انسان اس دنیا میں جوبھی نیک عمل کرے گا آخرت میں اللہ کی بارگاہ میں اس کابہتراوراجرعظیم کی شکل میں پائے گا۔ان ہی نیک اعمال میں سے ایک عمل صدقہ ہے ۔ اسلام میں صدقے کی بڑی اہمیت ہے۔ اورجہنم کے مابین حجاب قراردیاگیاہے اور وہ دنیا میں بھی انسان کو بہت سی مصیبتوںسے محفوظ رکھتاہے۔ صدقے کا ایک مشہورمفہوم وہ ہے جو عام طورپر لوگوںکے ذہن میں ہے۔ یعنی صاحب ثروت اور مالدار لوگوں کا اپنامال غریب و مسکین لوگوںکی ضروریات کی تکمیل کی خاطر خرچ کرنا۔اسے قرآن و احادیث میں ’’انفاق ‘‘ ﴿مال خرچ کرنے﴾ کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔اس کا صراحۃً حکم دیاگیا ہے اور ایسا کرنے والے لوگوںکی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے۔صدقہ کے سلسلے میں قرآن کا حکم ہے:
’’یہ صدقات تودراصل فقیروںاورمسکینوں کے لیے ہیں اوران لوگوں کے لیے جوصدقات کے کام پر مامورہوں،اوران کے لیے جن کی تالیف ِ قلب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اورقرض داروں کی مددکرنے میں راہ خدامیں اورمسافرنوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اوراللہ سب کچھ جاننے والا اوردانا وبینا ہے۔ ﴿توبہ:۶۰﴾‘‘
جب نبی کریمﷺ نے حضرت معاذبن جبل ؓ کو یمن روانہ کیاتو جوچندباتیں ہدایت فرمائیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی: ’’ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال میں صدقہ کو فرض قراردیاہے، جوتمہارے مالداروں سے لیاجائے گا اورتمہارے غربائ کو دیادیاجائے گا۔‘‘
مذکورہ بالا آیت اورحدیث سے مرادزکوۃ ہے۔دیگر آیات اوراحادیث میں صدقات نافلہ کا حکم آیاہے۔ اس لیے صدقات کی ادائی میں سستی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے خواہ وہ مقدارمیں تھوڑاہی کیوںنہ ہو۔کیوں کہ یہ گناہوں کے بھڑکتے شعلوںکو ایسے ہی ٹھنڈاکرتاہے جیسے پانی آگ کے دہکتے انگارے کوسردکردیتاہے۔اس حکم کی روشنی میں صاحب حیثیت افراد،مستحقین پر خرچ کرتے ہیںاوراپنے لیے ذخیرہ آخرت کرتے ہیں۔ لیکن صدقہ کا صرف یہی مفہوم نہیںہے۔نبی کریمﷺ کا ارشادہے:
اتقوا النار ولوبشق تمرۃ ، فان لم تجدفبکلمۃ طیبۃ۔
’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ ایک کھجورکے ٹکڑے سے ہی کیوں نہ ہو، اگرتمہارے پاس کچھ نہ ہوتو اچھی گفتگو کے ذریعے سہی مگراس سے بچو۔‘‘ ﴿بخاری﴾
اس حدیث میں جہنم سے نجات کے دوطریقے بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مال خرچ کرنا خواہ اس کی مقدارکتنی ہی کم کیوں نہ ہو اور دوسرا۔ اچھی بات کہنا ۔ ظاہر ہے کہ اس میں مال خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث ہے ، جس میں تفصیل سے صدقہ کی چند صورتیں بتائی گئی ہیں۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
علی کل مسلم صدقۃ، قال : أرأیت ان لم یجد، قال: یعمل بیدیہ فینفع نفسہ و یتصدق، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یعین ذا الحاجۃ الملہوف، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یأمر بالمعروف اوالخیر،قال : أرأیت ان لم یفعل، قال: یمسک عن الشر فانہا صدقۃ ۔ ﴿متفق علیہ﴾
’’ہرمسلمان پر صدقہ ہے،ایک صحابیؓ نے کہا جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرے خود کونفع پہنچایا اور صدقہ بھی کرے۔ صحابیؓ نے کہا: اگروہ اس کی استطاعت نہ رکھتاہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لاچار، ضرورت مند کی مدد کرے، صحابیؓ نے کہا کہ اگر وہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ نیکی اوربھلائی کا حکم دے ۔صحابیؓ نے کہا کہ اگروہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دوسروںکوتکلیف پہنچانے سے باز رہے۔‘‘﴿متفق علیہ﴾
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ تمام مسلمانوںپر ضروری ہے۔اگرانسان خودکماکر اپنی اورضرورت مندوں کی مدد کررہا ہے تو ایسا کرنا وہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا مگروہ اتنابے بس اورلاچارہے کہ یہ ضرورت پوری نہیں کرسکتا تواس صورت میں کئی طریقوںکی نشاندہی کی گئی ہے۔حتی کہ اگروہ بھلائی کا حکم دے اوربری باتوں سے رکے تویہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔صدقہ کا یہی وسیع مفہوم ایک دوسری حدیث میں ہے۔ جس میں آپﷺ نے انسان کے جسم میں پائے جانے والے جوڑوں کا ذکرکیاہے ۔ صحیح مسلم کی روایت سے اس کی تعداد۳۶۰معلوم ہوتی ہے۔ آج ماہرین طب بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔حدیث کے مطابق روزانہ ان پر صدقہ واجب ہوتاہے۔اس طرح ایک ہفتہ میں تقریباًدوہزارپانچ سو بیس صدقات ہوئے۔ ان پر صدقہ کا حکم فرماتے ہوئے ، آپ ﷺ نے ان کی ادائی کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں۔ اس کے لیے آپ نے جوطریقے بیان فرمائے ہیں وہ نہایت آسان ہیں،جنھیں امیر و غریب یکساں طورپر انجام دے سکتاہے۔مثلاً دولوگوں کے درمیان انصاف کرنا خواہ سمجھابجھاکر یا ایک فیصلہ دے کر۔لوگوںکی مدد کرنا۔ مثلاً ایک شخص کے پاس سواری تو ہے مگروہ خودسے اس پر سوارہونا اس کے لیے دشوار ہے اورکوئی ساتھ بھی نہیں ہے جو اس کی مدد کرے تو ایسے شخص کو اس کی سواری پرسوار کرنے میں مددکرنا، یا پھر اس کا سامان سواری پر رکھنا وغیرہ۔حدیث میں کلمہ طیب کوبھی صدقہ قراردیاہے۔خواہ یہ اللہ کی تسبیح وتہلیل بیان کرکے ہو، یا لوگوں کے مابین اپنی گفتگومیں اچھے اخلاق کے ساتھ اچھے انداز میں نرم لہجہ اختیارکرکے ہو۔ نماز کے لیے مسجد کی طرف بڑھنے والے قدم کو بھی صدقہ میں شمار کیا گیاہے ۔اس میں مسافت کی قید نہیں ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان اپنے گھرسے وضوکرکے نمازکے لیے مسجدجاتاہے تو اللہ اس کے ہرقدم پر اس کے درجات کو بلند کرتاہے۔ آخرمیں نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ یہ انسان کے لیے ایک اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے جس میں دوسروں کو تکلیف دینے سے بچناہی نہیں بلکہ ہر اس چیزکو دورکردینا شامل ہے ، جو انسان کو راہ چلتے ہوئے تکلیف پہنچاسکتی ہے۔
اسی طرح صدقہ کی ایسی اوربھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں مال واسباب توصرف نہیں ہوتے مگرانھیں بھی صدقہ سے تعبیرکیا گیا ہے:مثلاً کوئی کمزور آدمی کنویں سے پانی نکال رہاہے۔اس کا ڈول بھردے۔یا کوئی مسافرراہ سے بھٹک گیاہے ، اس کی رہنمائی کردے ۔یا کسی ضعیف وناتواں کو راہ پارکرادے اورکسی کی بینائی کمزورہوگئی ہو، اس کی مددکردے ۔اسی طرح خدمت خلق کی اوربھی دوسری صورتیں ہوسکتی ہے جن میں مال توصرف نہیں ہوتا مگر ضرورت مندکی ضرورت ضرورپوری ہوجاتی ہے۔ حتی کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ وامرک بالمعروف و نہیک عن المنکرصدقۃ وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدق وبصرک للرجل الردی البصر لک صدقۃ و اماطتک الحجروالشوکۃ والعظم عن الطریق لک صدقۃ وافراغک من دلوک فی دلواخیک لک صدقۃ۔ ﴿ترمذی﴾
’’ تیرا اپنے بھائی کے چہرے پر ہنسی بکھیرنا صدقہ ہے۔بھلائی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا صدقہ ہے ۔گم کردہ راہ بھٹکے ہوئے مسافرکو راہ دکھانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔ کمزور بینائی والے شخص کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے۔ پتھر،کانٹے اورہڈی کوراہ سے ہٹادینا ،تیرے لیے صدقہ ہے۔اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی بھردینا بھی صدقہ ہے۔‘‘
اس روایت میں انسانی ہمدردی کی بہت سی مثالیں پیش کی گئی ہیں، جو بڑی اہمیت کا حامل ہیں ۔ انسان جب کسی سے ملتاہے تو اسے یہ خیال ہوتاہے کہ اس سے جومل رہاہے ،یا خودوہ کسی سے مل رہاہے تو پتا نہیں وہ کس کیفیت میں ہے۔ جس سے عام پر جھجھک ہوتی ہے مگرجب وہ مسکراکرملتاہے تو یہ پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح دیگر اوربھی چیزیںجب انسان کسی کے لیے ایسا کرتاہے تواسے اندرونی طورپر بڑی خوشی ملتی ہے۔یہ اعلی اوصاف ہیں،جن سے متصف انسان بااخلاق معلوم ہوتاہے۔ اس لیے آپ نے اس طرح کے عمل کوبھی صدقہ قراردیا ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ روزانہ انسان کے ہرجوڑپر صدقہ ہے۔ تم دولوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرویہ ایک صدقہ ہے، کسی انسان کی اس کی سواری کے سلسلے میں اس کی مددکردو کہ اس کو سوارکرادو، یا اس کا سامان اس سواری پر رکھ دو یہ بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات بھی صدقہ ہے۔ ہر قدم جونماز کے لیے آگے بڑھا صدقہ ہے۔راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادو یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘
موجودہ دورمیں لوگ ماحولیات کوبہتربنانے کے لیے درخت لگانے کی بات کرتے ہیں اوراس پر کافی زوردیاجاتاہے ،جب کہ اس کی افادیت کے پیش نظرنبی کریمﷺ نے چودہ سوسال قبل ہی اس کی اہمیت اورفوائد کی خاطر درخت لگانے کو صدقہ قراردیاہے۔کیوں کہ اس سے جہاں ماحولیات پر بہتر اثر پڑتاہے وہیں اس سے عام جاندارکو بھی فائدہ ہوتاہے۔
انسان اپنی بیوی کے پاس اپنی فطری خواہش کی تکمیل کے لیے جاتا ہے،جوافزائش نسل کا ایک طریقہ ہے ، مگر یہ عمل بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:
و فی بضع احدکم صدقۃ، قالوا یا رسول اللہ، ایاتی احدنا شہوتہ، ویکون لہ فیہا اجر،قال: أرأیتم لو وضعہا فی حرام أکان علیہ وزر؟ فکذالک اذاوضعہا فی الحلال ،کان لہ أجر۔
’’ضرورت کی تکمیل کے لیے انسان کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔صحابہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں سے ہرایک یہ عمل اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کے لیے کرتاہے توکیا اس میں بھی اجرہے۔آپﷺ نے ارشادفرمایا: تمہارا کیاخیال ہے اگروہ اپنی یہ ضرورت کسی حرام جگہ پوری کرتا تواس پر گناہ نہیں ہوتا؟ اسی طرح اس نے یہ حلال طریقہ اختیارکیا ۔لہذا یہ اس کے لیے باعث اجرہے۔‘‘﴿مسلم ﴾
بہ ہر حال صدقہ کی ادائی کی مختلف صورتیں ہیں۔خواہ انفاق کے ذریعے ہو یا دیگر طریقوں سے۔ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ صدقے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی ننگابھوکا نہ رہے اور معاشرہ ہر طرح کی گندگی اورشرسے پاک اورپرامن ہو۔تمام بندگان خداکی تمام ضروریات کی تکمیل ہو۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے سلسلے میں ایک جامع بات بیان فرمائی:’’کل معروف صدقۃ‘‘﴿ہرنیک کام صدقہ ہے﴾اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی واضح کردیاکہ ’’نیکی اور بھلائی کے کسی بھی کام کو معمولی نہ سمجھو‘‘کیوںکہ یہ بھی صدقہ ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2012