اخلاق کو شخصیت میں شامل کرنے کا آئیڈیا

(2)

مرحلہ چہارم

کردار سازی کا عمل محض معلومات کو طلبہ کے ذہن نشیں کرادینے سے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے دوسرے سازگار عوامل اور ماحول (ecosystem) کی بھی ضرورت ہے۔ یہ ماحول سماج یا معاشرہ فراہم کرتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ کام یاب معاشرہ وہ ہے جس میں ایسے افراد جنم لیتے ہیں جو معاشرے میں خیر پھیلاتے ہیں اور عدل و انصاف کے قیام کی جدو جہد کرتے ہیں۔ تاکہ دنیا جنت نشاں بن جائے۔ چناں چہ معاشرے کی تشکیل میں جہاں افراد کے اخلاق کا دخل ہے، وہیں اخلاقی نظام کو باقی رکھنے اور اسے ہمیشہ متوازن اصولوں پر قائم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلسل کوشش ہے جسے افراد اور معاشرے کو انجام دیتے رہنا چاہیے۔ اخلاق کی تعلیم، کردار سازی اور اخلاق کے انجذاب کی کوششیں ہمہ جہت ہونی چاہئیں نہ کہ یہ صرف کلاس روم کا عمل بن کر رہ جائے۔

کردار سازی کا عمل محض کلاس روم یا اسکولی کیمپس کے اندر ہی انجام نہیں پاتا بلکہ اس عمل پر طالب علم کا گھر، حلقہ احباب (دوست)، سماج اور ریاست کی پالیسیاں، یہ تمام عناصر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے کردار سازی کے عمل میں ان تمام سطحوں پر کام ہونا چاہیے۔ اسے ہم ہولسٹک اپروچ آف ویلیو ایجوکیشن (holistic approach of of value education) یا اقدار کی تعلیم کا ہمہ جہت طریقہ کار کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے مرحلہ اول اور مرحلہ دوم میں اسکول کی سطح اور بلاک کی سطح کے فورموں کا ذکر کیا ہے۔ یہ دونوں فورم اس بات پر غور کریں کہ طلبہ کی کردار سازی کا عمل مذکورہ تمام سطحوں پر عمل میں آئے۔ جن پانچ سطحوں پر کردار کے عمل کو انجام دیا جانا چاہیے، وہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) طالب علم کی اپنی شخصیت یا جسے فرد کی اصلاح کہیں گے۔ اس سطح پر طلبہ کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ طلبہ کے شعور میں اقدار داخل ہوجائیں۔ طلبہ جب کم عمر ہوں تبھی ان کے تحت الشعور میں اقدار کو بٹھا دیا جائے۔ تقریبًا تمام ماہرین نفسیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ معلومات جو تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہیں، ضرورت پڑنے پر ذہن کے اس حصے میں داخل ہوجاتی ہیں جسے ہم فعال دماغ (active brain) کہتے ہیں۔ ایکٹیو برین کو تحت الشعور رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں میں اقدار کی تعلیم کا عمل بچے کی ولادت ہی سے ہونا چاہیے۔ بلکہ اسلامی نظریے کے مطابق یہ عمل اس دن سے شروع ہوجاتا ہے جب ایک شوہر اور بیوی اس بات کا ارادہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اولاد سے نوازے۔ اخلاق کے حوالے سے شعور کی بیداری کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں جن کا ذکر ہم اگلے مرحلے میں کریں گے۔ یہاں صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اخلاقی تعلیم کی پہلی سطح ایک فرد کا شعور ہے۔ اگر وہ شعوری طور پر اقدار کو قبول کرلیتا ہے تو پھرزندگی کے تمام مراحل میں اسے ان اقدار کو برتنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ یہ کام آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ عمر کے ابتدائی مرحلے میں قدرے آسان ہے لیکن طلبہ جوں جوں شعور کی پختگی کے مراحل میں داخل ہوتے ہیں یہ عمل قدرے مشکل ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے کہ موجودہ دور میں عقل کی تربیت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ محسوسات کے ذریعے ہی حاصل کیے جانے والے علم کو قبول کرتی ہے۔ اخلاق کی تعلیم کا زیادہ تعلق ماوراء الشعور اور ذہن کے وجدانی شعبے سے ہونے کی وجہ سے یہ عمل تاخیر کی صورت میں قدرے مشکل بن جاتا ہے۔

عام طور پر ہمارے اسکولوں اور مدارس میں اخلاق کی تعلیم کے ان چیلنجوں کا ادراک نہیں ہوتا اس لیے اس عمل کے لیے جو مربی حضرات متعین ہوتے ہیں، وہ اس لیاقت کے نہیں ہوتے جو طلبہ کے اندر تزکیہ کے عمل کو اور اخلاق کے انجذاب کے عمل کو درپیش چیلنجوں کو سلجھا سکیں۔ عام سروے یہی بتاتا ہے کہ ملّی مدارس اور اسکولوں میں اخلاقی تعلیم کے لیے وہ اساتذہ ہوتے ہیں جو طلبہ کو قرآن پڑھانے، آیات قرانی یاد کرانے، مخارج سکھانے یا بنیادی فقہی مسائل کو واضح کرنے کی کم سے کم اہلیت رکھتے ہوں۔ جب کہ دنیا میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین میں سے سب سے اہم مضمون بھی یہی اخلاق کی تعلیم کا مضمون ہے اور سب سے زیادہ مشکل بھی یہی ہے۔ اس اہم کام کے لیے باری تعالیٰ انسانوں میں سے بہترین انسانوں کا انتخاب کرتا تھا اور انھیں انبیا و رسل کی پوزیشن پر فائز کرکے وحی کے ذریعے رہ نمائی کرتا تھا۔ اس اہم کام کے لیے جب تک ہمارے اسکول بہترین مربیوں کو منتخب نہیں کریں گے، ہم تعلیم کے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہمارے اسکولوں کے قیام کے مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ ملت کے ذریعے قائم کردہ مدارس اور اسکولوں سے ایسے افراد تیار نہیں ہورہے ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے مرجع خلائق بنیں۔

انسان کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں۔ ایک مادی حیثیت اور دوسری روحانی حیثیت۔ وہ علوم جن کا تعلق طبعی وہ مادی حقائق سے ہے، انھیں پڑھنا اور پڑھانا آسان ہے۔ کردار سازی کا عمل فرد کے روحانی حیثیت سے ہے یا اس کی روحانی شخصیت سے۔ اس لیے یہ کام دیگر مضامین سے زیادہ محنت چاہتا ہے۔ چوں کہ کردار کا تعلق حق الیقین کی کیفیت سے ہے اس لیے حق الیقین کی کیفیات طلبہ میں پیدا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ آج کے اس مادی اور ملحدانہ تصورات کی کثرت کے دور میں اس کام کو انجام دینے کے لیے دور جدید کے فلسفے اور علم نفسیات کی بعض بنیادی معلومات ضروری ہیں۔ جب تک ایک فرد غیب کی حقیقتوں پر یقین نہیں کرتا، اس کے کردار اور اخلاق کا مطلوبہ درجے پر پہنچنا مشکل ہے۔

الغرض پہلی سطح پر بچوں کے ذہن میں اقدار کی اہمیت اور اقدار کو کردار میں تبدیل کرنے کے فوائد اس طرح بٹھا دیے جائیں کہ ان کی تمام زندگی انھی اقدار کی بنیادوں پر تعمیر ہو اور ان کی زندگی میں یہ اقدار عملًا جھلکنے لگیں۔ شعور کی سطح پر اقدار کو بیدار کرنے کا ایک طریقہ ہم نے مضمون کے اگلے حصہ ( طریقہ کار ) میں بیان کیا ہے۔

سطح دوم

شعور میں اقدار کی بیداری کے بعد اب عملی سلسلے کا آغاز ہوگا۔ شعور کی بیداری کے بعد دوسری سطح طلبہ میں اقدار کے انجذاب کی ہوگی۔ مربی حضرات کوشش کریں کہ طلبہ نے جن اقدار کا علم حاصل کیا ہے، ان اقدار کو طلبہ رغبت اور پوری دل چسپی کے ساتھ اپنی انفرادی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اقدار صرف تقریر کے لیے یا پھر علم میں اضافے کے لیے نہ ہوں بلکہ انفرادی زندگی کے معیار کو بلند کرنے اور اسے نکھارنے کے لیے ہوں۔آج دنیا بھر میں شخصیت سازی کے کئی پروگرام ہوتے ہیں جن میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ فرد کا کردار اتنا اونچا ہوجائے کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ اقدار جب تک کردار کے ذریعے ظاہر نہیں ہوتی ہیں، فرد کی شخصیت نہیں بنتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ طلبہ میں ان کی اپنی عمر کے مطابق بہترین اقدار کا اظہار ہونا چاہیے۔ مثلًا اگر ہم درجہ دوم کے طلبہ میں پاکی اور صفائی ستھرائی کی مزاج سازی کررہے ہیں تو ہم ان میں چند واضح تبدیلیاں یوں دیکھیں گے:

طالب علم پاک صاف کپڑے پہن کر اسکول آرہا ہے۔

طالب علم اپنی جسمانی صفائی کا خیال رکھ رہا ہے جس میں بالوں کو سلیقے سے ترشوانا، کنگھا کرنا، ناخن وقت پر تراشنا وغیرہ شامل ہے۔

نمبر ایک اور نمبر دو کردار ایسے ہیں جو عام طور پر ٹیچروں کے ذہن میں آجاتے ہیں لیکن موجودہ دور میں مربیوں کو اپنی سوچ کا دائرہ بڑھانا ہوگا اور اختراعی انداز میں کردار سازی کے عمل کو جاری کرنا ہوگا۔ یہاں مذکورہ دو عادتوں کے علاوہ صفائی و ستھرائی کی کردار سازی کے عمل کا جائزہ اس طرح بھی لیا جاسکتا ہے کہ کیا طالب علم گھر میں کھانے کے بعد اپنی پلیٹ خود صاف کرتا ہے وغیرہ۔

سطح سوم 

طالب علم کا زیادہ وقت گھر میں گزرتا ہے۔ اسکول کی زندگی ایک نظم وضبط اور ڈسپلن کے تحت ہوتی ہے۔ اسکول کی زندگی میں اتنا تنوع نہیں ہوتا جتنا کہ گھر میں گزاری جانے والی زندگی میں ہوتا ہے۔ گھر میں ماں، باپ اور دیگر رشتہ دار ہوتے ہیں۔ فیملی اجتماعی زندگی کی ایک اہم اکائی ہے۔ کردار سازی کا پروجیکٹ جسے ہم اسکول میں جاری کررہے ہیں، وہ طالب علم کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ طالب علم کی ذات سے نکل کر خاندان، سماج اور ملک پر اثر ڈالے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ قوموں کا مستقبل کلاس روم میں طے پاتا ہے۔

طالب علم جن اخلاق کو اسکول میں پڑھتا ہے اسے ان اخلاق کا پیکر ومبلغ بھی بننا چاہیے۔ اگر وہ ان اخلاق کا مبلغ بنتا ہے تو پھر ان اخلاق کو اپنے گھر میں بھی جاری کرنے کی کوشش کرے۔ چناں چہ پاکی صفائی اور پاکیزگی کا سبق اگر کلاس روم میں پڑھایا جارہا ہے تو طالب علم اس کے اثرات کو اپنے گھر میں واقع کرے۔ مثلًا ایک اسکول کے ٹیچر نے کلاس پنجم کے طلبہ کو پاکی و صفائی کا یہ پروجیکٹ دیا تھا کہ طلبہ اپنے گھروں میں پاکی و صفائی کا اہتمام کریں اور طلبہ کو یہ عملی کام دیا کہ وہ اپنے گھر کی موجودہ صفائی کی صورت حال کو تحریر کریں۔جائزے کے لیے ٹیچر نے کچھ نکات بھی طلبہ کی مدد اور رہ نمائی کے لیے پیش کیے تھے۔ مثلًا گھر میں کتنے کوڑے دان ہیں؟ کیا سوکھے کوڑے اور گیلے کوڑے کے لیے الگ الگ کوڑے دان ہیں؟ گھر کی صفائی (جھاڑو پونچھا) دن میں کتنے بار کی جاتی ہے؟ کیا گھر میں جراثیم کش دوا کے ذریعے گھر کی صفائی ہوتی ہے؟ گھر میں کہیں گندہ پانی توجمع نہیں ہوتا ہے؟ گھر میں موجود گندے برتنوں کی صفائی کب کی جاتی ہے اور کون کرتا ہے؟ گھر میں ریفریجریٹر ہو تو اس کی صفائی کتنے دنوں میں کی جاتی ہے؟ روز مرہ استعمال میں آنے والے بستر، چادر اور کمبلوں کی دھلائی کتنے دنوں میں کی جاتی ہے؟ اگر آپ کے گھر کے اطراف میں کھلی نالی ہے،تو اس کی صفائی کتنے دنوں میں کی جاتی ہے؟ وغیرہ۔ ایک ہفتہ بعد طلبہ نے اپنے گھروں کی کیفیات کو مذکورہ نکات کے تحت تحریر کیا۔ بعد ازاں ٹیچر نے طلبہ کے گھروں کا دورہ کرکے جائزہ لیا کہ طلبہ نے اپنی رپورٹ میں جن باتوں کو لکھا ہے، وہ پوری طرح صحیح ہیں یا نہیں۔ اگر کسی طالب علم کی رپورٹ میں کچھ کمی پائی گئی تھی تو ٹیچر نے اپنے مشاہدے کی روشنی میں اس کم زوری کو دور کیا۔ تمام رپورٹیں شفاف ہونے کے بعد ٹیچر نے طلبہ کو گھروں میں پائی جانے والی صفائی کے حوالے سے کم زوریوں کو دور کرنے کا ایک منصوبہ جو عملی کاموں پر مشتمل تھا، پیش کیا۔ طلبہ میں شعور کی بیداری کی گئی۔ اپنے گھروں میں صفائی کے معیار کو بلند کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔ ایک ماہ بعد جب ٹیچر نے ان بچوں کے گھروں کا جائزہ لیا تو 80 فیصد طلبہ کے گھروں میں مثبت اثرات محسوس کیے گئے۔ یہ پروجیکٹ بنگلور کے علاقے ‘گوری پارلیا’ میں انجام دیا گیا تھا۔ اس طرح اختراعی انداز میں فیملی یا گھر میں رائج کرنے کے لیے پروجیکٹ بنائے جائیں۔

سطح چہارم

طلبہ فیملی کے بعد سب سے زیادہ متاثر اپنے دوستوں سے ہوتے ہیں۔ اس لیے بار بار نیک صحبت کی تلقین کی جاتی ہے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر طلبہ نئے نئے تجربات کرتے ہیں۔ اجتماعی کوششوں کی صلاحیت اس سطح پر جنم لیتی ہے۔ ٹیم ورک کا تصور یہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں جو ش و ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی اس خصوصیت کو افراد میں نیکیوں کے فروغ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ طلبہ چاہے کسی بھی عمر کے کیوں نہ ہوں، وہ دوستوں کے ساتھ مل کر سرگرمیاں انجام دینے میں بڑی دل چسپی دکھاتے ہیں۔ چناں چہ اسی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ ( Scout and guide)، این سی سی، اور این ایس ایس جیسی طلبہ کی تنظیمیں اسکولوں اور کالجوں میں مختلف سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ اسی طرز پر اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کی دیگر تنظیمیں طلبہ میں کردار سازی کے عمل کو انجام دے سکتی ہیں۔ مثلًا کرناٹک میں بچوں میں کام کررہی تنظیم ‘گلشن’ نے یوم جمہوریہ کے موقع پر طلبہ سے کہا کہ وہ دوستوں کے ساتھ مل کر خدمت خلق کا کوئی بہترین کام انجام دیں اور اس کی رپورٹ یا تو تحریری، تقریری یا ویڈیو کے ذریعے ان سرگرمیوں کو ریکارڈ کرکے پیش کریں۔ اس اعلان کے نتیجے میں طلبہ نے بہت ہی انوکھے انداز میں کئی خدمات انجام دیں۔ دوستوں کے ساتھ نیکی کے کاموں میں مصروف ہونے سے نیکیوں کے لیے اجتماعی جد و جہد کا شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ قدریں جن کے لیے سرگرمیاں انجام دی گئی ہیں، طلبہ میں جذب ہوجاتی ہیں۔ ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ طلبہ اور لڑکپن والی عمر کے بچے اکثر بری عادتیں اپنے دوستوں سے سیکھتے ہیں۔ اس لیے طلبہ کو دوستوں کے ساتھ مل کر نیکیوں کو فروغ دینے کا پروگرام دینا چاہیے۔ یہ بچوں کی کردار سازی میں بڑا معاون و مددگار ثابت ہوگا۔

سطح پنجم

پانچویں سطح کمیونٹی یا سماج پر مثبت اثرات ڈالناہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں اسکولوں کی ایک اہم ذمہ داری، اسکول کا سماج سے رابطہ قرار دی گئی ہے۔ اسکولوں کا سماج سے رابطے کا مفہوم یہ ہے کہ سماج کو اسکول سے اور اسکول کو سماج سے جوڑا جائے۔ اس نظریے کو انگریزی میں کنیکٹ اسکول ود کمیونٹی ( Connect school with community ) کہا جاتا ہے۔ اس اپروچ کو اب مغربی ممالک میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مغرب میں اسکولوں سے زیادہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو سماج سے جوڑا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو سماج سے جوڑنے کی بڑی تفصیلات ہیں۔ یہاں ہم اس اپروچ کو طلبہ میں کردار سازی کے لیے استعمال کرنے کے امکانات کا جائزہ لیں گے۔

ہم نے اس مضمون میں اوپر بیان کیا ہے کہ کردار سازی کے عمل میں سوسائٹی یا سماج کا بڑا اثر طلبہ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح طلبہ کے اندر اس احساس کو پیدا کرنا چاہیے کہ ان کی انفرادی سرگرمیاں سماج پر گہرا اثر ڈالتی ہیں بلکہ ان کے ہی کاموں کا نتیجہ سوسائٹی میں سماجی کردار کے طور پر جھلکتا ہے۔ اگر فرد کی اصلاح ہوتی ہے تو ایک بہترین سماج وجود میں آتا ہے۔ سماج، فرد کی مدد کرتا ہے تو فرد سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ “میں بہتر ہوجاؤں چاہے اور کوئی ہو یا نہ ہو” یا “مجھے سرور حاصل ہوجائے چاہے دوسروں کو ہو یا نہ ہو” یا “میں خوشیاں لوٹوں چاہے سماج کا بھلا ہو یا بُرا”۔ ایسے تصورات کو بھی طلبہ کی سوچ سے نکالنا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی بھی اس پر زور دیتی ہے کہ سماج میں بہتر کام کرنے والے افراد کو تعلیم گاہوں میں مدعو کیا جائے تاکہ طلبہ ان سے رہ نمائی، سبق اور جوش و ولولہ حاصل کرسکیں۔ اسی طرح طلبہ میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ بھی سماج کے لیے کچھ مثبت اقدام کریں۔ سماج میں جہاں افراد شامل ہیں، وہیں ماحولیات میں پھیلے دیگر موجودات بھی شامل ہیں۔ اس لیے طلبہ کو سماج اور ماحولیات دونوں کی خدمت کے لیے ابھارنا چاہیے۔ اس جذبے کی آبیاری کے لیے اسکول مختلف پروجیکٹ اور عملی کام کی تجویز دے سکتا ہے۔ مثلًا طلبہ اپنے اسکول کے محلے میں پانی کے بچاؤ کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ریلی نکال سکتے ہیں۔ ہم نے سطح دوم اور سطح سوم میں پاکی و صفائی کے پروجیکٹ کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے یہاں ہم سماجی کام کے ذیل میں یہ پروجیکٹ بناسکتے ہیں کہ طلبہ اپنے محلے میں سوکھا کوڑا اور گیلا کوڑا الگ کرنے کے شعور کو بیدار کرنے کی مہم چلائیں۔ اگر کہیں کوڑ ا کرکٹ پھینکا جارہا ہے تو اس عادت کو بدلنے کے لیے طلبہ اس مقام پر بیٹھ کر کوڑا پھینکنے والوں کو سمجھاسکتے ہیں اور انھیں ترغیب دلاسکتے ہیں کہ وہ کوڑا سرکاری کوڑا جمع کرنے والی گاڑی میں ڈالیں یا اس مقام پر پھینکیں جو اس کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

سطح ششم 

سطح ششم میں ہم طلبہ کو یہ احساس دلائیں کہ بہترین اقدار وہ ہیں جو فرد کی زندگی میں بھی اصلاح لائیں اور اس کے اثرات اجتماعی زندگی پر بھی ہوں۔ اجتماعی زندگی کا ایک مظہر سماجی زندگی ہے تو دوسرا مظہر حکومت کا انتظام و انصرام بھی ہے۔ طلبہ جب ہائی اسکول میں داخل ہوجاتے ہیں تو انھیں یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ ملک کے ذمہ دار شہری ہیں۔ ان پر دستور کے اعتبار سے کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ طلبہ کو ان کے دستوری فرائض پڑھائے جائیں۔ طلبہ کے اندر فرائض کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے اور ایک بہترین شہری بنانے کے لیے اسکول بچوں میں اس حوالے سے کردار سازی کا عمل انجام دے۔ اکثر اسکولوں کے وژن یا مقاصد میں یہ تحریر کیا جاتا ہے کہ “ہم طلبہ کو ملک کا بہترین شہری بنائیں گے”۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں مذکورہ پانچ سطحوں پر کردار سازی کا عمل مؤثر انداز میں چلایا جانا چاہیے وہیں اس چھٹی سطح پر بھی عملی کام کی ضرورت ہے۔ ہم نے مضمون کی ابتدا میں’ قدروں کے انتخاب ‘کے ذیل میں یہ تحریر کیا تھا کہ بہتر سرکاری انتظامات میں شرکت (Participation in good governance) کے اصول کو طلبہ میں پیدا کرنا ہے۔

مثلًا ایک اسکول نے اپنے قریبی اسکولوں کے طلبہ کو مدعو کرکے’ Student parliament‘ کا انعقاد کیا تھا۔ اس پارلیمنٹ میں طلبہ نے اس علاقے کے حوالے سے چند مسائل پر گفتگو کی۔ یہ وہ مسائل تھے جن کا تعلق کارپوریشن سے تھا۔ پارلیمنٹ کے اختتام پر طلبہ نے چند قراردادیں منظور کیں اور انھیں مقامی کارپوریشن کے صدر کی خدمت میں پیش کیا۔ نتیجتًا اس شہر کی کارپوریشن نے ان مسائل کی طرف توجہ کی جنھیں طلبہ نے پیش کیا تھا۔

طریقہ کار

اوپر ہم نے کردار سازی کے عمل کو انجام دینے کے لیے مختلف سطحوں کا ذکر کیا ہے۔ سطحوں سے پہلے ہم نے قدروں کے انتخاب کا طریقہ بھی تجویز کیا ہے۔ اب ہم یہاں مختصرًا قدروں کے انجذاب کے عمل یا کردار سازی کے عمل کو اختیار کرنے کے چند طریقے بیان کریں گے:

اخلاق کا تعلق مادّی دنیا کے علاوہ روحانی اور مافوق الطبعی دنیا سے بھی ہے۔ یعنی اخلاق کا تعلق عقائد سے بڑا گہرا ہے۔ اس لیے شعور کی بیداری کے مرحلے میں اخلاق کو عقائد سے جوڑنا چاہیے۔ بعض قدروں کو دنیاوی زندگی میں اختیار کرنے سے بظاہر مادی فائدے نظر نہیں آتے لیکن ان قدروں کا صلہ فرد کو اس دنیا میں ملے گا جسے ہم اخروی دنیا کہتے ہیں۔ اخلاق کا تعلق علم غیب کے تصور سے بڑا گہرا ہے۔ جب تک اقدار کو آخرت میں جواب دہی کے احساس سے جوڑا نہیں جاتا، فرد میں کردار کی پختگی ادھوری رہتی ہے یا پھر فرد اپنے کردار کو حالات و مفادات کے تحت تبدیل کردیتا ہے۔ اسی لیے طلبہ میں کردار کا شعور عقائد کے ساتھ جوڑا جائے تو مؤثر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مسلم طلبہ میں قدروں کو پہلے قرآن کے حوالے سے بیان کیا جائے پھر سیرت و احادیث کے حوالے سے ان کی افادیت سمجھائی جائے۔ ان قدروں کو صحابہ کرامؓ کی زندگی کی مثالوں کی روشنی میں واضح کیا جائے۔ اسلامی تاریخ کی درخشاں مثالوں کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔

عقائد کے بعد ہمیں قدروں کو موجودہ دور کے حوالے سے بھی بیان کرنا چاہیے۔ فرد اور سماج پر اخلاق کے مثبت اور منفی اثرات، فرد کی نفسیاتی اور سماجی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات، ساتھ ہی ان قدروں سے ہونے والے مادی فوائد کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے۔

شعور میں ان قدروں کو بٹھانے کے بعد عملی سرگرمیوں کے ذریعے انھیں بچوں کی زندگی میں جاری کریں۔ اس کے لیے ہم نے اوپر جو چھ سطحیں بیان کی ہیں، ان میں سے دوسری سطح سے لے کر چھٹی سطح تک مختلف پروجیکٹ جو انفرادی اور اجتماعی جدو جہد چاہتے ہیں، انھیں ترتیب دیاجائے۔ (مضمون نگار کا ایک کتابچہ’ کردار سازی کے 101 پروجیکٹ’زیر ترتیب ہے۔ اس کتابچے سے ان پروجیکٹ کی تیاری کے لیے مدد لی جاسکتی ہے )۔

(4) کیس اسٹڈی یا واقعات کا تجزیہ

سماج میں کئی واقعات پیش آتے ہیں۔ ان واقعات کی جڑیں اقدار سے ملتی ہیں۔طلبہ کے درمیان ان واقعات کو موضوع بحث بنائیں اور قدروں کو شعور میں پیوست کرنے کی کوشش کریں۔ مثلًا اگر کسی فرد کا ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنے سے حادثہ واقع ہوجاتا ہے تو حادثے کا مطالعہ کرایا جاسکتا ہے کہ کن قدروں کی پامالی کی وجہ سے حادثہ پیش آیا تھا۔ واضح رہے کہ یہاں مقاصدِ قدر کو بیان کرسکتے ہیں۔ دوسری مثال یہ کہ اگر کوئی طالب کسی دوسرے طالب علم کا مذاق اڑا رہا ہے یا کوئی ایک طالب علم دوسرے طالب علم کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس واقعہ پر کلاس میں غور و فکر ہونا چاہیے اور مربی طلبہ کی مدد کرے اور بتائے کہ اس واقعہ کا محرک کیا تھا اور کس قدر کی کمی کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ اس طرح سماج میں واقع ہونے والے حادثات کو اخلاق کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ اس کے ذریعے طلبہ کے ذہن میں یہ کلیہ راسخ ہوجاتا ہے کہ تاریخ کے عروج و زوال کا ایک سبب قوموں کے اخلاق ہوا کرتے ہیں۔

(5) کلچرل پروگرام:

آج عام طور پر کلچرل پروگرام اور وہ پروگرام جو انسانوں کی جمالیاتی حس کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کی نشو و نما کرتے ہیں، انھیں اخلاقی قدروں سے کم جوڑا جاتا ہے، بلکہ مابعد جدیدیت کے کلچرل پروگراموں میں بے تکا پن، مضحکہ خیزی، ناشائستگی (absurdism) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان پروگراموں میں اقدار کو مرکزیت نہیں بلکہ لطف اندوزی کو مرکزیت حاصل رہتی ہے۔ جب کہ فلسفہ جمالیات کا یہ تقاضا ہے کہ خالص جمالیاتی احساسات، اللہ کے رنگ سے پھوٹتے ہیں۔ موجودہ دور میں وہ افراد جو توحیدی نظریے پر یقین رکھتے ہیں، زندگی میں جمالیاتی پہلو کو نظر انداز کررہے ہیں۔ طلبہ میں جمالیاتی اظہاریوں کو اخلاق سے جوڑنے کی مشق کرانی چاہیے۔ ورنہ طلبہ زندگی کی ایک اہم ضرورت سرور و مسرت کو غیر اخلاقی طریقوں سے حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اخلاق کی کڑی آزمائش اسی شعبے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے اختراعی پروگراموں، مجالس، کھیل کود اور تفریحی مشاغل کو وضع کریں جو طلبہ کے اندر تزکیہ اور کردار سازی کے عمل کو جاری کریں۔

ہم نے چند پروجیکٹ کا تذکرہ اوپر کیا ہے۔ کسی ایک قدر کو مختلف سطحوں پر جاری کرنے کے لیے مختلف پروجیکٹ بنائے جاسکتے ہیں۔

جانچ کا طریقہ

یہ بحث بڑی قدیم ہے کہ اخلاق کی تعلیم بچوں کے مارکس کارڈ میں کیوں شامل نہیں کی جاتی۔ چند سال قبل سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں مدعی نے سپریم کورٹ سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ ‘سی بی ایس ای (Central board of secondary education) کو یہ ہدایت دے کہ اس کے زیر انتظام چلائے جانے والے اسکولوں میں اخلاق کی تعلیم کو دیگر مضامین کے برابر اہمیت دی جائے اور کل نمبرات میں اس مضمون ( اخلاقی تعلیم ) کے نمبرات بھی شامل کیے جائیں۔اگر کوئی طالب علم اخلاقی اعتبار سے کم زور ہے تو اسے آگے کے درجے میں جانے سے روک دیا جانا چاہیے۔ ورنہ ہم تعلیم یافتہ بداخلاق شہری پیدا کریں گے۔ اس پر سپریم کورٹ نے مثبت جواب دیا تھا لیکن فیصلے کا اختیار’سی بی ایس ای’کو سونپا گیا تھا۔

اخلاق کی تعلیم کی جانچ اور اسے ناپنے کا کوئی پیمانہ یا معیار نہیں ہے۔ اخلاق کو نمبرات سے تولا نہیں جاسکتا جسے مجموعی تشخیص(summative assessment)کہا جاتا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 اپنی سفارشات میں جانچ کے اس طریقے کی ہمت افزائی نہیں کرتی بلکہ اس کی جگہ تشکیلاتی جائزہ یا جانچ (formative assessment)تجویز کرتی ہے۔ اس جانچ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ کو جو علم سکھایا گیا ہے ان کی زندگی اس سے کتنا ہم آہنگ ہو پا رہی ہے۔ اخلاق کی تعلیم کی جانچ بھی اسی تشکیلی جائزے کے عمل سے کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے ہم نے مندرجہ ذیل طریقے تجویز کیے ہیں جن کے ذریعے طالب علم کی شخصیت جانچی جاسکتی ہے:

(1) جس قدر کو پڑھایا گیا ہے اس کے متعلق طالب علم کی رائے شعور، فہم، دریافت کیا جائے۔ یہ کام زبانی طور پر بچوں کے ساتھ گفتگو کرکے اور بحث و مباحثے کی مجالس انعقاد کرکے کیا جاسکتا ہے۔

(2) طالب علم نے اس مخصوص قدر کو کتنا اختیار کیا ہے، اس کا اندازہ اس کی ذاتی زندگی کا مشاہدہ کرکے کیا جاسکتا ہے۔ اس جائزے کے لیے چند سوالات طالب علم سے کیے جاسکتے ہیں۔ چند اس کے دوستوں سے اور چند فیملی ممبران سے۔

(3)قدروں کے انجذاب کے لیے جن پروجیکٹ کو اختیار کیا جاتا ہے، ان میں طالب علم کی دل چسپی، عملی سرگرمی اور حصے داری سے پتہ چلتا ہے کہ طالب علم میں کردار سازی کا عمل ادھورا اور ناقص ہے یا مطلوبہ معیار کا یا بہترین درجے کا۔ اس طرح کردار سازی کے ناپنے کے عمل کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

مشمولہ: شمارہ فروری 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223