امہات المومنین میں سے ایک حضرت زینب بنت خزیمہؓ بھی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رفاقت کا زمانہ صرف دو تین ماہ ہے ۔غالباًاسی وجہ سے سیرت نگاروں اور مورخین نے ان کی طرف کم توجہ دی ہے اور کتابوں میں ان کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے۔ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی اختلافات سے محفوظ نہیں رہ سکی ہیں۔بہرحال ان پر جو کچھ مواد مل سکا ہے ،اس کی روشنی میں، ان کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خاندان
ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا حارث ہلالی کی اولاد میں سے تھیں۔ بنو ہلال قبیلۂ بنو عامر کی ایک شاخ تھی،جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ بعض حالات کی وجہ سے یہ قبیلہ یمن میں جا کر بس گیا تھا۔ شمالی یمن میں تبالہ نامی مقام پر ذوالخامہ نام کا ایک بت تھا ،جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔
تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ یمن کے لوگ بڑے خوش حال تھے۔ عیش و عشرت اور آرام و سکون کی وجہ سے نافرمانیاں اور بد اعمالیاں ان کے اندر سرایت کر گئی تھیں۔آخر اللہ تعالی کا عذاب اْن لوگوں پر نازل ہوااور’مآرب ‘کا بند ٹوٹ گیا، جس کی وجہ سے دور تک تباہی و بربادی پھیل گئی۔ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں اور آبادیاں ویرا ن ہو گئیں۔ جو لوگ سیلاب سے محفوظ رہے وہ مختلف علاقوں میں نقلِ مکانی کرنے پر مجبور ہو ئے۔ ان ہی میں حضرت زینب بنت خزیمہؓ کا قبیلہ بنو ہلال بھی شامل تھا، جو یمن سے حجاز میں آ کر آباد ہو ا۔
حسب و نسب
الاستیعاب میں حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کا نسب نامہ یوں درج ہے:
زینب بنت خزیمۃ بن الحارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعۃ بن معاویۃ بن بکر بن ہوازن منصور بن عکرمۃ بن خصفۃ بن خنیس بن عیلان الہلالیۃ(۱)
زینب بنت خزیمہ کا سلسلہ نسب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ میں معد بن عدنان سے اکیسویں (۲۱)پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ سیرت نگاروں اور مورخین میں ان کے والد کی نسبت سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔جیسا کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الاستیعاب میں ان کے سلسلۂ نسب کو بیان کرنے کے بعد صراحت کی ہے اور اسی پر دیگر مورخین کا بھی اتفاق ہے(۲)البتہ انہوں نے ان کی والدہ کے نسب کی تفصیلات بیان کرنے سے تجاہل برتا ہے۔ابن عبدالبر نے اس میں ابو الحسن الجرجانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت زینبؓاپنی ما ں کی طرف سے حضرت میمونۃؓبنت الحارث کی بہن تھیں۔ساتھ ہی ابن عبدالبر نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بات میں نے کسی اور کے یہاں لکھی ہوئی نہیں دیکھی۔اسی کو ابن سید الناس نے بھی ابن عبدالبر کے حوالے سے بیان کیا ہے، لیکن انہوں نے اس پر کوئی استدراک نہیں لکھا ۔
ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی اپنی کتاب’نساء النبی‘ میں لکھتی ہیں کہ ابن عبدالبر کے علاوہ مشہور ماہر نسب ’ابوجعفر ابن حبیب‘ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلاف کے ذیل میں میمونہؓ بنت الحارث بن حزن الھلالیۃ کا ذکر کیا ہے کہ ان کی والدہ ہند بنت عوف بن الحارث بن حماطہ الحمیریۃ تھیں اور ان کی علاتی واخیافی بہنیں ام الفضل لبابۃ الکبریٰ ام بنی العباس بن عبد المطلب، لبابۃ الصغریٰ ام خالد بن الولید اورعزۃ بنت الحارث تھیں ۔اور ماں کی طرف سے ان کی بہنیں زینبؓ بنت خزیمۃ بن الحارث بن عبداللہ الہلالیۃ، اسماءؓ بنت عمیساور سلامۃ بنت عمیس تھیں(۳)
ہند بنت عوف(والدہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ)کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پورے عرب میں حسب و نسب کے لحاظ سے ان سے زیادہ شریف عورت کوئی دوسری نہیں تھیں(۴)
ولادت
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی ولادت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے تیرہ ( ۱۳) سال پہلے( ۵۹۷ء میں)ہوئی۔(۵) ایک دن خزیمہ بن حارث کے گھر میں بہت سی عورتیں ، رشتے دار اور دوست و احباب جمع تھے ،جیسے ان لوگوں کو بڑی بے تابی سے کسی خوش خبری کا انتظارتھا۔ تھوڑی دیر نہیں گذری تھی کہ گھر میں سے ایک عورت آئی اوراس نے پوچھا :
’’ خزیمہ کہاں ہے؟‘‘ خزیمہ نے جیسے ہی عورت کی آواز سنی فوراً اس کی طرف متوجہ ہوااور سوال کیا: اْس نے جواب دیا:’’ خزیمہ! لڑکی ہوئی ہے ، مبارک ہو۔بڑی خوب صورت ہے اوراس کے چہرے سے خوش بختی اور بلند اقبالی ٹپک رہی ہے۔ ‘‘
عورت کی بات سْن کر خزیمہ بے تابی اور مسرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کمرے کے اندر چلا گیا۔ بیوی کے پہلو میں لیٹی ہوئی اپنی خوب صورت بیٹی کو دیکھا تو اسے عجیب سی کشش محسوس ہوئی۔بے اختیار اْس نے اپنی بیٹی کوپیارکیا اور کہا :’’ یہ میری زینب ہے۔‘‘ اس طرح آپ کا نام’ زینب ‘قرار پایا۔
زینب کے لغوی معنی منعمۃ البدن(خوب صورت اور نرم و نازک بدن والی)اور شجر حسن المنظر طیب الرائحۃ(خوب صورت اور اچھی خوشبو والا درخت)کے آتے ہیں(۶) شاید اسی لیے ان کے والد نے ان کا یہ نام رکھا ہوگا۔اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ بلند اقبال لڑکی ایک دن خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بن کر امت مسلمہ کی مقدس ماں بن جائےگی۔
حضرت زینب ؓکا قبولِ اسلام
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت حضرت زینب بنت خزیمہؓ کی عمر ۱۳یا ۱۴ سال تھی۔ اعلان نبوت کے بعد مکہ معظمہ کے حالات میں تبدیلی آئی اورحق پسند طبیعت کے حامل لوگ اعلانیہ اور پوشیدہ طور پر دولتِ اسلام سے مالا مال ہونے لگے۔سردارانِ مکہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستا نے اور تکلیف پہنچا نے لگے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ تو نہیں ملتا کہ حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کب دامنِ اسلام سے وابستہ ہوئیں ، لیکن آپ کے اعلیٰ اَخلاق و کردار ، صاف ستھری زندگی اور سخاوت و فیاضی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابتدائی دور میں ہی اسلام سے قریب آ گئی ہوں گی۔
ام المومنین ہونے سے پہلے کی ازدواجی زندگی
حضرت زینب بنت خزیمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے پہلے کن کی زوجیت میں تھیں ؟ اس میںسیرت نگاروں اور مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن کلبی کابیان ہے کہ وہ پہلے طفیل بن الحارث کے نکاح میں تھیں،انہوں نے طلاق دے دی تو ان کے بھائی حضرت عبیدۃؓ بن الحارث بن عبدالمطلب نے ان سے نکاح کر لیا ۔وہ جنگ بدرمیں شہید ہوئے۔ ابن سید الناس کی یہی رائے ہے۔ ابن سعد نے بھی ابن حجر کے حوالے سے یہی رائے بیان کی ہے(۷)ایک قول یہ ہے کہ سب سےپہلے وہ جہم بن عمرو بن الحارث الھلالی کے نکاح میں تھیں ،جو ان کے چچا زاد بھائی تھے(۸)امام قسطلانی ؒ کے مطابق حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو طفیل بن حارث نے طلاق دے دی تو ان کا نکاح ان کے بھائی حضرت عبیدۃ بن حارث ؓ سے کر دیا گیا۔ جن کی کنیت ’ابو معاویہ ‘تھی، ماں کا نام سنجیلہ تھا۔ قد میانہ ، رنگ گندمی اور چہرہ بہت خوب صورت تھا۔ وہ جوانی کی منزلیں پار کر چکے تھے جب انہوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کو سنا اور اسلام کی صداقت کے سامنے سرتسلیمِ خم کردیا ۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان پر مشرکین مکہ کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ حضرت عبیدۃ بن حارثؓ اور ان کی بیوی حضرت زینبؓ بنت خزیمہ پر بھی دشمنانِ اسلام نے مظالم ڈھائے۔ جب مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین کا ظلم و ستم حد سے زیادہ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ ؐ نے اپنے جاں نثاروں کو مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دےدیا۔
ہجرت کا حکم مل جانے کے بعد دونوں میاں بیوی خاموشی کے ساتھ ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے ۔ انہیں مناسب وقت کا انتظار تھا۔ آخرکار ایک دن حضرت عبیدۃؓ بن حارث، حضرت زینبؓ بنت خزیمہ، دونوں بھائی حضرت طفیلؓ بن حارث و حضرت حصینؓ بن حارث اور ایک ساتھی حضرت مسطحؓ بن اثاثہ کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین سے چھپتے ہوئے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔طویل سفر کے بعد یہ قافلہ اپنی منزل مقصود مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ اس نورانی قافلے کا استقبال سب سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن سلمہ عجلانیؓ نے کیا اور بڑے محبت و خلوص کے ساتھ حضرت عبیدہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی کی۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مواخات قائم کی توحضرت عبیدۃ بن حارثؓ کو حضرت عمیر بن حمام انصاری ؓ کا بھائی قرار دیا۔ حضرت عمیر ؓنے دیگر انصاری صحابہ کی طرح بھائی چارگی کی وہ مثال قائم کی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ انہوں نے حضرت عبیدۃ ؓ اور ان کے خاندان کی رہایش کے لیے ایک بڑی زمین انہیںدے دی۔ حضرت زینب ؓحسبِ معمول غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلاتیں ، لوگوں کا دکھ درد بانٹتیں ، اپنے دروازے پر آنے والے سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتیں۔یہاں بھی وہ سخاوت و فیاضی میں بڑی مشہور ہو گئیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےنزدیک حضرت عبیدۃ بن حارث رضی اللہ عنہ کی جو منزلت و رفعت تھی، اسے دیکھتے ہوئے مہاجرین و انصار انھیں ’شیخ المہاجرین‘کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثاروں کے حْسنِ سیرت اور اعلیٰ اخلاق و کردار اور اپنی حقانیت اور صداقت کی بنیاد پر اسلام بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔اس سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی نیندیں اڑ گئیں۔ انہوں نے اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا نے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنائے۔ جب ان کی سازشیں عروج پکڑ نے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کریمؐ نے ان کا سدِ باب کرنا شروع کیا۔
ہجرت کے چھٹے مہینے(۶۲۳ء ) میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رابغ نامی علاقے کی طرف ایک سریہ بھیجا ۔(۹) اس کا امیر حضرت عبیدہ بن حارث ؓ کو مقرر فرمایا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹولی کو ایک سفید جھنڈا عطا کیا ،جسے حضرت مسطح بن اثاثہ ؓ لیے ہوئے تھے۔ رابغ کے قریب جب یہ لشکر ’ثنیہ مریہ‘ کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں دو سو مشرکین کی جماعت سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ حضرت سعد بن وقاص ؓنے کفار پر تیر پھینکا۔ یہ سب سے پہلا تیر تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کفار پر چلایا گیا۔ مدارج النبوۃ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
’’ حضرت سعد بن وقاص ؓ نے کل آٹھ تیر پھینکے اور ہر تیر ٹھیک نشا نے پر بیٹھا۔ کفار ان تیروں کی مار سے گھبرا کر فرار ہو گئے۔ اس لیے کوئی جنگ نہ ہوئی۔ اس سریہ کو ’ سریہ عبیدہ بن الحارث‘کہا جاتا ہے۔‘‘
اسی دوران جنگ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ مدینہ منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے(۹۸) میل کا تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار اصحاب کے ساتھ جمعہ کی رات ۱۷؍ رمضان المبارک ۲ھ کو بدر کے قریب اترے۔ یہ اسلامی تاریخ میں حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں لشکروں میں صف آرائی کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں اترے اور انہوں نے انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔ اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تین جاں نثار اصحاب ’ علی ، حمزہ اور عبیدہ ‘(رضی اللہ عنہم)کو بھیجا۔
حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما دونوں نے جلد ہی اپنے مدمقابل کو قتل کر دیا،جب کہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور ولید میں دیر تک لڑائی جاری رہی اوردونوں زخمی ہو گئے۔ حضرت علی اور حمزہ نے آگے بڑھ کر ولید کو قتل کیا۔ اس معرکے میں حضرت عبیدہ ؓبن حارث کا ایک پاؤں شہید ہو گیا تھا۔ یہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو صفرا ء کے مقام پر انہوں نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہوئے۔
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نے جب اپنے شوہر کی شہادت کی خبر سنی تو اْن کی آنکھیں نم ہو گئیں ، لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑااور بارگاہِ رب العزت میں عرض کی:’ ’ اے اللہ! بس تو راضی ہو جا‘‘(۱۰)
روایتوں میں آتا ہے کہ جب حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نے اپنے شوہر حضرت عبیدۃؓ بن الحار ث کی شہادت کی خبر سنی توا س وقت وہ زخمی مجاہدوںکو پانی پلانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھیں ۔ شوہر کی شہادت کی خبر سننے کے بعد بھی انہوں نے صبر و سکون اور استقامت کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دے دی(۱۱)
ایک قول یہ بھی ہے کہ غزوہ ٔ بدر میں حضرت عبیدۃؓ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؓ بنت خزیمہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن جحشؓ( لقب المجدّع فی اللہ،گوش بریدۂ راہ ِخدا)کے نکاح میں آگئیں،جو جنگِ احد (۳ھ)میں شہید ہوئے۔اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔اسے ابن حجر نے اصابۃ میں اور ابن عبدالبر نے الزھری سے روایت کیا ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے بھی حضرت عبداللہ بن جحشؓ سے شادی ہونے کی روایت لی ہے(۱۲)
حضرت عبد اللہ ؓبن حجش کی شہادت کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے کہ انہوں نے غزوۂ احد سے پہلے شام کو حضرت سعد ؓبن ابی وقاص سے یہ درخواست کی کہ آؤ ! کل کےلیے ایک دعا میں مانگوں اور ایک تم مانگو ،جس کی جیسی خواہش ہو۔ تمہاری دعا پر میں آمین کہوں اورمیری دعا پر تم آمین کہو ! غالبا ً اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص حضور کی دعاکی وجہ سےمستجاب الدعوات بن گئے تھے۔ سب سے پہلے حضرت سعدؓبن ابی وقاص نے دعا کی:
’’الٰہی کل! جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ایسا آدمی میرے مقابلے پر لاجو سخت جنگ جواور غضب ناک ہو،وہ مجھ سے لڑے اور میں اس سے لڑوں،پھر مجھے اس پر غالب فرما، تاکہ میں تیری راہ میں اسے قتل کر دوں۔‘‘
اس پر حضرت عبد اللہؓ بن حجش نے آمین کہا۔ پھر انہوں نے دعا مانگنا شروع کی :
’’اے اللہ !میرے مقابلے میں ایسا آدمی لانا جو بڑا بہادر اور تند ہو،میں اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑے،یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے تیری راہ میں اس کے ہاتھ سے قتل ہو جاؤں،پھر وہ میری ناک اور کان کاٹ ڈالے، پھرجب میں تجھ سے ملوں اور تو مجھ سے پوچھے کہ تیرے کان ناک کیوں کاٹے گئے؟تو میں عرض کروں کہ اے اللہ!تیرے لیے اور تیرے رسول کے لیے!میرے جواب پر تو فرمائے کہ ہاں تو سچ کہتا ہے۔‘‘(۱۳)
جنگ احد میں دونوں کی دعا قبول ہوئی ۔عبد اللہؓ بن حجش کو شہادت نصیب ہو ئی،دشمنوں نے ان کو مثلہ کردیا،اس لیے کہ پہلے ’سریہ‘(رجب۲ھ) کا سردارہونے کی و جہ سے کفار ان سے بہت ناراض تھے۔
علامہ ابن اثیرؒ نے لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا گزر ان کی لاش پر ہوا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا:’اللہ کی قسم!عبداللہ کی دعا میری دعا سے بہتر تھی‘‘(۱۴)
حضرت زینب کو جب شوہر کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے کوئی آہ و فغا ں نہیں کی،بلکہ پہلے سے بھی زیادہ عبادت و سخاوت میں مصروف ہوگئیں۔
طبری اور عبدالبر نے قتادہ سے جوروایت نقل کی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حضرت زینبؓ کے صرف طفیل بن حارث کی زوجیت میں ہونے کا ذکر ہے(۱۵)
ان اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ پہلے طفیل بن الحارث بن عبدا لمطلب کی زوجیت میں تھیں، اس کے بعد ان کے بھائی عبیدۃؓبن الحارث کی زوجیت میں آئیں ، پھر جنگِ بدر میں ان کی شہادت کے بعد ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔اس روایت کو ابن حبیب نے المحبر میں، ابن عبدالبرنےاستیعاب میں ابن سید الناس نے عیون الاثر میں اور المحب الطبری نے السمط میں بیان کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کے صبر و استقامت اور ثابت قدمی کا علم ہوا اورآپؐ نے دیکھا کہ کوئی ان کی نگہداشت کرنے والا نہیں ہے تو آپؐ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس طرح اْمت کے غم گسار نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بیوہ عورت کو سہارا دیااور انھیں ’ام المساکین‘ کے ساتھ ساتھ’ام المؤمنین‘ کا تاجِ عزت و رفعت پہنایا۔یہ نکاح اوائل رمضان ۳ھ میں ہوا۔چار سو( ۴۰۰) درہم مہرمقرر ہوا(۱۶)
حافظ ابو عمرو نے لکھا ہے کہ حضرت زینبؓ ام المومنین سیدہ میمونہؓ کی اخیافی بہن تھیں۔ نکاح کے وقت ساڑھے بارہ اوقیہ (پانچ سو درہم) مہر مقرر ہوا۔اس وقت ان کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔طبری نے نکاح کا زمانہ رمضان ۴ھ قرار دیا ہے ۔
اس طرح حضرت زینب بنت خزیمہؓ پانچویں خاتون تھیں جوام المومنین کے عظیم مرتبے پر فائز ہو ئیں۔اس سے پہلے حضرت خدیجہؓ ، حضرت سودہ بنت زمعہؓ ،حضرت عائشہؓاور حضرت حفصہؓ آپؐ کے عقدِ نکاح میں آچکی تھیں۔ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کوحضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کی سہیلی ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ان دونوں کو یہ بھی پتہ تھاکہ حضورنے ان کے اور ان کے شوہر کے تقویٰ کے بنا پر ان کی دل جوئی کرنے کے لیے یہ شادی کی ہے ،لہذا انہوں نے بھی خوش آمدید کہا اور ان کی برابر دل جو ئی کی (۱۷)
حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ کا ولی ؟
حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ کے نکاح کے وقت ان کاولی کون تھا ؟اس میں سیرت نگاروں اور مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ابن الکلبی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کو براہِ راست نکاح کا پیغام بھیجا تھا اور انہوں نے اسے قبول کر لیااور بارہ اوقیہ پر نکاح ہوا(۱۸)جب کہ ابن ہشام کا بیان ہے کہ :’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے نکاح میں ولی آپؓ کے چچا قبیصۃ بن عمرو الھلالی تھے۔‘‘
وفات
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں کتنی مدت رہیں اور ان کی وفات کب ہوئی؟ اس میں بھی مورخین اور سیرت نگاروں کی مختلف روایات ملتی ہیں۔الاصابۃ میںہے کہ:حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میںحضرت حفصہؓ کے بعد آئیں اور دو یا تین ماہ کے بعد ان کا انتقال ہو گیا(۱۹)
ایک دوسری روایت ابن الکلبی سے ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کا نکا ح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان ۳ھ میں ہوااور وہ آپؐ کی رفاقت میں آٹھ مہینہ(۸)رہیں۔ پھر ربیع الاخریٰ ۴ھ میں ان کا انتقال ہوگیا۔(۲۰)شذرات الذہب میں رفاقت کی مدت تین ماہ بیان کی گئی ہے ۔ عمروفات کے وقت ان کی عمرتیس (۳۰)سال تھی(۲۱)
حضرت خدیجہ ؓ کے بعد حضرت زینب ؓ ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ان کا انتقال ہوا،جب کہ دیگر ازواج مطہّرات نے آپؐ کے بعد وفات پائی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی نماز جنازہ خودپڑھائی اور ان کو جنت البقیع میں دفن کیا (۲۲) امہات المومنین میں سے سب سے پہلے انہیں کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی(۲۳)
ام المساکین
حضرت زینب بنت خزیمہؓ بعض معاملات میں دیگر ازدواج مطہرات سے آگے نظر آتی ہیں ۔ بڑی رحم دل،منکسر المزاج، اور سخی تھیں۔ ہمہ وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں اور ہمیشہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتی تھیں۔اگرچہ ان کا بچپن بڑے ناز و نعم میں گزرا،لیکن اس دور کی دوسری بچیوں کی بہ نسبت حضرت زینب ؓبڑی منفرد تھیں۔ بچپن ہی سے انھیں غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلا نے کا بڑا شوق و ذوق تھا۔ جب تک وہ کسی کو کھانا نہ کھلا لیتیں انھیں سکون محسوس نہ ملتا تھا ۔ اْن کے باپ خزیمہ کا شمار اْس زمانے کے بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔باوجود اس دولت و ثروت کے حضرت زینب بنت خزیمہؓ کے اندر بچپن ہی سے عاجزی ،انکساری اور فیاضی کی صفات پائی جاتی تھیں۔اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ ان کی اس صفت کی وجہ سے ان کو ’ام المساکین‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے تھے(۲۴)
ابن ہشام لکھتے ہیں:
’’حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کوان کی رحم دلی اور نرمی کی وجہ سے ’ام المساکین‘ کہا جاتا تھا‘‘(۲۵)
الاستیعاب اور الاصابۃ میں ہے:
’’ انہیں ام المساکین کہا جاتا تھا۔کیوں کہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلاتی تھیں اور انہیں صدقہ خیرات دیتی تھیں۔‘‘
اسی طرح کے الفاظ تاریخ الطبری:(۳/۳۳)اورشذرات الذہب :(۱/۱۰ )میں بھی ملتے ہیں ۔
طبرانی نے ابن شہاب زہری سے روایت کیا ہے کہ:
’’ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب ؓبنت خزیمہ سے نکاح فرمایا، اس وقت بھی ان کی کنیت ام المساکین تھی۔ یہ کنیت کثرت سے غرباء اور مساکین کو کھانا کھلانے کی وجہ سے مشہور تھی۔‘‘
بعض سوانح نگاروں نے ام المساکین کا لقب ایک دوسری ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ سے منسوب کیا ہے،لیکن ڈاکٹر بنت الشاطی اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ سیرت کے تمام مصادراور قرنِ اول کی تمام تاریخی کتابوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کا لقب تھا(۲۷)
حواشی
(۱)الاستیعاب:۷۵۳
(۲)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،الطبقات الکبریٰ،نساء الاستیعاب والاصابۃ،السیرۃ الھشامیۃ:۴/۲۹۷،تاریخ الطبری:۳/۱۷۹، المحبرلابن حبیب:۸۳، جمہرۃ انساب العرب:۲۶۲، السمط الثمین:۱۱۲، عیون الاثر:۲/۳۰۲
(۳)نساء النبی،عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی،دارالکتب العربی ، بی ر و ت ، لبنان،۱۹۷۹ء،ص۱۳۲
(۴)المحبر:۱۰۵-۱۰۹،الاصابۃ:۸/۹۵
(۵)خاندان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم،محمد ادریس،مکتبہ رحمانیہ،نزد گورنمنٹ لطیف ہائی اسکول (دارالسلام)، ۱۹۹۳ء، ص۵۲۷
(۶) قاموس الاسماء العربیۃ،شفیق الارناؤوط،دارالعلم للملایین، بیروت، لبنان،طباعت دوم،۱۹۸۹ء، ص۱۲۰
(۷)الاصابۃ،ابن حجر،ج ۷،ص ۶۷۳ بحوالہ کتاب الطبقات الکبیر،محمد بن سعد بن منیع الزھری،مکتبۃ الخانجی،القاہرۃ، ۲۰۰۱، ج۱۰، ص۱۱۲
(۸)زوجات الانبیاء علیھم السلام وامہات المومنین رضی اللہ عنھن،محمد علی قطب،الدار الثقافیۃ للنشر، القاھرۃ، ۲۰۰۴، ص۱۴۶۔السیرۃ الھشامیۃ
(۹)تاریخ تہذیب اسلامی(عہد جاہلی و عہد نبوی)،محمد یٰسین مظہر صدیقی،انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز،نئی دہلی،اشاعت دوم،۲۰۱۲ء،ج اول،ص۱۴۹-۱۵۰
(۱۰)امہات المومنین،محمود احمد صواف،مکتبہ علوم اسلامی،سمن آباد،جھنگ صدر،ص۶۲-۶۳
(۱۱)زوجات النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اسرار الحکمۃ فی تعددھن، ابراہیم محمد حسن الجمل،مکتبۃ وھبۃ، القاہرۃ، طباعت دوم،ص۶۸
(۱۲) سیرۃ النبی،شبلی نعمانی،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۱۱ء،ص۳۲۹
(۱۳)خیر البشر کے چالیس جاں نثار،طالب ہاشمی،مرکزی مکتبہ اسلامی،۱۳۵۳،چتلی قبر ،دہلی، طبع چہارم ، ۱۹۹۵ء،ص۱۰۶-۱۰۷)،مستدرک حاکم،اسد الغابۃ
(۱۴)خیر البشر کے چالیس جاں نثار، ص۱۱۵
(۱۵)نساء النبی،ص۱۳۳
(۱۶)شذرات الذہب،طبقات:۸/۸۲
(۱۷)زوجات النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اسرار الحکمۃ فی تعددھن ، ص۶۸
(۱۸)زوجات الانبیاء علیھم السلام وامہات المومنین رضی اللہ عنھن، ص۱۴۶ ، الطبقات الکبریٰ:۷/۱۱۵،الاصابۃ:۴/۳۱۶
(۱۹)الاصابۃ: ۴/ ۳۱۵، الاستیعاب:۴/۳۱۲
(۲۰)نساء النبی،ص۱۳۴۔زوجات النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اسرار الحکمۃ فی تعددھن،ص۶۹
(۲۱)زوجات الانبیاء علیھم السلام وامہات المومنین رضی اللہ عنھن،ص۱۴۶
(۲۲)الطبقات الکبریٰ :۷/۱۱۶
(۲۳)نساء النبی،ص۱۳۶
(۲۴)طبقات الکبریٰ:۷/۱۱۵
(۲۵)السیرۃ:۴/۲۹۶
(۲۶) الدھر :۷-۱۰
(۲۵)شمارہ: ۱۱۰۳،تاریخ۴/۳/۹۶۵
(۲۷)نساء النبی،ص۱۳۶
مشمولہ: شمارہ مئی 2016