ہندوستان ایک ذرخیز ، سر سبز و شاداب ملک ہے ، تہذیب وثقافت کا گہوارہ ہے ، متنوع مذاہب و مسالک کے ماننے والے یہاں آباد ہیں ، یہاں کی رواداری کا ذِکر کیا جاتا ہے۔ یہاں کا دستور تما م مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق تسلیم کرتا ہے یہاں ، قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں ۔قرونِ وسطیٰ میں سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا ۔ انگریز اسے محکوم بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ہندوستانیوں کی جد و جہد ، اور قربانیوں کے نتیجہ میں یہ ملک آزاد ہوا ،آزادی کے بعدبھارت میں مکتب فکر عیاں ہوئے ایک گاندھی جی سے منسوب سیکو لر مکتب فکر تھا دوسرا مکتب فکر گوڈ سے کا تھا ، پہلے مکتب فکر کو ترقی ملی پھر وہ اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد زوال کا شکار ہوا ،گوڈ سے کے مکتب فکر کو۲۰۱۴ء میں سیاسی کامیابی ملی ، اکثر یت کے ساتھ اقتدار میں آیا، اس کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک تعمیر کے بجائے تخریب کی طرف جانے لگا ۔
اس تخریب کا تدارک نہ کیا گیا تو بھیانک نتائج کا اندیشہ ہے آج ملک کو تارتار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ آئے دن اشتعال انگزیاں ہوتی ہیں ملک میں خوف و ہراس کا ماحول ہے ظالمانہ و جابرانہ طریقہ سےسب کو ایک رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔زبردستی ایک ثقافت تھوپی جارہی ہے ۔ اس کے لیے مختلف طریقوں پر عمل ہورہا ہے ، اقتدار رکھنےو الے مظالم ڈھارہے ہیں ۔ اقلیتوں پر حملے عام ہیں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مسلمانوں کے مذہبی مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تشدد کو پیدا کیا جارہا ہے ، ظالمانہ حربے استعمال کر کےلوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ گئو کے نام پر مظالم ہورہے ہیں۔ نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کردیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر نسل نو کو مشق ستم بنایا جارہا ہے ۔
مذہب میں چند نام نہاد مسائل کو بنیاد بنا کر مداخلت کی جارہی ہے ، اقلیتوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں ، قانونی بالادستی کے بجائے قانون شکنی عام ہے ۔ تعلیمی اداروں میں تناؤ کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ۔ تعلیمی اداروں سے حب الوطنی کا ثبوت طلب کیا جاتا ہے ۔ وندے ماترم جیسے موضوعات کے ذریعے ملک میں عدم تحفظ اور بے اطمینانی عام ہو رہی ہے ۔
ملک کی اقتصادی حالت مسائل بہ زوال ہے، اشیاء کی گرانی بڑھ رہی ہے ۔ اس صورت حال میں صحیح ترجمانی کی امید میڈیا سے تھی، لیکن افسوس ابلاغ سے وابستہ افراد ضمیر فروشی پر مائل ہیں۔ تنقید کی صدا کو دیش دروہ قرار دیتے ہیں، بے باک ، اور حقیقت پسند صحافیوں کا دن دہاڑے قتل ہوجاتا ہے ۔ جمہوری اداروں کے خاتمہ کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔
؎اس تشویشناک صورت حال میں مسلمانوں کو چند امور پر تو جہ کرنی چاہیے۔
محاسبہ
ایمان والے انفرادی طور پر اپنا ذاتی محاسبہ کریں ۔ ایمانی جذبے کو مضبوط کریں ، تعلق باللہ میں اضافہ کریں ، اللہ سے مدد و نصرت کے طالب رہیں ۔ پیش نظر رکھیں ’’ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون ‘‘ یہ ابتلا ء و آزمائش ہے ،اس سے سچوں کی شناخت ہوتی ہے ارشاد ربانی ہے ’’ الم احسب الناس ان یترکو ا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون ‘‘
مسلکی مباحث کودینی حدود کا تابع بنانا
محاسبہ نفس کے بعد مسلکی اختلافات کے باوجود متحد و متفق ہوجا نا چاہیے۔ دین پر مبنی ہمارا شیرازہ منتشر نہ ہو دشمن کی چال کامیاب نہ ہو۔ ہمارا مسلمان بھائی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ سوچ کرکچھ لوگ پہلو تہی اختیار کرلیتے ہیں کہ یہ ہمارے مسلک و فرقہ کا نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھئے کہ وہ مسلمان ہے۔ اُس کے حقوق ادا کرنے چاہئیں ۔ سخت ضرورت ہے کہ اختلافات کو ضـمنی حیثیت کا ادارک ہو۔ ہم بیدار نہ ہوئے تو مستقبل تاریک ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اسی کے ساتھ قائدین و مفکرین صحیح منصوبہ بندی کریں اور اس کو عملی جامہ پہنائیں ۔ نسل نو کی ہمہ گیر تربیت واصلاح کریں اور امت کے تشخص و وقار کو مجروح نہ ہو نے دیں ۔
احوالِ سیاست سے واقف مخلص مسلم رہنما تیار کریں ، تاکہ سازشیں اور تخریبی منصوبہ بندی کامیاب نہ ہوسکے۔ عوامی سطح پر ہماری صحیح ترجمانی ہو ۔
عصری ودینی تعلیم
یہ کام بڑا اہم ہے کہ نسل نو کو عصری و دینی تعلیم سے آراستہ کرایاجائے قوم کے نوجوان ہی اس کا مستقبل ہوتے ہیں ۔
اسی طرح مسلمانوں کو اپنی معاشی حالت درست کرنے کے لیےکوشش کرنی چاہیے۔ اپنی ذاتی کمپنیاں قائم کریں۔ تمام ضروری ذرائع اپنا کر اقتصادی حالت کو مستحکم کرنا چاہیے ۔
اس پر خطر ماحول میں کلیدی رول ادا کرنے والا ادارہ میڈیاہے۔ مسلمانوں کو صحافت کی جانب توجہ کرنی چاہئے ۔ نوجوانوں کو آگے بڑھنا چاہئے ۔ وہ خود دار ہوں حرص و طمع کے شکار نہ ہوں۔ مسلمان اور اسلام کی صحیح ترجمانی کے لیے حالات کا صحیح جائزہ لیں۔ حالات سے باخبر کرنے کے لیے چینل کے انتظام کی منصوبہ بندی کی جائے۔
تحریکیں و تنظیمیں آپس میں تعاون کریں رفاہی کام ان کا دائرہ وسیع کریںاہلِ وطن کے ذہنوں میں موجود شکوک و شبہات کو رفع کریں۔
دینی مدارس تنگ نظری و تعصب سے پاک ہو کر وسیع پیمانہ پر اپنی خدمات انجام دیں۔ انتشار کے اسباب کو ختم کردینا مناسب ہوگا ۔ ان تمام تدابیر کو اختیار کرنے کے بعد اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ ہماری حالت درست کردے اور ہمیں فرضِ منصبی کا شعور عطا کردے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2017