(اٹھو، خبردار کرنے کا کام کرو اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔)
انذار ایک دعوتی سرگرمی ہے اور تکبیر عبادت کی تعبیر ہے۔
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تو ایک ہی جملے میں دونوں پہلو سمیٹ دیے۔
یابُنَی أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. [لقمان: 17]
(اے میرے بیٹے ! نماز کا اہتمام رکھو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمھیں پہنچے۔ اس پر صبر کرو۔ بیشک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں۔)
ایک طرف نماز کا اہتمام کرنے کی نصیحت تو دوسری طرف نیکیوں کی تبلیغ اور برائیوں کے ازالے اور اس راہ میں تکلیفوں پر صبر کرنے کی نصیحت۔
اسلامی تحریک سے وابستہ افراد کو اسی طرز پر اپنی تربیت کرنی چاہیے۔
اسی طرح درج ذیل آیتیں بڑے فکر انگیز اسلوب میں تحریک و عبادت کے حسین امتزاج کا تصور دیتی ہیں۔
وَإِنْ كَادُوا لَیسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِیخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَا یلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِیلًا. سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا. أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّیلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا. وَمِنَ اللَّیلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ یبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا. وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِیرًا. وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۔ [الإسراء: 76–81]
اور بے شک یہ اس سرزمین سے تمھارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تاکہ یہ تم کو یہاں سے نکال چھوڑیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو تمھارے بعد یہ بھی ٹکنے نہ پائیں گے۔ ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے ان کے باب میں یہی رویہ رہا ہے اور تم یہ نہیں پاؤگے کہ ہماری سنت ٹل جائے۔ نماز کا اہتمام رکھو زوال آفتاب کے اوقات میں، شب کے تاریک ہونے تک اور خاص کر فجر کی قراءت کا اہتمام کرو۔ بے شک فجر کی قراءت بڑی ہی حضوری کی چیز ہے۔ اور شب میں تہجد پڑھو، یہ تمھارے لیے خصوصی سوغات ہے۔ توقع رکھو کہ تم کو تمھارا رب قابل تعریف کیفیت میں اٹھائے۔ اور دعا کرو کہ اے میرے رب مجھے باعزت اندر جانا اور باعزت باہر نکلنا عطا کر اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت نصیب کر۔ اور اعلان کرو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا اور باطل نابود ہونے والی چیز ہے۔ )
ان آیتوں میں ایک حسین رنگ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی کوشش و محنت کا ہے۔ مخالفت کرنے والے اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کے داؤ چل رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ داعی حق کو جلاوطن کرنے کے درپے ہیں، جب کہ داعی حق صبر و استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر عمل پیرا ہے۔ دوسرا حسین رنگ عبادت کا ہے۔ سورج کے زوال سے رات تک کی نمازیں، پھر فجر کی طویل قراءت والی نماز اور خاص طور سے رات کی تہجد گزاری۔ نمازوں کے ساتھ مناجاتیں اور نصرتِ خداوندی کے لیے دعائیں۔ للہیت والے ان دونوں رنگوں کا حسین امتزاج جب اپنے کمال پر پہنچ جائے، تو حق کے غالب ہونے اور باطل کے مغلوب ہوجانے کا مبارک وقت آجاتا ہے۔
جہاد و عبادت سے مرکّب ایک حسین دعا
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک خاص دعا یہ تھی:
رَبِّ أَعِنِّی، وَلَا تُعِنْ عَلَی، وَانْصُرْنِی وَلَا تَنْصُرْ عَلَی، وَامْكُرْ لِی وَلَا تَمْكُرْ عَلَی، وَاهْدِنِی وَیسِّرِ الْهُدَى لِی، وَانْصُرْنِی عَلَى مَنْ بَغَى عَلَی، رَبِّ اجْعَلْنِی لَكَ شَكَّارًا لَكَ، ذَكَّارًا لَكَ، رَهَّابًا لَكَ، مِطْوَاعًا لَكَ، مُخْبِتًا إِلَیكَ، أَوَّاهًا مُنِیبًا، تَقَبَّلْ تَوْبَتِی، وَأَجِبْ دَعْوَتِی، وَاهْدِ قَلْبِی، وَثَبِّتْ حُجَّتِی، وَسَدِّدْ لِسَانِی، وَاسْلُلْ سَخِیمَةَ قَلْبِی. (مستدرك حاكم)
(اے میرے رب! میری مدد فرما، اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر۔ مجھے نصرت دے اور میرے خلاف نصرت کا فیصلہ نہ کر۔ میرے لیے تدبیر کر اور میرے خلاف تدبیر نہ کر۔ میری رہ نمائی کر اور رہ نمائی پر عمل کو میرے لیے آسان کر۔ ان لوگوں کے خلاف میری مدد فرما جو مجھے زیادتی کا نشانہ بنائیں۔ اے میرے رب! مجھے اپنا شکر گزار بنا۔ اپنے ذکر کا خوگر بنا۔ اپنے خوف سے میرا دل لبریز رکھ۔اپنی اطاعت کو میرا شوق بنادے۔ مجھے اپنی طرف جھکنے والا بنادے۔ اپنی محبت سے میرے دل کو معمور کردے۔ میں تجھ سے لو لگانے والابن جاؤں۔ میری توبہ قبول فرمالے۔ میری دعا کو سن لے۔ میرے دل کو ہدایت دے۔ میرے کو دلائل کو مضبوطی عطا فرما۔ میری زبان کو راستی دے۔ میرے دل کی کدورت کو دور کردے۔)
اس دعا کے الفاظ پر غور کریں۔ اس کے پہلے حصے میں معرکہ حق و باطل برپا نظر آتا ہے اوراس کے دوسرے حصے میں شوقِ عبادت امنڈتا محسوس ہوتا ہے۔
کیا ہی خوب ہو کہ اسلامی تحریک کے افراد جب کسی مہم پر نکلیں تو اس دعا کا پہلا حصہ پڑھتے ہوئے جائیں۔ اللہ کی مدد، اس کی نصرت، اس کی تدبیر، اس کی رہ نمائی غرض ہر وہ چیز شاملِ حال ہو جس کی ضرورت کسی دینی مہم کو انجام دیتے وقت پڑتی ہے۔
اور جب وہ واپس ہوں تو دعا کے دوسرے حصے کو پڑھتے ہوئے لوٹیں۔ کوشش و محنت کے میدان سے ذکر وعبادت کے گوشے کی طرف۔
ابن عساکر: مثالی تحریکی شخصیت
چھٹی صدی ہجری میں جب کہ صلیبی فوجیں عالم اسلام کو بے دردی سے روند رہی تھیں اور ہر طرف خوف اور مایوسی کا اندھیرا تھا، اسلامی تاریخ کے آسمان پر کچھ روشن ستارے نظر آتے ہیں ان میں ایک عظیم نام امام ابن عساکرؒ کا ہے۔ ان کے سلسلے میں مورخین نے لکھا ہے کہ صلیبیوں کے خلاف نور الدین زنگی کو ہمت دلانے اور مسلم ملت کو خوف اور مایوسی سے نکال کر جہاد و عزیمت کے میدان میں لانے میں ابن عساکرؒ کا کلیدی کردار تھا۔
ابن عساکرؒ کی شخصیت اسلامی تحریک کے ارکان کے لیے ایک عمدہ مثال ہے۔ امام ذہبی نے ابن عساکر ؒ کے سلسلے میں ابو المواہب کی جو گواہی رقم کی ہے، وہ قابلِ رشک ہے:
“میری نگاہ نے ان کے جیسا شخص نہیں دیکھا۔ میں نے کوئی ایسا فرد نہیں دیکھا جس کے اندر وہ سب عمدہ اوصاف اکٹھا ہو گئے ہوں جو ان کے اندر جمع تھے۔ چالیس سال تک پانچوں نمازوں میں پہلی صف میں رہنے کی پابندی کرتے رہے، سوائے اس کے کہ کوئی عذر پیش آجائے۔ رمضان میں اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں اعتکاف کا اہتمام کرتے۔ جائیدادیں حاصل کرنے اور حویلیاں بنانے میں بالکل رغبت نہ تھی۔ اپنے دل سے یہ سارے شوق نکال دیے تھے۔ امامت و خطابت جیسے مناصب سے دور رہتے اور جب پیش کیے جاتے تو منع کر دیتے۔ اہل اقتدار کے یہاں حاضری سے گریز کرتے۔ انھوں نے اپنے آپ کو نیکیاں پھیلانے اور برائیاں مٹانے پر لگا دیا تھا۔ انھیں اللہ کی راہ میں کسی کی ملامت کی پروا نہ تھی۔” (سیر اعلام النبلاء)
جامع اور متوازن شخصیت
اسلامی شخصیت کا حسن یہ ہے کہ اس میں جامعیت اور توازن ہو۔ علم و فقہ میں تفوق، زہد و عبادت میں نمونہ اور دعوت و اصلاح میں پیش پیش۔ اسلامی تحریک کو ایسے افراد مطلوب ہیں جو علمی میدانوں میں ترقی کریں، خیر و شر کے معرکے میں سرگرم رہیں اور عبادت گذاری میں منہمک رہیں۔
اسلامی تاریخ میں ایسی شخصیات کا تذکرہ ہمیں ہر دور میں ملتا ہے۔ سوانح نگار ان کے اس پہلو کو خاص طور سے ذکر کرتے ہیں۔ یہاں ہم چند مثالوں پر اکتفا کریں گے۔
ابراہیم بن میمون مروزیؒ عالم، داعی اور عابد تھے۔ علم کےمیدان میں ترقی کی، ثقہ محدث اور فاضل فقیہ کہلائے۔ اصلاح کے میدان پر توجہ دی اور نیکیوں کے فروغ کے لیے پہچانے گئے۔ عبادت کا شوق ایسا پالا کہ وہ پیشے سے سنار تھے، اگر ضرب لگانے کے لیے ہتھوڑی اٹھادی اور اذان کی آواز سن لی تو ہتھوڑی اٹھی کی اٹھی رہ جاتی، ضرب کے لیے واپس نہیں لوٹتی۔ (تہذیب التہذیب)
حُجر بن عدی کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں: وہ معزز تھے، سردار تھے، ان کی بات کا وزن تھا، بھلائی کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، برائیوں کو نشانہ بنانے میں پیش پیش رہتے، وہ نیکی اور عبادت گذاری کے رسیا تھے۔ (سیر اعلام النبلاء)
سلم بن سالم بلخی کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں: زہد وعبادت ان کی پہچان تھی۔ وہ اپنے زمانے کے عمر بن عبد العزیز تھے۔ معروف کا حکم دینے میں پیش پیش رہتے۔ اسی جرم میں قید بھی کیے گئے۔ (سیر اعلام النبلاء)
فقیہ و محدث ابن بطہ ایک طرف عابد صفت سے معروف تھے تو دوسری طرف بھلائی کا حکم دینے میں آگے آگے رہتے، کسی برائی کی انھیں خبر پہنچ جائے تو اس کے ازالے کے لیے سرگرم ہوجاتے۔(سیر اعلام النبلاء)
بدر کی رات کا ایمان افروز منظر
اسلام میں خانقاہ اور رزم گاہ کی اس طرح تقسیم نہیں ہے کہ کچھ لوگ رزم گاہ میں باطل کا مقابلہ کریں اور کچھ لوگ خانقاہ میں ذکر و تسبیح میں مشغول رہیں۔ حق کے متوالے جدوجہد کے میدان کو ہی عبادت گاہ بنا لیتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا شان دار نمونہ یہی پیغام دیتا ہے۔
بدر کے میدان میں جب کہ حق و باطل کا خطرناک ترین معرکہ درپیش تھا، اللہ کے رسول ﷺ کی کیفیت کیسی تھی، صحابہ کا بیان سننے کے لائق ہے:
رات میں بارش ہوگئی ہم نے بارش سے بچنے کے لیے درختوں اور جھاڑیوں کے نیچے پناہ لی۔ ہم نے دیکھا کہ ہم سب سوگئے، سوائے اللہ کے رسول ﷺ کے، آپ ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے اور اپنے رب سے فریاد کرتے رہے: اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کردے، تو نے مجھے جو دینے کا وعدہ کیا ہے وہ عطا کردے، اے اللہ اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک ہونے دیا تو زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ وہ قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی چادر ان کے کندھوں سے ڈھلک گئی۔ جب فجر طلوع ہوئی تو آپ نے پکارا: اللہ کے بندو ! نماز کے لیے آؤ۔ ہم درختوں اور جھاڑیوں سے نکل کر آئے۔ (مسند احمد)
اللہ کا ذکر کثرت سے ہو
قرآن مجید میں اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔ اس کا حکم بھی بار بار دیا گیا ہے اور اسے اہل ایمان کی خاص صفت کے طور پر بھی بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ کچھ مثالیں یہاں پیش ہیں:
وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِیرًا [آل عمران: 41]
(اپنے رب کا زیادہ ذکر کرو)
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِیرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [الأنفال: 45]
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے مڈبھیڑ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا زیادہ ذکر کرو تاکہ تم اپنی مراد کو پالو )
وَالذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا وَالذَّاكِرَاتِ [الأحزاب: 35]
(اللہ کا خوب زیادہ ذکر کرنے والے مرد اور خوب زیادہ ذکر کرنے والی عورتیں)
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِیرًا [الأحزاب: 41]
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو)
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِیرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [الجمعة: 10]
(اللہ کا زیادہ ذکر کرو تاکہ اپنی مراد پاسکو)
مزید دیکھیں: [الشعراء: 227]، [الأحزاب: 21]، [ه: 33، 34]، [الحج: 39، 40]
اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ذکر کی مجلس تک خود کو سمیٹ دے۔ قرآن مجید ایمان والوں کو حق و باطل کے معرکے میں سرگرم اور ان کے دل و زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول دیکھنا چاہتا ہے۔
قرآن کی آیتیں اور سیرت کے اسباق بتاتے ہیں کہ ذکر سے خالی جدوجہد اور جدوجہد سے خالی ذکر ایمانی پہلو سے صحت مند کیفیت نہیں ہے۔ ذکرِ الٰہی سے بھاگنا بھی منافقوں کی نشانی ہے اور معرکہ حق و باطل میں شریک نہ ہونا بھی نفاق کی علامت ہے۔ یہ عام مسلمان کو زیب نہیں دیتا، اسلامی تحریک کے افراد کے لیے تو اس کا تصور بھی نہیں ہونا چاہیے۔ منافقوں کے بارے میں قرآن مجید کا بیان ہے:
وَلَا یذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِیلًا [النساء: 142]
(وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت کم۔)
وَلَا یأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِیلًا [الأحزاب: 18]
(وہ سخت معرکے کا سامنا نہیں کرتے مگر بہت کم۔)
وَلَوْ كَانُوا فِیكُمْ مَا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِیلًا[الأحزاب: 20]
(اگر وہ تمھارے درمیان ہوتے تو جنگ میں حصہ نہیں لیتے مگر بہت کم۔)
اللہ کا ذکر اسلامی تحریک کا محافظ ہے
دینی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کو سب سے زیادہ ڈر اس سے لگنا چاہیے کہ کہیں دنیا ان کا مطلوب نہ بن جائے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک بڑے فتنے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اس وقت پیش آئے گا جب لوگ کام تو آخرت والے کریں گے مگر ان کا مقصد دنیا حاصل کرنا ہوگا۔ وَالْتُمِسَتِ الدُّنْیا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ (مصنف ابن أبی شیبة)، جب اللہ کے ذکر سے بے نیازی نظر آئے اور اپنی کام یابیوں اور حصولیابیوں کا ذکر اس طرح ہونے لگے گویا یہ اپنی شخصیت کا کمال ہے، تو فکرمند ہو جانا چاہیے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے جماعت اسلامی کے ایک اجتماع میں اللہ کے ذکر کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا تھا:
انسان کے علم، انسان کی عقل یا انسان کے دل و دماغ اور اس کے فکر و نظر کو جو روشنی بھی نصیب ہوتی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی یاد ہی سے ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان کا تمام باطن بالکل تاریک رہتا ہے اور اس کا ہر کام گو بظاہر وہ کتنا ہی صحیح معلوم ہوتا ہو بالکل غلط ہوتا ہے۔ اس کا دل اس کو غلط مشورے دیتا ہے اور اس کا دماغ غلط رہ نمائی کرتا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں جس راہ میں اور جس مقصد کے لیے بھی اٹھتے ہیں غلط ہی اٹھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دین کا نام لے کر بھی اٹھے اور دین ہی کا کام کرنا چاہے لیکن خدا کی یاد سے اس کا دل خالی ہو جائے تو اس کی وہ دینداری بھی دنیا داری بن جاتی ہے۔ آپ اگرچہ دین کے کام کے لیے اٹھے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کو اس خطرے سے بے پروا نہیں رہنا چاہیے کہ خدا سے غفلت آپ کے اس سارے کام کو خراب کر سکتی ہے اور آگے کی کسی منزل میں بھی شیطان آپ کو گم راہ کر سکتا ہے۔ اگر اس خطرے سے آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے سوا اس کی کوئی تدبیر ہی نہیں ہے کہ آپ اپنے دلوں کو اللہ کی یاد سے نورانی رکھیں تاکہ آپ کے دل و دماغ اور آپ کے اعضا و جوارح سب صحیح طریقہ پر اور صحیح راہ میں کام کریں۔ (روداد جماعت اسلامی حصہ پنجم)
آخرت کی کام یابی کی ضمانت لینے والا سب سے بڑا کام جو ہوسکتا ہے وہ اللہ کا سفیر بننا، نبیوں کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنانا اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے دن بھر سرگرم رہنا ہے۔ اس کام کو کرنے والوں کو سب سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے کہ کہیں اس کام کو کرتے ہوئے کسی طرح کی دنیوی خواہش شامل نہ ہو جائے۔ کیوں کہ
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں۔
مومن کی ہیلپ لائن نماز ہے
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس اصول کو واضح کیا ہے کہ اللہ سے مدد مانگنے کا طریقہ نماز ہے۔
وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِیرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِینَ. [البقرة: 45]
(اور مدد چاہو صبر اور نماز سے اور بیشک یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں)
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ.[البقرة: 153]
(اے ایمان والو، ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے)
قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ یورِثُهَا مَنْ یشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ. [لأعراف: 128]
(موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد چاہو اور ثابت قدم رہو۔ زمین اللہ کی ہے وہ جس کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اس کو اس کا وارث بناتا ہے اور انجام کار کی کام یابی خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے)
نماز اللہ کی نصرت سے کس طرح قریب کرتی ہے، اس کی خوب صورت تمثیل درج ذیل روایت میں ملتی ہے:
عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِی وَلِیا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَی عَبْدِی بِشَیءٍ أَحَبَّ إِلَی مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیهِ، وَمَا یزَالُ عَبْدِی یتَقَرَّبُ إِلَی بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِی یبْصِرُ بِهِ، وَیدَهُ الَّتِی یبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِی یمْشِی بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِینَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیذَنَّهُ.
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو میں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں۔ میرا بندہ مجھ سے جن چیزوں کے ذریعے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب ترین چیز فرائض ہیں۔ نوافل کے ذریعے میرا بندہ مجھ سے قریب تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، تو جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔و ہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور وہ میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
تصور کیجیے کہ اسلامی تحریک کے افراد فرائض و نوافل کے ذریعے قربِ الٰہی کے اس مقام پر پہنچ جائیں جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، پھر وہ کس قدر طاقت ور ہوجائیں گے، انھیں اللہ کا کتنا بڑا سہارا نصیب ہوگا اور ان کے چلنے پھرنے اور سننے دیکھنے غرض ان کی تمام تر جدوجہد میں اللہ کی کتنی زیادہ مدد شامل ہو جائے گی۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز
نیند ضرورت بھر ہو اورشب بیداری شوق بن جائے
اللہ سے محبت اور اس کی قربت چاہنے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ساری نمازیں جو اس نے فرض کی ہیں شوق کے ساتھ ادا کی جائیں۔ اللہ تعالی نے دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور رات کی تہجد کی نماز بندے کے شوق پر چھوڑ دی ہے۔ تہجد کی نماز بندے کے شوقِ عبادت کا امتحان ہے۔ رات کی تہجد کی نماز کے اندر غیر معمولی لذت ہوتی ہے۔ جسے وہ لذت نصیب ہوجاتی ہے، پھر اسے چھوڑنا گوارا نہیں کرتا ہے۔
تہجد کی عبادت معروف معنی میں فرض بھی نہیں ہے اور نفل بھی نہیں ہے۔ یہ تو جنت کی طلب میں بے چین رہنے والوں کا شوق ہے۔ جو رضائے الٰہی کا پروانہ حاصل کرنے کی دوڑ میں آگے آگے رہنا چاہتا ہے وہ تہجد کی نمازوں کی پابندی کرتا ہے۔ قرآن میں سب سے زیادہ اہتمام سے جس نماز کا ذکر ہے وہ تہجد کی نماز ہے۔ اسلامی تحریک کے ہر فرد کو تہجد کا پابند ہونا چاہیے۔
اللہ تعالی نے رات بہت لمبی بنائی ہے۔ یہ اتنی لمبی ہے کہ اس کے بڑے حصے میں آدمی اچھی طرح نیند پوری کرکے، باقی بڑے حصے میں سکون اور نشاط کے ساتھ عبادت کرسکتا ہے۔
اصل میں رات کے دو ہی مصرف ہیں۔ سونا اور عبادت کرنا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری راتوں کا بڑا حصہ فضول کاموں اور باتوں میں گزر جاتا ہے، پھر جو حصہ بچ رہتا ہے وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ سونے کے لیے ہی ناکافی معلوم ہوتا ہے۔
اگر اول وقت میں آدمی سو جائے، تو رات کے آخری پہر سے پہلے ہی اس کی نیند پوری ہو جائے گی اور وہ چستی کے ساتھ اٹھ سکے گا۔
راہِ خدا میں دن بھر سرگرم رہنے والوں کے لیے شبِ بیداری کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ رات کی تنہائی کی عبادت دن کی دینی سرگرمیوں کی حفاظت کرتی ہے۔ لوگوں کی تعریف و ستائش سے دل پر چڑھنے والی دھول سجدے کے آنسوؤں سے صاف ہوجاتی ہے۔ انسانوں کے درمیان کام کرتے ہوئے نفس کے پھول جانے کا بڑا اندیشہ ہوتا ہے، رات میں رب کے حضور مناجاتیں نفس کو انکسار عطا کرتی ہیں۔ اور یہ پاکیزگی و انکسار ایک داعی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔
آسان ابتدا کریں پھر آگے بڑھتے رہیں
اللہ کے رسول ﷺکی طرف ایک روایت منسوب ہے۔ عَلَیكُمْ بِصَلَاةِ اللَّیلِ وَلَوْ رَكْعَةً وَاحِدَةً (رات کی نماز کا اہتمام کرو، چاہے ایک رکعت ہی ہو)۔ اس روایت کو بعض محققین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم عملی پہلو سے یہ آئیڈیا اچھا ہے۔ کسی کو تہجد کا شوق ہو لیکن نیند پر قابو نہ ہو، تو طلوع فجر سے پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھنا شروع کرے اور اطمینان سے تین رکعت ادا کرلے۔ پھر جب اٹھنے کی عادت بن جائے تو کچھ اور پہلے اٹھنے لگے، یہاں تک کہ تہجد کو اچھا خاصا وقت دینے لگے۔
دن بھر کی مصروفیات یکسوئی کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور ذکر و فکر کا موقع نہیں دیتیں۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ فجر کی اذان سے نماز تک کا وقت مسجد میں گزارا جائے۔ اگر فجر کی اذان سے نماز تک تلاوت وتدبر اور تسبیح و مناجات کا معمول بن جائے تو اس کا روحانی عکس دن بھر کی سرگرمیوں پر محسوس ہوگا۔
فرائض کی ادائیگی بے رغبتی سے نہ ہو
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تہجد گزاری تو پرشوق معمولات میں شامل ہو جاتی ہے، فجر سے بھی تعلق گہرا ہوجاتا ہے، تاہم بقیہ فرض نمازوں میں دل چسپی کم ہو جاتی ہے۔ ان کی ادائیگی محض ایک ڈیوٹی کی انجام دہی بن جاتی ہے۔
فرض نمازوں کو چھوڑنے کی گنجائش ہی نہیں ہیں۔ کسی مومن کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ فرض نمازیں چھوڑ دے گا۔ لیکن انھیں بے رغبتی سے ادا کرنے کا امکان رہتا ہے۔ ذوقِ بندگی اور شوقِ عبادت کا تقاضا یہ ہے کہ فرض نمازوں کو بھی ذوق و شوق سے ادا کیا جائے۔
شوق کی سب سے نمایاں علامت یہ ہے کہ نماز شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جائیں۔ جو لوگ ہمیشہ نماز شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچتے ہیں وہ دراصل نماز میں اپنی رغبت کی کمی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ دیر سے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کچھ دوسرے کاموں میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔
ہمیشہ وقت پر مسجد پہنچنا شوقِ عبادت کی دلیل نہیں ہے، ممکن ہے کہ محض عادت اور معمول کے طور پر ایسا ہوتا ہو۔ تاہم ہمیشہ تاخیر سے مسجد پہنچنا شوقِ عبادت کم ہونے کی دلیل ضرور ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کسی بھی فرض نماز سے پہلے کا معمول اس فرض نماز کی حفاظت کرتا ہے۔ جس کا تہجد پڑھنے کا معمول ہوتا ہے اس کی فجر کی نماز کبھی نہیں چھوٹتی۔ اگر کبھی تہجد میں نہ اٹھ سکے تو فجر میں اٹھنا تو ہو ہی جاتا ہے۔ جو شخص اذان سے پہلے ہی وضو کرنے کے لیے اٹھ جانے کو معمول بنالے، اسے ہمیشہ تحیة المسجد پڑھنے اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ جماعت میں شرکت کا موقع ملے گا۔
نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے
میٹنگ طے شدہ وقت پر شروع ہونی چاہیے، اجتماعات بھی مقررہ وقت پر شروع ہوں، یہ اجتماعی اخلاقیات کے مسلمات میں سے ہے۔ نماز کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اپنے وقت پر ادا کی جائے۔
اسلامی تحریک کے معمول میں یہ بات شامل ہے اور یہی اس کے شایانِ شان بھی ہے کہ نمازوں کے اوقات کا لحاظ کرکے میٹنگوں اور چھوٹے بڑے اجتماعات اور پروگرام کا شیڈول طے کیا جاتا ہے۔ اس شیڈول کی سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔ نماز کا لحاظ کرکے پروگرام کے اختتام کا اگر وقت متعین کیا گیا ہے تو نماز کا لحاظ کرتے ہوئے لازمًا اس وقت پر اسے ختم کر دینا چاہیے۔
نماز کے ساتھ یہ رویہ کسی طرح مناسب نہیں ہے کہ اسے مختلف کاموں کے بہانے سے مؤخر کیا جائے۔ مختلف کاموں کو پیچھے ڈھکیل کر نماز وقت پر ادا کرنے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایمان کا تقاضا ہر تقاضے پر مقدم ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا: افضل ترین ہے۔ آپ نے اسے تین کام بتائے، وقت پر نماز، والدین کے ساتھ اچھا سلوک اور اللہ کی راہ میں جدوجہد۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِی صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ أَی الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الصَّلاَةُ لِوَقْتِهَا، وَبِرُّ الوَالِدَینِ، ثُمَّ الجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ. (صحیح البخاری)
اس سے ایک طرف تو وقت پر نماز ادا کرنے کی اہمیت سامنے آتی ہے دوسری طرف یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کو خوش کرنے کی آرزو پالنے والے نماز و جہاد دونوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ عبادت گاہ اور رزم گاہ میں انہماک کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں جن میں سب سے مقدّم والدین کے حقوق ہیں۔
انفاق نفاق سے بچاتا ہے
جسم کی عبادت نماز ہے تو مال کی عبادت انفاق ہے۔ اسلامی تحریک کے افراد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دونوں ہی عبادتوں میں مسابقت کا شوق رکھیں گے۔
قرآن مجید نے اللہ کے رسول ﷺ کے ذریعے جس تحریک کو برپا کیا، اسے دو چیزوں کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی، نماز اور انفاق یعنی اللہ کے راستے میں خرچ۔ انفاق فی سبیل اللہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آپ کے اندر للہیت ہے۔ جو شخص دنیوی مفادات کے لیے تحریک میں شامل ہوتا ہے وہ اپنا قیمتی مال تحریک میں لگانے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا تحریک سے مادّی منفعت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے ایک اجتماع کے موقع پر صاف لفظوں میں کہا تھا:
اگرچہ آپ کی تعداد تھوڑی ہے اور آپ کی مالی حالت بھی نہایت کم زور ہے لیکن اگر آپ سچے جوش و جذبہ کے ساتھ خدا کے دین کی مدد کریں گے تو آپ کے مال میں بھی برکت ہوگی اور اس کام میں بھی برکت ہوگی جو اس مال سے انجام پائے گا اور یہی انفاق ہے جو آپ کے اندر اللہ کے اعتماد کو بھی قوی کرے گا جس کی مدد سے آپ آئندہ دین کے بڑے بڑے کام انجام دے سکیں گے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ جو لوگ کسی سچے مقصد کا دعوی کرتے ہیں اور پھر اس کے لیے انفاق نہیں کرتے وہ لازمًا نفاق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر شخص کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔ (روداد جماعت اسلامی، پنجم)
للہیت کا اظہار ہر طرح سے ہونا چاہیے
اسلامی تحریک کی سرگرمیوں میں خدا سے تعلق اور للہیت کا طرح طرح سے اہتمام ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ کام تو اصل میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہی ہے۔ للہیت کو نظر انداز کرکے تحریکی جدوجہد میں مصروف ہونا ایسا ہی ہے جیسے خزانے کی چابی کہیں پیچھے چھوڑ کر آدمی خالی ہاتھ خزانے کی طرف دوڑتا رہے۔
انسانوں کے درمیان کام کرتے ہوئے اندیشہ رہتا ہے کہ اصل توجہ اللہ کی طرف ہونے کے بجائے انسانوں کی طرف ہی ہو جائے۔ اس لیے بار بار للہیت کا سبق یاد دلانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر:
ہر پروگرام کا آغاز و اختتام تذکیر سے ہو جس میں اللہ سے رشتہ مضبوط کرنے کی یاددہانی کرائی جائے۔
جو موضوعات خالص طور پر انسانی مہارتوں اور تجربات سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں بھی ذکر الٰہی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اسلام تو زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے اور اسلام کی رو سے ہر چیز خدا کا عطیہ ہے اور ہر عمل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رنگ میں ہو۔
کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو، قرآن مجید کی آیتوں سے رہ نمائی، روشنی اور نصیحت لینے کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ پر درود کا اہتمام ہونا چاہیے اور آپ کی ذات کو اسوہ حسنہ کے طور پر بار بار پیش کرنا چاہیے۔
پروگرام کے آغاز و اختتام پر دعاؤں کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ دعا کی رسم ادا نہ کی جائے بلکہ دعا کے لیے مطلوب کیفیت کے ساتھ دعا کی جائے۔
کسی بھی موقع پر اگر دل میں سوز امنڈ آتا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں تو انھیں روکا نہ جائے۔
تحریکی افراد کی باہمی مراسلت بھی للہیت کے رنگ میں ڈوبی ہونی چاہیے۔ رسمی فارمیٹ اختیار کرنے کے بجائے مراسلت میں ایسے جملے شامل ہوں جو نصب العین اور محرکِ حقیقی کی تجدید کرنے والے ہوں۔
اسی طرح فون پر ہونے والی گفتگوؤں میں بھی تحریکی سوز کی شمولیت ہونی چاہیے۔
رفقائے تحریک کی باہمی ملاقاتیں ایمان کو تازگی دینے والی ہوں۔ دلوں پر باہمی ملاقات کا روحانی اثر کئی کئی دنوں تک محسوس ہو۔
عبادت وللہیت کا ماحول بنائیں
ماحول سازی کے بڑے فائدے ہیں۔ جب اچھی باتوں کا ماحول بن جائے تو ان پر عمل پیرا آسان ہو جاتا ہے۔ ماحول خود محرک و واعظ بن جاتا ہے۔ اسلامی تحریک کے اندر عام طور سے عبادت و للہیت کا ماحول ہوتا ہے۔ اگر وہ کبھی گھٹتا محسوس ہو تو اسے بڑھانے کی عملی کوششیں کرنی چاہئیں۔
اسلامی تاریخ کے مختلف مرحلوں میں مصلحین نے ماحول سازی پر توجہ دی ہے۔ ایک خوب صورت مثال یہاں پیش کی جاتی ہے، جسے علامہ ابن جوزی نے نقل کیا ہے:
قرنِ اول کے ایک بزرگ زمعہ بن صالح مکی کے بارے میں ان کے ہم عصر بزرگ قاسم بن راشد شیبانی بیان کرتے ہیں: زمعہ ہماے یہاں آکر مقیم ہوئے۔ ان کی بیوی اور بچیاں ساتھ تھیں۔ وہ رات میں اٹھتے اور دیر تک نماز پڑھتے، پھر رات کے آخری حصے میں زور سے ندا لگاتے:
اے مسافرو! جو صرف رات گزارنے کے لیے یہاں رکے ہو، کیا پوری رات سوتے رہو گے، کیا اٹھوگے نہیں، سفر کے لیے کوچ نہیں کرو گے۔ بس پھر کیا ہوتا! کہیں سے سسکیوں کی آوازیں سنائی دیتیں، کہیں دعا اور مناجات کی گونج سنائی دیتی، کہیں قرآن کی تلاوت ہوتی تو کہیں کوئی وضو کرتا نظر آتا۔ جب فجر طلوع ہوتی تو پھر زور سے پکارتے: صبح کے وقت انھیں دیکھ کر رشک آتا ہے جو اندھیرے منھ سفر پر نکل جاتے ہیں۔ (المنتظم فی تاریخ الملوك والأمم)
یہ تمثیل بڑی معنی خیز ہے۔جنھیں منزل تک پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے وہ سورج نکلنے تک سوتے نہیں رہتے، بلکہ اندھیرے منھ اٹھ جاتے ہیں اور سفر شروع کر دیتے ہیں تاکہ دن کی گرمی بڑھنے سے پہلے وہ کافی لمبی مسافت طے کرلیں۔ اسی طرح جنھیں جنت تک پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے وہ رات کے آخری پہر سے ہی جنت کی طرف جاری دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ دن نکلے تک تو دوڑنے والے بہت آگے جاچکے ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی تشکیل کا ایمان افروز منظر
جماعت اسلامی کی بنا رکھنے والوں نے آغاز ہی میں اس پر توجہ دی تھی کہ اس کی سرگرمیوں پر للہیت کا رنگ چھایا رہے۔ جماعت اسلامی کی تشکیل کا یہ حسین منظر دیر تک دیکھنے کا ہے:
’’سب سے پہلے مودودی صاحبؒ اٹھے اور کلمۂ شہادت أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کا اعادہ کیا اور کہا کہ لوگو! گواہ رہو کہ میں آج از سرِ نو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں۔ اس کے بعد محمد منظور نعمانی صاحبؒ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی مودودی صاحبؒ کی طرح تجدید ایمان کا اعلان کیا۔ بعد ازاں حاضرین میں سے باری باری کرکے ہر شخص اٹھا، کلمۂ شہادت ادا کیا، اور جماعت میں شریک ہوا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے روتے رقت طاری ہو گئی تھی۔ قریب قریب ہر شخص کلمۂ شہادت ادا کرتے وقت ذمہ داری کے احساس سے کانپ رہا تھا۔ جب لوگ شہادت ادا کر چکے تو مودودی صاحبؒ نے اعلان کیا کہ اب جماعت اسلامی کی تشکیل ہوگئی، آئیے ہم سب مل کر رب العالمین سے دعا کریں کہ وہ ہماری جماعت کو استقامت اور استقلال بخشے اور ہم کو اپنی کتاب اور اپنے رسول ﷺکی سنت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا سے پہلے مودودی صاحبؒ نے اسلامی جماعت کی حیثیت اس کے منشا اور نصب العین پر پھر ایک مرتبہ روشنی ڈالی اور حاضرین کو آگاہ کیا کہ انھوں نے آج کتنا بڑا عہد کیا ہے اور اس کو کس طرح نباہنا چاہیے۔ بعد ازاں منظور نعمانی صاحبؒ نے دعا شروع کی، دیر تک لوگ خدا کے حضور میں روتے اور گڑگڑاتے رہے۔‘‘ (روداد حصہ اول)
یہ منظر اسلامی تحریک کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی پوری حفاظت کرنی چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024