کوئی بھی انسان جب اپنی زبان کو بے قابو چھوڑتا ہے تو ہر لمحہ اس کے مفاسد اور اس کی خرابیاں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ اِس مضمون میں ہم زبان کے چند جرائم اور مفاسد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ تاکہ کسی حد تک ہم ان مفاسد سے بچنے کی کوشش کرسکیں اور اس کے نتیجے میں ایک صالح اور روشن معاشرہ وجود میں آسکے۔
گالی
گالی دینا یا کسی کو برا بھلا کہنا اخلاق رزیلہ میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیںجو بات بات پر اپنی زبانوں کو گالیوں سے گندا کرتے ہیں۔ مگر ایک باوقار اور بردبار شخص ہمیشہ اس سے اپنی زبان کو محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِذَا خَاصَمَ فَجَرَ’’جب لڑائی کرے تو فوراً گالی پر اتر آئے‘‘
گالی دراصل اپنے مخالف کو کمزور کرنے اور کبھی کبھی اشتعال دلانے کے لیے دی جاتی ہے۔ مگر ایک بندۂ مومن اس برے ہتھیار کاکسی بھی صورت میں استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے۔ حالاںکہ ردّعمل میں اگر وہ بھی کوئی سخت رویّہ اختیارکرلے اور برابری کی حد تک کوئی اقدام کرلے تو اس سے مواخذہ نہیںہوگا۔قرآن میں ہے:
لاَّ یُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوٓئ ِ مِنَ الْقَوْلِ ِٓلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اللّہُ سَمِیْعاً عَلِیْماً۔ِٓن تُبْدُواْ خَیْْراً أَوْ تُخْفُوہُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّہَ کَانَ عَفُوّاً قَدِیْرا۔ ﴿النساء: ۱۴۹،۱۴۸﴾
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ سب کچھ سننے او ر جاننے والا ہے۔ ﴿مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو بدگوئی کا حق ہے﴾ لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جائو، یا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ ﴿کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ﴾ بڑا معاف کرنے والا ہے، ﴿حالاں کہ سزا دینے پر﴾ پوری قدرت رکھتا ہے۔‘’
اسی بات کو اللہ کے رسولﷺ نے ایک حدیث میںدوسرے انداز میں فرمایا:
اِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحْدِکُمْ فَلَا یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ،فَاِنْ سَابَّہُ أَحْدٌ أَوْ قَاتَلَہُ فَلْیَقُلْ:اِنِّيْ اِمْرَؤٌ صَائِمٌ ﴿بخاری، کتاب الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم﴾
’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ گندی گفتگو کرے، نہ لڑائی جھگڑا کرے، اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی کرے، تو وہ جواب میں کہے میں روزے سے ہوں۔‘’
اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ مومن بندہ بھی جواب دے سکتا ہے مگر اعلیٰ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ مومن کسی بھی طرح بلندی سے پستی کی طرف نہ آئے۔ بل کہ اس کے اور اُس زبان دراز یا گالی دینے والے کے درمیان واضح فرق نظر آنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؒ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہ‘’ کُفْرٌ‘’ کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتل کرنا کفر ہے‘’
ایک حدیث میں آپﷺ نے گالی گلوچ کو کبائر میں شمار کیا ہے۔
عَنْ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَال:َ مِنَ الْکَبَائِرَ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ، نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُّبُ أَبَاہُ وَیَسُبُّ أُمَّہ، فَیَسُبُّ أُمَّہ،۔
﴿مسلم،کتاب الایمان باب الکبائر وأکبرھا، بخاری، کتاب الادب،باب لا یسب الرجل والدہ﴾
’’حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنے والدین کو سب وشتم کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے ، آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ ﴿وہ اس طرح کہ﴾ وہ کسی کے والد کو گالی دیتا ہے جواب میں وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتا ہے۔وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ﴿تو سمجھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دے دی﴾ ۔ ’’
کسی پر تہمت لگانا
قرآن مجیدمیں تہمت کے لیے رمی کا لفظ اور حدیث میں قذف کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تہمت دراصل ایک ایسی بات کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی دوسرے شخص کو کسی ایسے جرم اور گناہ کا مجرم قرار دیا جائے جس کا ارتکاب اس نے نہ کیا ہو۔ شریعت میں یہ ایک گھناونی حرکت ہے اور اس عمل کے ذریعے ایک انسان دنیا میں اللہ کی طرف سے ذلت اور رسوائی کا اور آخرت میں عذاب الیم کا مستحق قرار پاتا ہے۔ تہمت لگانے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعے قاذف ﴿تہمت لگانے والا﴾ مقذوف ﴿جس پر تہمت لگائی گئی ہو﴾ کو معاشرے کے اندر رسوا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے اور اس کی عزت کو مٹی میں ملانا چاہتا ہے۔ اس عمل کی شدت ِکراہت ہی کی وجہ سے اللہ نے قرآن مجیدمیں ایک سخت قانون وضع کیا ہے۔ تاکہ اس عمل کے مرتکب کو سزا دے کر معاشرے کو اس کے ذریعے سے پیدا ہونے والے فسادات سے محفوظ رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَداً وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون۔ ﴿النور:۴﴾
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی﴿۰۸﴾ کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔‘’
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تہمت تو بہ ہرحال ایک جرم ہے چاہے کسی پر بھی لگائی جائے، مگر اس کی شدت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب یہ پاک دامن عورتوں پر لگائی جائے۔
ایک اور پرجگہ اللہ تعالیٰ نے قاذف کے لیے دنیا اور آخرت کی دونوں سزائوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِیْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ ﴿النور: ۳۲﴾
’’جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘’
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَمَن یَکْسِبْ خَطْٓیئَۃً أَوْ اِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِہِ بَرِٓیْئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَاناً وَّاِثْماً مُّبِیْناً﴿النساء: ۱۱۲﴾
’’اور جس نے کوئی خطا یا گناہ کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپ دیا، اس نے تو بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔‘’
اللہ کے رسولﷺ نے ایک حدیث میںسات ہلاکت خیز چیزوں سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی پاک دامن مومن اور بے خبر عورت پر تہمت لگائی جائے۔ ﴿مسلم، کتاب الایمان، باب الکبائر واکبرھا﴾
تہمت کا اطلاق خاص طور پر زنا اور بدکاری کے الزام پر ہوتا ہے۔ لیکن اگر دوسرے جرائم اور گناہوں کا الزام لگایا جائے تو وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَھُوَ کَقَتْلِہِ ﴿ بخاری،کتاب الادب،ترمذی،ابواب الایمان﴾
’’جس نے کسی مومن کو کفر کی تہمت لگائی یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے اس کو قتل کر دیا‘’
ایک اور حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃؒ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ یَقُوْلُ مَنْ قَذَفَ مَمْلُوْکَہ، وَھُوَ بَرِیئٌ مِمَا قَالَ جُلِدَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ کَمَا قَالَ۔ ﴿بخاری، کتاب المحاربین، باب قذف العبید۔ ترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب النھی عن ضرب الحذام و شتم﴾
’’حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ میں نے ابا القاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی حالاں کہ وہ اس تہمت سے بری ہو تو قیامت کے روز اس﴿آقا﴾ پر کوڑے مارے جائیں گے الا یہ کہ ایسا ہی ہو جیسا اس نے کہا۔‘’
غرض تہمت زبان کا ایک ایسا جرم ہے کہ اگر بالفرض دنیا میں اس کی سز ا سے انسان بچ بھی جائے، تو قیامت کے روز اس کی سزا جہنم کی صورت میں اس کو ضرورملے گی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
قَذْفُ الْمُحْصَنَۃِ یَھْدِمُ عَمَلَ مِأَۃِ سَنَۃٍ ﴿عن حذیفہ، تفسیر ابن کثیر ج۳ سورۃ النور، بحوالہ ابن ابی حاتم﴾
’’پاک دامن عورت پر تہمت لگانا ایک سو سال کی عبادت کو ضائع کر دیتا ہے۔‘’
غیبت
کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی اس طرح بیان کرنا، جس سے اس کی اصلاح مقصود نہ ہو، جس کے نتیجے میں اس کی ذلت و رسوائی ہورہی ہو، اِسے غیبت کہتے ہیں۔شریعت میں غیبت کو ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ غیبت کی تعریف اللہ کے رسولﷺ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَالَ أَتَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَۃِ؟ قَالُوْا، اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہ، أَعْلَمُ، قَالَ ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ، قِیْلَ أَفَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ فِيْ مَا اَقُوْلُ؟ قَالَ اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقَُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَھَتَّہ،۔ ﴿مسلم، کتاب البر، باب تحریم الغیبۃ، ترمذی،ا بواب البر والصلۃ، باب ما جائ فی الغیبۃ﴾
’’نبی ﷺ نے صحابہ سے پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسولﷺزیادہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر کر ے ایسے ڈھنگ سے کروجو وہ ناپسند کرتا ہو، پھر آپﷺ سے پوچھا گیا، اگر وہ بات ﴿عیب﴾ جو میں کہہ رہا ہوں میرے بھائی کے اندر پائی جاتی ہوتو آپﷺ نے فرمایا اگر وہ بات جو تو کہتا ہے اس کے اندر موجود ہو تو یہ غیبت ہوئی اور اگر اس کے اندر وہ بات ﴿عیب﴾ نہیں ہے تو تونے اس پر بہتان لگایا۔‘’
اس حدیث سے غیبت اور تہمت کے درمیان واضح فرق معلوم ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ اس لیے کہ جس طرح کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے اور اس کا مردہ بھائی اپنا دفاع نہیں کر سکتا، اسی طرح جس کی غیبت کی جاتی ہے وہ بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ۔ ﴿الحجرات:۱۲﴾
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو، اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔‘’
ایک حدیث میں غیبت کو زنا سے زیادہ سنگین قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:
’’غیبت زنا سے سخت تر گناہ ہے، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺغیبت زنا سے سخت گناہ کیوں کر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ آدمی زنا کرتا ہے تو پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو معاف نہیں کرے گا جب تک کہ وہ شخص اس کو معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے۔‘’ ﴿راہ عمل،ص: ۱۶۶﴾
چغلی
چغلی کھانا بھی زبان کا ایک بدترین اور قبیح عیب ہے، جس کی وجہ سے ایک صحیح سالم معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے بدظن ہوجاتے ہیں، ایک دوسرے پرسے اعتماد اٹھتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کی اخلاقی ترقی رک جاتی ہے۔چغلی یہ ہے کہ کسی کی ایسی بات کو دوسرے ایسے شخص کے ہاں پہنچانا جس کو سن کر وہ اس اسے بدگمان اور ناراض ہو جائے اور ان کے باہمی تعلقات خراب ہو جائیں۔ جب کہ اسلام صلح و صفائی اور آپس میں مضبوط رشتے کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ ﴿بخاری،کتاب الادب، باب ما یکرہ من النمیمۃ﴾
’’حضرت حذیفہؒ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘’
روایات میں آیا ہے کہ دو اشخاص کو محض عذاب قبر میں مبتلا ہونا پڑا کہ ان میں ایک آدمی پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھااور دوسرا لوگوں کے سامنے دوسروں کی چغلی کھاتا تھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ۔ ﴿بخاری، کتاب الادب، باب اثم القاطع﴾
’’رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘’
جھوٹ
حقیقت کے خلاف کوئی کلام کرنا جھوٹ کہلاتا ہے۔ یہ منافقانہ صفت ہے اور ایک سچا مومن اس خصلت سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا:
عَنْ أَبِيْ أَمَامَۃَؒ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ یَطْبَعُ المُؤْمِنُ عَلَی الْخِلَالِ کُلِّھَا الَّا الْخِیَانَۃِ وَالْکِذْبِ۔ ﴿مسنداحمد﴾
’’ابو امامہؒ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:‘’ مومن کی طبیعت میں ہر عادت وخصلت کا امکان ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘’
اور یہ منافق کی علامت بتائی گئی:
اذَا حَدَثَ کَذِبَ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔
’’جب وہ بولے تو جھوٹ بولے اور اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘’
طنز اور عیب جوئی
طنز اور عیب جوئی کرنا بھی ایک بدترین لسانی خرابی ہے۔ اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ وہ حتی المقدور دوسروں پر طنز کرنے اور ان کے عیب ٹٹول کر بیان کرنے سے باز رہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی تمام نیکیاں برباد کر کے اسے جہنم کے اندر گرا دے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ہلاکت کی بشارت دیتا ہے:
وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔﴿الھمزۃ:۱﴾
’’تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو لوگوں پر طنز اور برائیوں کا خوگر ہے۔‘’
اللہ کے رسولﷺکو ان تمام لوگوں کی اطاعت سے منع فرمایا گیا جن کے اندر یہ اوصاف ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ۔ہَمَّازٍ مَّشَّائ بِنَمِیْمٍ۔مَنَّاعٍ لِّلْخَیْْرِ مُعْتَدٍ أَثِیْمٍ۔عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ۔ ﴿القلم:۱۰،۱۳﴾
’’ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا، بے وقعت آدمی ہے، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، ظلم وزیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہوتا ہے، سخت بداعمال ہے، جفا کار ہے، اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے۔‘’
اللہ کے رسولﷺ نے ایک موقعے پر اہل نفاق مسلمانوں کو بلند آواز سے خطاب فرمایا:
یَا مَعْشَرَ مَنْ اَسْلَمَ بِلِسَانِہِ وَلَمْ یَفْضُ الْ۱ِیْمَانُ اِلَی قَلْبِہ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِیْنَ وَلَا تُعَیِّرُوْھُمْ وَلَا تَتَبِّعُوْا عَوْرَاتِھِمْ فَاَّہ، مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَۃَ أَخِیْہ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللّٰہُ عَوْرَتَہ، وَمَنْ یَتَبَّعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہ، یَفْضَحْہُ وَلَوْ فِيْ جَوْفِ رَحْلِہِ۔ ﴿ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجائ فی تعظیم المومن، عن ابن عمر﴾
’’اے افراد جماعت! جو زبان سے مسلم ہو اور ایمان دل میں داخل نہیں ہوا، تم مسلمانوں کو ایذا نہ دو، ان پر طنز نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کی تلاش میںرہے گا اللہ تعالیٰ اس کا بھانڈا پھوڑ دے گا، اللہ تعالیٰ جس کی برائیوں کا پردہ چاک کرتا ہے، اسے بے عزت اور رسوا کرتا ہے، چاہے وہ اپنے گھر کے اندر ﴿خلوت میں﴾ برائی کر رہا ہو۔‘’
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ایک آیت میں مختلف لسانی عیوب کی نشان دہی فرما کر مومنوں کو ان سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائ مِّن نِّسَائ عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاْمَانِ وَمَن لَّمْ یَتُبْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ۔ ﴿الحجرات:۱۱﴾
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنابہت بری بات ہے۔جو لوگ اس روش سے بازنہ آجائیں، وہ ظالم ہیں۔‘’
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں تمام لسانی عیوب کو گنا کر آخر میں فرمایا گیا کہ ایمان لانے کے بعد فسق میںنام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام عیوب ایک فاسق شخص کے اندر ہی ہو سکتے ہیں۔اس لیے کہ ایمان کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مومن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلم محفوظ اور مامون رہیں۔
‘‘
مشمولہ: شمارہ اگست 2011