وَالْعَصْر

سورۃ العصر اعجازِ قرآن کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ تین انتہائی مختصر آیات پر مشتمل یہ سورۃ تدبر کرنے والوں کے لیے علم کا ایک ایسا سمندر فراہم کرتی ہے، جس میں جو جتنی غوطہ زنی کرے، اتنے ہی قیمتی موتی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔اس سورۃ مبارکہ کی تین آیات دراصل تین اجزاء پر مشتمل ہیں: ﴿۱﴾ دعویٰ ﴿۲﴾ دلیل یا شہادت ﴿۳﴾ استثناء ۔ دعویٰ یہ کہ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرِِ﴿بے شک انسان بڑے خسارے میں ہے﴾ لیکن کسی بھی دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے دلیل اور شہادت ضروری ہوتی ہے۔ اس میں اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے کہ ’’بے شک انسان بڑے خسارے میں ہے‘‘ زمانے کو بطور دلیل و شہادت پیش کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ’’والعصر‘‘ اس سورٔ مبارکہ کا اہم ترین جزء ہے۔

سورۂ مبارکہ کا تیسرا جزء استثناء ہے۔ اس دعوے سے کہ ’’بے شک انسان بڑے خسارے میں ہے‘‘، وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو کہ ایمان لے آئیں، نیک اعمال کرتے رہیں اور حق وصبر کی تلقین کرتے رہیں۔ اس استثنائ کے لیے بھی دلیل اور شہادت زمانہ ہی ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ’زمانہ‘ ہی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہوگی کہ اُس علیم و حکیم ذات اقدس نے اس سورۂ مبارکہ کی ابتداء ’والعصر‘ ﴿زمانے کی قسم﴾ کے ساتھ فرمائی۔

’’زمانے‘‘ کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشہور علماے دین کا نقطۂ نظر معلوم کرلیاجائے۔ معارف القرآن میں ’’وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرِِ‘‘۔ کاترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ’’قسم ہے زمانے کی ﴿جس میں رنج وخسران واقع ہوتا ہے﴾ کہ انسان ﴿اپنی عمر ضائع کرنے کی وجہ سے﴾ بڑے خسارے میں ہے‘‘۔ مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ  نے عام مفسرین کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح اس طرح کی ہے:

’’انسان کے تمام حالات، اس کا نشوونما ، اس کی حرکات وسکنات، اعمال واخلاق سب زمانے ہی کے اندر ہوتے ہیں۔ جن اعمال کی ہدایت اس سورۃ میں دی گئی ہے، وہ بھی اسی زمانے کے لیل ونہار میں ہوں گے۔ اسی مناسبت سے زمانے کی قسم اختیار کی گئی ہے۔ انسان کی عمر کا زمانہ، اس کے سال اور مہینے، دن اور رات بلکہ گھنٹے اور منٹ، یہی اس کا سرمایہ ہے، جس کے ذریعے وہ دنیا و آخرت کے منافع عظیمہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور عمر کے واقعات غلط اور برے کاموں میں لگا دیے تو یہی اس کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں‘‘۔ اس کی مزید تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ زندگی کسی تجارتی سرمایے کے مانند ہے، جس کو منافع بخش کاروبار میں لگایا جائے تو وہ فائدے میں رہے گا اور اگر نقصان دہ کاروبار میں لگایاجائے تو اس کو خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا اور یہ کہ زندگی کا سرمایہ برف کے مانند ہے، جس کاوقت پر سودا نہ کیاگیا تو وہ ضائع ہوجاتا ہے اور برف کا مالک نقصان کی وجہ سے سخت پریشان۔

اس تشریح سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ’’زمانے‘ ‘ سے مراد کسی کی مہلتِ زندگی ہے، جس کو ضائع کرنے سے وہ خسارہ واقع ہوتا ہے جس کا ذکر سورۂ مبارکہ میں کیاگیا ہے۔ لیکن کیا زمانہ ﴿مہلتِ زندگی﴾ کسی کے خسارے کی شہادت اس کی زندگی ہی میں دے دیتا ہے؟ یا پھر ’’خسارے ‘‘ ہی کی حالت میں کسی کی زندگی وفا نہیں کرتی تو کیا ’’زمانہ‘‘ اس کے خسارے سے دوچار ہونے کی شہادت دنیا والوں کے سامنے پیش کردیتا ہے؟ ترجمے کے الفاظ ’’قسم ہے زمانے ﴿جس میں رنج وخسران واقع ہوتا ہے﴾ سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کسی کے خسارے سے دوچار ہونے کی شہادت ’’زمانہ‘‘ یا تو کسی کی زندگی ہی میں دے دیتا ہے یا اس کے بعد دنیا والوں کے سامنے اپنی شہادت پیش کردیتا ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  نے تفہیم القرآن میں ’’زمانہ‘‘ اور ’’زمانے کی قسم‘‘ کی تشریح اس طرح کی ہے:

﴿۱﴾ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں ہم مشغول رہتے ہیں سب کچھ اُسی محدود مدت ہی میں وقوع پزیر ہوتا ہے، جو دنیا میں ہم کو کرنے کے لیے دی گئی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔

﴿۲﴾ قسم اس بات پر دلالت کرتی ہے، جسے ثابت کرنا مقصود ہے ۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں۔

﴿۳﴾ زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی۔گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب ہے انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے ۔اورگزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھاکر جو بات اس سورۃ میں کہی گئی ہے، اس کے معنی ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہوکر انسان جن کاموں میں اپنی مہلت عمر صرف کر رہا ہے، وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چار صفات سے متصف ہوکر دنیا میں کام کریں۔

’’انسانی تاریخ کی شہادت‘‘ ’’تیز رفتار زمانے کی شہادت‘‘ سے یہی مفہوم برآمد ہوتا ہے کہ ’’زمانہ‘‘ اپنی شہادت دنیا ہی میں پیش کردے گا چاہے کسی کی زندگی میں ہو یا زندگی کے بعد ۔

’’زمانہ‘‘ اور ’’زمانے کی قسم‘‘ کے تعلق سے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی تشریح کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:

’’عصرزمانے کو کہتے ہیں۔ یعنی قسم ہے زمانے کی، جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے جسے تحصیل کمالات وسعادات کے لیے ایک متاع گرانمایہ سمجھنا چاہیے‘‘۔

’’زمانے کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنیٰ غوروفکر سے ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پروا ہوکر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخرکار کس طرح ناکام و نامراد بلکہ تباہ وبرباد ہوکر رہے‘‘۔

اس تشریح سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سورۂ مبارکہ میں جس خسارے کا ذکر ہے اس کی شہادت ’’زمانہ‘‘ دنیا ہی میں دے گا۔ لیکن جب انسانی تاریخ کا مطالعہ کیاجاتا ہے یا گزرے ہوئے اور گزرتے ہوئے واقعات پر نظر غائر ڈالی جاتی ہے تو کچھ اور ہی حقیقت سامنے آتی ہے۔ گزرا ہوا زمانہ یا انسانی تاریخ تو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ظالم حکمرانوں، جابر شہنشاہوں، رحم وانصاف سے عاری نوابوں اور دولت مندوں کی زندگیاں، جو کہ دولت اور طاقت حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کے لیے تیار رہتے تھے،ہمیشہ خوش حالی اور عیش وعشرت میں گزریں۔ رنج وخسران نے انھیں چھوا تک نہیں۔ بڑے بڑے عالیشان محل، نہایت ہی خوبصورت بڑے بڑے باغات، ہر طرح کی خدمت کے لیے نوکر اور خدام اور ہرقسم کی آسایش کا سامان۔ لیکن ان کے دل ایمان سے خالی اور اعمال س انتہائی مذموم ۔ اگر ایمان کسی کی قسمت میں تھا تو اعمال قابل پرسش، قابل گرفت۔

گزرتے ہوئے زمانے میں بھی وہی لوگ زیادہ مزے میں ہیں اور رنج وخسران سے دور ہیں، جنھیں ایمان یا اعمال صالحہ سے نہ کوئی سروکار ہے نہ ایمان یا اعمال صالحہ کی انھیں کوئی پروا۔ شراب، کباب، شباب ، جوا، رشوت،سود ، دھوکا بازی، حق تلفی، قتل وغارت گری، ظلم و زیادتی ان کی زندگیوں میں سرایت کرگئے ہیں۔ پھر بھی بڑی بڑی عالیشان بلڈنگیں ہیں تو ان کے پاس۔ قیمتی سے قیمتی فرنیچر، قیمتی سے قیمتی لباس، قیمتی سے قیمتی کاریں انھی کے پاس تو ہوتی ہیں۔ زندگی کی ہر ہر آسایش انھیں ہی تو میسر ہے۔ دماغ میں ہر دم سرور اور دولت مند ہونے کا نشہ۔ زبان پر ہردم خوشی کے ترانے۔ ان کو دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ وہ کسی رنج یا خسران میں مبتلا ہیں یا کسی خسارے سے دوچار ہیں۔

ہمارے پروردگار اللہ جل شانہ کا سورۃ الزخرف کی آیات ﴿۳۹ تا ۳۵﴾ میں جو ارشاد ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک طریقے کے ہوجائیں گے تو ہم ’’الرحمن‘‘ سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں، جن سے وہ اپنے بالاخانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگاکر بیٹھتے ہیں سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے۔ یہ تو محض حیاتِ دنیا کی متاع ہے اور آخرت آپﷺ کے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے‘‘۔

یعنی سورۃ العصر میں جس خسارے کا ذکر ہے وہ، وہ خسارہ نہیں ہے جو کسی کی مہلتِ عمر میں واقع ہوتا ہے یا مہلت عمر کے ختم ہوجانے کے بعد دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے، بلکہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کے علمبرداروں کو ضروری نہیں کہ دنیا کی راحتیں اور دنیا کی نعمتیں نصیب ہوں۔

دراصل جس ’’زمانے ‘‘ کا سورۂ مبارکہ میں ذکر ہے، وہ ہر کسی کے اعمال کا خاموش نگراں ہوتا ہے۔ وہ کسی کی مہلتِ عمر میں یا کسی کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دنیا والوں کے سامنے اس کے خسارے سے دوچار ہونے یا اس کے نفع سے مالا مال ہونے کی کوئی شہادت نہیں دیتا۔ اسی لیے دنیا میں عیش وعشرت اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گزارنے والے آخرت میں اپنے ’’خسارے‘‘ کی وجہ سے رسوا کن عذاب میں مبتلا ہوں گے اور جنھوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے اپنے مال اور اپنی جانوں تک کی پروا نہ کی ہوگی حتیٰ کہ فقر وفاقہ اور کس مپرسی کی زندگی تک گزاری ہوگی وہ آخرت کے عیش اور اللہ کی نعمتوں میں ہوں گے۔ دنیوی زمانہ ان باتوں کی شہادت نہیںدیتا۔ جب ’’زمانے‘‘ کو اپنی شہادت پیش کرنے کا موقع مل جائے گا تو انسان کو پتا چل جائے گا کہ کس طرح اُس نے خود ’’خسارے‘‘ کو اپنی زندگی کا لہو پلا پلاکر پروان چڑھایا۔ کس طرح اپنے ’’خسارے‘‘ کے لیے کوئی اور نہیں وہ خود ہی ذمے دار ہے۔ جب ’’زمانہ‘‘ اس کی بیتی عمر کے لمحات کسی ویڈیو فلم کی طرح اس کے سامنے پیش کرنے لگے گا تو اس کے لیے اپنی غفلت پر کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔

انسان کو اپنے ’’خسارے‘‘ سے آگہی اس کی موت کے وقت سے ہونے لگتی ہے۔ دنیا میں عیش وعشرت کے ساتھ زندگی گزارنے والوں اور دنیا سے محبت رکھنے والوں کے لیے دنیا چھوڑنے کا تصور ہی نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے اور جب قابل ترین ڈاکٹروں کی ٹیم، اس کی لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کی دولت، اس سے انتہائی محبت کرنے والی جوان اولاد، ہرحال میں رفاقت نبھانے والی بیوی، اس کے اشارے پر تن، من کی بازی لگا دینے اور اس کے ابرو کے اشارے پر دوڑ دوڑ کر خدمت کرنے والے، مہلک ہتھیاروں سے لیس طاقتور فوجیوں کے دستے، لڑاکا طیارے، جنگی جہاز، دبابے، ساری فوجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی طاقت اس کو موت کے منھ میں جانے سے روک نہ سکے اور اس کو اپنی ساری دولت ، عالی شان عمارتیں، آسایش کے سارے سامان چھوڑ کر تن تنہا اور خالی ہاتھ اس دنیا سے کوچ کرنا پڑے، تب اس کو اپنے ’’خسارے‘‘ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی چیلنج فرما دیا تھا کہ ’’پس جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو، اس وقت ہم تمھاری بہ نسبت اُس کے ﴿مرنے والے کے﴾ زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظرنہیں آتے۔ پھر اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہوتو اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لوٹاتے؟ اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو‘‘۔ ﴿سورۃ الواقعہ ۸۳تا ۸۷﴾ ۔ مرنے والے کی بھی بے بسی اور اس کو مرتا ہوا دیکھنے والوں کی بھی بے بسی۔ مرنے والے کو اپنی بے بسی کا اور بھی احساس ہوگا جب اس سے کہا جائے گا: ’’یہی ہے وہ چیز جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا‘‘۔ ﴿سورہ قٓ:۱۹﴾

کافروں، مشرکوں، منافقوں، فاسقوںاوراللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کے لیے موت نہایت ہی کربناک اور ناگوار شے ہوتی ہے جس سے وہ بچنے اور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب فرشتے اُن کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچتے ہیں تو اُن کی روحیں ان کے جسموں میں چبھتی پھرتی ہیں۔ ملائکہ جبراً ، قہراً ڈانٹ ڈپٹ کر مار پیٹ کر ان کی روحوں کو ان کے جسموں سے زبردستی نکالتے ہیں جیسا کہ سورۃ الانعام کی آیت نمبر ﴿۹۴﴾ سے ظاہر ہوگا: ’’کاش! آپﷺ ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکتے جبکہ وہ سکراتِ موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھاکر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤنکالو اپنی جانیں۔ آج تمھیں اُن باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ تعالیٰ پر ناحق بکا کرتے تھے اور اُس کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔

سورہ الانفال ﴿آیت۵۰، ۵۱﴾ میں کافروں اور فاسقوں کی ارواح کے قبض کرنے کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’کاش! آپﷺ اُس حالت کو دیکھ سکتے جب کہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کررہے ہوتے ہیں ۔ وہ ان کے چہروں پر طمانچے اور کولہوں پر ضربیں لگاتے جاتے ہیں اورکہتے جاتے ہیں لو اب جلنے کی سزا ﴿عذاب الحریق﴾ چکھو۔ یہ وہ سزا ہے جس کا سامان تمھارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی ہی بھیج رکھا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر ﴿ذرا سا بھی﴾ ظلم کرنے والے نہیں ہیں‘‘۔ ’’والعصر‘‘ یعنی تم خود اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ’’زمانے‘‘ کی ویڈیو فلم دیکھ لو، تمھیں خود ہی سمجھ میں آجائے گا کہ تمھارے ساتھ اس قسم کے برتائو کی وجہ کیا ہے۔

مسند میں کافروں کے تعلق سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد ملتا ہے کہ جب کافر بندہ دنیاکی آخری ساعت اور آخرت کی پہلی ساعت میں ہوتا ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے آسمانی فرشتے آتے ہیں۔ ان کے ساتھ جہنمی ٹاٹ ہوتا ہے۔ وہ جہاں تک نگاہ پہنچے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت اُس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اورفرماتے ہیں: اے خبیث روح! اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر کی طرف چل۔ اس کی روح جسم میں چھپی پھرتی ہے جس کو بہت ہی سختی کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔ اسی وقت آنکھ جھپکنے کی دیر میں ﴿سیاہ چہرے والے﴾فرشتے اُس روح کو ان کے ہاتھوں سے لے لیتے ہیں اور جہنمی ٹاٹ یا بورے میں لپیٹ لیتے ہیں۔ اس میں سے ایسی بدبونکلتی ہے کہ روئے زمین پر اس سے زیادہ بدبو نہیں پائی جاتی۔ وہ ﴿فرشتے﴾ اُسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے؟ وہ اس کا بدترین نام جو دنیا میں تھا، بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی۔ آسمانِ دنیا تک پہنچ کر دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں لیکن کھولا نہیں جاتا۔ یہ فرماتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے آیت : ’’لَا تَفْتَحُ لَہُمْ أَبْوَابَ السَّمَاء … الخ تلاوت فرمائی جس کا مفہوم ہے ’’ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں جاسکیں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گزر جائے۔ تب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے اس کو کتاب سجین میں لکھ لو۔ پھر اس کی روح وہیں سے پھینک دی جاتی ہے۔ پھر آپﷺ نے ’’وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَیْرُمِّنَ السَّمَاء…الخ کی تلاوت فرمائی جس کا مفہوم ہے: ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گویا وہ آسمان سے گرپڑا۔ پھر یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا آندھی اسے کسی دور گڑھے میں پھینک دے گی‘‘۔ ﴿تفسیر ابن کثیر/ سورۃ ابراہیم: ۲۷﴾

اگر کافرو فاسق کی روح یہ سوال کرے کہ اس کو خبیث کیوں کہا گیا اور اس کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کیوں روا رکھا گیا تو اس کاجواب ہوگا ’’والعصر‘‘۔ تم خود اپنی زندگی کے زمانے کی ویڈیو فلم دیکھ لو۔ تمھیں خود پتا چل جائے گا کہ تمھیں خبیث کیوں کہا گیا اور تمھارے ساتھ اہانت آمیز سلوک کیوں روا رکھا گیا۔ تمھارے رنج وخسران کا سبب تو تمھارے اپنے اعمال ہیں جو تم اپنی زندگی میں اکڑتے ہوئے، اتراتے ہوئے، نصیحت اور ہدایت سے منھ پھیر کر ،اندھے اور بہرے بن کر کیا کرتے تھے۔اُدھر اس کی روح کے ساتھ زندہ لوگوں کا رویہ ہی یکسر بدل جاتا ہے ۔اس کے مردہ جسم کے قریب جاتے ہوئے ، اس کے قریب تنہا بیٹھتے ہوئے ڈرنے لگتے ہیں۔ اس کی محبت میں آنسو بہاتی ہوئی بیوی، اس کے غم میں نڈھال اس کے بچے، اس کے بھائی بہن یا ماں باپ، کسی کو اس کے ساتھ صر ف اور صرف ایک رات گزارنے کے لیے کہا جائے تو مارے ہیبت کے ان کا رونا دھونا ہی بند ہوجائے گا اور کوئی بھی اس بات کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوگا۔ساری چاہتوں اور محبتوں کے باوجود اس کو جلد سے جلد قبر کے حوالے کردیا جاتا ہے یا پھر اپنے ہی ہاتھوں سے جلاکر خاک کردیا جاتا ہے۔ جب گھر والوں کی چیخ پکار، آہ وبکا کے درمیان جنازے کو اس کے آخری ٹھکانے کی جانب لے جایا جاتا ہے تو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، مردہ چیخنے لگتا ہے کہ ہائے میری کم بختی! تم مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟ اس کی بھیانک آواز ساری مخلوق سنتی ہے سوائے انسان کے۔ اور اگر انسان سن لیتا تو بے ہوش ہوجاتا۔ اور اگر انسان سن بھی لیتا اور بے ہوش بھی نہیں ہوتا تو کیا اس کو قبر کے حوالے کرنے سے باز آجاتا؟ کس قدر ’’خسارے‘‘ کی بات ہے یہ!﴿جاری﴾

مشمولہ: شمارہ اپریل 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau