انسانی زندگی عقیدت و فدائیت ، عشق ومحبت، خود سپردگی ، عجزو نیاز اور پرستش و عبدیت سے عبارت ہے ۔ حواس خمسہ کے ساتھ انسان کو ان اوصاف کا خاصہ بھی عطا کیا گیا ہے ۔ وہ اپنے ان ہی جذبات کی تسکین اوراپنے محبوب ومقصود کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتا آیا ہے۔ اس کی خاطر اپنی جان، اپنا مال ، اپنے جذبات اور اپناسب کچھ قربان کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ وتیار رہتا ہے ۔ اسی انسانی فطرت کی تسکین اور حقیقت کےاعتراف کے طور پر مسلمانوں کوعید الاضحیٰ (عید قرباں) عطا کی گئی ہے ، جوفطرت کے عین مطابق اورصحت مند زندگی کی علامت ہے ۔
قر بان کا لفظ صدقہ اورقربانی دونوں کے لیے آتا ہے ۔ جوچیز بھی اللہ کے حضور قربِ اِلٰہی کے مقصد سے پیش کی جائے وہ قربان ہے اورقربانی کہتے ہیں جانور ذبح کرنے کوجواللہ کے نام پر اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے عید الاضحیٰ کے دن کیا جائے۔ اس کا حقیقی مرتبۂ کمال جان کی قربانی ہے ، جانور کا خون بہانا تو اس کی ظاہری علامت ہے ۔ ہمارے لیے کسی چیز سے اس دنیا میں اس وقت تک فائدہ اُٹھانا مناسب نہیں ہے جب تک کہ ہم اس پر اللہ کا نام لے کر اس کی بخشش وعنایت کا اقرار نہ کرلیں۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی واجب کی گئی کہ جوانعام وبہائم اس نے ہمارے لیے مسخر کیے ہیں ہم ان کواسی کے نام پر قربانی کریں ۔ اصل میں قربانی نام ہے اپنی عزیز ترین متاع کواللہ کے حضور پیش کردینے ، اللہ کی اطاعت وعبادت اورکامل بندگی کا ۔ قربانی تسلیم ورضا اورصبر وشکر کا وہ امتحان ہے کہ جس کو پورا کیے بغیردنیا کی پیشوائی اورآخرت کی کامیابی نہیں ملتی ہے ۔ اللہ کے سامنےاپنے تمام جذبات ، خواہشات، تمناؤں اورآرزؤں کوقربان کردینا ہی اصل قربانی ہے۔
قربانی کا سلسلہ ابتداء آفرینش ہی سے شروع ہے اوراکثر امتوں میں اس کا تصور ملتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ قربانی کے طریقے ا ور اس کی جزئیات میں فرق رہاہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ(الحج:۳۴)
’’ ہر اُمت کےلیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقر ر کردیا ہے تاکہ (اس امت کے ) لوگ ان جانووں پر اللہ کا نام لیں، جواس نے ان کوبخشے ہیں‘‘۔
دنیا کے مختلف مذاہب اورامتوں میں قربانی کے متعلق جوتصورات پائے جاتے ہیں ان کا مختصر ذکر کردینا مناسب ہے۔ تاریخ انسانی میں سب سے پہلی قربانی کا ذکر قرآن مجید نے ان الفاظ میں کیا ہے:
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۰ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ قَالَ لَاَقْتُلَـنَّكَ۰ۭ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المائدہ:۲۷)
’’اورذرا اُنہیں آدمؑ کے دوبیٹوں کا قصہ بھی بے کم وکاست سنادو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔
حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اورقابیل نے اپنے طور پر اللہ کے حضور قربانی پیش کی ۔ ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ اورقابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی ۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کی قربانی سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی شروع ہے ۔ تاہم اس قربانی میں جو سوزو ساز پیدا ہوا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا عطیہ ہے۔ تاریخ کی اس عظیم قربانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح فرمایا ہے:
رَبِّ ہَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۱۰۰ فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ۱۰۱ فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَہُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى۰ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ۰ۡسَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ۱۰۲ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِيْنِ۱۰۳ۚ وَنَادَيْنٰہُ اَنْ يّٰٓــاِبْرٰہِيْمُ۱۰۴ۙ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا۰ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۱۰۵ اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْبَلٰۗــؤُا الْمُبِيْنُ۱۰۶ وَفَدَيْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ۱۰۷ وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ۱۰۸ۖ (الصافات:۱۰۰۔۱۰۱)
’’ اے پروردگار ، مجھے ایک بیٹا عطا کر جوصالحین میں سے ہو ۔ ( اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کوایک حلیم (برد بار) لڑکے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دو ڑ دھوپ کرنے کی عمر کوپہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم ؑ نے اس سے کہا:بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ، اب تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟اس نے کہا : ابّا جان ، جوکچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالیے، آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ۔ آخر کوجب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اورابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا اورہم نے نِدا دی کہ اے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا ۔ ہم نیکی کرنے والوں کوایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی اورہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا اوراس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑدی ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کواپنی محبوب ترین متاع کوذبح کرنے کا حکم دیا اور دونوں باپ بیٹے اس کے لیے تیار ہوگئے مگر اللہ کوصرف ان کا امتحان مقصود تھا، جس میں وہ کامیاب رہے ، اللہ تعالیٰ کوان دونوں کی یہ ادااس قد ر پسند آئی کہ قیامت تک کے لیے اس سنت کوجاری کردیا۔
یہودیت میں قربانی کا واضح تصور موجود ہے البتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعۂ قربانی کووہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں اوران کوہی ذبیح اللہ قرار دیتے ہیں ۔ وہ تقرب خدا وندی کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ ان کے یہاں کسی قربانی کے قبول ہونے کی دلیل یہ تھی کہ آسمان سے آگ آکر اس کو جلادے ، جیسا کہ بائبل میں ہے:
’’ خدا کے یہاں کسی قربانی کے مقبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہوکر اسے بھسم کردیتی تھی‘‘۔ ( قضاۃ۶:۲۰،۲۱)
حضرت عیسی علیہ السلام کوالگ سے کوئی شریعت نہیں، ان کا عمل بھی یہودی شریعت پرتھا۔ بعد میں جان پال نے عیسائیت میں تحریفات کیا اس کے نتیجے میں قربانی کا وہ تصور جوکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وابستہ تھا باقی نہیں رہا اور ان کے یہاں اب قربانی کاوہ اہتمام نہیں ہوتا ہے ۔
ہندوستانی مذاہب میں سب سے قدیم ہندو مت ہے ۔ اس مذہب میں قربانی ، دان اور رہا صفت معرفت اِلٰہی کا ذریعہ ہے ۔ قربانی کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں او ر بہشت ملتی ہے ۔ قربانی تمام گناہوں سے نجات پانے کا ذریعہ ہے ۔ چنانچہ بھاگوت پران میں ہے کہ ’’نارائن نے تمام دنیا کوقتل کرنے کے بعد گناہ سے محض گھوڑ ے کی قربانی کرکے نجات حاصل کرلی ‘‘۔ ویدک دور میں جگہ جگہ بوچڑ خانے موجود تھے اوربرہمن دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کی قربانیاں دیتے او ران کاگوشت آپس میں تقسیم کرلیتے تھے۔
ان کے یہاں عام طور سے گائے، بیل ، بھینس ، بچھڑا، بھیڑ اور گھوڑے کی قربانی کی جاتی تھی اور اس بات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ کس دیوتا کو کس جانور کی قربانی دینی چاہیے ۔ جیسے بھگوان وشنوکوقربانی دینی ہو تو ایک چھوٹے قد کا بیل ذبح کرکے پکانا چاہیے ۔ اگر اندر دیوتا کو قربانی پیش کرنی ہوتو ایسا بیل پکانا چاہیے ، جس کے سینگ لٹکتے ہوں اور جس کے ماتھے پر ٹیکہ ہو۔ پوشن دیوتا کے لیے کالی اورلال گائے کاٹنا چاہیے۔ ہندومت میں بغاوت کے نتیجے میں بدھ مت اورجین مت کا ظہور ہو اوران لوگوں نے ہر اس بات کا انکار کردیا جس کا ویدک دور میں زور تھا ۔ خاص طور سے قربانی کا بھی انکار کردیا کیوں کہ اس دور میں یگیہ کے موقع پر بے شمار جانور ذبح کیےجاتے تھے۔ اس کے رد عمل میں بدھ مت اورجین مت نے اہنسا پر زوردیا اورراجہ اشوک نے باقاعدہ اپنے دور حکومت میں قربانی پر پابندی لگادی تھی ۔ اسی طرح جینیوں کے جوپانچ بنیادی عہد ہیں ان میں پہلا عہدا ہنسا ہی ہے ۔ ان دونوں مذاہب کی ان تعلیمات کا اثر ہندومت پر بھی پڑا اور بعد کے ادوار میں ان کے یہاں بھی قربانی کی ممانعت ہوگئی اورآج یہ لوگ اس کے سب سے بڑے مخالف بنے ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کرنے لکھاہے کہ ’’ یہ برہمنوں کی جنگی چال کا حصہ ہے کہ وہ گوشت خور بننے کے بجائے گائے کے پجاری بن گئے ۔ بدھشٹوں اوربرہمنوں کے بیچ چار سوسالہ لڑائی میں یہ راز پنہاں ہے ۔ بدھشٹ رحم کے جذبے کولے کر اپنی تعلیمات آگے بڑھا رہے تھے، ان سے آگے بازی لے کر یہ لڑائی برہمنوں نے جیت لی ‘‘۔ (بحوالہ وحدت جدید ، نئی دہلی ، اپریل ۲۰۱۵ء ص ۳۸، ۳۹)
مشرکین مکہ بھی قربانی کرتے تھے مگر وہ قربانی کا گوشت تو خود کھاجاتے اور اس کا خون کعبہ کی دیواروں پر مَل دیتے تھے اورسمجھتے تھے کہ یہ خون خدا تک پہنچ گیا ہے اورہماری قربانی قبول ہوگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل خیال کی تردید اورقربانی کی اصل روح بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ(الحج:۳۷)
’’ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔
اسلام حقیقت میں قربانی سے عبارت ہے۔ ایمان نفس کی قربانی ہے ۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے ۔ زکوٰۃ مال کی قربانی ہے ۔ جہاد ، وقت، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے ۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے ، اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اوراس کی بڑائی کا اظہار کریں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ماعمل آدمی من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم ، انہ لیالی یوم القیامۃ بقرونہا واشعار ہا واظلافہا ۔ وان الدم یقع من اللہ بمکان قبل ان یقع من الارض فطیبوا بہا نفساً
(ترمذی ابواب الاضاحی، باب ما جاء فی فضل الاضحیۃ )
’’یوم النحر (دس ذی الحجہ) کوآدمی کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔ بے شک قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں ، بالوں اورکھروں کے ساتھ حاضر ہوں گے ۔ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی خدا کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے، لہٰذا اے مسلمانو! ـ پوری خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو‘‘۔
اسلام میں قربانی باقاعدہ مدینہ میں شروع ہوئی اور نبی کریمؐ ہر سال پابندی سے جانوروں کی قربانی کرتے تھے اور اپنی امت کوبھی اس کی تاکید کی ہے۔
ہر مذہب اور شریعت میں قربانی کسی نہ کسی حیثیت سے مشروع رہی ہے البتہ سابقہ ادیان اور شریعتوں اوردین اسلام میں قربانی کے احکام میں کچھ فرق وامتیاز پایا جاتا ہے۔
۱۔ سابقہ شریعتوں میں قربانی کے لیے ایک مخصوص مقام متعین تھا ۔ اس کے علاوہ کسی اورمقام پر قربانی پیش نہیں کی جاسکتی تھی ۔ یہودی شریعت میںصرف ہیکل سلیمانی کے پاس بنے ہوئے مذبح میں ہی قربانی کی جاسکتی تھی ۔اسلام میں قربانی کا اصل مقام مردہ ہے ۔ مگر اُمت کے دائرۂ وسیع ہونے کے بعد پوری روئے زمین پر کہیں بھی قربانی کی جاسکتی ہے ۔
۲۔ سابقہ مذاہب میں ہر آدمی بذات خود اپنی قربانی نہیں پیش کرسکتا تھا ۔ مخصوص لوگ ہی اسے پیش کرتے تھے لیکن اسلام نے ہر خاص وعام کو حق دیا کہ وہ اپنی قربانی خود پیش کرسکتا ہے۔
۳۔ دوسرے مذاہب میں قربانی میدا ن میں پیش کی جاتی تھی ، جس کو آسمانی آگ آکر کھا جاتی ہے وہ اس کے مقبول ہونے کی علامت ہوتی اورجس کو نہ کھاتی وہ غیر مقبول سمجھی جاتی۔ اب قربانی کے مقبول ہونے کا علم ایک سر نہاں بن گیا ہے ۔
۴۔ گزشتہ شریعتوں میں قربانی کیے ہوئے جانور سے فائدہ اُٹھانا جائز اور درست نہ تھا لیکن اس امت کے ساتھ اللہ نے یہ رحم کا معاملہ فرمایا ہے کہ اخلاص کے ساتھ پیش کی گئی قربانی پر نیکی اور ثواب کے ساتھ اس کے گوشت سے استفادےکی اجازت بھی دی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ(الحج : ۳۶)
’’ اورجب (قربانی کے بعد ) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اوران کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اوران کو بھی جواپنی حاجت پیش کردی ‘‘۔
مختلف مذاہب اورشرائع میں قربانی کی مشروعیت کا مقصود یہ تھا کہ بغیر قربانی کے قوموں ا ور حلقوں کی بقا اور حیات ناممکن ہے ۔ قوموں اورحلقوں کی بلندی کا انحصار ہی قربانی پر ہے ۔ دنیا میں وہی لوگ غالب اورسر بلند رہتے ہیں جوہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں کیوں کہ قربانی ہی سر چشمۂ قوت ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017