لچک دار رویہ

اکیسویں ویں صدی کی اہم مطلوبہ صلاحیت

آج دنیا عالمگیر ہو گئی ہے۔ دنیا کی عالمگیریت نے انسانوں کو ”عالمگیر شہری“ (Global Citizen) بنا دیا ہے۔ یہ محض مضامین میں استعمال ہونے والی کوئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ نئی نسل میں ایسی صفات پیدا کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، جو بین الاقوامی شہری بننے کے لیے ضروری ہیں۔ ان صفات میں سب سے اہم ”لچک دار رویہ“ے۔

لچک دار رویہ انسان کو نہ صرف مختلف حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے، بلکہ یہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی کے دروازے بھی کھولتا ہے۔ آج کے دور میں ہر انسان کو کئی ذمہ داریاں نباہنی پڑتی ہیں، جن میں اپنے خاندان کا خیال رکھنا، مہنگائی کے دور میں محدود آمدنی کے اندر وسیع اخراجات کو پورا کرنا اور زندگی کے دیگر مختلف چیلنجوں سے نمٹنا شامل ہے۔ اسی لیے لچک دار رویہ ایک بنیادی ضرورت بن گیا ہے۔

اکیسویں صدی کے طلبہ ایک گلوبل دنیا کا حصہ ہیں، جہاں مختلف رنگ و نسل، تہذیب و ثقافت، مذاہب و عقائد کے ماننے والے افراد بستے ہیں۔ ان کے زندگی گزارنے کے طریقے مختلف ہیں، لذتیں حاصل کرنے کا تصور جدا ہے، کھانے پینے کی عادات مختلف ہیں، جمالیات کے معیار الگ ہیں، لب و لہجہ، نشست و برخاست اور تعظیم و تکریم کے انداز بھی جدا ہیں۔ سماجوں کا یہ فرق نہ صرف ممالک کے درمیان ہے بلکہ ہر ملک کے اندر بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں ہر 100 کلومیٹر کے فاصلے پر زبان کا لب و لہجہ اور کلچر کچھ تبدیل ہو جاتا ہے ۔

ایک جانب انسانی رویوں میں فرق ہے، تو دوسری جانب زمانے کے تقاضوں کے تحت نئی نسل کو اپنے خول سے باہر نکل کر مختلف معاملات کرنے ہوتے ہیں۔ معاملات ایک ہی انداز کے نہیں ہیں، بلکہ مختلف اقسام کے ہیں۔

اکیسویں صدی میں عالمگیر دنیا نے ایک اور قدم آگے بڑھا کر ڈیجیٹل دنیا (Digital World) کی شکل اختیار کر لی ہے، جہاں سوشل میڈیا کے زیر اثر انسان کے خیالات و تصورات، پسند و ناپسند، اور زندگی کے دیگر پہلو ترتیب پا رہے ہیں۔ آج کا انسان اپنی آبائی تہذیب و تمدن کی بندشوں کو توڑ کر آزادی کی فضا میں بے خوف و خطر اپنے خیالات کو پروان چڑھا رہا ہے۔ انہی خیالات سے متاثر ہو کر وہ زندگی کے دیگر شعبوں کی تزئین کاری بھی کر رہا ہے۔

ایسے حالات میں نئی نسل کو لچک دار رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوال کہ ”کتنا لچک دار ہونا چاہیے؟ “اور ” کس دائرے میں لچک ہونی چاہیے؟“ تعلیم و تربیت کے حوالے سے اس موضوع پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

لچک دار رویہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج جاپان کا ایک انجینئر افریقہ کے کسی دور دراز ملک میں جاتا ہے تو وہاں کی تہذیب، ثقافت، رہن سہن، کھانے پینے کے انداز اور لب و لہجے سے ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ یہ عالمی سطح پر ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے لازمی ہے۔

یہ رویہ محض دو براعظموں یا دو ممالک کے درمیان افراد میں ایک مطلوبہ صفت نہیں ہے، بلکہ ایک فرد کو اپنی زندگی بہتر بنانے، اپنی ازدواجی زندگی خوشگوار رکھنے اور اپنے خاندان اور گردو پیش کے سماج کو خوشحال رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔

لچک دار رویہ کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ صفت ہے جو انسان کو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ لچک دار رویہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے اور انسان کو نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے اردگرد کی دنیا کو بھی بہتر بنانے کے قابل بناتا ہے۔

لچک دار رویہ کیا ہے؟

لچک دار رویہ وہ طرز عمل ہے جس میں ایک فرد اپنی فکر، رائے، فیصلے، عمل یا ردعمل کو حالات کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ رویہ دلیل، امکانی نتائج اور دوسرے افراد کے جذبات و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنایا جاتا ہے۔

اگر کوئی فرد کسی بات کو دلیل کے ساتھ پیش کرے اور وہ قائل ہو کر اپنی فکر یا رائے میں تبدیلی لے آئے تو یہ لچک دار رویہ کہلائے گا۔

جب کوئی فرد کسی عمل یا ردعمل کے امکانی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی یا رویے میں تبدیلی کرتا ہے، تو یہ بھی لچک دار رویہ کہلاتا ہے۔

اگر کوئی فرد اپنے تعلقات میں گنجائش رکھتا ہو اور اختلافات کے باوجود دوسروں کے ساتھ اجتماعیت میں کام کرے، تو یہ رویہ لچک دار کہلائے گا۔

جب ایک فرد دوسرے فرد کی کمزوریوں کو سمجھ کر اپنے رویے کو ان کے مطابق ڈھالتا ہے، تو یہ بھی لچک دار رویے کی مثال ہے۔

لچک دار رویے میں فرد پہلے فیصلہ کرنے کے بجائے مشورے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کرتا ہے۔

لچک دار رویے میں فرد اپنی انا کے بجائے دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔

لچک دار رویہ اپنانے والا شخص دوسروں کے جذبات اور مجبوریوں کو سمجھتا ہے اور ان کے مطابق اپنا رویہ ترتیب دیتا ہے۔

مذہبی و دینی معاملات میں بھی لچک دار رویے کی بڑی اہمیت ہے۔ بعض افراد وہ ہیں جو صرف متن کے الفاظ پرتوجہ فرماتے ہیں ۔ان کے پس منظر اور تشریحات پر کم غور کرتے ہیں۔ مقصد و مدعا پر تدبر و تفکر سے کام لینے کے بجائے صرف جملوں پر ان کی توجہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کے برعکس ہوتے ہیں۔

لچک دار رویے کی اہمیت

لچک دار رویہ اجتماعی زندگی میں، چاہے وہ افراد کے درمیان ہو یا گروہی سطح پر، تعلقات کو مضبوط بنانے اور اجتماعیت کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر لچک نہ ہو تو تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں، اور نتیجتاً اجتماعیت متاثر ہوتی ہے اور ٹیم اسپرٹ کم زور پڑ جاتی ہے۔ گروپ کی حرکیات متاثر ہو جاتی ہیں۔ کارپوریٹ دنیا میں اس کا اثر پیداوار ، اقدامات،فروخت اور منافع پر پڑتا ہے۔

لچک دار رویہ اختیار نہ کرنے کے نقصانات

اگر کوئی فرد، گروہ یا اجتماعیت سخت گیر رویہ اختیار کرتی ہے تو اس کے کئی نقصانات ہو سکتے ہیں:

۱۔ باہمی تعلقات میں کمزوری

سخت رویہ باہمی تعلقات کو متاثر کرتا ہے، جس سے گروپ، اجتماعیت یا بزنس ہاؤس میں نا اتفاقی بڑھتی ہےاور اجتماعی مقصد کی طرف پیش رفت کمزور پڑ جاتی ہے۔

۲۔ فیصلوں میں بے اعتدالی

سخت رویے کی وجہ سے فرد اپنے فیصلوں میں اعتدال کھو دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے ذاتی اور اجتماعی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

۳۔ازدواجی زندگی میں ناخوشگواری

سخت رویہ ازدواجی زندگی کو ناخوشگوار بنا دیتا ہے اور باہمی افہام و تفہیم میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

۴۔ بین الاقوامی سطح پر ناکامی

سخت رویہ رکھنے والے افراد یا اجتماعیت بین الاقوامی سطح پر زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔اس لیے کہ بین الاقوامی سطح پر مختلف خیالات ، تمدن ، زبان ، کلچر ، پسند و ناپسند کے مختلف معیارات رکھنے والے افراد سے ایک دوسرے کا سابقہ پیش آتا ہے۔

۵۔ مسائل حل کرنے کی صلاحیت میں کمی

سخت رویے کی وجہ سے فرد مختلف متبادلات پر غور نہیں کرتا، جس سے مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت (Problem-Solving Skills)کمزور ہو جاتی ہے۔

لچک دار رویہ اور سختی، ایک تجزیہ

نوجوانوں اور طلبہ میں سخت رویے کے اثرات

نوجوانوں اور طلبہ میں سخت گیر رویہ انہیں انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے، جو سماج میں منفی عمل اور رویے کو جنم دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اجتماعی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے اور معاشرتی تعلقات میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔

طلبہ میں لچک دار رویہ کیسے پیدا کیا جائے؟

آج دنیا بھر کے تعلیمی نصابوں میں کم عمری سے ہی رویوں میں لچک پیدا کرنے کی تعلیم میں شامل کی جا رہی ہے۔ یہ ایک اہم سماجی ضرورت بن کر سامنے آئی ہے۔ اس رویے کو پیدا کرنے کے لیےپری پرائمری سطح پر “مونٹیسری میتھڈ”(Montessori Method) اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس طریقہ کار میں طلبہ کو ایک کام کو مختلف انداز میں انجام دینے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔

مونٹیسری میتھڈ اور لچک پیدا کرنے کی تربیت

بچوں کو کام شروع کرنے سے پہلے سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔

بچوں کو نظم و ضبط سکھایا جاتا ہے۔

بچوں کو خیال رکھنے (Caring) اور بانٹنے (Sharing)کی تربیت دی جاتی ہے، یعنی ان کے اندر ساتھیوں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی عادت پیدا کی جاتی ہے۔ یہ دونوں سماجی صفات بچوں میں لچک پیدا کرتی ہیں۔

گروپ سرگرمیاں اور پرائمری اسکول کی تربیت

جب بچے پرائمری اسکول میں داخل ہو جاتے ہیں، تو اس صفت کو پروان چڑھانے کے لیے گروپ میں سیکھنے (Group Learning) اور ازراہ تعاون سیکھنے  (Collaborative Learning) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

سرکل ٹائم ایکٹیویٹی (Circle Time Activity): اس میں طلبہ ایک گروپ بنا کر کسی منصوبے یا سرگرمی کو انجام دیتے ہیں۔

سماجی پروجیکٹ: عمر بڑھنے کے ساتھ طلبہ کو ایسے سماجی منصوبے دیے جاتے ہیں جو ان میں لچک اور سماجی شعور پیدا کرتے ہیں۔

ایموشنل کوشنٹ (EQ) اور سوشل کوشنٹ (SQ):

موجودہ تعلیمی ماحول میں دو اصطلاحات بہت معروف ہو گئی ہیں:

پہلی اصطلاح ہے ایموشنل کوشنٹ (Emotional Quotient)

یہ دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے رویے کو ڈھالنے کی صلاحیت ہے۔

ضروری ہے کہ نہ صرف دوسروں کے جذبات کو سمجھا جائے بلکہ ان کے مطابق اپنے جذبات کو ترتیب دیا جائے۔

بعض اوقات دوسروں کے جذبات کی اصلاح کے لیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس شعوری عمل کو ایموشنل کوشنٹ (EQ) کہا جاتا ہے۔

دوسری اصطلاح ہے سوشل کوشنٹ (Social Quotient)

اس سے مراد یہ ہے کہ فرد سماجی ضرورتوں، افراد کی عادتوں، ان کے رد و قبول اور مزاج کو سمجھے اور اپنے رویے کو ان کے مطابق ڈھال لے۔

ایک سماجی کارکن کے لیے مختلف ثقافتی یا جغرافیائی ماحول میں لچک دار رویہ اپنانا سوشل کوشنٹ کی مثال ہے۔

مثلاً، شمالی بھارت کے ایک سماجی کارکن کو جنوبی بھارت میں ناشتے میں اِڈلی اور وڈا پیش کیا جائے، اور وہ اسے خوش دلی سے قبول کر لے تو یہ اس کی سماجی ذہانت (Social Intelligence) کی علامت ہے۔

Empathy (تعلق خاطر)کی تعلیم

دوسروں کے جذبات، خوشی، غم، سوچ اور عادتوں کو سمجھنے کی صلاحیت کو ایمپیتھی کہتے ہیں۔ اس صلاحیت کو بھی اسکولوں میں فروغ دیا جا رہا ہے۔

ایمپیتھی صرف غم اور مشکلات کو سمجھنے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں خوشی کو سمجھنا بھی شامل ہے۔

اس میں نہ صرف دوسروں کے جذبات کا احساس شامل ہے بلکہ ان کے مطابق اپنے عمل میں تبدیلی لانا بھی ضروری ہے۔

مثال کے طور پر، کسی کے غم کا احساس کرنے کے بعد اس کی مدد کرنے کا اقدام ایمپیتھی کی اعلیٰ مثال ہے۔

مذہب اور لچک دار رویہ

لچک دار رویے کی تربیت میں مذہبی اقدار کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلامی عقائد اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں طلبہ کی تربیت کر کے ان میں سماجی ہم آہنگی کا شعور اور اس کی برکتوں کا احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔

مسلم سماج میں لچک پیدا کرنے کے لیے جمعہ کے خطبات اور دیگر مذہبی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ماہرینِ نفسیات اور طرز عمل کی سائنس (Behavioral science)

ایسے مسلم ماہرین نفسیات سے استفادہ کیا جانا چاہیے ، جو رویوں کی تبدیلی پر کام کر رہے ہیں۔

جدید نفسیات کی ایک شاخ NLP (Neuro-Linguistic Programming) رویوں میں تبدیلی کے لیے مقبول ہو رہی ہے۔

مسلم روایت میں موجود مراقبہ اور نفس کی اصلاح کے مفید تصورات کو بھی اس سلسلے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خلاصہ:

لچک دار رویہ نہ صرف تعلیمی میدان بلکہ عام سماجی کامیابی کے لیے بھی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ بچوں میں یہ صفت پیدا کرنے کے لیے تعلیمی نصاب، گروپ سرگرمیاں، مذہبی تربیت اور نفسیاتی تکنیکوں کا استعمال ضروری ہے۔ یہ خصوصیت بچوں کو سماج کا ایک بہتر اور ہم آہنگ حصہ بننے میں مدد دیتی ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ طلبہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں لچک دار رویہ پیدا کرنے کے لیے سماجی علوم، بالخصوص بنیادی نفسیات اور عمرانیات (سوشیولوجی)، کی تعلیم ضروری ہے۔ بھارت کی تعلیمی پالیسی 2020 نے بھی اس قسم کی رائے پیش کی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں گریجویشن کی سطح پر نصاب میں اس طرح کے مضامین شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

ماہرینِ تعلیم کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ طلبہ میں لچک دار اور مثبت رویہ پیدا کرنے کے لیے جدلیاتی (Dialectical) طریقہ کار مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ طریقہ مکالمے، مباحثے یا تضادات کے ذریعے کسی موضوع یا خیال کی گہرائی میں جانے اور اس کے حل تک پہنچنے کے عمل کو بیان کرتا ہے۔

اسلام اور لچک دار رویہ

اسلام اپنے ماننے والوں کو ”امت وسط“کہتا ہے، یعنی درمیانی اور متوازن امت۔

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے”امت وسط“کی وضاحت کرتے ہوئے سورة البقرہ کی آیت 143 کی تشریح میں تفہیم القرآن میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

”امت وسط“سے مراد وہ امت ہے جو اعتدال اور توازن کی حامل ہو۔ یہ امت نہ تو افراط میں مبتلا ہوتی ہے اور نہ تفریط میں، بلکہ ہر قسم کی انتہا پسندی اور غلو سے پاک رہتی ہے۔ یہ امت اپنے اخلاق، اعمال اور نظریات میں میانہ روی اختیار کرتی ہے، جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ طریقہ ہے۔

اعتدال اور توازن

مولانا مودودی کے مطابق “امت وسط” کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام ایک ایسی راہ دکھاتا ہے جو انسان کی روحانی اور مادی ضروریات دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ نہ تو دنیاوی خواہشات کو مکمل طور پر ترک کرنے کا درس دیتا ہے، اور نہ ہی انہیں حد سے بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔

میانہ روی کی اہمیت

اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

” میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو، یہ جنت کے راستوں میں سے ایک ہے۔“

اسلام نے زندگی کے معاملات میں لچک دار رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔ تاہم، لچک دار رویہ اپنانے کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی اصولی رائے، عقائد، یا ثقافت کو ترک کر دیا جائے۔

لچک دار رویے کی حدود

لچک دار رویے پر بات کرتے ہوئے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ کہیں اس رویے کا مطلب یہ تو نہیں:

اپنی رائے کو مکمل طور پر ترک کر دینا۔

مخالف کی رائے کو بلا سوچے سمجھے قبول کر لینا۔

حالات کے دباؤ میں آ کر اپنے اصولوں کو قربان کر دینا۔

کسی بھی قسم کے خوف یا لالچ کی بنیاد پر اپنا موقف تبدیل کر دینا۔

لچک دار رویے کا اصل مفہوم

لچک دار رویہ دراصل دلیل، حقائق اور دور رس نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے یا عمل میں وہ تبدیلی ہے جو حق اور درستگی کی جانب لے جائے۔ لیکن یہ تبدیلی خوف، لالچ یا دباؤ کے تحت نہیں ہونی چاہیے۔

اسلامی لچک داری کا مطلب یہ ہے کہ اپنی شناخت اور تہذیب کی ٹھوس بنیادوں اور عقائد کو برقرار رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ معاملات کیے جائیں۔

اپنے عقائد اور نظریات کی وضاحت دلیل کے ساتھ کریں۔

دوسرے کے دلائل کو غور سے سنیں ۔

دباؤ یا زور زبردستی کے ذریعے نہ اپنی رائے کو مسلط کریں اور نہ دوسرے کی رائے کو قبول کریں۔

اپنے رویے کو اس طرح ترتیب دیں کہ آپس میں احترام اور تعاون کا ماحول پیدا ہو۔

جہاں لچک نہ ہو، وہاں سختی پیدا ہوتی ہے۔

جب کسی فرد یا گروہ میں لچک کا فقدان ہوتا ہے، تو وہاں سختی جنم لیتی ہے۔ یہ سختی جب تین افراد کے ایک گروہ میں منتقل ہوتی ہے تو فسطائیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

آج ہمارے ملک کے نوجوانوں میں یہ رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ ان کا عقیدہ، روایت، لب و لہجہ اور نظریات دوسروں سے بہتر ہیں۔ وہ ان لوگوں کو کمتر سمجھتے ہیں جو ان سے کسی بھی چیز میں مختلف ہوتے ہیں۔

سیاسی طاقت اور سخت رویے کا فروغ

جب سخت گیر رویوں کو سیاسی طاقت اور پشت پناہی ملتی ہے، تو انتہا پسندی اور فسطائیت کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یہی کچھ آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے، جہاں سختی اور عدم برداشت کا رجحان نوجوانوں اور طلبہ میں بڑھ رہا ہے۔

اسلامی تاریخ میں لچک دار رویے کی مثالیں

صلح حدیبیہ کے معاہدے کے دوران مکہ والوں نے یہ اعتراض کیا کہ معاہدے میں “رسول اللہ” کا لفظ لکھا ہوا نہ ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا اور معاہدے میں اپنا نام صرف “محمد بن عبداللہ” لکھوانے پر راضی ہو گئے۔ یہ رویہ اس وقت کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنایا گیا تاکہ معاہدہ طے پا سکے اور امن کی راہ ہموار ہو۔

جنگ بدر کے بعد گرفتار قیدیوں میں سے چند قیدیوں کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیں گے۔ یہ اقدام اسلامی تعلیمات میں لچک اور انسانیت نوازی کا بہترین مظہر ہے۔

اسی طرح شریعت اسلامی میں بھی لچک داری کے کئی اہم پہلو شامل ہیں، جو زندگی کے مختلف مواقع پر سہولت اور آسانی فراہم کرتے ہیں، جیسے:

پانی نہ ہو تو مٹی سے تیمم کرنے اور سفر کے دوران نماز قصر (چار کی جگہ دو رکعت) کی اجازت دی گئی ہے۔

اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اسے روزہ نہ رکھ کر بعد میں اس کی قضا کر نے کی اجازت دی گئی۔

اگر شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان نباہ ممکن نہ ہو تو شریعت طلاق یا خلع کی اجازت دیتی ہے تاکہ دونوں فریقین ذہنی سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223