[لوک سبھا الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ۲۳؍ مئی ۲۰۱۴ء کو جے پور میں جماعت اسلامی ہند کے منتخب ارکان و کارکنان کے سامنے انجینیر محمد سلیم، سکریٹری شعبۂ رابطہ عامہ جماعت اسلامی ہند نے خطاب کیا تھا۔ اس میں موجودہ حالات کا تجزیہ کیاگیاہے اور رفقائے تحریک کو رہ نمائی بھی فراہم کی گئی ہے۔اس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے]
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانیں، جس صورت حال سے دوچار ہیں اُس کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ ہم عوام اورخاص طور سے مسلمانوں کی کیا رہنمائی کرسکتے ہیں۔ہمارا مقام لوگوں کے پیچھے چلنا نہیں ہے،بلکہ ان کی رہنمائی کرنا ہے۔رہنمائی وہی کر سکتا ہے جس پر واضح ہو کہ حالات کیا ہیں؟ کس طرف جا رہے ہیں؟اوران حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي۱۳۱ (طہ:۱۳۱)
’’ اور نگاہ اٹھاکربھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو اللہ نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انھیں آزمائش میں ڈالنے کے لئے دی ہے،اور تیرے رب کی طرف سے دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔‘‘
دوسری جگہ اس نے فرمایا ہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲ (آل عمران:۲۶)
’’کہو! خدایا! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے،جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے ،بھلائی تیرے اختیار میں ہے،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
اوپر جو آیات پیش کی گئی ہیں ان میں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ دنیا کی شان و شوکت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔یہ تولوگوںکے لئے وجہ آزمائش ہے۔کسی کو دولت مل گئی ،کسی کو مال مل گیا ،کسی کو عہدہ مل گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے اور اس نے وہ چیزیں بطور انعام دی ہیں۔ باطل پرستوں، حق کی مخالفت کرنے والوںاور اللہ کے باغیوں کو اس طرح کی جو چیزیں ملتی ہیں اور انھیں جو شان و شوکت حاصل ہو رہی ہے وہ ان کے لئے آزمائش ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمادیا کہ تمھارے لئے تو وہی بہتر ہے جو تمھارے رب کے پاس ہے اور جو باقی رہنے والا ہے۔دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روئے زمین کا اقتدار درحقیقت اسی کا ہے، وہی جسے چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے ۔عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ کی جو کائنات ہے اس کے مقابلے میں زمین بہت چھوٹی ہے، بلکہ اس کا کوئی شمار بھی نہیں ہے ،پھر زمین میں جس کو بھی حکومت ملے گی وہ بس تھوڑے دنوں کے لئے ہے ،جب کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جو کچھ ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ہمیں اس نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے،جب ہم اس نگاہ سے دیکھیں گے تو ہر طاقت چھوٹی نظر آئے گی ،اگر ہماری نگاہ اللہ اور اس کی قدرت پر رہے گی تو حالات ہم کو مایوس نہیں کریں گے۔ معلوم ہو ا کہ نگاہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں بڑی اس وقت نظر آتی ہیں جب ہم نیچے ہو جاتے ہیں۔ آپ اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ پہاڑ پر جائیں تو سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں آپ کو کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آنے لگیںگی اگر کوئی بلند قامت انسان بھی جا رہا ہو تو وہ بھی کیڑے مکوڑوں کی طرح ہی نظر آئے گا۔خلاصہ یہ کہ نگاہ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔
سورہ ٔطہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى۱۲۹ۭ (طہ:۱۲۹)
’’اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کردی گئی ہو تی اور مہلت کی ایک مدت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی توضرور ان کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب بھیج دینا ہمارے لئے مشکل کام نہ تھا،لیکن ہمارا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں ہوتا،بغیر منصوبے کے نہیں ہوتا ۔تم جلدی مچا رہے ہو ،لیکن ہمارا منصوبہ کچھ اور ہے ۔اللہ کے منصوبے اور اس کی حکمت پر ہمارا ایمان و یقین ہے۔ ہر چیز میں اللہ کی بڑی حکمت ہے، جو ممکن ہے ہمیںاس وقت نظر نہ آرہی ہو،لیکن کچھ وقت گزر جانے کے بعد نظر آنے لگے ۔
ہمیں توقع ہے کہ دنیا میںجو تبدیلیاں آرہی ہیں غلبۂ حق کی راہ کی منزلیں ہیں۔ ان میں ہمارا امتحان بھی ہے اور ہماری تربیت بھی ۔اللہ تعالیٰ جب کسی کوکوئی بڑی ذمہ داری دینا چاہتا ہے تو پہلے اس کی تر بیت کرتا ہے ،اسے مشکل حالات سے گزارتا ہے، اس کے بعدکوئی بڑی ذمہ داری اس کے حوالے کرتاہے۔ انبیا ء کرام کو بھی اسی راستے سے گزارا گیا ۔ پچھلی امتوں کو بھی اسی راستے سے گزارا گیا، اس لئے اہل ایمان کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ مایوسی ان کے سامنے کبھی آنی نہیں چاہئے۔موجودہ حالات سے ہمارا متاثر ہونا ایک فطری بات ہے جس صورت حال کو ہم ٹالنا چاہتے تھے وہی پیش آگئی الیکشن سے پہلے ہم سو چ رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، مگر وہی ہو گیا ۔اس موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ حق و باطل کی لڑائی نہیں تھی، ایسا نہیں تھاکہ کوئی حق پر تھا اور کوئی باطل پراور حق ہار گیا اور باطل جیت گیا ،بلکہ یہ تو باطل کی باطل سے لڑائی تھی ۔اب اصل مقصود تو یہ ہے کہ باطل کی کوئی قِسم دنیا میں غالب نہ ہو،لیکن فی الحال ہم چاہتے تھے کہ جو زیادہ خطرناک قِسم ہے وہ غالب نہ آئے،بلکہ جو کم خطرناک ہے اس کے تحت مِلی محدود آزادی میں ہم پیغامِ حق اِنسانوں تک پہنچاسکیں۔لیکن اللہ کا منصوبہ کچھ اور تھا۔ہمارے سامنے تو صرف یہ بات تھی کہ فلاں کا اقتدارنہ آئے، بلکہ فلاں آجائے لیکن ذرا سوچئے کہ جن کو ہم اقتدار پر دیکھناچاہتے تھے ان کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ بلکہ ملت کو بری حالت میں پہنچانے کے ذمہ دار اصل یہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی سوچنے کا موقع دیا ہے ان کی ایسی ذلت آمیز شکست ہو گی اس کا ان کو اندا زہ بھی نہیں تھا۔یہ بات ضرور ہے کہ جو عنصر برسرِاقتدار آیا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے، لیکن سو چنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس کو شکست ہوئی ہے اس کی اس ذلت آمیز شکست کے اسباب میں بے گناہ معصوم بچوں، بزرگوں اور عورتوں کی بد دعائیں اورآہیں شامل ہیں ۔
یہ بات بھی ہمارے سامنے رہے کہ یہ ملک ایک جمہوری ملک ہے ۔یہاں جو کچھ بھی سیاسی تبدیلی ہوئی ہے وہ لوگوں کی رائے سے ہوئی ہے یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے ایک غلط رائے قائم کی اور انہوںنے جو فیصلہ لیاہے وہ ہمیں پسند نہیں ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ عوام کی رائے کو متاثر کرنے کے لیے جھوٹ ، غلط پروپیگنڈہ، پیسے کے بے دریغ استعمال کاسہارا لیا گیا۔ میڈیا کو خرید کراپنے حق میں کرنے میں منفی طاقتیں کامیاب ہوئیں۔
اس موقع پر لوگ طرح طرح کے سوالات قائم کر رہے ہیں،شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیںکہ مشینوں میں ایسا ہو گیا ویسا ہوگیا ۔ میری نظر میںاس بات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے ،جب کوئی بات واضح طور پر سامنے آئے گی توکچھ کہاجاسکے گا ۔ہارنے والا تو سب کچھ کہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہوا ہو۔ بہر حال ہاری ہوئی پارٹی نے اپنی شکست قبول کرلی ہے ۔ ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت نے ایک پارٹی کوچنا ہے۔ ہم سب کو اس ہار جیت کو بطور واقعہ تسلیم کرنا چاہئے ہمارا کہنا یہ ہے کہ منتخبہ حکومت کو دستور کے مطابق کام کرنا چاہئے۔ عوام نگاہ رکھیں کہ وہ دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کریں۔ اگر وہ حدودسے باہر جائیں گے تو ہم آواز اٹھائیں گے اور تجاوز کو روکنے کی کو شش کریں گے۔ پہلے کی حکومتوں کو بھی ہم روکتے ٹوکتے رہے ہیں ،اب بھی روکیں گے ۔ عوام کو بھی آگاہ کریں گے کہ دیکھو، یہ کام دستور کے خلاف ہو رہا ہے، اس سلسلے میں آواز اٹھا ئو۔ در اصل یہ کرنے کا کام ہے ۔
کبھی کبھی بعض لوگوں کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ تاثرہوتاہے کہ گویا پورا ملک ہمارا دشمن ہے، اس ملک کی ساری طاقتیں ہمارے خلاف کام کر رہی ہیں۔ یہ تاثر مبالغہ آمیز ہے اور درست نہیں ہے ۔میں یہ عرض کرنا چا ہتا ہوں کہ بلاشبہ کچھ لوگوں نے اس ملک کے عوام کو اپنے غلط پروپیگنڈے اور غلط بیانی کے ذریعہ یہ سمجھانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔کہ اس ملک کومسلمانوںاور اسلام سے خطرہ ہے سوال یہ ہے اگر وہ جھوٹ کو حقیقت کے طورپر پیش کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیںتو کیا ہم سچ کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔یقیناً ہم سچ کو سمجھانے میں آسانی سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔کیوں کہ جھوٹ کے ساتھ اللہ کی تائیدنہیں ہے ،جب کہ حق کے ساتھ اللہ کی تائیدہے ۔یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔ اس ملک کی خیر خواہی ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے ۔اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ اگر کو ئی شخص ملک کی فلاح کے خلاف کام کرنے لگے اور اس کو نقصان پہنچانے میں لگ جائے تو ہم اس کا ہاتھ پکڑیں اور اس حرکت سے بازرکھنے کی کو شش کریں ۔
حقائق کوہمیں تسلیم کرنا چاہئے، باوجود اس کے کہ وہ ہماری پسند کے مطابق نہیں ہیں۔کیا آپ اس سے انکا ر کر سکتے ہیں کہ یہ نتائج حاصل کرنے کے لیے فرقہ پرستوں نے، ان کے افراد اور تنظیموں نے ، ان کی سیاسی پارٹی کے کارکنوںنے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔وہ گھر گھر پہنچے۔اس کے لئے جدید ترین طریقے استعمال کئے ۔ذرائع ابلاغ اور انفار میشن ٹکنالوجی کا استعمال کیا ۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں کو ئی مقام حاصل کرنے کے لئے تدبیر کو بہت اہم مقام حاصل ہے ۔اس سے کامیابی اور ناکامی پر گہرا اثر پڑ تا ہے ۔غلط مقصد کے لئے انہوں نے تدبیریں اختیار کیں اور ان کو وقتی طورپر کامیابی ملی ۔اس میں جو مصلحت ہے اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہی کامیابی ان کی ناکامی کا پیش خیمہ بن جائے ۔ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے پوری توقع ہے کہ ان حالات میں مایو سی کی جو کیفیت طاری ہوئی ہے وہ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہے گی ۔ اس کیفیت سے عوام کو نکالنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
انتخابات سے پہلے آپ نے دیکھا کہ کس طرح افراتفری مچی ہوئی تھی، چھوٹی چھوٹی پارٹیاں جو اب تک مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوا کرتی تھیں، کس طرح اپنا وجود بچانے کے لئے این، ڈی، اے میں شا مل ہو گئیں۔اس پہلو سے بھی ہمیں سوچنا چاہئے کہ ملت کو کیسے ان مفاد پرست اور ابن الوقت لوگوں سے بچائیں ۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ہمیں خاص طور پر کن باتوں اورکن امور پر خصوصی توجہ دینی چاہئے؟تو اس سلسلے میں چند باتیں عرض ہیں: ایک تو یہ کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ جس طرح انبیاء نے اپنی قوموں کو مخا طب کیا ،اسی طرح ہمیں بھی یہاں کے باشندوں کو اپنی قوم سمجھتے ہوئے مخاطب کر نا چاہئے ۔میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ ہمیں جس طرح اس ملک کو دیکھنا اور سمجھنا چاہئے تھاہم نے نہیں سمجھا ۔ہم ہمیشہ محض اپنے مسائل میں گھرے رہے اور ان کا حل سوچتے رہے ، یہ طرز عمل صحیح نہ تھا۔ ہمارا مقام تو یہ تھاکہ ملک میں ہونے والے ہر ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش رہتے ۔ہم یہ کام اس انداز سے اور اس پیمانے پر نہیں کر سکے جس پیمانے پر کرنا چاہئے تھا۔
یہ بات ہمارے سامنے اچھی طرح رہنی چاہئے کہ جو کچھ ہم کر رہے تھے، جو کچھ ہم سوچ رہے تھے اس میں محض یہ فکر لاحق تھی کہ یہ گروہ نہ آئے، وہ آئے۔ ضروری ہے کہ ملک میں ہم دعوت اسلامی کاوسیع تعارف کرائیں۔ اس کے آفاقی پیغام کو اس طرح عام کریں کہ لوگ خودصالح نظام کے قیام کا مطالبہ کرنے لگیں ۔فاشسٹ طاقتوں کی جو مخالفت کی گئی وہ اسی لئے تھی کہ جو دعوت کے مواقع حاصل ہیں وہ باقی رہیں ۔بہرحال سرکار جس کی بھی ہو، جمہوری طریقہ سے منتخب ہو نے کے بعد قانوناً وہ اس ملک کی سرکار ہے ،اس ملک کے عوام کی سرکار ہے ،اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سرکار سے بات کریں،کسی پارٹی یا کسی مخالف گروہ سے بات نہیں کرنی ہے ،بلکہ اس ملک کی سرکار سے بات کرنی ہے۔ صحیح کاموں میں، جو ملک اور عوام کی فلاح کے لیے ہوں، ان کی تائید کی جائے گی اور غلط اقدامات پر ٹوکا بھی جائے گا۔جمہوری طریقے سے اپنے مطالبات پیش کئے جائیں گے اوراگر مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو جمہوری طریقے سے احتجاج بھی کیا جائے گا، جو ہم اس سے قبل بھی کرتے رہے ہیں ۔
یہ بات بھی ہمارے سامنے رہے کہ جمہوریت میں حکمراں عوام کے سامنے جواب دہ ہو تے ہیں۔ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمرانوںسے جواب طلب کریں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عوام کو بتائیں کہ کس طرح حکمرانوں کااحتساب کیاجاتا ہے ۔ہمارے پاس یہ موقع بھی ہے کہ ہم ملک کے دیگر تمام طبقات کے ساتھ حکمراں گروہ کے سامنے بھی اسلام کا آفاقی پیغام پیش کریں ۔ہم اس بات پر زور دیں کہ تمام انسانوں کے مسائل کا حل اسلام میں موجودہے ۔اسلام کی دعوت ہم جس طرح پہلے پیش کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے حکمت و دانشمندی کے ساتھ ، اَب زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے سے پیش کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو فرعون کے پاس بھیجتے وقت ان سے کہا تھا:
اِذْہَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۴۳ۚۖ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۴۴ (طہ:۴۳۔۴۴)
’’تم دونوں فرعون کے پاس جائو ۔وہ باغی و سرکش ہو گیا ہے ،اس سے نرمی سے بات کرو ہو سکتا ہے وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے واضح طور پر فرمایاکہ اب فرعون سے تمھارا معاملہ داعی اور مدعو کی حیثیت سے ہے۔ اسی حیثیت سے تمھیں اسے مخاطب کرنا چاہئے۔ ہمارے سامنے بھی یہ بات رہنی چاہئے کہ ہم ایک داعی گروہ ہیں، ہماری اصل حیثیت ایک داعی کی ہے۔ایک داعی کا جو مقام و مرتبہ ہو تا ہے ہم کو اسے ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ہم اپنے دشمن سے بھی بات کریں تو پورے وقار اور مقام کا خیال رکھتے ہوئے کریں ۔ پھر اگر اس راہ میں مصیبتیں آتی ہیں تواللہ کا فرمان قرآن میں موجود ہے ،جو ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔
سورۃ احزاب(آیت ۲۲) میں بتایا گیا ہے کہ جب مسلمانوں کا مقابلہ ایک طاقتور فوج کے ساتھ ہوا توبظاہر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ مسلمان کہیں ٹک نہیں پائیں گے ایسی صورت حال میں مسلمان بجائے ناامید اور مایوس ہونے کے ہمت اور حوصلے کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ یہی وہ دن ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا یا جس کا ہمیں انتظار تھا۔
ہمیں بھی موجودہ حالات میں پست ہمت ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہئے اور پوری پامردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ انشا ء اللہ تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم پر سایہ فگن ہو گی ۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014