روح کواپنے رب کی بارگاہ میں باریابی مل جائے، اُس کا رب اُس سے راضی ہوجائے اور اُسے اپنے قریب کرلے، محبت سے سرشار روح کی یہی ایک تمنا ہوتی ہے۔ آخرت میں سب سے خوش نصیب وہ ہوگا جسے اللہ اپنے مقرّب بندوں میں شامل کرے گا۔ اس عظیم ترین سعادت کے حصول کے لیے جو سبقت لے جائے وہی اصل میں سبقت لے جانے والا ہے۔
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ۔ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ۔ ’’آگے بڑھ جانے والے ہی اصل میں آگے بڑھ جانے والے ہیں۔ وہی قریب کیے جانے والے ہیں۔‘‘ [الواقعة: 10، 11]
محبت سے سرشار روحیں اللہ کی مقرّب بننے کے لیے آخرت کا انتظار نہیں کرتیں، وہ دنیا میں رہتے ہوئے اللہ سے قربت کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ او ر جب کوئی پاکیزہ روح قربِ الہی کی آرزو مند ہوتی اور اس کا صحیح راستہ اختیار کرتی ہے، تو اُسے اس دنیا ہی میں اللہ کے قریب ہونے کا نہایت خوش گوار احساس حاصل ہوتا ہے۔ اور یہی روحانیت کی معراج ہے۔
نفس کی ہزاروں خواہشیں، روح کی بس ایک طلب
انسان کا نفس خواہشات کادیوانہ ہوتا ہے۔ وہ انھی کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اُس کی ہزاروں خواہشیں ہوتی ہیں اور وہ ہر خواہش پہ مرتاہے۔ اس پر مزید یہ کہ یہ ساری خواہشات اسی دنیا تک محدود ہوتی ہیں۔ کچھ نہایت پست ہوتی ہیں اور کچھ قدرے غنیمت۔
روح کے پاس خواہشات کا انبوہ نہیں ہوتا ہے، اس کی تو بس ایک ہی طلب ہوتی ہے۔مگر نفس کی خواہشات کے شور و غل میں انسان کو یہ احساس ہی نہیں ہوپاتا ہے کہ روح کی طلب کیا ہے؟ آیا اس کی کوئی طلب ہے بھی یا نہیں؟
جسم مٹی سے بنا ہے، مٹی ہی میں مل جانا ہے۔اس کی خواہشات بھی اسی دنیا تک محدود ہیں۔ جب کہ روح تو عالم بالا سے آئی ہے۔ وہیں اس کو پلٹ کر جانا ہے۔ اس لیے اس کی حقیقی طلب تو بس ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے رب سے قریب ہوجانے کی طلب۔ روح کی یہ طلب جب کم زور پڑجاتی ہے تو نفس کی خواہشات کو پھولنے پھلنے کا پورا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب روح کی یہ طلب طاقت ور ہوتی ہے تو نفس کی خواہشات کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔
علامہ ابن قیمؒ نے جسم و روح کے درمیان خواہشات کی کش مکش کے بارے میں دل نشین گفتگو کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’انسان کے جسم کی تخلیق زمین سے ہوئی اور اس کی روح کی آسمان کے ملکوت سے اور دونوں کو ایک دوسرے سے منسلک کردیا گیا ہے۔ پس جب انسان اپنے جسم کو بھوکا رکھتا، اسے جگاتا اور خدمت میں مصروف رکھتا ہے، تو اس کی روح سکون اور راحت پاتی ہے، اور پھر وہ اس جگہ کی آرزو مند ہوجاتی ہےجہاں سے اس کی تخلیق ہوئی۔ اسے اپنے عالم بالا کا شوق بے قرار رکھتا ہے۔ اور جب وہ اپنے جسم کو سیر کرتا ہے، آسائشوں میں پالتا ہے، نیند میں مدہوش رکھتا ہے، اور اس کی خدمت و راحت میں مشغول رکھتا ہے، تو جسم اس مقام کی طرف جھکتا چلا جاتا ہے جہاں اس کی تخلیق ہوئی، اور ساتھ میں روح بھی کھنچی چلی جاتی ہے۔ اور اس طرح وہ قیدخانے میں چلی جاتی ہے۔ اگر وہ روح اس قید خانے سے مانوس نہ ہوجائے تو فرقت کی تکلیف سے اور اپنے جہانِ تخلیق سے دور ہوجانے کے کرب سے نکلنے کے لیے اسی طرح فریاد کرے جس طرح شدید تعذیب سے دوچار آدمی فریاد کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جب جب جسم ہلکا ہوتا ہے، روح لطیف ونشیط ہوجاتی ہے، اور اپنے عالم بالا کی آرزو مند ہوتی ہے۔ اور جب جب جسم بوجھل ہوتا ہے اور خواہشات و راحت کی راہ اختیار کرتا ہے، روح بوجھل ہوجاتی ہے اور اپنے مقام سے نیچے گر کر ارضی و سفلی ہوجاتی ہے۔ تم ایسے لوگ بھی پاؤ گے جن کی روح رفیق اعلی کے پاس ہوتی ہے اور جسم تمھارے پاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے بستر پر سورہا ہوتا ہے اور اس کی روح سدرة منتہی کے پاس عرش کا طواف کررہی ہوتی ہے۔ جب کہ دوسرے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا جسم عبادت کررہا ہوتا ہے اور روح پستی میں سفلیات کا طواف کررہی ہوتی ہے۔ پھر جب انسان کی روح جسم سے جدا ہوتی ہے تو یا تو رفیق اعلی کے حضور پہنچتی ہے یا رفیق اسفل سے جاملتی ہے۔ رفیق اعلی کے پاس ہر طرح کی آنکھوں کی ٹھنڈک، آسائش و سرور، بہجت و لذت اور پاکیزہ زندگی ہوتی ہے۔ جب کہ رفیق اسفل کے پاس ہر طرح کا غم والم، ضیق ورنج اور تنگ حالی و بدحالی ہوتی ہے۔‘‘ (الفوائد)
آگہی قربت کا شوق بڑھاتی ہے
اپنے رب کے بارے میں بندے کی آگہی جتنی زیادہ ہوتی ہے، اس کا شوقِ ملاقات اتنا ہی زیادہ بڑھتا ہے۔ بندے کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ راست اللہ کو دیکھ سکے، لیکن اللہ کے بارے میں آگہی کا بہت سا سامان اس دنیا میں رکھ دیا گیا ہے۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی نشانی ہے۔ انسان کے ظاہر و باطن کا ہر پہلو اللہ کی نشانی ہے۔ ان نشانیوں کے علاوہ اللہ کی کتاب کی ہر آیت اللہ کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔انسان ان نشانیوں میں غور کرتے ہوئے اللہ کی صفات سے آگاہ بھی ہوتا ہے اور اسے اللہ سے قریب ہونے کا روح پرور احساس بھی ہوتا ہے۔
اللہ کی نشانیوں سے چشم پوشی کرنے والے اللہ سے غافل اور دور ہوتے ہیں۔ اللہ سے قریب ہونے کے لیے اللہ کی آگہی ضروری ہے۔ اللہ کی نشانیوں میں مسلسل غور وفکر انسان کی خدا شناسی میں مسلسل اضافہ کرتا ہےاور اس طرح قربِ الہی کی سمت سفر جاری رہتا ہے۔
اللہ سے ہم کلامی کا خوب صورت احساس
یہ احساس کہ اللہ بندے سے ہم کلام ہے، نہایت فرحت بخش اور اللہ سے قریب کرنے والا ہوتا ہے۔
فروہ بن نوفلؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت خباب بن ارتؓ کا پڑوسی تھا۔ ایک بار ہم مسجد سے نکلے، انھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا: ’’عزیزم! اللہ سے قریب ہونے کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرو جو تمھارے بس میں ہو۔ ہاں یہ یاد رکھو کہ اس سے قریب ہونے کے لیے اللہ کے کلام سے زیادہ کوئی چیز اسے محبوب نہیں ہے۔‘‘(مستدرک حاکم)
اللہ کے کلام کی حقیقی حلاوت بھی اسی وقت ملتی ہے، جب اسے پڑھتے ہوئے اللہ کے ساتھ ہم کلامی کی کیفیت پیدا کی جائے۔
ایک بزرگ سالم خواصؒ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں، میں قرآن پڑھتا اور مجھے اس کی حلاوت نہیں ملتی، تو میں نے اپنے آپ سے کہا: ایسے پڑھو گویا تم اللہ کے رسول سے سن رہے ہو، تو مجھے تھوڑی حلاوت ملی، پھر میں نے اپنے آپ سے کہا ایسے پڑھو گویا جبرئیل سے سن رہے ہو، تو حلاوت اور بڑھی، پھر میں نے اپنے آپ سے کہا ایسے پڑھو گویا کہ اللہ بول رہا ہے اور تم سن رہے ہو، اس وقت مجھے پوری حلاوت ملنے لگی۔ (حلیة الأولیاء)
اس دنیا میں ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے۔اور ہر مخلوق خالق کی نشانی ہے، جس سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بہرحال ہر چیز مخلوق ہے۔ صرف اللہ کے کلام کو یہ امتیازی وصف حاصل ہے کہ وہ مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی صفت کا مظہر ہے۔ اللہ کے کلام کو پڑھتے ہوئے اللہ سے جس قرب کا احساس ہوتا ہے وہ کسی اور چیز سے نہیں ہوسکتا۔ انسانی روح اس دنیا میں رہتے ہوئے قرآنی آیات کے راستے عالمِ بالا کی سیر کرتی ہے۔ جنت وجہنم کے مناظر دیکھتی ہے۔ اللہ کی صفات کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اللہ کے احکام کو خود کلامِ الہی کے پیکر میں سنتی ہے۔قرآن پڑھتے ہوئے روح کو مکمل طور پر روحانی ماحول حاصل ہوتا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے ایسی روح پرور کیفیت کا حاصل ہوجانا کلامِ الہی کا اعجاز ہے۔
قربانی قریب کرتی ہے
دنیا کی ہر چیز میں انسانی نفس کے لیے کشش رکھی گئی ہے۔ اس کشش کی وجہ سے نفس پورے طور پر دنیا کا ہوکر رہنا چاہتا ہے۔ جب کہ روح کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کی طرف توجہ بقدرِ ضرورت ہو اور اصل توجہ اللہ کی طرف رہے۔ نفس اور روح کی اس کش مکش کے دوران قربانی کا عمل روح کو نفس پر فتح دلادیتا ہے۔اللہ کے یہاں قابلِ قبول قربانی وہی ہے جو روح کو نفس پر غالب کرکے اللہ سے قریب کردے۔ إِنَّمَا یتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ ’’اللہ تو صرف تقوی والوں کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘ [المائدة: 27]
قربانی عبادت کی ایک مخصوص صورت ہے۔ اس رسمِ عبادت کے علاوہ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں جب اللہ کو راضی کرنے کے لیے مرغوب ومحبوب چیزوں کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ ایسی ہر قربانی اللہ سے محبت بڑھاتی ہے اور اللہ سے قریب ہونے کا احساس عطا کرتی ہے۔لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ’’تم وفاداری کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں کو پیش نہ کردو۔‘‘ [آل عمران: 92] اللہ کے وفادار بندے قربانی دینے سے کبھی پیچھے نہیں رہتے، وہ قربانی میں قربت کا لطف تلاش کرتے ہیں۔
اللہ کے لیے جینا اور اللہ کے لیے کرنا
انسان جب اللہ کے لیے کچھ کرتا ہے تو اسے اللہ سے قریب ہوجانے کا احساس ہوتا ہے۔قربِ الہی کی یہ کیفیت روح کے لیے فرحت بخش ہوتی ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرے وہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے۔روح اور نفس میں اس حوالے سے کش مکش برپا رہتی ہے۔ نفس کی خواہشات اس کے اپنے لیے ہوتی ہیں،جب کہ روح رضا ئے الہی کی طالب ہوتی ہے۔ انسان جب کوئی کام اپنے لیے کرتا ہے تو اس کے نفس کو خوشی ہوتی ہے۔ لیکن جب کوئی کام اللہ کے لیے کرتا ہے تو اس کی روح خوش ہوتی ہے۔ روح کے لیے یہ احساس نہایت فرحت بخش ہوتا ہے کہ ’اللہ کے لیے کچھ کرنے‘کی سعادت اس کے حصے میں آئی۔
جسم کے اپنے کبھی ختم نہ ہونے والے تقاضے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی روح کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جسم صرف اللہ کی رضا جوئی والے کام کرے۔ اللہ تعالی کا انسان پر یہ عظیم احسان ہے کہ اس نے روح اور جسم کے تقاضوں کی تکمیل کا مشترک راستہ دکھادیا۔ وہ راستہ یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کے جو جائزتقاضے پورے کرے، ان میں بھی نیت یہ ہو کہ وہ اللہ کے لیے کررہا ہے۔ اس کی یہ نیت اسے اللہ سے قریب کرے گی اور روح کے لیے مسرت کا سامان کرے گی۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: مسلمان جب اللہ کی خاطر اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے، تو وہ خرچ صدقہ شمار ہوتا ہے۔ (متفق علیہ)
پیارے نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا: تم جو اپنی بیوی سے صحبت کرتے ہو، اس میں بھی صدقہ ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا: رسول خدا ہم اپنی شہوت پوری کریں گے اور اس میں بھی اجر ملے گا؟ فرمایا: سوچو اگر حرام طریقے سے شہوت پوری کرتے تو گناہ ملتا، اسی طرح حلال طریقے سے پوری کرنے میں اجر ملے گا۔(صحیح مسلم)
پیارے نبی ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے فرمایا: ’’تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اس میں تمھیں اجر ملے گا، یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منھ میں جو لقمہ دو گے، اس میں بھی۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
امام نوویؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس میں یہ بات ہے کہ جائز کاموں کو اگر اللہ کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے تو وہ اطاعت بن جاتے ہیں اور ان پر ثواب ملتا ہے، نبی ﷺ نے بیوی کے منھ میں لقمہ ڈالنے کی بات کہہ کر اسی طرف متوجہ کیا ہے۔ کیوں کہ انسان کی بیوی اس کی خاص دنیوی متاع اور جائزشہوت ولذت کی خاص ترین چیز ہے۔ اگر اس کے منھ میں وہ لقمہ ڈالتا ہے تو عام طور سے یہ ملاعبت، دل لگی اور جائز لذت اندوزی کے وقت ہوتا ہے۔ یہ کیفیت اطاعت اور آخرت کی تیاری سے بعید ترین شمار ہوتی ہے۔ اس کے باوجود نبی ﷺ نے آگاہ کیا کہ اگر اس لقمے سے اللہ کی رضا مقصود ہو تو اس کا بھی اجر ملے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ کی رضا مقصود ہوتوپھردوسری جائز حالتیں اجر کی زیادہ سزاوار ہوں گی۔(شرح نووی)
قربِ الہی کا زینہ: فرائض سے نوافل تک
فرائض سے لے کر نوافل کی ادایگی تک ہر قدم اللہ سے قریب کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ فرائض پسندہیں۔اور میرا بندہ نفل عبادتیں کر کے مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں،اگر وہ میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اس کی حفاظت کرتاہوں۔ (صحیح بخاری)
فرض کا دائرہ وسیع ہے۔ عبادتوں سے لے کر بندوں کے حقوق تک ہر وہ چیز فرض ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اس کے بعد نوافل کا دائرہ بھی عبادتوں سے لے کر بندوں کے حقوق تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسے ہی بندہ فرض کی ادایگی کے لیے کمربستہ ہوتا ہے، وہ اللہ سے قریب ہونے لگتا ہے، اور پھروہ نوافل کے ذریعے اور قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ فرائض و نوافل کا یہ سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے، روح اللہ سے قریب ہوتی جاتی ہے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب انسان اپنی روح کو اللہ سے قریب کرتا ہے، تو اللہ اس کے جسم کے تقاضے اپنے ذمے لے لیتا ہے اور غیب سے اس کی مدد کرتا ہے۔
اللہ کا ذکر کریں اور قربت کا لطف اٹھائیں
ہماری نگاہیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں، لیکن اللہ نے ہمیں دل عطا کیا ہے، جس کے ذریعے ہم اللہ کو یاد کرسکتے ہیں، ہمیں اللہ نے زبان دی ہے جس کے ذریعے ہم اللہ کی تعریف کرسکتے ہیں۔ اس دنیا میں اللہ کی قربت پانے کا اہم ذریعہ اللہ کی یاد ہے۔ انسان جتنا زیادہ اللہ کو یاد کرتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔ اور جتنا زیادہ وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اللہ اس سے قریب ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے تعلق رکھتا ہوں اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہترمجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ جاتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)
دل میں کس کا خیال بسے، اسے لے کر نفس اور روح میں کش مکش رہتی ہے۔ نفس چاہتا ہے کہ دل دنیا کے خیال میں منہمک رہے، روح چاہتی ہے کہ دل اللہ کی یاد سے معمور رہے۔ روحانیت یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو اللہ کی نعمتیں شمار کرتے ہوئے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اللہ سے لو لگائے۔
اللہ کے ذکر کا قرآنی طریقہ
کچھ لوگ اللہ سے قریب ہونے کے عجیب اور پرتکلف طریقے بتاتے ہیں، جیسے یہ کہ انسان اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرے، اللہ کےتصور میں محو ہوجائےاور اس کی طرف اس طرح دھیان مرکوز کرلے کہ کائنات کی کسی چیز کا اسے خیال ہی نہ رہے، گویا کائنات ہے ہی نہیں، صرف اللہ کا خیال رہے اور اللہ ہو کی ضربیں لگاتے لگاتے اس کی حالت مجنوں کی سی ہوجائے، اس طرح کی ریاضتوں اور مراقبوں کا کوئی سراغ ہمیں اسلامی نصوص میں نہیں ملتا۔
قرآن مجید میں اللہ کے ذکر کا طریقہ بار بار بتایا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی تخلیق کے کرشموں اور کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نشانیوں پر غور کرے، اللہ کی نشانیاں اللہ کی صفات پر روشن دلیلیں ہیں، ان پر غور کرتے ہوئے وہ اللہ کی صفات کا تصور کرے اور اللہ کی اس طرح حمد کرے کہ اللہ کی صفات کا بھی خوب ذکر ہو اور اللہ کی قدرت کے کرشموں کا بھی خوب بیان ہو۔ قرآن مجید میں ہر جگہ اللہ کا اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ احادیث پاک میں بھی اللہ کے ذکر کا یہی طریقہ ملتا ہے۔
قرآنی طریقے سے ذکر کرنے والے کی حالت کبھی دیوانے جیسی نہیں ہوگی، بلکہ وہ تمام انسانوں کے درمیان سب سے زیادہ عقل و بصیرت والا نظر آئے گا۔ اللہ کا ذکر اس کی روح کوقربت کا لطف اور عقل کو بصیرت کا نور عطا کرے گا۔ اللہ علیم وحکیم ہے، اس سے قریب ہونے والےکو علم و حکمت کے بجائے جنون و دیوانگی ہاتھ آئے، ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔
پریشان حالوں کے کام آئیں اور اللہ کی قربت پائیں
جب کوئی بندہ اللہ کے بندوں کی پریشانی میں ان کے کام آتا ہے تو اللہ اسے اپنی قربت سے نوازتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا قیامت کے دن: ’’اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری خبر نہ لی؟‘‘ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری کیوں کر خبر لیتا تو تو سارے انسانوں کا پالنہار ہے۔ پروردگار فرمائے گا: ’’تجھ کو معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ اگر تو اس کی خبر گیری کرتا، تو مجھ کو اس کے نزدیک پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھ کو کھانا نہ دیا؟‘‘ وہ کہے گا: اے رب! میں تجھ کو کیسے کھلاتا،تو تو سارے انسانوں کا پالنہار ہے۔ پروردگار فرمائے گا: ’’کیا تو نہیں جانتا میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اس کو نہ کھلایا اگر تو اس کو کھلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا، تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔‘‘ بندہ بولےگا: میں تجھےکیوں کر پلاتا، تو تو سارے انسانوں کا پالنہار ہے۔ پروردگار فرمائے گا: ’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا،تو نے اسےنہیں پلایا، اگر تو اسے پلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔‘‘ (صحیح مسلم)
دعائیں کرتے رہیں، قریب ہوتے رہیں
دعا کرتے وقت مطلوب یہ ہے کہ چپکے چپکے دعا کی جائے، تضرع اور آہ و زاری کی کیفیت ہو۔ دعا کی یہ کیفیت اللہ سے قریب ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ ایک تو مانگنا، پھر چپکے چپکے مانگنا اور گڑگڑا کر مانگنا، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب بندے کے دل میں یہ احساس ہو کہ رب قریب ہے۔ اور جب بندہ اس کیفیت کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو رب سے بہت قریب پاتا ہے۔
دعا روح کو رب سے بہت قریب کردیتی ہے۔ اسلامی تعلیمات نے دعا کا وہ تصور دیا ہے، جس میں قربت کا احساس پوری طرح حاصل ہو اور اس میں کوئی چیز خلل انداز نہ ہوسکے۔ دعا راست رب کے حضور کی جاتی ہے۔ درمیان میں کوئی نہیں ہوتا ہے۔ دعا ہر طرح کے درمیانی واسطے سے آزاد ہوتی ہے اور دعا کرتے ہوئے قربِ الہی کا پورا لطف حاصل ہوتا ہے۔
دعااللہ اور بندے کے درمیان بہت مضبوط رشتے کو بیان کرتی ہے۔ اسی لیے دعا کو عبادت کا مغز اور اصل عبادت قرار دیا گیا۔ جو لوگ رسمی روایتی دعاؤں کو کافی سمجھتے ہیں، یا اجتماعی دعا پر اکتفا کرتے ہیں اور خصوصی انفرادی دعاؤں کا اہتمام نہیں کرتے،وہ دعا کی اصل کیفیت سے محروم رہتے ہیں۔ دعا تو بہت اہتمام سے کیا جانے والا روحانی عمل ہے۔ اس کے لیے مناسب ترین حالت اور وقت کی جستجو کرنی چاہیے۔
حدیث پاک میں دعا کے لیے بہترین حالت اور بہترین ساعت دونوں بتادی گئی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’بندہ اپنے رب سے سب سے قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، پس (اس حالت میں) خوب کثرت سے دعا مانگو۔‘‘ (صحیح مسلم)
اسی طرح رسول پاک ﷺ نے فرمایا: ’’رب اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری پہر میں ہوتا ہے، تو اگر اس ساعت میں اللہ کا ذکر کرنے والے بن سکو تو بن جاؤ۔‘‘(سنن ترمذی)
رات کا آخری پہر ہو، خاموشی، تاریکی اور تنہائی ہو۔ ایسے میں اگر سجدے کی حالت میں رب سے قریب ہونے اور مناجات کرنے کی توفیق مل جائے، تو ایک پاکیزہ روح کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
حلول و اتحاد نہیں، قربِ الہی کا تصور درست ہے
اللہ سے قریب ہونے کی طلب توہو، مگر اس کے قرب کا صحیح تصور نہ ہو، تو آدمی فکر و عمل کی غلط راہوں پر جا نکلتا ہے۔ بعض لوگوں نے قرب کا مطلب حلول واتحاد سمجھ لیا۔ وہیں سے وحدة الوجود کا فلسفہ ظاہر ہوا۔
اللہ سے قریب ہونے کا راستہ وحدة الوجود جیسے فلسفوں سےگزر کر نہیں جاتا۔ ان فلسفوں کی اس راستے میں نہ کوئی معنویت ہے اور نہ ہی گنجائش ہے۔ بلکہ یہ فلسفے تو قربِ الہی کی منزل کو دھندلا کردیتے ہیں۔ کیوں کہ قربِ الہی کے تقاضے کچھ اور ہیں اور ان فلسفوں کے نتیجے کچھ اور ہیں۔
یہ فلسفے قربِ الہی کے حقیقی اعمال سے غافل و بے نیاز کرکے،محض خیال کی گزرگاہوں سے گزارتے ہیں اور نظر کو فریب دینے کا کام کرتے ہیں۔
اللہ کی کائنات اللہ کی نشانی ہے، اور انسان خوداللہ کا بندہ ہے۔ انسان سے صرف یہی احساس مطلوب ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بندگی کے راستے سے اور خالص احساسِ عبدیت کے ساتھ ہی اللہ سے قریب ہونا ممکن ہے۔جہاں بندگی کا مکمل احساس نہیں،وہاں اللہ سے قریب ہونے کا سوال نہیں۔
وحدة الوجود کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ سے قریب ہونے کے راستے سُجھانے کے بجائےحلول واتحاد کے جھوٹے احساس میں مبتلا کردیتا ہے ،جس کے بعد بندہ خود اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ اس طرح بندہ اللہ سے قریب ہونے کے بجائے اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وحدة الوجود کے فلسفے کو الحاد کی درس گاہوں اور بت پرستی کے معبدوں میں آسانی سے مقبولیت مل جاتی ہے۔
وحدة الوجود کے حوالے سے انسان کو اس فریب میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ ہر چیز میں اللہ کا وجود ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں خدا کو دیکھو اور ہر چیز کے سلسلے میں اچھے جذبات رکھو۔ کسی کو برا مت سمجھو۔ اس طرح تم مثبت فکر و نگاہ والے بن جاؤ گے اور تمھاری روح سدا خوش رہے گی۔ فکر ونظر کو مثبت بنانا اچھی بات ہے، لیکن اس کے لیے بے بنیاد اور نامعقول تصورات کار آمد ثابت نہیں ہوتے ہیں۔
اللہ کے ساتھ بندگی کا رشتہ ہی انسان کی واقعی اصلاح کرسکتا ہےاور اُسی رشتے کے تقاضے روح کو مطمئن کرسکتے ہیں۔
قربِ الہی: خوش گمانیوں سے نہیں، سچی کوششوں سے
ایک رویہ قرآن مجید میں یہودیوں اور عیسائیوں کا بیان کیا گیا ہے، کہ انھوں نے فرض کرلیا تھا کہ وہ نسلی طور پر اللہ کے مقرّب اور چہیتے ہیں۔ وَقَالَتِ الْیهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ’’ یہود اور نصاری نے کہا: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔‘‘[المائدة: 18] ظاہر ہے کہ قربِ الہی اس طرح کی خوش گمانیوں سے حاصل ہونے والی چیز نہیں ہے۔
اللہ کا دوست بننے کے لیے تو ابراہیمی کردار اختیار کرنا ہوتا ہے، زندگی کا قبلہ درست اور معیاراونچا کرنا ہوتا ہے۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِینًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا ’’ اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘ [النساء: 125]
اسلامی تعلیمات میں قربِ الہی کا جو راستہ دکھایا گیا ہے وہ فکر و عمل سے بھرپور ہے۔ انسان خدا ہونے کے پر فریب احساس کا شکار ہونے کی بجائے خدا سے قریب ہونے کا روشن اور معقول راستہ اختیار کرتا ہے، اس سے قریب ہونے کی اطمینان بخش کوششیں کرتا ہے اور قربِ الہی کے سچے احساس کو پاتا ہے۔
رہبانیت نہیں ربانیت مطلوب ہے
روح کی پیاس پر دھیان دینے والوں کو عام طور سے یہ ادراک تو ضرور رہا ہے کہ روح کی اصل منزل وہ عظیم ہستی ہے جس نے روح کو زمین میں بھیجا ہے۔روح کی اس ہستی سے ملاقات ہوجائے،روح کے لیے اس سے بڑی سعادت کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ اس سعادت کی طلب ہر زمانے میں رہی ہے، لیکن اس کے لیے بعض ایسے راستے اختیار کیے گئے جو سعادت بخش ثابت نہیں ہوئے۔ کیوں کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے نہیں، بلکہ بیشتر اللہ کی مرضی کے خلاف تھے۔
ایسے تمام طریقوں کے لیے جوایک مشترک نام ہوسکتا ہے، وہ رہبانیت ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی طرف یکسو ہونے اور اس سے قریب ہونے کی کوشش کی جائے۔ اللہ کی طرف سے صاف اعلان کردیا گیا کہ رہبانیت انسانوں کی ایجاد ہے۔ وہ ہرگز اللہ کو مطلوب نہیں ہے۔ اللہ کی مرضی تو یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے، اس کے تمدنی و تہذیبی عمل میں شریک رہتے ہوئے، اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ اسی کے لیے انسان کو زمین میں خلیفہ بناکر بسایا گیا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں روح کو قربِ الہی کا مسرت بخش احساس حاصل رہے، رب کریم کی طرف سے اس کا بھر پور انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے لیے دنیا سے باہر جانے یا دنیا سے رشتہ کاٹنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
وَرَهْبَانِیةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَیهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایتِهَا ’’اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی۔ ہم نے ان کے اوپر صرف اللہ کی خوش نودی کی طلب فرض کی تھی تو انھوں نے اس کے حدود کماحقہ ملحوظ نہیں رکھے۔‘‘ [الحدید: 27]
اسلام میں رہبانیت کی طرح دنیا سے باہر نکل کر اللہ سے قریب ہونے کا تصور نہیں ہے۔ اسلام تو دنیا میں رہتے ہوئے اللہ سے قریب ہونے کی تعلیم دیتاہے۔ قربِ الہی کی منزل کو حاصل کرنے کے لیے، دنیا میں رہتے ہوئے اور دنیا میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا ہے۔
اسلام کی روحانی تعلیمات کا بڑا انوکھا پہلو یہ ہے کہ وہ دنیا سے رشتہ منقطع کیے بغیر قربِ الہی کی لذتوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔ اللہ سے قریب ہونے کے لیے رہبانیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لیے للہیت اور ربّانیت ضروری ہوتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’آدمی کا دل جب تک خدا کو یاد کررہا ہوتاہے، وہ نماز کی حالت میں ہوتاہے، خواہ وہ بازار میں ہو۔ اور اگر اس ذکرکے ساتھ اس کے ہونٹ بھی حرکت کریں، تو یہ اور بڑی بات ہے۔‘‘ (حلیةالأولیاء)
قربِ الہی کی کوئی ایسی صورت نہیں ہے جو انسان کا انسانوں سے رشتہ منقطع کردے۔ انسان اللہ سے قریب ہونے کے لیے ہر نماز کے وقت مسجد جاتا ہے، عمرہ اور حج کی نیت سے خانہ کعبہ کا قصد کرتا ہے، لیکن قربِ الہی کے ہر سفر کے بعد انسانوں کی طرف واپس آتا ہے اور انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے قربِ الہی کا لطف اٹھاتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ تو معراج پر تشریف لے گئے اور اللہ کی خاص قربت کا جام نوش فرماکر پھر واپس انسانوں کی دنیا میں آئے۔
محبت کرنے والوں کا شیوہ: انابت و اوّابیت
دنیوی زندگی کے تقاضے اور مصروفیات، نفس کی خواہشات، لہو و لعب کے مظاہر، دوستی اور دشمنی کے تعلقات اور روز مرہ پیش آنے والے واقعات انسان کا دھیان اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان کا سارا دھیان سدا انھی چیزوں کی طرف رہے۔ ایسی صورت میں انسان اپنے رب سے غافل اور پھر دور ہوجاتا ہے۔
سعید روحیں وہ ہیں جو بار بار اپنا دھیان دنیا کی طرف سے ہٹاکر اپنے رب کی طرف لے جاتی ہیں۔اس طرح وہ بار بار اپنے رب سے قریب ہونے کا احساس پاتی ہیں۔ ایسے خوش نصیب لوگوں کو قرآن مجید میں اوّاب کہا گیا ہے۔ حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو دنیا کے بہت زیادہ سامان حاصل تھے، وہ ان کا بھر پور استعمال بھی کرتے، لیکن ان کی طرف متوجہ رہنے کے بجائے وہ بار بار اپنے رب کی طرف پلٹتے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت پریشانیاں اور تکلیفیں لاحق ہوئیں، لیکن وہ بھی اپنے تمام تر آلام و مصائب کے باوجود اللہ کی طرف پلٹتے رہے۔
رب سے قربت کے لیے ایک اور قرآنی تعبیر انابت کی ہے۔ جس کے معنی لو لگانے کے ہیں۔ سعید روحیں اپنے رب سے لو لگاتی ہیں۔ ایسے سعید لوگوں کو قرآن مجید منیب کہتا ہے۔رب سےلو لگانے کے بعد ساری دوستیاں اور دشمنیاں، محبتیں اور نفرتیں، پسند اور ناپسند، عمل اور ترکِ عمل، عبادتیں اور قربانیاں، جینا اور مرنا، غرض سب کچھ رب کے لیے ہوجاتا ہے۔فائدے اور نقصان کا دار ومدار بھی رب کی رضا پر ہوتا ہے۔اس کی رضا سب سے بڑا فائدہ اور اس کی ناراضی سب سے بڑا نقصان قرار پاتی ہے۔
یا أَیتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔ ارْجِعِی إِلَى رَبِّكِ رَاضِیةً مَرْضِیةً۔ فَادْخُلِی فِی عِبَادِی۔ وَادْخُلِی جَنَّتِی۔ ’’ اے اطمینان والی روح۔ تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وه تجھ سے خوش۔ پس میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں چلی جا۔‘‘ [الفجر: 27 – 30]
جو روح اس دنیا میں اللہ کی قربت کا لطف اٹھاتی ہے وہی اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مطمئن ہوتی ہے، وہ اپنےرب کے لیے بے پناہ خوشی کے جذبات رکھتی ہے، اور اس کا رب اسے یہ فرحت بخش احساس عطا کرتا ہے کہ وہ اس سے خوش ہے۔ اللہ اسے اپنے سے قریب کرتا ہے، اپنے مقرب بندوں میں شامل کرتا ہے اور اپنی جنت میں داخل کرتا ہے۔ جنت قربِ الہی کا مقام ابدی ہے، اس کا سب سے اونچا مقام ان سعید روحوں کے لیے ہے جنھوں نے دنیا کی زندگی اللہ سے بہت زیادہ قریب رہ کر گزاری۔ اس کے بعد ان روحوں کا مقام ہے جنھوں نے دنیا کی زندگی اللہ کی ناراضی سے بچتے ہوئےگزاری۔
سجدہ کرو اور قریب ہو جاؤ
اللہ کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہونا، پھر رکوع کرکے پورے جسم کو جھکا دینا اور پھر پیشانی کے بل سجدے میں گرجانا اللہ سے قریب ہونے کا حسین و جمیل طریقہ ہے۔ جسے پاکیزہ نفوس بار بار انجام دیتے ہیں۔ فرمایا: وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ’’سجدہ کرو اور قریب ہوجاؤ‘‘ [العلق: 19]
نماز میں قیام، رکوع اور سجود اللہ کی عظمت اور اپنی بے مایگی کا اقرار کرنے کی عملی تعبیریں ہیں۔سبحان ربی الأعلی اور سبحان ربی العظیم کے الفاظ رکوع و سجود کی حالت کے عین مطابق ہیں۔انسان کے دل کی کیفیت جب جسم کی حالت اور زبان کے کلمات سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے، تو روح کو قربِ الہی کا لطف حاصل ہوتا ہے۔ یہ محض احساس نہیں ہوتا ہے بلکہ بندہ واقعی اپنے رب سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔
کبر و غرورکرنے والوں کو اللہ دھتکار دیتا ہے۔عجز و انکسار اور خشوع و خضوع اللہ کو پسند ہے۔جو اللہ کی جتنی زیادہ تعظیم کرتا ہے اور اس کے آگے جتنا زیادہ جھکتا ہے، وہ اللہ سے اتنا ہی زیادہ قریب ہوتاہے۔
دل کی دنیا بدل دیتی ہے قربت کی آرزو
جب روح قربِ الہی کی تمنا سے سرشار ہوجاتی ہے تو انسان کا ظاہر و باطن سب اس تمنا کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔
دل میں صرف وہی ایک تمنا رہتی ہے۔ حضرت ابو سلیمان دارانیؒ سے کسی نے پوچھا: اللہ سے سب سے زیادہ قریب کرنے والی چیز کیا ہے؟ یہ سوال سن کر وہ رونے لگے، پھر کہنے لگے، آہ ! مجھ جیسے شخص سے ایسا سوال پوچھا جارہا ہے۔ سنو ! اللہ سے سب سے زیادہ قریب کرنے والی چیز یہ ہے کہ وہ تمھارے دل پر نگاہ ڈالے تو تمھیں دنیا و آخرت میں صرف اور صرف اس کا طلب گار پائے۔ (روضة المحبین)
اسی تمنا میں دل سکون پاتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے: ’’مومن کے لیے اللہ کی ملاقات کے سوا کوئی راحت نہیں ہے، اور جس کی راحت اللہ کی ملاقات میں ہوجائے، تو اس کی آرزو تو بر آنے ہی والی ہے۔‘‘ (حلیة الأولیاء)
وہ تمنا انسان کی ہر چیز سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے: حضرت قتادہؒ کہتے تھے: ’’وفاداری کے مقام پر پہنچنے کی دھن نے نیند پر قدغن لگادی۔ اسلام سے پہلے لوگ نیند میں مست رہا کرتے تھے۔جب اسلام آیا تو،خدا کی قسم انھوں نے اپنی نیند، اپنی رات، اپنے دن، اپنے مال اور اپنے جسم سے اتنا کچھ لے لیا جس سے وہ اپنے رب کے قریب ہوسکیں۔‘‘(حلیة الأولیاء)
اس تمنا کے ہوتے آدمی بڑی سے بڑی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ایمان لانے والے جادوگروں کو فرعون نے دھمکی دی کہ میں تمھارے ہاتھ اور پاؤں الگ الگ سمتوں سے کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھادوں گا۔ ایمان و یقین سے سرشار جادوگروں نے جواب دیا: ’’ تو جو چاہے کر گزر، ہم تو اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ [الأعراف: 125]
یہ تمنا ہر مصیبت کو آسان کردیتی ہے۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیهِ رَاجِعُونَ۔ ’’انھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے وہ کہتے ہیں، بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ [البقرة: 156]
کونوا أنصار اللہ
اللہ سے قریب ہونے کا بہت خاص راستہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے انصار میں شامل ہوجائے۔ اللہ کے پیغام کا علم بردار بن جائے۔اللہ نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے نبیوں کا انتخاب کیا اور انھیں اپنا مقرّب بنایا۔ نبیوں کے بعد جو شخص اپنے آپ کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے پیش کرے گا اور اس کارِ عظیم کا حق ادا کرے گا،یقینًا اللہ اسے اپنے مقرّبین میں شامل فرمائے گا۔اللہ سے قریب ہونے کی اس سے بڑی کوشش اور کیا ہوسکتی ہے کہ آدمی اللہ کے دین کی نصرت کو اپنی زندگی کا مشن بنالے۔
جب ہجرت کے سفر پر رسول پاکﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نکلے تو غار میں پناہ لی، ایسے موقع پر رسول اکرمﷺ نے حضرت صدیقؓ کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ’’غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘[التوبة: 40]
اللہ نے جب حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کی اور اسے دعوت دینے کی ہدایت کی اور ان دونوں نے کہا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادتی کرے اور سرکشی کرے، تو اللہ تعالی نے تسلی دی اور فرمایا: لَا تَخَافَا إِنَّنِی مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى ’’ڈرو مت میں ضرور تمھارے ساتھ ہوں، سنتا اور دیکھتا ہوں۔‘‘[طه: 46]
جب تعاقب کرتے ہوئے فرعون کا لشکر قریب آگیا، تو حضرت موسیؑ کے ساتھ نکلنے والے خوف زدہ ہوگئے، کہ فرعون انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ اس وقت حضرت موسی ؑ نے تسلی دی کہ ہم اللہ کی راہ میں نکلے ہیں، وہ ہمارے ساتھ ہے۔قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِی رَبِّی سَیهْدِینِ ’’موسی نے کہا، آگاہ رہو، میرا رب میرے ساتھ ہے، وہ مجھے صحیح راستے پر لے جائے گا۔‘‘ [الشعراء: 62]
اللہ نے بنی اسرائیل سے جو عہد لیا، اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں: وَقَالَ اللَّهُ إِنِّی مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَیتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِی وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ’’اللہ نے کہا: میں ضرور تمھارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی، زکاة ادا کی، میرے رسولوں پر ایمان لائے، اور ان کو مضبوطی دی اور اللہ کو عمدہ قرض دیا۔‘‘ [المائدة: 12]
اہلِ اسلام سے اللہ نے وعدہ کیا: وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ یتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ’’ غالب رہنے والے تم ہو، اللہ تمھارے ساتھ ہے اور تمھارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا‘‘ [محمد: 35]
غرض جب بندہ اللہ کے دین کی نصرت کے لیے نکلتا ہے، تو وہ اللہ سے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ اسے اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے اور اس کی روح قربِ الہی کے احساس سے سرشار ہوتی ہے۔ وَمَا رَمَیتَ إِذْ رَمَیتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى ’’جب تم نے تیر چلائے، تو تم نے نہیں چلائے بلکہ اللہ نے چلائے‘‘[الأنفال: 17] اس تعبیر میں اللہ کی جس قربت کی طرف اشارہ ہے، اسے قربِ الہی کی دلدادہ روح اچھی طرح سمجھ سکتی اور اس سے لطف اندوز ہوسکتی ہے۔
حضرت ذو النون مصری ؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰنے موسی علیہ السلام کو وحی کے ذریعے یہ بتایا: ’’اے موسی! میرے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ مجھ سے سرگوشی کرتے ہیں، تو میں ان کی طرف دھیان دیتا ہوں۔ وہ مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ وہ میری طرف لپکتے ہیں تو میں انھیں نزدیک کرلیتا ہوں۔ وہ مجھ سے قریب ہوتے ہیں تو میں انھیں مقرّب کرلیتا ہوں۔ وہ میرا قرب مانگتے ہیں تو میں انھیں اپنے بہت قریب کرلیتا ہوں۔ وہ میرے ولی بنتے ہیں تو میں ان کا ولی بن جاتا ہوں۔ وہ مجھ سے دوستی چاہتے ہیں تو میں ان کا دوست بن جاتا ہوں۔ وہ میرے لیے عمل کرتے ہیں تو میں انھیں بھرپور صلہ دیتا ہوں۔ وہ میری پناہ میں ہیں اور مجھ پر ناز کرتے ہیں۔ ان کے امور میں انجام دیتا ہوں اور ان کے دل پر میری حکومت ہوتی ہے۔ وہ بس مجھ سے انس پاتے ہیں اور اپنے دل کی سواری کو میرے پاس ٹھہراتے ہیں۔ انھیں اگر قرار آتا ہے تو صرف میری بارگاہ میں آکر قرار آتا ہے۔‘‘ (حلیة الأولیاء)
خلاصہ کلام
اسلامی تعلیمات روح کو قربِ الہی کا وہ راستہ دکھاتی ہیں، جو مکمل طور پر نفس کی پاکیزگی اور رب کی بندگی سے عبارت ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے انسانی شخصیت کا ارتقا ہوتا ہے اور ہر قدم پر صالح اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ قربِ الہی کا یہ راستہ انسان کو دوسرے انسانوں کے لیے باعث خیر وبرکت بناتا ہے۔ اس راستے پر اٹھنے والا ہر قدم اسے اطمینان عطا کرتا ہے کہ وہ واقعی اللہ سے قریب ہو رہا ہے۔
اللہ کا قرب پانےکی چاہ روح کے اندر آخرت کا شوق بڑھاتی ہے۔ اس کے لیے تیاری کی دھن سوار کرتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز کو آخرت کی تعمیر میں لگانے کا شعور بیدار کرتی ہے۔ آخرت میں کشش کی بہت سی چیزیں ہیں، لیکن سب سے زیادہ پُر کشش چیز یہی ہے کہ وہاں اللہ کا دائمی قرب حاصل ہوگا۔ جب روح آخرت کی کامیابی کے لیے بے قرار ہوتی ہے، تو دنیا کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، جو انسان کو قربِ الہی کا مستحق قرار دیتی ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2022