اکیسویں صدی میں ہندوستانی سیاست کا ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہاں کی سیاست کب اور کیسے ہندوراشٹر کی سیاست میں تبدیل ہوگئی۔ بھارت کے دستور میں کسی تبدیلی کے بغیر، کیسے ریاست کی ماہیت یا نیچر کو تبدیل کردیا گیا۔ اس کے لیے دستور میں کسی خاص تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن اس کے باوجود اس کا رخ تبدیل کردیا گیا۔ اس تبدیلی کو ’ہندتو‘ یا ہندوپن کے معروف نام سے جانا جاتا ہے جو زبان زد خاص و عام ہے۔ ہندو راشٹر اسی سکّے کا دوسرا رخ ہے۔ ہندوستانی سیاست کی ماہیت یا نیچر میں تبدیلی کو سمجھنا ضروری ہے۔ تبھی اس عفریت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ تبدیلی اچانک کسی ایک محاذ پر نہیں آئی بلکہ تدریجاً کئی محاذوں پر آئی اور اس میں عدلیہ کا غیرمعمولی کردار رہا ہے۔ اس کے لیے آر ایس ایس کو واحد ذمہ دار سمجھنا نادانی ہوگی۔ دوسری طرف اس سے ان کی طاقت و قوت کا غلط تصور بھی قائم ہوسکتا ہے۔ اس میں کانگریس، بیوروکریسی کے ساتھ شاید سب سے بڑھ کر عدلیہ کا غیرمعمولی کردار رہا ہے جن کے مختلف فیصلوں اور رویوں نے ہندوراشٹر کے عناصر کو بتدریج کافی تقویت بہم پہنچائی۔ تفصیل آگے آئے گی۔
یہاں پر یہ بتانا شاید ضروری ہے کہ ہندو راشٹر کا قابلِ فہم مفہوم ہے، اکثریت کا ایسا اقتدار جہاں ایک کمیونٹی کو دیگر پر افضلیت حاصل ہو۔ یہاں اکثریت سے مراد ہندو اکثریت ہے۔ اس سلسلے میں آکار پٹیل نے اپنی کتاب Our Hindu Rashtra: What it is, How we get here میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ پٹیل کے مطابق پڑوسی ریاستیں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا میں اکثریت کے مذاہب کو دستوری طور پر نمایاں مقام دیا گیا تھا۔ جب کہ بھارت میں ایسا نہیں تھا۔ اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں اس کا حصول دوسرے طریقوں سے ہوا۔ ہندوستان کی اکثریت پرستی (majoritarianism) دستوری طریقے سے نہیں بلکہ خاص تفہیم و تشریح اور فیصلوں کے ساتھ بتدریج سامنے آئی۔ اس کے لیے موجود قانون اور پالیسیوں کے ذریعے بعض سیاسی پارٹیوں اور ان کی معاون تنظیموں اور حکومت نے بعض خاص ایشوز کو ایک عرصے تک نشانہ بنائے رکھا، یہاں تک کہ سماج میں اس کو مقبولیت حاصل ہوگئی۔
ہندوتو، علوم سیاست کے مطابق دائیں بازو کی پارٹی بھی نہیں ہے۔ یہاں کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ دین دیال اپادھیائے کا نظریہ Integral Humanismکو پارٹی کی آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جو پٹیل کے مطابق صرف دکھاوے کے لیے ہے۔ کیوں کہ ریاست سے اس کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ پٹیل کے مطابق وہ ریاست میں کوئی تبدیلی بھی نہیں چاہتا۔ یہاں بھارت اور بھارتیہ یا انڈیا اور انڈین نیس (Indianness) کا تعلق صرف ایک قسم کے شہریوں (One set of citizens) سے رہتا ہے۔ اس کا نظام فکر اور سوچ ایک خاص کمیونٹی تک محدود رہتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے تعصبات متعین ہیں جو کہ بنیادی طور پر اقلیت مخالف اور بالخصوص مسلم مخالف ہیں۔ وہ کوئی بھی نظریہ قبول کرسکتے ہیں لیکن وہ اقلیت پر مرکوز اپنا منفی ایجنڈا کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ جب کہ مبینہ طور پر یہاں ہندو اصلاح یا خدا ترسی (piety) جیسے مقاصد اپنے سماج کے لیے نہیں ہوتے۔
اکثریتی ریاست (majoritarian state) میں تبدیلی کا عمل: جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا گیا کہ یہ تبدیلی بتدریج کئی محاذوں پر آئی۔ چند کی نشان دہی کی جارہی ہے۔ اس میں سنگھ کا رول ایک عرصے تک فیصلہ کن کم ہی نظر آئے گا۔ فیصلہ کن کردار ہمیشہ عدلیہ کا رہا ہے۔ حالاں کہ ہندوستان کا عوامی نمائندگی کا قانون (1951) انتخابات میں مذہب کے نام پر اپیل کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ لیکن ماہ و سال گزرنے کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے بعض فیصلوں نے ’اکثریتی‘ انتخابی سیاست کی باقاعدہ جگہ بنائی۔ انھوں نے ہندوتو کے مخصوص نظریہ کو اس کے نظریہ سازوں اور پیروکاروں کے برخلاف ایک بے ضرر سازندگی گزارنے کا طریقہ یا وے آف لائف قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہندوتو اور ہندو ازم کو ایک قرار دیتے ہوئے، انھیں مذہب ماننے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ہندوتو کے نام سے ووٹ مانگنے کو جائز بتاتے ہوئے ہندوراشٹر کے قیام کے وعدے کو بھی فرقہ وارانہ اپیل ہونے سے بری کردیا۔ تفصیل آگے کی سطور میں دی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں آکار پٹیل نے سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کے حوالے دیے ہیں۔ (1) 1964 میں عدالتِ عظمیٰ کے دو اہم فیصلے آئے۔ پہلا ہے انتخاب میں ’اوم‘ لفظ کے استعمال سے متعلق۔ عدالت نے کہا جھنڈے پر ’اوم‘ لفظ کا استعمال لازماً مذہبی نہیں ہوتا۔ اس کے روحانی معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ فریق مخالف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مذہبی استعمال کو ثابت کرے۔ جو وہ نہیں کرسکے اور آریہ سماجی سیدھانتی مقدمہ جیت گئے۔ آئندہ کے مقدموں کے لیے یہ ایک نظیر بن گیا۔
1969میں ہی ایک دوسرا مقدمہ سپریم کورٹ کے پاس آیا جس میں ایک نکتہ، انتخاب میں ’مذہبی علامات‘ (religion symbols) کے استعمال سے متعلق تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ کہنا ناممکن ہے کہ کوئی خاص چیز، پرندہ یا جانور ہندو مذہب کی علامت ہے۔ کیوں کہ ہندو مذہب کا بنیادی تصور یہ ہے کہ خدا ہر چیز میں ہے اور ہر مخلوق خدا میں سمائی ہوئی ہے۔ اس لیے کسی خاص چیز کو ہندو مذہب کی علامت نہیں قرار دیا جاسکتا چناں چہ کمل، کوبرا یا ترشول کا استعمال مذہبی جذبات کو ابھارنا نہیں کہا جاسکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس دلیل کا اطلاق دیگر مذاہب کے لیے نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ Cross عیسائیوں کی مذہبی علامت قرار پائے گی۔ وقت کے ساتھ اس دلیل میں اصلاح کے بجائے پختگی آتی گئی۔ بی جے پی نے آگے اس سے فائدہ اٹھایا۔
1995 میں راجستھان ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ آیا۔ جس کے تحت اکتوبر 1993 میں اسمبلی انتخابات میں بی جے پی رہ نما بھیروں سنگھ شیخاوت کی تقریر کا معاملہ آیا۔ جس میں انھوں نے جئے شری رام، گنیش جی، دیوی سرسوتی، شری رام چندر، شری کرشنا، لکشمی دیوی، بابری مسجد ڈھانچہ کو گرانا اور رام مندر کی تعمیر کے عزم کا اظہار کیا۔ عدالت نے کسی بات کو مذہب کا استعمال نہیں قرار دیا۔ بلکہ یہ بھی کہا کہ بابری تنازع اور رام مندر کی تعمیر کو فرقہ وارانہ نہیں کہا جاسکتا۔ ہندو دیوتاؤں کی حیثیت مذہبی اور غیر مذہبی دونوں ہے، انھیں ہندو سماج اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ انھیں عدالت کے مطابق مذہبی سمجھنا درست نہیں ہوگا۔
( 2) سپریم کورٹ کے 1995 کے دو فیصلے: پہلا مقدمہ نومبر اور دسمبر 1987 میں بال ٹھاکرے کی تین تقاریر سے متعلق تھا جن میں شیو سینا کی حمایت کی گئی تھی۔ ان پر عوامی نمائندگی کے قانون کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے ان تقاریر کو غیر معتدل اور آگ لگانے والا قرار دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہاں مذہب کا استعمال ووٹ کے لیے ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ان کے بیان کو مذہب کی بنیاد پر دشمنی بڑھانے اور نفرت پھیلانے والا بھی پایا گیا۔ ٹھاکرے نے کہا کہ‘‘ہم یہ الیکشن ہندو دھرم کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں مسلم ووٹوں کی پروا نہیں ہے۔ یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور انھی کا رہے گا۔‘‘ دوسری تقریر میں بال ٹھاکرے نے کہا کہ ’’اس الیکشن میں ہندو دھرم کی فتح ہوگی۔ ہندو ازم کو بچانے کےلیے ہمیں یہ فتح حاصل کرنی چاہیے۔ تم ہر مسجد کے نیچے ہندو مندروں کے نشانات پاؤگے اگر ان کی بنیادوں کو کھودا جائے۔‘‘ تیسری تقریر میں انھوں نے صاف کہا کہ انھیں مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں آپ کا ووٹ چاہیے۔ شیو سینا نمائندے کو جتائیں نہیں تو ہندوؤں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے ٹھاکرے کی تقاریر کو سیکولرازم کے خلاف نہیں بلکہ اخلاقیات اور جمہوریت کے خلاف پایا۔ جسٹس جے ایس ورنا، این پی سنگھ اور کے ونکیٹا سوامی کی سہ رکنی بنچ نے ہندو، ہندوتو اور ہندو ازم کو بھی مذہب کے دائرے سے باہر قرار دیا۔ یہ سب صرف عوام کا طریقۂ زندگی ہے جس کا اطلاق انتخابی قانون پر نہیں ہوگا۔
دوسرا مقدمہ منوہر جوشی کے 1990 کے انتخاب سے متعلق ہے جس کو 1993 میں بمبئی ہائی کورٹ نے رد کر دیا۔ اس مقدمہ کو بھی درج بالا بنچ نے ہی سنا اور اس کا فیصلہ اسی دن سنایا جس دن پہلا فیصلہ سنایا گیا۔ الیکشن کی یہ تقاریر ٹیپ ریکارڈمیں تھیں۔ منوہر جوشی نے خود یہ کہا کہ پہلی ہندو ریاست مہاراشٹر میں قائم کی جائے گی۔ دیگر مقررین نے کہا کہ جیت کے بعد ہندو حکومت قائم کرنے کے بعد تمام ہندوؤں کو نوکریاں دی جائیں گی۔ ٹیپ کے مطابق دیگر مذاہب کے لوگ غدّار ہیں۔ جسٹس ورما، جنھوں نے مذکورہ پہلے مقدمے کی طرح اس کا بھی فیصلہ لکھا اور ان تقاریر کو بدعنوانی والے اعمال نہیں قرار دیا۔ سپریم کورت کے تمام کوٹیشن ہندو ازم سے متعلق تھے، نہ کہ ہندتو سے متعلق۔ جسٹس ورما نے ہندتو کی تعریف کے لیے ساورکر اور آر ایس ایس کے خیالات کو بالکل ہی نظرانداز کردیا۔ ان تفصیلات کو آکار پٹیل کی کتاب میں بہ تفصیل دیکھا جانا چاہیے۔ اگر ان کی لوجک مان لی جائے تو کوئی بھی ایشو، عقائد، فرقہ وارانہ نہ کہلائے۔ کہنا نہیں چاہیے کہ عدالت نے منوہر جوشی کے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کوکالعدم کردیا۔
( 3) آکار پٹیل کی زیر نظر کتاب کے ایک الگ باب میں ایودھیا پر سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے کو ہول ناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایک مسلسل عمل جس میں عدلیہ کی حمایت مبینہ طور پر ایک فریق کو برابر حاصل رہی۔ باب کا عنوان ہے That mosque in …and others in Gujaratگجرات کے2002 کے فسادات میں تباہ شدہ مسجدوں، امام باڑوں وغیرہ کی مرمت یا تعمیر کے لیے حکومتِ گجرات کو پابند کرانے کی ایک درخواست پر گجرات ہائی کورٹ کا تائیدی حکم آتا ہے۔ اس کے خلاف ریاستی حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ کا امتناعی فیصلہ آتا ہے، جس میں اس کو سیکولرازم کے خلاف قرار دیا گیا کہ حکومت یا پبلک کا پیسہ مذہبی کام پر نہیں لگایا جاسکتا۔ حالاں کہ کیرالہ اور تمل ناڈو کی حکومتیں ہر سال لاکھوں روپیے مندروں کی دیکھ بھال اور رکھ رکھاؤ پر خرچ کرتی ہیں۔
( 4) مقدس گائے کے لیے حرمت کے عنوان سے لکھا گیا باب چشم کشا ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے قدرے طویل مباحث اور پھر مختلف ریاستوں میں آزادی کے بعد گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے لیے قانون سازی کی مختصر تاریخ یہاں بیان کی گئی ہے۔ دستور ساز اسمبلی میں شراب ہو یا جانوروں کے ذبیحہ پر بات ہو، دلیل حفظان صحت اور معاش کی دی گئی۔ مذہبی دلیل سے پرہیز کیا گیا ہے۔ چناں چہ منظور شدہ قانون میں کوئی مذہبی دلیل نہیں ملتی۔ بلکہ ایک ہندو ممبر کی طرف سے کہا گیا کہ ذبیحہ کے سلسلے میں کسی جبر coercionکا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ریاستوں کے ذریعے منظور شدہ قوانین میں جبر کا استعمال کیا گیا جو وقت کے ساتھ بڑھتا ہی گیا۔ بلکہ نئے قوانین میں کئی ریاستوں میں 10 سال اور عمر قید کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اور ایسی کئی ریاستوں میں ملزم پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ اپنی معصومیت ثابت کرے۔ اس وقت کیرالہ، اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ اور میزورم میں ذبیحہ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
مصنف کے مطابق ذبیحہ گائے پر پابندی کے معاملے میں سپریم کورٹ بہت آسانی سے ہندو اکثریت کے ساتھ آگیا۔ 1958میں بہار کے قصائیوں اور چمڑے کے تاجروں نے ذبیحہ گائے پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ کردیا۔ ذبیحہ پر یہ پہلا مقدمہ تھا جس میں تاجروں نے کہا کہ اس قانون سے دفعہ 19 کے تحت ہمارے بنیادی حقوق پر ضرب پڑتی ہے۔ دفعہ (ا) (a) میں لکھا ہوا ہے کہ تمام شہریوں کو کسی بھی پیشہ کو اختیار کرنے کاحق حاصل ہے۔ وہ کوئی بھی ٹریڈ یا تجارت کر سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا کہ عام پبلک کے مفاد میں اس میں مناسب پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ دودھ دینے والے جانوروں، بیلوں اور سانڈوں کا تحفظ ضروری ہے۔ کسی بھی عمر کی گائے اور بچھڑوں پر مکمل پابندی مناسب ہے۔ لیکن عدالت نے زیادہ عمر کی مادہ بھینسوں، بیلوں اور سانڈوں کےذبیحہ پر پابندی کو نامناسب قرار دیا۔ عدالت نے گائے اور بھینسوں میں تفریق کے سلسلے میں اعتراف کیا کہ اس میں ہندو جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔ لیکن 2005 میں یہ پابندی بھی اٹھا لی گئی۔ اس وقت تک سانڈوں اور بیلوں پر تا حیات پابندی کو غیرضروری کہا جاتا تھا۔ لیکن 2005 میں گجرات میں گائے اور اس کی نسل کے ذبیحہ پر مکمل پابندی کو عمر کے کسی فرق کے بغیر جائز قرار دے دیا گیا۔
( 5) مذہبی آزادی پر قدغن: دستور کی دفعہ 25 میں مذہبی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا ہے جس کے تحت ضمیر کی آزادی سے لے کر مذہب کی ترویج و اشاعت کا حق شامل ہے۔ اس میں اپنے مذہب پر چلنے کا حق بھی آتا ہے۔ ان حقوق کے باوجود وقت کے ساتھ اس پر قدغن لگانے کا عمل جاری ہے۔ آزادی مذہب کے نام پر سب سے پہلے اڑیسہ میں یہ پابندی 1967 میں لگائی گئی۔ 1968 میں مدھیہ پردیش میں یہ قانون منظور کیا گیا۔ اس کو تبدیلی مذہب کا قانون بھی کہتے ہیں۔ اب تک یہ 9 سے 10 ریاستوں میں لاگو ہو چکا ہے۔ وجہ شاید تھی کہ 1977 میں سپریم کورٹ نے ان قوانین کو جائز قرار دیا۔ اب اس کے لیے ضلع مجسٹریٹ سے اجازت و منظوری ضروری کردی گئی۔ مذہب کی تبلیغ و اشاعت پر اور تبدیلی مذہب پر طرح طرح سے روک لگائی جارہی ہے۔ اور اس کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کے علاوہ عمر قید تک کی سزا قانون کے اندر موجود ہے۔ یہ باب بھی قابلِ مطالعہ ہے۔
بہر حال عدالتوں کے فیصلوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت انھیں نمایاں کیا گیا ہے۔ ملک کے حالات پر تشویش اور مستقبل کی فکر رکھنے والے تمام حلقوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2022