شخصیت کاارتقاء اور اس کے ذرائع

اللہ تعالیٰ نے انسان کا ذکر کرتے ہوئے اَحْسَنِ  تَقْوِیْمٍ (التین:۴)،کَرَّمْنَا  بَنِیْٓ اٰدَمَ (الاسراء: ۷۰)،وَسَخَّرَ لَکُمْ  مَّا  فِی السَّمٰوٰتِ  وَمَا  فِی الْاَرْض (الجاثیہ:۱۳) اور وَفَضَّلْنٰھُمْ  عَلٰی کَثِیْرٍ  مِّمَّنْ خَلَقْنَا  تَفْضِیْلاً جیسے کلمات  ارشاد فرمائے۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا(البقرۃ:۳۰)۔ اس  افضلیت کی بنیاد اس طرح بیان کی۔عَلَّمَ  اٰدَمَ  الْاَسْمَآئَ  کُلَّھَا(البقرۃ:۳۱)، عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (الرحمن:۴)اور عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (العلق: ۴) اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بے پناہ قوتیں پیدا کیا   انسان اپنے عزم و ارادے سے انہیں پروان چڑھا سکتا ہے۔جو اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے اور جو انہیں دبا رہنے دیتا ہے وہ ناکا م رہ جاتا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰئھَاہ وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰئھَا (الشمس : ۹،۱۰) ۔ انبیاء علیہم السلام کا بنیادی فریضہ انسانوں کا تزکیہ تھا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے قرآن نے چارمقامات پر تزکیہ نفوس کی ذمہ داری اور اس کے ذرائع کے طور پر ،تلاوت آیات ، تعلیم کتاب و تعلیم حکمت کی نشاندہی کی ہے ۔(البقرۃ:۱۲۹،۱۵۱،آل عمران : ۱۶۴، الجمعہ:۲)۔ مسلم شریف میں درج حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث؍ ۲۶۳۸ (اَلنَّاسُ مَعَادِنُ کَمَعَادِنِ الذَّھَبِ وَ الْفِضَّۃِ ) میں انسان کو سونے اور چاندی کے کان سے تشبیہ دے کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ انسان کے اندر غیر معمولی صلاحیتوں اور قوتوں کے خزانے پنہاں ہوتے ہیں جسے برو ئے کار لانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔اسی سے شخصیت کے ارتقاء کی اہمیت سامنے آتی ہے ۔ جماعت کے نصب العین ۔۔۔’’اقامت دین ‘‘کی تعبیر کا پہلا نکتہ ’’فرد کا ارتقاء‘‘ ہے ،جس سے اس موضوع کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔فرد کا ارتقاء یہ ہے کہ وہ خود شناسی اور خدا شناسی کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔

شخصیت کا ارتقاء۔ مختلف پہلو

شخصیت ،انسان کی مجموعی خصوصیات کا نام ہے۔انسانی وجود روح اور جسم کا مرکب ہے۔اس کے روحانی تقاضے بھی ہیں اور جسمانی بھی۔وہ ایک فرد بھی ہے اور ایک سماج کا حصہ بھی۔اس کی ایک گھریلو زندگی بھی ہے ،معاشی ضروریات بھی ہیں، اورمعاشرتی تعلقات کے تقاضے بھی۔ان تمام محاذوں پر انسان کا ارتقاء اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو خیر امت بنایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہترین شخص (خَیْرُ النَّاسِ)اس کو قرار دیا ہے جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ قرآن سیکھنے والا اور دوسروں کو سکھانے والا ہو،اور بہترین اخلاق والا ہو۔اس طرح نبی ؐ نے انسان کی اجتماعی افادیت کا پہلو اجاگر کیا ہے جسے شخصیت کے ارتقاء میں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ان تمام پہلوؤں سے ہر فرد کو اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اورافادیت کے اپنے ذاتی اہداف  کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

۱ گھر اوررشتہ داروں کے درمیان

انسانی زندگی کی بنیادی اکائی گھر ہے۔ حضورؐ نے اس شخص کو بہترین قرار دیا ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو(خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہِ ۔۔۔۔ترمذی)۔گویا ایک فرد کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک بیٹے ، ایک باپ، ایک شوہر، ایک بھائی، یا ایک بیٹی، ایک ماں، ایک بیوی یاایک بہن کی حیثیت سے بہترین کردار کا حامل ہو۔ایک دوسرے کے حقوق ادا ہوں اور سب باہمی سکون و اطمینان کا ذریعہ بنیں۔ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کو  اسلام ایک فرد کی نجات کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔

۲  سماجی پہلو

گھر اور خاندان کے بعد انسان کا ربط و تعلق سماج سے ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا  اس طرح ہے کہ وہ معاشرہ کے بغیرزندگی نہیں گزار سکتا۔نتیجتاً حقوق العباد کا ایک تصور اسلام نے دیا ہے ۔ روحانی پہلو سے بھرپور عبادات کے باوجود جو شخص انسانوں کے حقوق تلف کرتا ہے ، حضورؐ نے اسے قیامت کے روز مفلس ترین قرار دیا ہے۔رسول اللہ ؐ نے اس مؤمن کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے ہونے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، بہ نسبت اس کے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے۔شخصیت کے ارتقاء کا یہ پہلو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ فرد اپنے سماجی رویہ پر نظر رکھے اور اسے بہتر  بنانے کے لیے فکر مند ہو۔

۳  علمی ارتقاء

انسان کو اشرف المخلوقات بنائے جانے کی بنیادی وجہ اس کی علمی صلاحیتوں کی وسعت ہے۔نفع بخش علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔حکمت مؤمن کی متاع گمشدہ ہے، اسے جہاں بھی وہ پائے اس کا حقدار ہے۔انسان کے عقائد، اس کی سوچ اور تصورات شخصیت کی اہم بنیاد یںہوتی ہیں۔ ذہانت سے ایک شخص کی پہچان ہوتی ہے۔انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا فروغ اس کے ارتقاء کا حصہ ہے۔علم انبیاء کی میراث ہے۔قرآن مجید سرچشمۂ علوم ہے۔ اس پہلو سے شخصیت کے ارتقاء کے لیے دین و دنیا کے علوم و فنون کا وسیع مطالعہ اور غور وفکر اور تدبر کے ساتھ افادہ ، اخذ و استفادہ اورصحت مند مذاکرہ و مباحثہ ناگزیر ہیں۔عصری و دینی علوم کے میدانوں میں اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی شخصیت کے علمی ارتقاء کا حصہ ہے۔

۴  جسمانی ارتقاء

انسان کے مادی وجود کی بقاء اوربہتر عملی کارکردگی کے لیے جسمانی ارتقاء اور صحت و تندرستی کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نبیؐ نے صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت جاننے کی تلقین فرمائی ہے۔قوی مؤمن کو ضعیف مؤمن سے بہتر بتایا گیا ہے۔حضرت طالوت کو بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے ان کی علمی و جسمانی قابلیتوں کی وجہ سے بادشاہ مقرر کیا تھا۔(البقرۃ:۲۵۰)۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب عورتوں کے لیے پانی کا انتظام کردیا تو قوی اور امین کے القاب سے ان کی توصیف کی گئی۔ (القصص : ۲۶) ۔ رسول اللہؐ صحابہ کو تیراکی، گھوڑسواری اور تیر اندازی کی ترغیب دلاتے۔ کم کھانے کو صحت مندی کی علامت قرار دیا ۔ ایک شخص کاکھانا دو کے لیے اور دو کا تین کے لیے کافی قرار دیا  ۔ شکم سیری کی ہمت شکنی کی گئی تو دوسری طرف مسلسل روزے رکھنے والے کو یہ کہہ کر روکا گیا کہ تمہارے جسم پر بھی تمہارا حق ہے۔

۵  روحانی ارتقاء

انسان کے مادی وجود کے ساتھ اس کا ایک روحانی وجود بھی ہے جو اس کی حقیقی پہچان ہے۔روح کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو بلندیوں پرلے جانا چاہتی ہے کہ انسان خدا سے قریب ہوتا چلاجائے یہاں تک وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جائے۔(البقرۃ:۱۳۸)۔ جو شخص محض اپنے جسم کے تقاضوں کی تکمیل کی فکر کرتا ہے اور اپنے روحانی وجود سے یکسر غافل ہے، اسے اس کتے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کا مطمح نظر محض اپنی شہوت اور اشتہا کی تکمیل ہوتی ہے ۔ (الاعراف:۱۷۶)۔اہل ایمان کی پہچان یہ بیان کی گئی کہ وہ اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔(البقرۃ:۱۶۵)یہ محبت خدا کی معرفت اور اس کے احسانات کے ادراک سے پیدا ہوتی ہے۔اس محبت اور تعلق باللہ کو نماز، ذکر اللہ اور کتاب اللہ کی تلاوت مہمیز کرتے ہیں۔انسان کی شخصیت اس روحانی ارتقاء کے بغیر ادھوری ہے۔

۶  اخلاقی ارتقاء

انسان کی شخصیت کی کامیابی کے لیے اخلاقی قدروں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی توصیف ان الفاظ میں کی کہ آپ اخلاق کے بلندترین مرتبے پر فائز ہیں۔وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم:۴)۔ نبیؐ نے خود اس کی طرف اشارہ کیا کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ(ابن ماجہ)پھر آپؐ نے اس شخص کو بہترین قرار دیا ہے جو اخلاق کے لحاظ سے بہترین ہو اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقاً(ترمذی)۔اسلام نے ایک مکمل اخلاقی نظام سے نوازا ہے۔ کامیاب شخصیت کے لیے رذائل اخلاق سے خودکو پاک کرنا اور محاسن اخلاق سے مزین کرنا ناگزیر ہے ۔

۷   معاشی ارتقاء

معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔رزق حلال کے لیے تگ و دو کو فرائض کے بعد فریضہ قرار دیا گیا ہے۔طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ (بیہقی)معاش کو اللہ نے اپنے فضل سے تعبیر کیا ہے۔ (الجمعہ:۱۰)۔ خوشگوار زندگی کے لیے معاشی استحکام کی بڑی اہمیت ہے۔حضورؐ نے دینے والے ہاتھ کو لینے والے ہاتھ سے بہتر ٹھہرایا ہے۔اَلْیَدُ الْعُلْیَائُ خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَیٰ (متفق علیہ)۔سچے اور امانت دار تاجر کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔«التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء (ترمذی)اسلام نے معاشی ترقی کے لیے کوئی تحدید نہیں کی ۔البتہ رزق کی تقسیم اللہ کا فیصلہ ہے۔نَحْنُ  قَسَمْنَا  بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ (الزخرف:۳۲)۔ کوشش کا حق ادا کرنے کے بعد اپنے رزق پر راضی ہونا قناعت ہے۔بغیر کوشش کے ،توکل اور قناعت دینداری نہیں ہے۔

۸ صلاحیتوں کا ارتقاء

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو منفرد بنایا ہے اور اسے مختلف قسم کی منفرد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔شخصیت کا ارتقاء یہ ہے کہ وہ اپنی ان صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرے اور ان کو بروئے کار لانے کی شعوری کوشش کرے۔انسان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک خواب متعین کرے کہ وہ کس خدمت کے لیے رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا حقدار بننا چاہتا ہے۔تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے لیے یہ اہداف، نصب العین اور اس کے محرک کی شکل میں متعین ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اس مقصد و نصب العین کے لیے خود کو مفید سے مفید تر بنانے کی شعوری کوشش کرے۔

۹ عملی ارتقاء

شخصیت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے وقت کے بھرپور اور مفید استعمال کا ہنر جانتا ہو۔اس کام کے لیے  منصوبہ بندی ، ضروری ہے۔ سالانہ، ششماہی، سہ ماہی ، ماہانہ اور روزانہ قابل عمل اہداف کا تعین کرنا چاہیے، اپنی استعدادمیں اضافہ، رفتار کارپر نظر کا اہتمام ہونا چاہیے۔خود کو منظم و متحر ک رکھنا اوراپنی قوت ارادی کو مضبوط رکھناضروری ہے۔ہمارا آج کل سے بہتر ہو اور ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر کارکردگی کا حامل ہو۔حضرت علیؒ کے بقول  مَنْ اِسْتَویٰ یَوْمَاہُ فَھُوَ مَغْبُوْنٌ’’ جس شخص کے دو دن یکساں ہوئے وہ ناکام ہے۔‘‘

شخصیت کے ارتقاء کے ذرائع

شخصیت کی معرفت:

شخصیت کے ارتقاء کے لیے پہلی سیڑھی اپنی شخصیت کی پہچان اور صحیح معرفت ہے جسے خودشناسی بھی کہا جاتا ہے۔ جو خدا سے غافل ہوتا ہے اسے اللہ خود سے غافل کردیتا ہے۔(الحشر:۱۹)۔ خودشناسی  کے اجزا میں علمی معیار، ذہانت اور لیاقت، مزاج ، رویہ، جذبات ،اقدار،سب شامل ہیں ۔ ایک شخص اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرکے خوبیوں اور صلاحیتوںکو پروان چڑھاسکتا ہے اور خامیوں کو دور کرسکتا ہے۔

۱ مطالعۂ قرآن

شخصیت سازی میں قرآن کی تلاوت ، غور و فکر اور تدبرکی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن مجید نے کامیاب شخصیت کے خدوخال تفصیل سے بیان کیے ہیں۔قرآن نے مؤمن، متقی، اولوالالباب، عباد الرحمن، جیسے عنوانات کے تحت ایک مکمل شخصیت کی تصویر کشی کی ہے۔ ان آیات کا فہم و ادراک حاصل کرکے اور ان اوصاف کو اختیار کرکے  ہم ایک کامیاب شخصیت بن سکتے ہیں۔

۲  اسلامی عقائد اور عبادات

اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات کا نظام ،شخصیت سازی میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔

(الف) عقائد:۔  توحید کا تصور بندۂ مؤمن کو صبغۃ اللہ کو اختیار کرنے کی ترغیب دلاتا ہے جس سے فرد روحانی اعتبار سے بلند ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے۔رسالت کا تصور ایک کامل شخصیت کے اتباع پر آمادہ کرتا ہے۔آخرت کا تصور بندۂ مؤمن کو طویل المعیاد ہدف کے حصول کے لیے عارضی دلفریبیو ں کو قربان کرنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے۔یہ تینوں پہلو شخصیت سازی میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔

(ب)  نماز:۔نماز تعلق باللہ کا ذریعہ ہے۔نماز فرض شناسی پیدا کرتی ہے۔اجتماعیت کے آداب سکھاتی ہے۔قوت ارادی کو مضبوط کرتی ہے۔

(ج)  روزہ:۔روزہ کے ذریعے بھی  انسان کا ارادہ  مضبوط ہوتا ہے۔روزہ کے ذریعہ سماجی تر بیت بھی ہوتی ہے۔صحت و تندرستی کی جانب بھی توجہ ہوتی ہے۔

(د)زکوٰۃ:۔ زکوٰۃ مال کی محبت کو  حُب اِلٰہی کے تحت لاتی  ہے۔حقوق العبادکی یاد دہانی کرتی ہے  سماجی ارتقاء میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔

(ر)حج:۔ حج مجاہدہ فی سبیل اللہ کی عظیم مشق ہے جس سے بندۂ مؤمن جفاکش، جانی و مالی قربانیاں دینے والابنتا ہے۔

۳ صالح اجتماعیت سے وابستگی

انسان کی شخصیت کو بنانے میں اجتماعیت کا کردار اہم ہے۔ اسلامی عبادات  اجتماعیت کا سبق سکھاتی ہیں۔اسلام اور اجتماعیت لازم و ملزوم ہیں۔اجتماعیت سے محروم شخص شیطان کا شکار ہوسکتا ہے۔صالح اجتماعیت فرد کو تربیت کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ذاتی ارتقاء کے لیے اجتماعی ماحول میں جو مواقع ہوتے ہیں وہ اکیلے فرد کو نصیب نہیں ہوتے۔

۴ صالح صحبت

شخصیت کے ارتقاء میں صالح صحبت کا  اہم رول ہے۔اچھی صحبت سے فرد اچھا بنتا ہے اوربری صحبت سے برا۔قرآن نے کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن(التوبہ:۱۱۹)کہہ کر اس جانب اشارہ کیا ہے۔ حضورؐ نے اسی تناظر میںعطار کی دوستی اختیار کرنے اور اور لوہار کی دوستی اختیار نہ کرنے کی تلقین کی ہے(بخاری مسلم)۔قرآن نے لغو اور مجالس لغو سے اعراض کی تلقین کی ہے۔وَالَّذِیْنَ   ھُمْ  عَنِ  اللَّغْوِ  مُعْرِضُوْن (المؤمنون:۳، القصص:۵۵)۔حضورؐ نے  اَلْمُؤمِنُ مِرْأۃُ الْمُؤمِنِ(ابو داؤد) کہہ کر اہل ایمان کو ایک دوسرے کاآئینہ قرار دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کے ارتقاء میں تعاون ہوسکے۔لہٰذا صالح صحبت ، بزرگوں کی صحبت، اکابر اوراہل علم کی صحبت شخصیت کو نکھارتی ہے۔

۵  دیگر ذرائع:۔کورسس، ورکشاپس، عمومی مطالعہ

ان سب کے ساتھ شخصیت سازی پر عمومی مطالعہ بھی مفید ہوسکتا ہے۔بہت سی کتابیںآن لائن اور آف لائن دستیاب ہیں۔ حدود شریعت میں اُن سے استفادہ ممکن ہے۔ اس میدان سے متعلق کورسس موجود ہیں۔ قیادت کی تربیت، فن خطابت فن تحریر، وغیرہ  کے لیے ورکشاپس ہوتی ہیں۔ان  سے استفادہ بھی شخصیت سازی کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔

۶ شخصیت کے ارتقاء پر چند مفید کتابیں:

(۱)                               تزکیۂ نفس                                      امین احسن اصلاحیؒ

(۲)                            شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر                                                                      محمد بشیر جمعہ

(۳)                            نفس کا تزکیہ۔فرد کا ارتقاء                                                                                    ایس امین الحسن

(۴)                            شخصیت کا ارتقاء۔خصوصی شمارہ                                                            ماہنامہ رفیق منزل

(۵)                            اپنی تربیت کیسے کریں؟                                                                                             خرم مرادؒ

(۶)                             آپ کی شخصیت اور اس کا ارتقاء                                                           ملک عطا محمد

مشمولہ: شمارہ نومبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223