حضرت ابوبکر صدیق کو منصب خلافت پر متمکن ہوتے ہی طرح طرح کی صعوبات مشکلات اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا، ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے، دوسری طرف مرتدین اسلام کی جماعت نے علم بغاوت بلند کردیا تھا منکرین زکوٰۃ کا بھی فتنہ اٹھ کھڑا تھا۔
عراق کی صورتحال:
ایرانی سلطنت انقلاب حکومت وطوائف الملوکی کے باعث اپنی اگلی عظمت وشان کھوچکی تھی۔ ’یزدگرد‘ شہنشاہ ایران نابالغ تھا، مآخذبیان کرتے ہیں کہ عراق کے عربی قبائل جو ایرانی حکومت کا ظلم وستم سہ چکے تھے ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے متمنی تھے چنانچہ موقع پاکر نہایت زوروشور کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور قبیلہ وائل کے دو سر دار ’’مثنی شیبانی‘‘ و ’’سوید عملی‘‘ نے ’واہلہ‘ کے نواح میں غارت گری شروع کردی۔ مثنی اسلام لاچکے تھے انھوں نے دیکھا کہ وہ تنہا اس حکومت سے نبردآزما نہیں ہوسکتے۔ وہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اورباقاعدہ فوج کشی کی اجازت حاصل کی اور اپنے قبیلہ کو لے کر ایران سرحد میں داخل ہوئے۔اس وقت تک حضرت خالد بن ولید مدعیان نبوت ومرتدین کی بیخ کنی سے فارغ ہوچکے تھے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر نے ان کو ایک دستہ کے ساتھ ’’مثنی‘‘ کی کمک کے لیے روانہ فرمایا۔
حضرت خالد بن ولید نے جنگ کی صورت میں بدل دی اور بانقیا، کسکر وغیرہ فتح کرتے ہوئے شاہانِ عجم کے حدود میں داخل ہوگئے۔ یہاں شاہ جاپان سے مقابلہ ہوا اوراس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا پھر حیرہ کے بادشاہ نعمان سے جنگ آزما ہوئے۔ نعمان ہزیمت اٹھاکر مدائن بھاگ گیا، یہاں سے خورلق پہنچے اہل خورلق نے خراج پر مصالحت کرلی غرض اس طرح حیرہ کا پورا علاقہ فتح ہوگیا۔ ۱؎
فتح شام:
حضرت ابوبکر نے ۱۳ھ میں صحابہ کرامؓ سے مشورہ کے بعد شام پر لشکر کشی کی اور ہر علاقہ کے لیے الگ الگ فوج مقرر کی ۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ حضرت ابوعبیدہ حمص پر، یزید بن ابی سفیان دمشق پر، شرجیل بن حسنہ اردن پر اور عمرو بن العاص فلسطین پر مامور ہوئے۔ مجاہدین کی مجموعی تعداد ۲۷۰۰۰ تھی، ان سرداروں کو سرحد سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر رومی جتھے ملے جن کو قیصر نے پہلے سے الگ الگ سردار کے مقابلہ میں متعین کردیا تھا، یہ دیکھ کر افسران اسلام نے اپنی کل فوجوں کو ایک جگہ جمع کرلیا اور خلیفہ کو غنیم کی غیر معمولی کثرت کی اطلاع دے کر مزید کمک کے لیے لکھا کیوں کہ اس وقت دارالخلافت میں کوئی فوج موجود نہ تھی اس لیے حضرت ابوبکر کو نہایت تردد ہوا۔ آپ نےخالد بن ولید کو لکھا کہ عراق کی باگ ڈور مثنی کو دے کر شام کی طرف روانہ ہوجائیں یہ فرمان پا کر حضرت خالد، ایک فوجی دستہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۲؎
حضرت خالد بن ولید کو راستے میں بہت سے چھوٹے چھوٹے معرکوں سے گزرنا پڑا۔ حیرہ کے علاقہ سے روانہ ہوکر عین التمر پہنچے تو وہاں کسریٰ کی فوج سدراہ ہوئی، عقبہ بن ابی بلال الثمری اس فوج کاسپہ سالار تھا۔ حضرت خالد نے عقبہ کو قتل کرکے اس کی فوج کو شکست دی، آگے بڑھے توہذیل بن عمران کی سیادت میں بنی تغلب کی ایک جماعت نے مقابلہ کیا، ہذیل مارا گیا اور اس کی جماعت کے بہت سے لوگ اسیر ہوئے اور مدینہ روانہ کیے گئے۔ پھر یہاں سے انباء پہنچے اور انبار سے صحرا طے کرکے قدمرمیں خیمہ زن ہوئے اہل قدمرنے پہلے قلعہ بندہوکر مقابلہ کیا، پھر مجبور ہوکر مصالحت کرلی، قدمر سے گزر کر حوران آئے، یہاں سخت جنگ پیش آئی۔ اسے فتح کرکے شام کی اسلامی مہم میں شامل ہوگئے اور متحدہ قوت سے بصری نحل اور اجنادین کے علاقوں کو فتح کرلیا اجنادین کی جنگ نہایت شدید تھی ۔ لیکن فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس طرح جمادی الاولی ۱۲۳ھ سے اجنا دین اسلام کے تحت آگیا۔۳؎
متفرق فتوحات:
اجنادین سے بڑھ کر اسلامی فوجوں نے دمشق کا محاصرہ کیا، لیکن اس کے مفتوح ہونے سے پہلے ہی خلیفہ ا ول ابوبکر نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص نے مکران اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں کو فتح کرکے، اسلامی حکومت میں شامل کیا، حضرت علاء بن حضری زارہ پر مامور ہوئے۔ انھوں نے زارہ اور اس کے اطراف کو فتح کرکے مال غنیمت مدینہ روانہ فرمایا حضرت ابوبکر نے اس میں سے مدینہ منورہ کے ہر خاص وعام ، مرد ، عورت و آزاد وغلام کو ایک ایک دینار تقسیم فرمایا۔۴؎
ملکی انتظام کے اہم پہلو
حضرت ابوبکر صدیق کی زندگی اہم سیاسی، سماجی وفلاحی کارناموں سے لبریز ہے۔ انھوں نے لازوال خدمات انجام دیں جو تاریخی اوراق سے محو نہیں ہوسکتیں۔ خلافت کی ابتدا آپ سے ہوئی۔ اہم امور میںکبار صحابہ سے مشورہ کرتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب شام پر لشکر کشی کاخیال آیا تو پہلے اس کو صحابہ کے سامنے برائے مشورہ پیش کیا۔ حضرت علیؓ نے اپنی صائب رائے سے نوازا۔ ۵؎ اسی طرح منکرین زکوٰۃ کے مقابلہ میں جہاد ، حضرت عمرؓکی جانشینی اور دوسرے اہم معاملات میں صحابہ کی رائے معلوم کی ، ابن سعد کے مطابق جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تا تو ممتاز مہاجرین وانصار جمع کیے جاتے اور ان سے رائے لی جاتی۔
’’جب کوئی امر پیش آتا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق اہل الرائے فقہاء صحابہ سے مشورہ لیتے تھے اور مہاجرین وانصار میں چند ممتاز لوگوں یعنی عمر، عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید کو بلاتے تھے۔ یہ سب حضرات ابوبکر کے عہد خلافت میں فتوے بھی دیتے تھے‘‘۔
حکومت کے لیے اہم امر ملک کاانتظام وانصرام ہوتاہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں بیرونی فتوحات کی ابتداء ہوئی اس لیے حکومت کادائرہ عرب تک محدود تھا۔ آپ نے عرب کو متعدد صوبوں، ضلعوں میں منقسم کردیا تھا۔ مدینہ، مکہ، طائف، صنعاء، نجران، حضرموت اور دومۃ الجندل الگ الگ صوبے تھے۔ ۷؎ ہر صوبہ میں ایک عامل ہوتا تھا جو اپنے فرائض انجام دیتا تھا، دارالخلافہ میں الگ الگ عہدہ دار مقرر کیے جاتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ شام کی سپہ سالاری سے قبل افسرمال تھے ۔ حضرت عمر قضاء کے عہدہ پر فائز تھے حضرت عثمان اورحضرت زید بن ثابت دربار خلافت میں کاتب (منشی) کے عہدہ پر متمکن رہے۔ ۸؎
صاحب طبری کا بیان ہے کہ عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں حضرت ابوبکر نے ہمیشہ ان لوگوں کو ترجیح دی جو عہد رسالت میں عامل یا عہدہ دار رہ چکے تھے اور ان سے انہی مقامات میں کام لیا جہاں وہ پہلے خدمت انجام دے چکے تھے۔ عہد رسالت میں مکہ میں عتاب بن اسید، طائف میں عثمان بن ابی العاص، صنعاء میں مہاجربن امیہ، حضرموت پرزیاد بن لبید اور بحرین میں علاء بن الحضرمی مامور تھے۔ خلیفہ وقت نے مذکورہ مقامات پران ہی لوگوں کو برقرار رکھا یہ آپ کی سیاسی بصیرت، اور انتظامی صلاحیت کا شاہکارہے۔ ۹؎ جب آپ کسی کو کوئی ذمہ داری سپرد فرماتے تواس کے فرائض کی یادہانی کراتے تھے جب عمرو بن العاص اور ولید بن عقبہ کو قبیلہ قضاعہ پر محصل صدقہ بناکر روانہ فرمایا تو حسب ذیل نصیحت فرمائی:
’’خلوت وجلوت میںخوف خدا رکھو، جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے ایسی سبیل اور اس کے رزق کاایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے جو کسی کے گمان میں نہیں آسکتا جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کردیتاہے۔ اور اس کا اجر دوبالاکردیتا ہے۔ بے شک بندگان خدا کی خیرخواہی بہترین تقویٰ ہے۔ تم خدا کی ایک ایسی راہ میں ہو جس میں افراط وتفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں ہے جس میں مذہب کا استحکام اور خلافت کی حفاظت مضمر ہے اس لیے سستی اور تغافل کو راہ نہ دینا‘‘۔
مذکورہ مآخذ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے ملکی نظم ونسق کا کام فہم وفراست سے انجام دیا۔ خوف خدا اوررعایا کے حقوق کا خیال رکھناضروری ہے تبھی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔
حکام کی نگرانی
حکومت کی کامیابی کاراز حکام کی نگرانی اور احتساب میں مضمر ہے۔ آئین و دستور کتنا ہی مرتب ومنظم ہو۔ جب تک نگرانی نہ ہو نظم درست نہیں رہتا۔ حضرت ابوبکر انتہائی نرم خو تھے مگر انتظام حکومت میں کسی مداہنت کو روانہ رکھتے تھے اگر حکام سے کوئی غیر مناسب امر سرزد ہوجاتا تو سختی کے ساتھ احتساب کرتے۔ جنگ یمامہ میں مجاعہ حنفی مسیلمہ کا سپہ سالار تھا۔ اس نے حضرت خالد بن ولید کو دھوکہ دے کر مسیلمہ کی تمام قوم کو مسلمانوں سے بچالیا۔ حضرت خالد بن ولید نے اس غداری پر اسے سزادینے کے بجائے اس کی لڑکی سے شادی کرلی، چوںکہ اس جنگ میں بہت سے صحابہ شہید ہوئے تھے۔ لہٰذا ابوبکرؓ حضرت خالد بن ولید پرسخت برہم ہوئے اور لکھا:
’’تمہارے خیمہ کی طناب کے پاس مسلمانوں کاخون بہہ رہا ہے اور تم عورتوں کے ساتھ عیش وعشرت میں مصروف ہو‘‘۔
ایک دوسرا واقعہ حضرت خالد بن ولید ہی سے متعلق ہے ۔ مالک بن نویرہ منکر زکوٰۃ تھا اس کی تنبیہ کے لیے حضرت خالد بن ولید مامور تھے۔ انھوں نے زبانی ہدایت دینے سے قبل ہی اُسے قتل کرڈالا۔ مالک کا بھائی شاعر تھا۔ اس نے پُر درد مرثیہ لکھا اور ظاہر کیا کہ وہ تائب ہونے کے لیے تیار تھا۔ مگر خالد نے اُسے قتل کردیا، اس کی خبر حضرت ابوبکر کو ہوئی تو انھوں نے خالد بن ولید کو تنبیہ کی۔ ۱۲؎
سرحدی نظام:
جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستوںمیں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر فرما تے ۔ چنانچہ شام کی جانب جب فوج روانہ ہوئی اس میں اس طریقہ پر عمل کیا گیا، قبائل کے افسر اور جھنڈ ے الگ ہوتے ۔ امیر الامراء کمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سب سے پہلے خالد بن ولید اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ ۱۳؎ جب کسی دستہ کو روانہ فرماتے تو اس کی تربیت کرتے تھے۔ نیز فوج کی روانگی کے وقت خود دور تک پیدل جاتے اور ان کو نصیحت فرماتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے فوجی دستہ کو نصیحتیں فرمائیں:
’’تم ایک ایسی قوم کو پاؤگے جنھوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کردیا ہے، ان کوچھوڑ دینا، میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کوقتل نہ کرنا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کھانے کے سوا ذبج نہ کرنا، نخلستان نہ جانا، مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہونا‘‘۔
آپ فوجی چھاؤنیوں کابذات خود معائنہ کرتے تھے اور کوئی خرابی نظر آتی تو اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مقام جرف میں فوجیں جمع تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق وہاں تشریف لے گئے بنی فزارہ کے پڑاؤ میں پہنچے تو سب تعظیم میں کھڑے ہوگئے انھوں نے ہر ایک کو مرحبا کہا ان لوگوں نے عرض کیا، یا خلیفہ ہم لوگ گھوڑوں پر خوب چڑھتے تھے اس لیے گھوڑے بھی ساتھ لائے ہیں آپ جھنڈ ہمارے ساتھ کردیجیے ، فرمایا خدا تمہاری ہمت وارادہ میں برکت دے، لیکن بڑا جھنڈ تم کو نہیں مل سکتا کیوں کہ وہ بنو عبس کے حصہ میں آچکا ہے۔ اس پر ایک فزاری نے کھڑے ہوکر کہا، ہم لوگ عبس سے اچھے ہیں حضرت ابوبکر نے خاموش کردیا اس طرح فوجی چھاؤنیوں میں جاکر قبائل کی باہمی رقابت کا ازالہ کرتے اور اسلامی رواداری کا پیغام دیتے تھے۔ ۱۵؎ فوج کے لیے جنگی سامان کاانتظام بھی کرتے تھے۔ مختلف ذرائع سے جو آمدنی ہوتی تھی اس کا ایک حصہ جنگی سامان کی خریداری میں صرف فرماتے ، ۱۶؎ اونٹ گھوڑوں کی پرورش کے لیے مقام بقیع ایک مخصوص چراگاہ تیار کرائی تھی جس میں ہزاروں جانور پرورش پاتے تھے۔ مقام ربذہ میں بھی ایک چراگاہ تھی جس میں صدقہ اور زکوٰۃ کے جانور چرتے تھے۔ ۱۷؎ یہ خلافت صدیقی کافوجی نظام تھا جہاں اخلاقی، ایمانی تربیت کا اہتمام تھا اور حقوق انسانی کی حفاظت کی جاتی تھی۔
مالی انتظام
عہد صدیقی میں پہلے سال آپ نے ایک فرد کو دس دس درہم عطا کیے دوسرے سال جب آمدنی زیادہ ہوئی تو بیس بیس درہم مرحمت فرمائے ایک شخص نے اس مساوات پر اعتراض کیا تو فرمایا کہ فضل وبرتری اور چیز ہے اس کو رزق کی کمی بیشی سے کیا تعلق ہے۔ ۱۸؎ لیکن اس میں کبھی کسی بڑی رقم کے جمع ہونے کا موقع نہ آیا۔ اس لیے بیت المال کی حفاظت کا نظم نہیں کیاگیا۔ ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ یا خلیفہ آپ بیت المال کی حفاظت کے لیے کوئی محافظ کیوں نہیں مقرر فرماتے؟ فرمایا اس کی حفاظت کے لیے ایک قفل کافی ہے۔ ۱۹؎
حدود و تعزیرات
اگر گنجائش ہوتی تو حضرت ابوبکرؓ مجرموں کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرتے تھے چنانچہ اشعث بن قیس جو مدعی نبوت تھا گرفتار ہوکر آیا اور توبہ کرکے جان بخشی کی درخواست کی تو آپؓ نے نہ صرف اس کو رہا کردیا بلکہ اپنی ہمشیرہ ام فردہ سے اس کا نکاح کردیا۔ ۲۰؎ خلیفہ وقت کا پہلا فرض قوم وملت کی اخلاقی نگرانی اور رعایا کے حقوق کا تحفظ ہے ۔آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو پہرہ دار مقرر فرمایا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں۔ مثلاً حد خمر کے تعلق سے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دور حکمرانی میں چالیس درے متعین فرمائے۔ ۲۱؎
ایک دفعہ مہاجربن امیہ نے جو یمامہ کے امیر تھے دوگانے والی عورتوں کو رسولؐ کی ہجو کرنے اور مسلمانوں کوبُرا کہنے کی سزا دی ا ور پاداش میں ہاتھ کاٹ دئیے اور دانت اکھڑوا ڈالے حضرت ابوبکرؓ کو معلوم ہوا تو انھوں نے اس سزا پر برہمی ظاہر فرمائی اور لکھا کہ انبیاء کا سب وشتم بڑا جرم ہے اور اگر تم سزا میں عجلت نہ کرتے تو میں اُن کے قتل کاحکم دیتا گالی دینے سے وہ مرتد ہوگئی البتّہ اگر ذمیہ تھی تو اس کے لیے معمولی تنبیہ اور تادیب کافی تھی ۔ یہ تمہاری پہلی خطا نہ ہوتی تو تمھیں اس کاخمیازہ اٹھانا پڑتا دیکھو مثلہ سے ہمیشہ دور رہو یہ نہایت نفرت انگیز گناہ ہے ۔ ۲۲؎ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے حدود وتعزیرات کا نفاذ کرتے ہوئے حقوق انسانی کا خیال رکھا خاص طور پر غیر مسلم رعایا کے سلسلے میں زور دیا کہ ان کے حقوق پامال نہ ہوں۔
مذہبی خدمات:
آپ کے زمانہ شورش اور بغاتیں وجود میں آئیں مگر ان کو آپ نے اپنی دانش مندی سے فرو کردیا آپ کے زمانہ میں بعض جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوچکے تھے مسیلمہ کذاب نے تو ۱۰ھ میں نبوت کا دعویٰ کیاتھا اور آنحضرت کو لکھا تھاکہ میں آپ کے ساتھ نبوت میں شریک ہوں۔ ۲۳؎ آپ کی حیات طیبہ کے بعد دیگر مدعیان نبوت نے سر اٹھایا۔ طلحہ بن خویلد نے نبوت کااعلان کیا اس کی حمایت پر بنو غطفان تھے، اور عیینہ بن حصن فزاری ان کاسردار تھا۔ اسی طرح اسود عنسی نے یمن میں اور مسلمہ بن حبیب نے یمامہ میںنبی ہونے کے دعوے کیے۔ ایک عورت سجاع بنت حارثہ تمیمیہ نے بھی نبوت کادعویٰ کیانیز اشعث بن قیس اس کا داعی خاص تھا۔ سجاع نے اپنی نبوت مضبوط کرنے کے لیے مسیلمہ کذاب سے شادی کرلی تھی۔ ان اسباب کی بنیاد پر ضروری تھا کہ اس مسموم فضاکو فوری طور پرروکا جائے چنانچہ حضرت خالد بن ولید ۱۱ھ میں حضرت ثابت بن قیس انصاری کے ساتھ مہاجرین وانصار کی ایک جمعیت لے کر مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے۔ ۲۴؎
رسولِ اکرمﷺ کے بعد بہت سے سرداران عرب مرتد ہوگئے تھے۔ ایک اپنے حلقہ کابادشاہ بن بیٹھاتھا۔ نعمان بن منذر نے بحرین، لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا۔ اس فتنہ کا انسداد بھی ضروری تھا۔ چنانچہ مدعیان نبوت سے فراغت کے بعد اس فتنہ کا سرکچلا گیا۔ مذکورہ گروہوں کے علاوہ ایک اور گروہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ منکرین زکوۃ تھے۔ یہ گروہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوۃ ادا کرنے سے منکر تھا اس لیے اس کے خلاف تلوار اٹھانے میں خود صحابہ میں اختلاف رائے ہوگیا تھا۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے صاف کہا کہ قسم خدا کی اگر ایک بکری کا بچہ بھی جورسول کےزمانے میں دیا جاتا تھا کوئی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس سے جہاد کروں گا۔ اس تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ تمام منکرین زکوۃ بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے۔ ۲۵؎
مدعیان نبوت اورمرتدین اسلام کی سرکوبی میں بہت سے حفاظ کرام شہید ہوئے۔ خصوصاً یمامہ کی خوں ریز جنگ میں چنانچہ حضرت عمرؓ کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن مجید کی حفاظت کس طرح ہوسکے گی۔ اس لیے انھوں نے خلیفہ اول سے ایک جلد میں قرآن کی جمع وترتیب کی تحریک کی۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کو پہلے عذرہوا کہ جس کام کورسولؐ نے نہیں کیا ہے میں اس کو کس طرح کروں حضرت عمرؓ نے کہا یہ کام اچھا ہے چنانچہ حضرت عمرؓ کے اصرار سے حضرت ابوبکرؓ کے ذہن میں بھی بات آگئی انھوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو جو عہد نبوت میں کاتب وحی تھے قرآن کے جمع کرنے کا حکم دیا پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا، لیکن اس کی مصلحت سمجھ میں آگئی۔ اورنہایت کوشش کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک جِلد کی صورت میں مدون کیا۔ ۲۶؎
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تقریباً پانچ سو حدیثیں جمع فرمائی تھیں لیکن وفات کے کچھ دنوں پہلے اس خیال سے ان کو ضائع کردیا کہ شاید اس میں کوئی روایت خلاف واقعہ ہو تو یہ بار میرے سر رہ جائے گا لیکن علامہ ذہبی نے اس خیال کی تغلیط کی ہے۔ البتہ انھوں نے احادیث کے متعلق نہایت احتیاط سے کام لیا۔
حضرت ابوبکرؓ نے مسائل کی تحقیق وتنقید اور عوام کی آسانی کے خیال سے افتاء کا ایک محکمہ قائم کیا۔ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرف عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ جیسے اہم فقیہہ ومجتہد اس خدمت پر مامور تھے۔ ۲۸؎ حضرت ابوبکر نے اسلام کی دعوت و تبلیغ پر توجہ کی اور عرب کا بیش تر علاقہ حلقہ اسلام میںداخل کرلیا ۔
حوالے وحواشی
۱؎ یعقوبی، ج:۲، ص: ۴۷
ماخذ کے مطابق اس وقت کے حالات یہ تھے کہ جزیرہ نمائے عرب کی سرحد دنیا کے دو عظیم سلطنتوں سے ٹکراتی تھی۔ ایک طرف شام پر رومی اثر تھا، تو عراق پر کیانی خاندان کاتسلط تھا، ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ عرب کے آزاد جنگجو باشندوں پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمائیں، خصوصاً ایرانی سلطنت نے اس مقصد کے لیے بارہا اہم قربانیاں پیش کی۔ بڑی بڑی فوجیں اس مہم کو سر کرنے کے لیے بھیجیں اور بعض اوقات اس نے عرب کے ایک وسیع خطہ پر تسلط بھی کرلیا۔ چنانچہ شاپور بن اردشیر جو سلطنت ساسانیہ کادوسرا فرمان روا تھا اس کے عہد حجاز ویمن دونوں باجگداز ہوگئے تھے اسی طرح ساپور ذی الاکناف یمن وحجاز کو فتح کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیاتھا۔ یہ عربوں کا حد درجہ دشمن تھا جو روسائے عرب گرفتار ہوکر جاتے تھے وہ ان کے شانے اکھاڑ ڈالتاتھا اسی وجہ سے یہ دو الاکتاف (شانوں والے) کے لقب سے مشہور ہوا (تاریخ الطوال ۴۹)
۲؎ تاریخ الرسول الملوک، ج۳، تذکرہ فتح الشام ۳؎ یعقوبی، ج:۲،ص۱۵۱
۴؎ ایضاً ۵؎ ابن سعد
۶؎ ایضاً، ج:۲، ص:۱۰۹ ۷؎ ایضاً،
۸؎ تاریخ الرسول والملوک ۹؎ ایضاً،
۱۰؎ ایضاً، ج۳، ۱۱؎ مسند احمد
۱۲؎ یعقوبی، ج:۲، ۱۴۸ ۱۳؎ ایضاً، ص: ۱۴۹
۱۴؎ فتوح البلدان، ص۱۱۵ ۱۵؎
۱۶؎ کنزل العمال، ج:۳،ص:۱۳۲ ۱۷؎ کتاب الخراج، ص:۱۲
۱۸؎ کنزل العمال، ج:۳،ص:۱۳۲ ۱۹؎ طبقات ابن سعد، ج:۳،ص: ۱۵۱
۲۰؎ ایضاً، ۲۱؎ الترغیب والترہیب، ج:۳،ص: ۱۱۶
۲۲؎ مسند ابن حنبل، ج:۱،ص:۴ ۲۳؎ تاریخ الخلفاء، ص:۹۶
۲۴؎حضور نے اسے جواب دیا تھا:
محمد کی طرف سے مسیلمہ کذاب کو اما بعد دنیا خدا کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے گا اس کا وارث بنائے گا اور انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۱،ص۶۰۱
۲۵؎ایضاً، اور حضرت خالد بن ولید نے سب سے پہلے طلیحہ کی جمایت پر حملہ کرکے اس کے متبعین کو قتل کیا اور عیینہ بن حصن کو گرفتار تیس قیدیوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور عیینہ بن حصن نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کرلیا لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے خودخواہی کے طور پر دو شعر لکھ کر بھیجے اور تجدید اسلام کرکے اسلام میں داخل ہوگیا۔ (تاریخ یعقوبی، ج:۳،ص: ۱۲۵)
اس طرح مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی کے لیے حضرت شرحبیل بن حسنہ روانہ کیے گئے، لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ کی ابتدا کریں حضرت خالد بن ولید کو ان کی اعانت کے لیے روانہ کیا گیا، چنانچہ انھوں نے مجاعہ کو شکست دی اس کے بعد خود مسیلمہ سے مقابلہ ہوا مسیلمہ نے اپنے متبعین کو ساتھ لے کر نہایت شدید جنگ کی اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں شہید ہوئی جس میں بہت سارے حفاظ قرآن تھے۔ البتہ آخری فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی اور مسیلمہ کذاب حضرت وحشی کے ہاتھ سے مارا گیا، مسیلمہ کی بیوی سجاح خود مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد مرگئی ، ایضاً، ۱۴۷)
اسود عنسیٰ جو نبوت کا دعویدار تھا حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اس کی قوت زیادہ بڑھ گئی تھی اس کو قیس بن مکشوح اور فیروز دیلمی نے نشہ کی حالت میں واصل جہنم کیا۔ طبری، ج۲، تذکرہ
۲۶؎ طبری، ج۲، ص:۳۰۶
۲۷؎ صحیح البخاری، کتاب ابواب فضائل القرآن۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ قرآن شریف کی آیتیں نازل ہونے پر کاتب اُن کو، ہڈی، چمڑے، پتھر یا کسی قسم کے کاغذ پر لکھ لیتے تھے۔ اور محمدؐ کی ہدایت کے مطابق ترتیب دیتے تھے اور آنحضرتؐ الگ الگ لکھواتے جاتے غرض اس طرح آپ کے زمانہ میں سورتیں مدون ومرتب ہوچکی تھیں اور ان کے نام بھی قرار پاچکے تھے۔ حدیثوں میں ذکر آتا ہے کہ محمدؐ نے نماز میں فلاںفلاں سورتیں پڑھیں۔ یا فلاں سورت سے فلاں تک تلاوت فرمائی، ماخذ میں ہے کہ آپ نے سورہ بقرہ، آل عمراں اور نساء پڑھی، سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے ذکر سے توشاید حدیث کی کوئی کتاب خالی نہ ہوگی۔
حضرت ابوبکر ؓکے زمانہ میں حضرت زید نے قرآن شریف کے متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک جِلد کی صورت میں جمع کردیا تھا۔
۲۸؎ان حضرات کے علاوہ اور کسی کو فتوی دینے کی اجازت نہیں تھی ابن سعد، ج:۳،ص: ۲۰۹
مشمولہ: شمارہ نومبر 2017