ذرا غور فرمائیے،آج سے چودہ سو سال کے عرصے سے زائد قبل مسجد نبوی کے چٹائی پر بیٹھ کر جدید ذرائع ابلاغ کے بغیر مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں پھیلی ہوئی ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کو محیط سلطنت کو کس حسنِ انتظام وانصرام سے وہ عظیم المرتبت انسان کنٹرول کیا کرتا ہے۔بھلا اہل دنیا کیسے نہ اِس حکم رانی پر عش عش کر اُٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمرؓ فاروق کو زہد وتقویٰ،اخلاص وللہیت،حکمت ودانائی،عاجزی وانکساری اور سادگی وبے نفسی جیسی بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔نظامِ دنیا کو چلانے اور بندگانِ خدا کی بہتر انداز میں خدمت کرنے کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا،جن کے ذریعے اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں میں پھیلا اور اطرافِ عالم تک پہنچا،جن کی عظمت وشوکت کا رعب اس وقت کی بڑی بڑی طاقتوں کو تھا،بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں، جن کے خوف سے سے وقت کے سُپر پاور پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ لیکن خود اس کا یہ حال تھا کہ خوفِ خدا سے ہر لمحہ اس کادل لرزاں رہتا تھا۔ایسے جاہ وجلال والی باعظمت شخصیت کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خدمتِ خلق،رعایا کی خبر گیری اور مخلوقِ خدا کے احوال وکوائف سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور اُن کے حال احوال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا،ہر ضرورت مند کے کام آنا اور اُن کی خدمت انجام دینے میں مسلسل تگ ودو کرنا آپ کا امتیاز تھا۔آپ کی مبارک زندگی کے اَن گِنت پہلو اور گوشے ہیں اور ہر پہلو ہمارے اور آپ کے لیے سبق اور پیغام لیے ہوئے ہے۔
آپ نے خلافت اور مملکتِ اسلامیہ کی توسیع واستحکام کی عظیم ذمہ داری کا بہ حسن وخوبی حق ادا کرتے ہوئے بندگانِ خدا کی خدمت میں کس طرح اپنے آپ کو کھپا دیا اور بلاتفریق مذہب ونسل لوگوں کی بھلائی اور اُن کے فائدے کے لیے کیا کچھ نہیں کیااور کون کون سے طریقے اور ذرائع اختیار کیے،بقول مولانا شاہ معین الدین ندویؒ کہ: ’’فاروق ؓ اعظم کی زندگی کا حقیقی نصب العین رفاہ عام اور بہبودی بنی نوعِ انسان تھا۔‘‘
سادگی وقناعت
اللہ تعالیٰ نے آپ کونہایت بلند مقام ومرتبہ عطا فرمایا تھا۔ملک کے طول وعرض میں آپ کی حکم رانی کے چرچے زبان زدِ خاص وعام تھے، لیکن اس کے باوجود آپ کی سادگی اور زہد وتقویٰ میں غیرمعمولی اضافہ ہی ہوتا گیا۔آپ ہر آن ہر لمحہ اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریمﷺ نے جس حال میں چھوڑا اُسی حال میں،انھی نقشِ پا پر پوری زندگی گزر جائے۔عمدہ اور نفیس کھانوں،بہترین غذاؤں اور اسبابِ عیش وتنعّم سے ہمیشہ گریز کیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اہل بصرہ کا ایک وفد ان کے پاس آیا،اُن لوگوں کے لیے روزانہ روٹیوں کا انتظام ہوتا،وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بطور سالن کے روغنِ زیتون پایا،کبھی گھی،کبھی دودھ،کبھی خشک کیا ہوا گوشت جو باریک کرکے اُبال لیا جاتا تھا،کبھی تازہ گوشت اور یہ کم ہوتا تھا۔انھوں نے ایک روز ہم سے کہا کہ اے قوم: میں اپنے کھانے کے متعلق تم لوگوں کی ناگواری وناپسندیدگی محسوس کرتا ہوں، اگر میں چاہوں تو تم سب سے اچھا کھانے والا،تم سب سے اچھی زندگی بسر کرنے والا ہوجاؤں۔میں بھی سینے اور کوہان کے سالن اور باریک روٹیوں کے مزے سے ناواقف نہیں ہوں؛ لیکن میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سن رکھا ہے کہ أَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِہَا (الاحقاف: 20 )’’تم اپنی دنیا کی زندگی میں لذتیں حاصل کرچکے اور ان سے متمتع ہوچکے‘‘(طبقات ابن سعد: 2 /58 )۔لباس وپوشاک میں بھی اسی طرح کی سادگی آپ نے اختیار کی،جو ہر ایک کے لیے نہایت حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے۔ایک بارآپ کو نماز جمعہ کے لیے تاخیر ہوگئی، جب آپ تشریف لائے تو لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: مجھے اپنی اس قمیص کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے کیوں کہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی قمیص نہیں ہے(طبقات ابن سعد: 3 / 251)۔ ایک بار خطبہ دے رہے تھے اور آپ کے جسم پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے(مناقب امیر المؤمنین عمربن الخطابؓ لابن جوزی: 131 )۔آپ کی سادہ زندگی سے متعلق ایسے بے شمار واقعات آپ کی سیرت وسوانح میں ملتی ہیں۔
عدل پرور حکمراں
سیدنا عمرؓکی خلافت، بے شمار فتوحات کے علاوہ عدل و انصاف، راتوں کو گشت کرتے ہوئے رعایا پروری اور انتظامِ حکومت کی غیرمعمولی خوبیوں کی وجہ سے ایک مثالی خلافت بن گئی تھی۔آپ منصف وعادل فرماں روا بن کر اسلام کی تعلیماتِ عدل وقسط کاجیتا جاگتا عملی نمونہ پیش کیا، لوگوں کے درمیان مساوات وبرابری، عدلِ اجتماعی اور فرائض وحقوق کی طلبی و ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔ آپ کا قول ہے۔’’حکومت کرنے کا سزا وار وہ شخص ہے،جس میں چار خوبیاں پائی جائیں: نرمی ہو،مگر کم زوری نہ ہو۔مضبوطی ہو،لیکن سختی نہ ہو۔کفایت شعاری ہو،لیکن بخل نہ ہو۔سخاوت ہو،لیکن اسراف نہ ہو۔‘‘ایک دفعہ مسجد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ مسلمانوں !میں بادشاہ نہیں ہوں،اللہ کا بندہ ہوں،البتہ بارِ خلافت مجھے سپرد کیا گیا ہے۔اگر میں اس طرح کام کروں کہ تم چین وسکون سے رہو تو یہ میری سعادت ہے اور اگر میں یہ چاہوں کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو میری بدبختی ہے۔لوگو!میں تمھیں اپنے عمل سے تعلیم دینا چاہتا ہوں،محض قول سے نہیں۔‘‘خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن آپؓ نے لوگوں کے سامنے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ لوگوں سے حکومت کس طرح معاملہ کرے گی۔آپؓ نے کہا: ’’لوگو!وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔اب ہم تمھارے ساتھ جو بھی معاملہ کریں گے وہ تمھارے ظاہری حالات اور اعمال کے مطابق ہوگا۔ظاہراً جس نے خیر و بھلائی کا رویہ اپنایا،ہماری طرف سے اسے امن وامان کی ضمانت ہے۔باطنی حالت اور چھپے ہوئے راز کی ٹوہ ہم نہیں لگائیں گے۔ یہ معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے اور اللہ باطن کے مطابق اور نیتوں کے لحاظ سے بندوں سے حساب لے لے گا۔اسی طرح جس شخص سے شر اور فساد ظاہر ہو ہم اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے،اگر وہ کہتا بھی رہے کہ دل اور نیت سے اس کا ارادہ فتنہ وفتور کا نہ تھا تو ہم اس کے ظاہری عمل کے مقابلے پر اس کے اِس دعوے کو قبول نہ کریں گے۔‘‘ حضرت عمرؓ کا پیکر عدل وانصاف ہونا آپ کو بڑے بڑے سلاطین اور حکم رانوں سے ممتازکرتا ہے۔ اس عدل وانصاف کے پیچھے کارفرما روح محض خوفِ الٰہی اور جواب دہی تھی،جس کو سامنے رکھ کر انھوں نے نظمِ خلافت کو سنبھالا اور چلایا تھا۔ابن عباس فرماتے ہیں کہ: ’’ تم عمر کا ذکر کیا کرو،کیوں کہ جب تم عمر کو یاد کرو گے تو عدل و انصاف یاد آئے گا اور عدل وانصاف کی وجہ سے تم اللہ کو یاد کروگے۔‘‘(اسدالغابہ: 4 /153)
عدل فاروقی کی عظیم مثال غسان کے حکم ران ’جبلہ بن الایہم‘کا واقعہ ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کے نزدیک حاکم ومحکوم، بادشاہ و گدا میں فرق نہ تھا۔اس نے ایک بار طواف کے دوران ایک دیہاتی کو تھپڑ ماردیا۔ وہ امیرالمومنین سے انصاف طلب کرنے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ جبلہ بن الایہم کو پکڑ کر بدو کے حوالے کیا جائے اور وہ اس کے منھ پر اسی طرح تھپڑ مارے جس طرح اس نے اسے مارا ہے۔ گویا کسی حکم ران یا رئیس کا مقام ومنصب حضرت عمر ؓکے انصاف میں رکاوٹ نہ بنتاتھا۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب دو شخص میرے پاس جھگڑتے ہوئے آتے ہیں تو میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ حق پر کون ہے؟ اپنے بیگانے سب انصاف کی عدالت میں میرے نزدیک برابر ہوتے ہیں۔ آپ اپنے عمال اور ان کے متعلقین کی سخت نگرانی کرتے اور انھیں حاکم و محکوم، محتاج و غنی، امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں انصاف کرنے کی تلقین فرماتے۔حاکم کی ذمہ داری محکوم سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ’’ عوام میں اس وقت تک ٹیڑھا پن پیدا نہیں ہوتا،جب تک کہ ان کے پیشوا اور راہنما سیدھے رہتے ہیں اور یہ کہ جب تک راعی اللہ کی راہ پر رہتا ہے، رعایا اس کے پیچھے چلتی رہتی ہے، جب وہ پاؤں پھیلا دیتا ہے تو رعایا اس سے پہلے پاؤں پھیلادیتی ہے۔‘‘(سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، محمد حسین ہیقل، ص604)ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا تاکہ اُن کے اور اُن کی طرزِ حکومت کے احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہدہ کرے،جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اس کو کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا۔اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ تمھارا بادشاہ کہاں ہے؟صحابہ نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے،البتہ ہمارے امیر ہیں، جو اس وقت مدینہ سے باہر گئے ہوئے ہیں۔قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر گیا جہاں امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ دھوپ کی گرمی میں تپتے ریت پر اپنے دُرّہ کو تکیہ بنائے آرام فرمارہے تھے۔ پسینہ آپ کی پیشانی سے ٹپک رہا تھا،جب وہ آپ کے قریب پہنچا تو آپ کے جاہ وجلال اوررعب سے گھبراگیا۔اس نے کہا: ’’ اے عمر!واقعی تو عادل حکمراں ہے،اسی لیے تو آرام سے بغیر کسی پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے تنہا بغیر کسی خوف وڈر کے آرام کررہا ہے اور ہمارے بادشاہ اپنی رعایا پر بے جا ظلم وزیادتی کرتے ہیں، اس لیے خوف وہراس ان پر چھایا رہتا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے،میں اگر قاصد بن کر نہیں آتا تو مسلمان ہوجاتا،لیکن میں جاکر اسلام قبول کروں گا۔‘‘(اخبار عمرلعلی الطنطاوی: 327 )
رعایا کی خبر گیری کے لیے راتوں کو گشت اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی
نظامِ مملکت وسلطنت کے انتظام وانصرام کوعمدگی اور کام یابی سے چلانے کے لیے ایک حکمراں کو جن باتوں اور کاموں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ان میں سے ایک کام اپنی رعایا کے احوال کی خبر گیری رکھنا ہے۔ حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ جہاں دن کے وقت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے مسائل حل فرماتے وہیں رات کو رعایا کے معاملات کی دیکھ بھال بھی کیا کرتے تھے۔آپ نے اپنے طرزِ عمل اوراعلیٰ کردار سے یہ ثابت کیا کہ جس دل میں خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کا احساس جاگزیں ہوتا ہے،وہ تخت وتاج کا مالک ہونے کے باوجود اپنی عوام کی فکروں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ سیرت کی کتابوں میں حضرت عمرؓ کی نمایاں خدمات کے ضمن میں تذکرہ ملتا ہے کہ آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ راتوں کو گلیوں اور محلوں میں گشت کرتے۔جب لوگ آرام وراحت کے لیے گھروں کا رخ کرتے، اس وقت آپ اپنی رعایا کے حالات سے آگہی حاصل کرنے اور پریشان حالوں کی پریشانیوں سے واقف ہونے کے لیے مسلسل گھومتے پھرتے اور جو کوئی مصیبت زدہ ملتا،پریشان حال نظر آتا،مسافر یا اجنبی غم میں مبتلادکھائی دیتا تو خلیفۂ وقت خاموشی سے اس کا مسئلہ حل کردیتے اور احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ یہ وہی عمر ہیں جن کی عظمت اور قدر ومنزلت کے ڈنکے عالم میں بج رہے ہیں۔ ایک رات آپ گشت کررہے تھے کہ مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرا پہنچے،دیکھا کہ ایک خاتون چولہے پر ہانڈی چڑھائے بیٹھی ہے اور دو تین بچے اس کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں۔آپ ان کے قریب جاکر حقیقت حال دریافت کیا۔اس نے کہا: بچے بھوک سے بے چین ہورہے ہیں،ان کو بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھادی ہے۔حضرت عمرؓ اسی وقت مدینہ روانہ ہوئے۔آٹا،گھی،گوشت اور کھجوریں لے کر نکلے۔آپ کے ساتھ آپ کے غلام اسلم بھی تھے۔انھوں نے کہا: میں لیے چلتا ہوں،مجھے دے دیجیے۔آپ نے فرمایا: ’’ قیامت کے دن میرا بوجھ تم نہیں اٹھاؤگے۔‘‘پھر آپ خود ہی سامان لے کر اس خاتون کے پاس آئے۔ کھانا پکانے کا انتظام کیا۔کھانا تیار ہوا تو بچے خوشی خوشی اچھلنے لگے۔حضرت عمرؓ اُن کو خوش ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔(خلفائے راشدین: 127 )۔ تاریخ میںآپ کے علاوہ کسی ایسے حاکم کی مثال نہیں ملتی،جس نے عوام الناس کے درد وکرب کو محسوس کرنے کے لیے اپنی ذات پر ایسی مشقت طاری کی ہو کہ اس کا رنگ ہی تبدیل ہوگیا ہو۔ آپ کے پیش نظر آخرت کی وہ آزمائشیں تھیں جن کے آگے دنیا کی تکالیف کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ حکم رانوں سے متعلقہ وہ تمام فرامین مصطفیٰ ﷺ آپ کے ذہن میں محفوظ اور تازہ تھے جن میں اُن کے لیے نصیحتیں کی گئیں ہیں۔ جیساکہ ایک حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا نگراں بنایا پھر اس نے ان کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔‘‘(بخاری: 7150)
سیدنا عمرؓ کی مبارک زندگی میں ضرورت مندوں کی مدد و خدمت اور اُن کی ضروریات کی تکمیل کا جذبہ بھی بہت ابھرا ہو نظر آتا ہے۔آپ کی خدمت خلق کا انداز بڑا ہی انوکھا اور نرالا تھا۔خلافت کا سسٹم بھی ایسا بنایا تھا کوئی سائل اور محتاج محروم نہ رہنے پائے۔ایسے قابل اور باصلاحیت حکام وعمال مقرر فرمائے تھے،جوہمہ وقت راحت رسانی کی فکر میں سرگرداں و کوشاں رہتے۔خود امیر المؤمنین بوڑھی، معذور اور ضرورت مند عورتوں اور لوگوں کابہ درجۂ اتم خیال رکھتے تھے۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کی تاریکی میں گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے، پھر دوسرے گھر میں داخل ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت طلحہؓ ان گھروں میں سے ایک گھر میں گئے، وہاں ایک نابینا بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی۔ حضرت طلحہؓ نے اس سے پوچھا: جو شخص تیرے پاس رات کو آتا ہے وہ کیا کرتا ہے؟ بڑھیانے جواب دیا: وہ کافی عرصہ سے میری خدمت کر رہا ہے اور میرے کام کاج کو ٹھیک کرتا ہے اور میری گندگی دوٗر کرتا ہے۔ یہ سن کر حضرت طلحہؓ نے ندامت سے اپنے آپ کو کہا: ’’ اے طلحہ!تیری ماں تجھے کھوئے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تُو عمرؓ کی لغزشوں کی کھوج میں ہے اور یہاں تو معاملہ ہی کچھ اَور ہے۔‘‘ (سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ: 58 )
ایک مرتبہ عمرؓ نے قافلہ سے ایک بچہ کے رونے کی آواز سنی، آپ اس کے پاس گئے اور اس کی ماں سے کہا: ’’ اللہ سے ڈر اور اپنے بچے پر رحم کر۔‘‘ اتنا کہہ کر آپ اپنی جگہ واپس لوٹ آئے۔ رات کے آخری حصہ میں آپ نے پھر بچے کے رونے کی آواز سنی، آپ اس کی ماں کے پاس آئے اور کہا: ’’ تیری بربادی ہو، تو بہت بری ماں ہے۔ کیا بات ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارا بچہ پوری رات روتا رہا؟‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! میں اس کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں، لیکن وہ نہیں چھوڑتا۔ آپ نے پوچھا: تم ایسا کیوں کررہی ہو؟ اس نے کہا: اس لیے کہ عمرؓ بچے کا وظیفہ اسی وقت جاری کرتے ہیں جب وہ دودھ پینا چھوڑ دے۔ آپ نے پوچھا: اس لڑکے کی کتنی عمر ہے؟ اس نے کہا: اتنے اتنے مہینے کا ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ تیرا برا ہو، اسے دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کر۔‘‘ آپ نے فجر کی نماز اس طرح مکمل کی کہ رونے کی وجہ سے آپ کی قراء ت صاف سنائی نہیں دیتی تھی۔ نماز کے بعد فرمایا کہ’’ بربادی ہے عمر کی! اس نے کتنے مسلمان بچوں کا قتل کرڈالا۔‘‘ پھر آپ نے اعلان کروایا: اپنے بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کرو، ہم مسلمان بچے کا وظیفہ اس کی تاریخ پیدائش ہی سے مقرر کردیتے ہیں۔ پھر پوری حکومت میں یہی فرمان بھیج دیا۔(الدولة الإسلامیة فی عصر الخلفاء الراشدین، ص: 161)
ایک رات آپ مدینہ کے ایک راستے سے گزر رہے تھے تو دیکھاکہ وہاں ایک خیمہ نصب ہے، جو کل نہیں تھا۔اس کے باہر ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا اور اندر سے رونے کی آواز نظر آرہی ہے۔حضرت عمرؓ اس کے قریب گئے۔حال دریافت کیا۔رونے کا سبب معلوم کیا۔اس نے کہا کہ میری بیوی دردِ زِہ میں مبتلا ہے اور ساتھ میں کوئی خاتون نہیں،جو اس مشکل وقت میں میری مدد کرسکے۔ حضرت عمر ؓ فوراً گھر تشریف لائے،اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آج تمھیں نیکی کمانے کا ایک موقع دیا ہے،کیا تم اس سے فائدہ اٹھاؤگی؟ بیوی نے کہا: ضرور، بتائیے، کیا کام ہے؟آپ نے فرمایا کہ ایک اجنبی عورت دردِ زِہ میں مبتلا ہے،تم جلدی سے ضرورت کا سامان لے کر میرے ساتھ چلو۔حضرت عمرؓ نے خود ہانڈی اٹھالی۔ خیمہ کے پاس پہنچتے ہی آپ کی زوجہ محترمہ اندر چلی گئیں۔باہر آپ نے آگ جلاکر ہانڈی چڑھادی۔کچھ دیر بعد اندر سے آواز آئی کہ امیر المؤمنین!اپنے دوست کو بیٹے کی خوش خبری سنادیجئے۔جیسے ہی اس دیہاتی نے امیر المؤمنین کا لفظ سنا تو گھبرا گیا۔آپ نے فرمایا: گھبراؤ نہیں،اطمینان رکھو۔پھر جو کھانا تیار ہوا تھا اندر دے دیا کہ اس خاتون کو کھلایا جائے۔اس کے بعد آپ نے اس بدوی سے کہا: ’’ تم بھی کھالو،بہت دیر سے بھوکے ہوگے۔‘‘ یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ صبح آجاؤ،بچے کا روزینہ مقرر ہوجائے گا۔(اخبار عمرؓ: 346 ) رعایا کی خدمت کے یہ وہ عظیم معیار تھے جو حضرت عمرؓ نے قائم فرمائے۔
بے پناہ رحم دلی
حضرت عمرؓ اپنی وسیع وعریض سلطنت کے انتظامات کی انتہائی مصروفیات کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ کی مصاحبت ورفاقت سے جوروشن تعلیم وتربیت پائی،اُن کا حددرجہ پاس وولحاظ رکھتے ہوئے خادموں اور غلاموں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرتے اور اُن کے ساتھ ایسے برتاؤ سے پیش آتے کہ غلام وآقا اور مالک ومملوک کا فرق نہیں ہوتا اور ان کی راحت وآرام اور عزت نفس کا بھر پور خیال رکھتے۔آپ کی سطوت وہیبت سے باطل کے دل لرزتے،باوجود اس کے آپ اتنے رحم دل اور خیر خواہ تھے کہ اُن کی رحم دلی سے خادم اور غلام بھی سکون وطمانیت محسوس کرتے۔حضرت عمرؓ ایک مرتبہ جب حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو صفوان بن امیہؓ نے دعوت دی اور کھانا ایک ایسے بڑے خوان میں لایا گیا جس کو چار آدمی اٹھاسکتے تھے۔خادموں نے کھانا لاکر رکھ دیا اور واپس ہونے لگے۔حضرت عمر ؓ نے دریافت کیا: تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں کھاؤگے؟ انھوں نے کہا کہ ہم بعد میں کھالیں گے۔یہ سن کر آپ بہت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ تم لوگوں پر رحم کرے یہ ابھی تک طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔‘‘پھر خادموں کو حکم دیا،بیٹھ جاؤ۔پھر سب نے ساتھ کھانا کھایا۔(سیدنا عمر فاروق ؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات: 87 )
حضرت عمرؓ کی رحم دلی اور خیر خواہی کی داستان اسی پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ آپ جانوروں کے لیے بھی نرم اور رحم دل تھے۔جانوروں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنا،اُن کے چارے پانی کا صحیح انتظام نہ کرنا یہ سب آپ کو بہت ہی ناگوار گزرتا۔کسی جانور پر اس کے مالک کی بے جا زیادتیاں بھی آپ کو رنج والم میں مبتلا کردیتی تھیں۔خوف وخشیت اور احساس ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ ایک بار فرمایا: ’’اگر بکری کا کوئی بچہ فرات کے کنارے مرگیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عمر سے سوال کرے گا‘‘(مناقب عمرؓ: 153)۔احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت عمرؓ کو ایک بڑی فتح کی خوش خبری سنانے گئے۔آپ نے پوچھا: تمھارا قیام کہاں ہے؟ہم نے جگہ بتائی۔آپ ہمارے ساتھ اس مقام پر آئے اور ہماری سواریوں کے قریب آکر اُن کو دیکھنے لگے۔پھر فرمایا: کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے؟تم جانتے ہو کہ اِن کا بھی تمھارے اوپر حق ہے۔ان کو کُھلا کیوں نہیں چھوڑ دیا،تاکہ یہ زمین پر چل پھر سکیں۔(سیدنا عمر کی زندگی کے سنہرے واقعات: 217 )
علم وحکمت اور فہم وفراست
خلفائے راشدین میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ خاص طور پر مسائل شریعت کی نسبت سے ہمیشہ مصالح اور اسباب وعلل پر غور کرتے تھے اور اگر کسی بات کی حکمت ان کی گرفت میں نہ آتی تو حضور ﷺ سے دریافت کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ ؒنے احکام شریعت کے مصالح اور حکمتوں کے اس خاص علم کو ’’علم اسرار دین‘‘ کا نام دیا ہے اور ان کی معروف کتاب ’حجة اللہ البالغہ‘کا موضوع یہی علم ہے۔ مولانا شبلی نعمانیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے علم اسرار دین کی بنیاد ڈالی۔
آپ کی سیرت میں آپ کی تواضع کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے جان کنی کے وقت اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: ام المومنین عائشہؓ کے پاس جاؤ اور کہو: عمر آپ کو سلام کہتا ہے، یہ نہ کہنا کہ امیرالمومنین آپ کو سلام کہتے ہیں، اس لیے کہ اس وقت میں مومنوں کا امیر نہیں ہوں۔اسی طرح جب عائشہؓ نے عمر کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دے دی تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے چلنا، پھر (باہر سے) ان (عائشہؓ) کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگ رہا ہے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے حجرئہ نبویہ میں قبر میں اتارنا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔(بخاری: 3700)
فاروق اعظمؓ کا ساڑھے دس سالہ عہد خلافت اگرچہ دنیا کی ہزارہا سالہ تاریخ میں بظاہر ایک بہت ہی مختصر سا وقفہ ہے۔لیکن اس تاریخ میں حکومت، سلطنت سازی، سیاست، جمہوریت، اخوت، مساوات، آزادی، عدل اور انسانی فلاح کا یہ روشن ترین باب ہے۔افراد، حکم رانوں، قوموں اور ملکوں کے لیے روشنی کا منبع اور ایک بہترین آئیڈیل ہے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اسے حیرت انگیز خیال کرتے ہیں۔ نیکی وسعادت اور حرکت وعمل سے مملو یہ ایک ایسا سنہرا دور تھا جس کا سو فیصد اعادہ خود اسلام کی تاریخ میں بھی نہیں ہوسکا۔
سیدنا فاروقؓ کی حکومت مسلمانوں کی حکم رانی کی وہ بہترین تصویر ہے جو تاریخ نے اپنے ہزاروں صفحات میں محفوظ رکھی ہے۔یہ ایک مسلمان معاشرے،مسلم حکم رانوں اور ملکوں کے لیے نمونہ،مثال اور آئیڈیل ہے۔اس آئیڈیل کی طرف سفر کا آغاز کیے بغیر اسلامی نظام کے دعوے خواہ کس قدر دل فریب ہوں،درحقیقت کھوکھلے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2025