اختلافی امور میں تحریکِ اسلامی کا مسلکِ اعتدال

یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کے درمیان مختلف معاملات میں اختلافات پائے جاتےہیں۔ ان اختلافات نے اس کے اندر انتشار و تفرقہ کو جنم دیا ہے اور اس کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس بنا پر اس کی عزت و وقار میں کمی آئی ہے اور اس کی بے بسی اور بے وقعتی میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریکِ اسلامی امت کی وحدت کی داعی ہے اور اس کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ امت کے اختلافات کو تحریک اسلامی کس نظر سے دیکھتی ہے اور ان کو ختم کرنے کے لیے کیا منصوبے رکھتی ہے۔

امت کا نصب العین- اقامت دین

امت مسلمہ کو انسانوں کی رہ نمائی کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ فرمایا گیا: كُنْتُمْ خَیرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ اس کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ معروفات کا حکم دے اور منکرات سے روکے، فرمایا گیا: تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(آل عمران: ۱۱۰) اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا ہے۔ اسے ’دین‘ کہتے ہیں۔ امت پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ خود دین پر چلے، وہ کام کرے جن سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ان کاموں سے بچے جن پر اس کا غضب نازل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ دوسرے انسانوں کو بھی اسی راہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ اس کا فریضۂ منصبی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ دنیا میں عدل و قسط کو نافذ کرے، ظلم و جبر کا خاتمہ کرے اور امن و امان کی فضا قائم کرنے کوشش کرے، تاکہ جس طرح دنیا کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کے آگے سر بہ سجود ہے، اسی طرح انسان بھی اس کا مطیعِ فرمان بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور اس کا دین پوری کائنات میں جاری و ساری ہو جائے۔ شہادتِ حق،امر بالمعروف ونہی عن المنکر، قیامِ عدل، قیامِ قسط، دعوتِ دین، تبلیغِ دین، غلبۂ دین اور اظہارِ دین اسی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں اور اسی کے لیے ’اقامت  دین‘ کی تعبیر بھی استعمال کی گئی ہے۔ اقامت  دین کا حکم تمام انبیا کو دیا گیا تھا: أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ (الشوریٰ: ۱۳)  اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے بعد اب یہ آپؐ کی امت کی ذمہ داری قرار پائی ہے۔

دین کے بنیادی مآخذ- کتاب و سنت

دین کیا ہے؟ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کیسے گزاری جائے؟ کن کاموں سے اس کی رضا حاصل ہوتی ہے اور کن کاموں سے اس کا غضب بھڑکتا ہے؟ یہ باتیں اللہ کے اس ہدایت نامے میں ذکر کر دی گئی ہیں جسے ’قرآن مجید‘ کہتے ہیں۔ قرآن مجید کتابِ ہدایت  (Guide Book)ہے۔ یہ کتاب زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتاتی ہے، انسانوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لاتی ہے اور اس کی خوش نودی سے بہرہ ور کر کے اس کے انعامات کا مستحق بناتی ہے، فرمایا گیا:

هَٰذَا بَصَٰٓئِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍۢ یوقِنُونَ [الجاثیة: ۲۰]

(یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔)

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِینٌ۔یـهْدِىْ بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلَامِ وَیخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَیـهْدِیـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیـمٍ [المائدة: ۱۵۔۱۶]

(تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور وہ راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا اور آپ کی ذمہ داری قرار دی کہ اسے اس کے بندوں تک پہنچائیں:

یٰٓاَیـهَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه [المائدة: ۶۷]

(اے پیغمبر ﷺ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔)

آپؐ کے ذمے یہ کام بھی سونپا گیا کہ قرآن مجید کے جن احکام و تعلیمات کو لوگ ٹھیک سے نہ سمجھ سکیں ان کی توضیح و تشریح کریں اور ان پر عمل کر کے بھی دکھائیں، تاکہ ان کے لیے انھیں اختیار کرنا اور اپنی زندگیوں میں برتنا آسان ہو جائے:

وَاَنْزَلْنَـآ اِلَیكَ الـذِّكْرَ لِتُـبَینَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیـهِـمْ[النحل: ۴۴]

(ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے۔)

گویا دین سیکھنے کے بنیادی ذرائع دو ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ دونوں کو اختیار کر کے دین پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی ایک کا سِرا ہاتھ سے چھوٹ جائے تو دین پر صحیح طریقے سے عمل کرنا ممکن نہیں۔ اس حقیقت کی طرف اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے اشارہ فرمایا ہے:

تركتُ فیكم أَمْرَینِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما : كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبیهِ (مؤطا اما م مالک: ۲۶۱۸)

(میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو ہرگز گم راہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔)

کتاب و سنت دو مضبوط سہارے ہیں،جو اہل  ایمان کو ہر طرح کی گم راہی سے بچائے رکھتے ہیں، ایسی روشن قندیلیں ہیں جو ان کے دن اور رات کو منور کیے ہوئے ہیں اور ان کی روشنی میں وہ اپنے صبح و شام گزارتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

قد تَرَكتُكُم عَلَى البَیضَاءِ لَیلُها كَنَهارِها (مسند احمد: ۱۷۱۴۲)

(میں نے تمھیں روشن راستے پر چھوڑا ہے۔ اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے۔)

قطعی اور منصوص امور میں پوری امّت کا اتفاق ہے

دین کی جو باتیں ہم تک پہنچی ہیں انھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ حصہ ہے جو تواتر کے ساتھ آیا ہے اور دوسرا وہ جو تواتر کے ساتھ نہیں آیا ہے۔ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف تواتر سے ثابت ہے، اس لیے قطعی اور یقینی ہے۔ اسی طرح احادیث کا ایک حصہ بھی تواتر کے ساتھ منتقل ہوا ہے، چاہے وہ تواتر عملی ہو یا خبری، اس لیے وہ بھی مفید  یقین ہے۔ اسی طرح دلالت کے اعتبار سے بھی احکام  دین کی دو قسمیں ہیں: کچھ احکام قرآن و حدیث میں بہت صاف الفاظ میں بغیر کسی ابہام کے بیان کردیے گئے ہیں اور ان کے معنیٰ متعین ہیں، ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ انھیں ’منصوص‘ احکام کہا جاتا ہے، مثلا نماز، زکوٰة، روزہ اور حج کی فرضیت، ایک دن اور رات میں پانچ نمازوں کا وجوب اور فرض نمازوں کی رکعتوں کی تعیین، مال پر ہر سال زکوٰة کا وجوب اور مصارفِ زکوٰة کا بیان، ماہِ رمضان میں روزوں کی فرضیت، ذی الحجہ کے پانچ دنوں میں حج، جنسی تعلق کے لیے نکاح کا لزوم، طلاق کے بعد جنسی تعلق کی حرمت، محرمات خواتین جن سے نکاح حرام ہے، زنا، شراب، سود اور جوئے کی حرمت، تقسیمِ وراثت کی فرضیت اور ورثا کے حصوں کا بیان، حدود اور قصاص کے بعض احکام،وغیرہ۔ اس طرح کے بہت سے امور و مسائل ہیں، جو قرآن و حدیث میں بہت صراحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ قطعیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ امت میں ان کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اجتہادی امور میں اختلاف ممکن ہے

دوسری طرف بہت سے امور و مسائل ایسے ہیں جو منصوص اور قطعی نہیں ہیں۔ ان میں غور و فکر اور استنباط و اجتہاد کرنے کی اجازت ہے۔ علما نے قرآن و حدیث کے منصوص احکام کی روشنی میں اور ان کی علّتوں پر قیاس کر کے اجتہاد کیا تو ان کی آرا میں اختلاف سامنے آیا۔ شریعت میں اس اختلاف کو ناپسند نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ دین کی ابدیت، ہر دور کے لیے اس کی موزونیت اور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے اس کی ہم آہنگی کی دلیل ہے۔

اجتہاد کرنے کا جواز اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلاف کو گوارا کرنے کی تعلیم ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات میں ملتی ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کا واقعہ مشہور ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے یمن بھیجتے وقت ان سے دریافت فرمایا: ‘‘ لوگوں کے معاملات میں کیسے فیصلہ کرو گے؟ ’’ انھوں نے جواب دیا: ‘‘ اللہ کی کتاب سے۔’’دریافت کیا: ‘‘ اگر اس میں نہ پاؤ۔’’ عرض کیا: ‘‘رسول اللہ ﷺکی سنت سے۔’’پھر سوال کیا: ‘‘ اگر اس میں بھی نہ پاؤ۔’’ حضرت معاذؓ نے جواب دیا: ‘‘ میں خود غور و فکر کروں گا اور اس میں ذرا بھی کسر نہ چھوڑوں گا۔’’ (اجتھدُ رَائی ولَا آلُو) اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا :

الحَمدُ لِلهِ الَّذِی وَفَّقَ رَسولَ رَسولِ اللهِ لِمَا یرضی رسُولَ اللهِ۔[ابو داؤد: ۲۵۹۲، ترمذی: ۱۳۲۷۔ اس روایت کو بعض محدثین نے ضعیف کہاہے۔]

(اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے نمائندہ کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔)

دوسرا واقعہ غزوۂ احزاب کے موقع کا ہے۔ اس موقع پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے بغاوت کی تھی، اس لیے انھیں سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک فوجی ٹکڑی بھیجتے وقت فرمایا: ’’ عصر کی نماز بنو قریظہ کے علاقے میں پہنچ کر پڑھنا۔‘‘ لوگ روانہ ہوئے تو راستے ہی میں عصر کا وقت ہو گیا۔ اب ان کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ کچھ نے کہا کہ ہم بنو قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز ادا کریں گے۔ کچھ دوسروں نے کہا کہ ہم نماز ادا کر کے آگے بڑھیں گے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں تھا کہ چاہے عصر کا وقت نکل جائے، لیکن اس کی ادائیگی راستے میں نہ کی جائے۔ بعد میں نبی ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپؐ نے کسی کی سرزنش نہیں کی۔ (بخاری: ۹۴۶، ۴۱۱۹)

اس سے ثابت ہوا کہ غیر منصوص امور میں غور و فکر اور اجتہاد کی صورت میں رایوں کا اختلاف ممکن ہے اور اختلاف ہونے پر کسی رائے پر نکیر نہیں کی جائے گی۔ صحابہ کرام کے درمیان بہت سے احکام اور مسائل میں اختلاف تھا۔ اس کے اسباب پر علما نے تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ اختلاف کبھی حدیث  نبوی سے واقفیت یا عدم  واقفیت کی وجہ سے ہوا، کبھی فعل  رسول کی نوعیت کی تعیین میں ہوا، کبھی مدّعائے حدیث کو ضبط کرنے میں ہوا، کبھی علّت کی تعیین میں ہوا، کبھی دو متعارض احادیث کے درمیان تطبیق میں ہوا، نیز کچھ دوسرے اسباب بھی رہے، لیکن ان اختلافات نے ان کے درمیان کبھی تنازع اور تفرقہ کی صورت نہیں اختیار کی۔ سفر میں روزہ نہ رکھ کر بعد میں اس کی قضا کرنے کی اجازت ہے۔ متعدد صحابہ سے مروی ہے کہ ہم سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے۔ ہم میں سے کچھ روزہ رکھتے، کچھ نہیں رکھتے، لیکن روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے والے کو عار دلاتا نہ روزہ چھوڑنے والا روزہ رکھنے والے کو طعنہ دیتا تھا۔ (بخاری: ۱۹۴۷، مسلم: ۱۱۱۶) صحابہ سے نماز میں بسم اللہ الرَّحمٰن الرّحیم یا آمین کو آہستہ یا زور سے کہنے، اقامت میں کلمات کو ایک بار یا دو بار ادا کرنے، تشہّد کے کلمات، عیدین و تشریق کی تکبیرات، حالتِ احرام میں نکاح کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں الگ الگ رائیں منقول ہیں، لیکن ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ صرف میری رائے درست اور دوسروں کی رائے غلط ہے۔ بلکہ اپنی رائے اور غلطی کے احتمال کے ساتھ صحیح اور دوسرے کی رائے کو صحت کے احتمال کے ساتھ غلط کہا۔

صحابۂ کرام کا یہ اختلاف ان کے شاگردوں یعنی تابعین میں منتقل ہوا۔ ان کے بعد مختلف فقہی مسالک وجود میں آگئے۔ مثلاً حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، جعفری، زیدی، اباضی وغیرہ۔ بہت سے مسالک کچھ عرصے تک سرگرم رہے۔ بعد میں مختلف اسباب سے معدوم ہو گئے۔ لیکن صحابہ، تابعین اور اصحابِ مسالک، سب نے توسّع کو اختیار کیا اور عمل کی آزادی دی کہ کوئی شخص جو رائے چاہے اختیار کرے اور جس مسلک پر چاہے عمل کرے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا ہے:

‘‘ حابہ، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اور ایسے بھی تھے جو نہیں پڑھتے تھے۔ کچھ لوگ اس کو بلند آواز سے پڑھتے تھے اور کچھ آہستہ پڑھتے تھے۔ کچھ لوگ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ اسی طرح کچھ لوگ پچھنا لگوانے اور قے و نکسیر ہونےسے وضو کرتے تھے اور کچھ نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔’’ (الانصاف فی سبب الاختلاف)

اختلافی مسائل میں اعتدال کی روش

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ غیر منصوص امور میں اجتہاد و استنباط کی صورت میں اختلافات سامنے آئیں گے۔ شریعت کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام اختلافات ختم ہو جائیں اور سارے لوگ ایک رائے پر عمل کرنے لگیں۔ اختلافات کے نتیجے میں فکر و نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے، عمل میں سہولت فراہم ہوتی ہے اور لوگ جزئیات و فروع میں الگ الگ رائے رکھنے کے باوجود ‘ بنیان مرصوص’ بن کر دین پر عمل کرتے اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں، اسی لیے قرونِ اولیٰ میں فقہی اختلافات کو ختم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ تمام فقہی اختلافات مٹاکر حکومت کے زور پر سب کو ایک بات پر جمع کر دیں۔ انھوں نے فرمایا: مجھے اس بات سے خوشی نہیں ہوگی کہ ان کے اختلافات ختم ہو جائیں۔ پھر انھوں نے اپنی مملکت کے تمام علاقوں میں یہ فرمان جاری کر دیا:

لِیَقْضِ کُلُّ قَومٍ بِمَا اجْتَمَعَ عَلَیہِ فُقَھَاؤھُم (سنن دارمی: ۲۵۲)

(ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے یہاں کے فقہا کی رایوں کے مطابق عمل کریں۔)

عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام مالک ؒ سے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ پوری مملکت میں یہ فرمان جاری کر دوں کہ لوگ آپ کی کتاب ‘المؤطّا’  کے مطابق عمل کریں اور اس سے مختلف باتوں کو چھوڑ دیں، ورنہ ان کو سخت سزا دی جائے گی۔‘‘ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ایسی ہی خواہش امام مالکؒ سے خلیفۂ ہارون رشید نے بھی کی تھی۔ لیکن انھوں نے فرمایا:

‘‘  امیر المؤمنین! ایسا ہرگز نہ کیجیے۔ صحابہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں اور اپنے اپنے فہم کے مطابق انھوں نے علم کی اشاعت کی ہے۔ اس لیے ان کے درمیان اختلافات ہوئے۔ سب صحیح ہیں، سب حق پر ہیں۔ ہر علاقے کے لوگوں کو اسی پر رہنے دیجیے جس پر وہ قائم ہیں۔ اس سے ہٹانے کی کوشش کریں گے تو بڑی دشواری پیش آئے گی۔ ‘‘ (الانصاف، شاہ ولی اللہ، طبقات ابن سعد، ۷؍۵۷۳۔۵۷۴، طبع الخانجی القاھرة)

اجتہادی اختلافات کی شرعی حیثیت

اگر اصولِ دین اور منصوص احکام پر اتفاق ہو تو جزئیات اور فروعی مسائل میں اختلافات سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آرا ہوں تو ہر شخص کو آزادی رہتی ہے کہ ان میں سے کسی رائے پر عمل کر لے۔ فقہا نے تمام لوگوں کو ایک رائے پر جمع کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والے دوسرے شخص کی کبھی سرزنش نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے اجتہادی اختلافات کو کبھی حق اور باطل کا اختلاف نہیں قرار دیا، بلکہ ہمیشہ افضل غیر افضل اور راجح مرجوح کا اختلاف کہا۔ یہاں چند فقہا کی تصریحات درج کی جاتی ہیں:

کوفہ کے مشہور تبع تابعی اور فقیہ حضرت سفیان ثوریؒ کا قول ہے:

‘‘ اگر کسی بات سے متعلق فقہا میں اختلاف پیدا ہو جائے تو میں اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو نہیں روکتا کہ وہ کسی اور رائے کو لے لے۔’’

‘‘ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ کسی مختلف فیہ مسئلے پر عمل کر رہا ہے اور تمھاری رائے اس سے مختلف ہو تو اسے نہ روکو۔’’ (حلیۃ الاولیاءللاصفہانی، ۶؍۳۶۸، الفقیہ والمتفقہ للخطیب،۲؍۶۹۔۱۳۶)

حنبلی فقیہ ابن قدامہؒ  فرماتے ہیں :

‘‘ سی بھی فرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے عمل پر نکیر کرے جو اپنے مسلک پر عمل کر رہا ہو، اس لیے کہ اجتہادی چیزوں میں نکیر کرنا صحیح نہیں ہے۔ ‘‘ (ابن المفلح،الآداب الشرعیۃ،ص۱۸۶)

ابوبکر جصاص رازی حنفیؒ فرماتے ہیں :

‘‘حدیثوں کی بنیاد پر مسائل کی جتنی شکلیں پیدا ہوتی ہیں، مسلمانوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ ان میں سے جس صورت کو اختیار کرنا چاہیں، اختیار کر لیں، فقہائے ائمہ میں یہ اختلاف صرف اس میں ہے کہ ان صورتوں میں افضل اور اولیٰ صورت کیا ہے؟’’ (احکام القرآن: ۱؍۲۰۴)

شاہ ولی اللہؒ نے اختلافِ صحابہ کی متعدد مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:

‘‘یہ اور اس قسم کی ساری باتوں میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی صورت یہ سمجھی جائے کہ شریعت کے مطابق ہے اور اس سے مختلف شکل غیر شرعی ہے، بلکہ سلف کا اختلاف اگر تھا بھی تو اس میں تھا کہ ان دو مختلف صورتوں میں اولیٰ اور بہتر شکل کیا ہے، ورنہ دونوں شکلوں کو شرعی شکل قرار دینے پر سب ہی متفق تھے۔’’ (الانصاف، ص ۸۹)

اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) فقہائے ہند کا ایک معتبر ادارہ ہے۔ اس کے بارہویں سیمینار، منعقدہ بستی اتر پردیش ۲۰۰۰ء میں زیرِ بحث آنے والے موضوعات میں سے ایک موضوع ’فقہی اختلاف کی شرعی حیثیت‘ تھا۔ اس موقع پر بحث و مباحثہ کے بعد درج ذیل تجویز منظور ہوئی:

‘‘ائمہ مجتہدین کے درمیان مسائل میں جو اختلافِ رائے ہے وہ اختلافِ حق و باطل نہیں ہے، بلکہ مختلف فیہ مسائل کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جن میں افضل غیر افضل، راجح غیر راجح کا اختلاف ہے۔ باقی مسائل میں اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ ایک رائے صواب بہ احتمال خطا اور دوسری رائے خطا بہ احتمال صواب پر محمول ہے۔’’ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا،نئی دہلی،طبع ۲۰۱۷،ص۶۵)

اختلافی امور میں بے اعتدالی کے نقصانات

فقہی اجتہادی اختلافات کے بارے میں ائمۂ کبار اور فقہائے عظام کی معتدل فکر پیش کرنے والی مذکورہ بالا تصریحات کے باوجود مقام  افسوس ہے کہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب فروعی اختلافات کو اصولی اختلافات کی حیثیت دے دی گئی۔ اپنے مسلک کے حق میں دلائل جمع کرنے کے ساتھ دیگر مسالک کو غلط ثابت کرنے پر زور صرف کیا جانے لگا۔ تفسیق، تضلیل اور تکفیر کے فتوے دیے جانے لگے۔ دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا جانے لگا۔ مسالک کی بنیاد پر مسجدیں الگ الگ تعمیر کی جانے لگیں۔ ایک مسجد میں آمین زور سے یا آہستہ کہنے پر لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ شادی بیاہ کے موقع پر مسلک کو ملحوظ رکھا جانے لگا۔ فروعی معاملات میں اختلافات پر نکاح ٹوٹ جانے کے فتوے صادر ہونے لگے۔ اس چیز نے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور اختلاف و انتشار ان کی پہچان بن گیا۔ الحمدللہ اس شدّت پسندی اور تصلّب میں اب بڑی حد تک کمی آگئی ہے، لیکن اس کے مظاہر اب بھی کہیں کہیں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

مسالک کی بنیاد پر فرقہ بندی قابلِ مذمت ہے

فروعی اختلافات میں اپنی اپنی رائے پر عمل کرنا فرقہ بندی نہیں ہے، جس سے قرآن و حدیث میں روکا گیا ہے۔ فرقہ بندی یہ ہے کہ فروعی اختلافات کو اصولی اختلافات بنا دیا جائے اور اس کی بنیاد پر الگ الگ گروہ تشکیل دے دیے جائیں۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے اس جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے:

‘‘ فقہ میں اپنی تحقیق یا کسی عالم کی تحقیق کی پیروی کرتے ہوئے کوئی ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا، جس کے لیے شریعت میں گنجائش موجود ہو، فرقہ بندی نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی قباحت واقع ہو سکتی ہے۔ اس طریقے سے مختلف لوگوں کی تحقیقات اور ان کے طرزِ عمل میں جو اختلاف ہوتا ہے وہ مذموم تفرّق و اختلاف نہیں ہے،جس کی برائی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ایسے اختلافات خود صحابۂ کرام اور تابعین میں رہ چکے ہیں۔ دراصل فرقہ بندی جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ فروع کے اختلافات کو اہمیت دے کر اصولی اختلاف بنا دیا جائے اور اس میں اتنا غلو کیا جائے کہ اسی پر الگ گروہ بنیں اور ہر گروہ اپنے مسلک کو بہ منزلۂ دین قرار دے کر دوسرے گروہوں کی تکفیر و تضلیل کرنے لگے، اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کر ے۔ شادی بیاہ اور معاشرتی تعلقات میں بھی علیٰحدگی اختیار کرے اور دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کے سارے جھگڑے انھی فروعی مسائل پر ہوں، حتّٰی کہ اصل دین کے کام میں بھی دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کا تعاون ناممکن ہو جائے۔ اس قسم کی فرقہ بندی اگر پیدا نہ ہو اور فروع کو صرف فروع کی حیثیت ہی میں رہنے دیا جائے تو مسائل فقہیہ میں مختلف مسلکوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے بھی ایک ساتھ اسلامی نظام  جماعت میں منسلک رہ سکتے ہیں۔’’ (رسائل و مسائل،دوم،ص۳۲۴)

اجتہادی آراکے بارے میں مولانا مودودیؒ کا موقف

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے فقہی اختلافات پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے ’رسائل و مسائل‘ میں قارئین ترجمان القران کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے صراحت کی ہے کہ اجتہادی آرا میں کسی بھی رائے پر عمل کی آزادی برقرار رہنی چاہیے۔ کسی شخص کو دوسرے کی رائے پر عمل کرنے کا پابند بنانے کی کوشش نامناسب اور غیر شرعی ہے۔ انھوں نے جماعت اسلامی کےوابستگان کو بھی بار بار اس کی تلقین کی ہے۔ ۲۷؍ اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی تو اس کا امیر منتخب ہونے کے فوراً بعد مولانا نے اپنی پہلی تقریر میں اپنا موقف ان الفاظ میں واضح کیا تھا:

‘‘ فقہ وکلام کے مسائل میں جو کچھ میں نے پہلے لکھا ہے اور جو کچھ آئندہ لکھوں گا یا کہوں گا، اس کی حیثیت امیر جماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی، بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کہ ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہل  علم و تحقیق پر مسلّط کر دوں اور نہ اس کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی و تحقیقی و اظہار رائے کی آزادی سلب ہو جائے۔ ارکانِ جماعت کو میں خداوند  برتر کا واسطہ دے کر یہ ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجّت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔’’ (رودادِ جماعتِ اسلامی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۲۳ء، حصہ اول، ص ۱۸)

فروعی اختلافات کے باوجود نصب العین پر اتفاق ہو سکتا ہے

دین اور مسلک کے درمیان فرق کیا جانا چاہیے۔ امّت کا نصب العین اقامتِ دین ہے۔ دین کو سماج میں جاری و ساری کرنے اور تمام انسانوں کو اس کی طرف دعوت دینے کا کام پوری امّت کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔ اس معاملے میں مسالک اور آرا کے اختلافات کو حارج نہیں بنانا چاہیے۔ لوگ اپنے اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے اور فروعی معاملات میں الگ الگ رائے رکھتے ہوئے مل جل کر متّفقہ نصب العین تک پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ مولانا مودودی ؒ نے متعدد مواقع پر یہ بات بہت زور دے کر کہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے لکھا ہے:

‘‘ ماری یہ جماعت اصل دین کی دعوت و اقامت کے لیے کھڑی ہوئی ہے اور اس کام میں تمام ان فقہی مسالک کے آدمیوں کو مجتمع ہو جانا چاہیے جن کے اصول اور طریقوں کے لیے قرآن و حدیث میں بنیادیں موجود ہیں۔ لیکن یہ اجتماع اسی طرح ممکن ہے کہ ہر شخص کو مسائل فقہیہ میں اصولی گنجائشوں کی حد تک تحقیق کی آزادی حاصل رہے اور یہ آزادیٔ تحقیق ان مختلف المسلک لوگوں کے درمیان ایسےنزاع کی موجب نہ بنے جو نفس  اجتماع برائے اقامتِ دین میں مانع ہو۔ ’’ (رسائل و مسائل، دوم، ص ۴۴۴)

دوسری جگہ مولانا فرماتے ہیں:

‘‘ اقامت  دین کی جدّوجہد میں مختلف المسلک جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ یا تو مسائل فقہیہ پر تحقیق کی آزادی سب لوگوں سے سلب کر لی جائے،یا پہلے ان سارے مسائل کو طے کر کے ایک مسلک کی جماعت بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجائے صحیح یہ ہے کہ تحقیق  مسائل میں سب کے لیے آزادی رہے اور صرف تحقیق ہی کے لیے نہیں، بلکہ اس کے اظہار و بیان کے لیے بھی آزادی رہے اور کسی کا مسلک کسی پر مسلّط نہ کیا جائے۔ ’’ (رسائل و مسائل، حصہ اول، ص ۳۵۹)

اختلافِ مسالک میں تحریکِ اسلامی کا مسلکِ اعتدال

تحریکِ اسلامی کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے فقہی مسالک کے اختلاف کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ اس کے وابستگان میں تمام مسالک کے لوگ شامل ہیں۔ وہ اپنے اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے اجتماعی طور پر اقامتِ دین کی جدّوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے اندر اپنے فقہی مسلک کے لیے تعصّب کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ یہ نتیجہ ہے اس چیز کا کہ بانیٔ تحریک نے بہت صاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ فقہی تعصّب رکھنے والے کے لیے اس تحریک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا:

‘‘ہماری جماعت میں اہل حدیث، احناف، شوافع[شافعیہ] اور ایسے ہی دوسرے فقہی طریقوں پر چلنے والے مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے فقہی مسلک پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ بہ شرطے کہ وہ ان مسلکوں میں سے کسی کے لیے متعصّب نہ ہوں اور ان اختلافات کو مغایرت اور جتّھہ بندی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ جماعت کے اندر جو لوگ بھی شامل ہوں انھیں اسلامی عصبیت کے سوا اور ساری عصبیتیں اپنے اندر سے نکالنی ہوں گی، خواہ وہ وطنی عصبیتیں ہوں، نسلی ہوں، طبقاتی ہوں یا گروہی۔ ان کو محبّت اور دوستی کے رشتے میں جوڑنے والی چیز اسلام کے سوا اور کوئی نہ ہو اور ان کے اندر غصّہ اور نفرت کو بھڑکانے والی بھی اسلام سے دوٗری کے سوا کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ کسی رکن جماعت کے لیے کسی دوسرے شخص کا اہل  حدیث یا حنفی یا شافعی مسلک پر ہونا یا اسے اختیار کر لینا نہ تو سبب محبّت ہی ہو اور نہ سبب  نفرت۔ اسی لازمی و ضروری شرط کے ساتھ اہل  حدیث، اہل  حدیث رہتے ہوئے اور حنفی، حنفی رہتے ہوئے اور شافعی، شافعی رہتے ہوئے جماعت اسلامی کا رکن ہو سکتا ہے۔ لیکن جو شخص کسی مخصوص فقہی مذہب کے لیے متعصّب ہو اور اپنے مذہب کے پیرؤوں سے محبّت اور دوسرے طریقے والوں سے نفرت رکھتا ہو اور حنفی، شافعی، اہل حدیث ہو جانے کو جرم سمجھتا ہو، اس کے لیے ہماری اس جماعت میں کوئی جگہ نہیں۔’’ (رسائل و مسائل، دوم، ص ۳۲۶)

غیر فقہی فروعی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش بھی نا مطلوب ہے

فروعی اختلافات کا معاملہ صرف فقہ کے دائرے ہی میں منحصر نہیں ہے، بلکہ دیگر پہلو بھی اس میں شامل ہیں۔ بنیادی امور اور فروعی اختلافات کے درمیان فرق کیا جانا چاہیے۔ تحریکِ اسلامی کا نصب العین اقامت  دین ہے۔ کوئی شخص اس سے اتفاق نہ رکھے اور دین قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدّوجہد پر یقین نہ رکھتا ہو تو اسے تحریک میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس سے پورے طور پر متّفق ہونے کے بعد اگر فروعی معاملات میں کوئی کارکن دوسرے کارکنوں یا ذمہ داروں حتّیٰ کہ بانیٔ تحریک سے اختلاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تمام وابستگانِ تحریک کو ہر معاملے میں ایک رائے پر جمع کرنے کی کوشش بے سود ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ عالم عرب کے ایک دانش ور ڈاکٹر جمال سلطان نے لکھا ہے:

‘‘ تحریکِ اسلامی کے بعض افراد یہ تصور رکھتے ہیں کہ کسی سنجیدہ اسلامی تحریک یا تنظیم کے افراد ایک دوسرے سے علیٰحدہ نظریہ و رائے، بلکہ ایک دوسرے سے متضاد اور مخالف رائے نہیں رکھ سکتے، ضروری ہے کہ تحریک کی قیادت کا اختیار کیا ہوا نظریہ ہی تمام افرادِ تحریک کا بھی نظریہ ہو، تحریک کے کسی بھی کارکن کے لیے اس سے ہٹ کر کوئی رائے اور نظریہ اختیار کرنے کا جواز ہی نہیں۔ یہ بہت بڑی غلطی اور تمام مفاسد کا سرچشمہ ہے۔’’ (اختلاف: اسباب و آداب،جمال سلطان، مترجم: محمد فہیم اختر ندوی، قاضی پبلشرز و ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی، ۱۹۹۴ء،ص ۳۲)

یہ ہے اختلافی امور میں تحریکِ اسلامی کا مسلکِ اعتدال، جسے میں نے سلفِ صالحین، مستند علما اور خود بانیٔ تحریک کے افکار کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کبھی کبھی ہمارے درمیان اس معاملے میں بے اعتدالی کا مظاہرہ ہونے لگتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ راہِ اعتدال پر مضبوطی سے جمے رہیں اور ہمارے قدم اِدھر اُدھر ڈانواڈول نہ ہوں۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223