ملک کے نامساعد حالات اور ملت کے قلیل وسائل کے باوجود حوصلہ مند اور مخلص دردمندان ملت نے ملک میں جگہ جگہ خدمت اور رفاہ کے پودے لگائے، دہائیوں تک انتھک محنتوں اور میسر توانائیوں سے ان کی سینچائی اور نگہبانی کی۔ اللہ کے فضل سے وہ پودے اب تناور اور پاکیزہ درخت بن کر اپنے خوش کن ثمرات سے انسانیت کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ ایسے ہی شجر ہائے امید کی جستجو میں یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے، تاکہ امید کے یہ چراغ مایوسی کے اندھیروں کو دور کرنے اور جگہ جگہ امید سے بھرپور نئے منصوبوں کو شروع کرنے کا محرک بن جائیں۔ (ادارہ)
خواتین کی صحت کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم وہائٹ ربن الائنس کے مطابق بچوں کی ولادت کے لیے ہندوستان دنیا کا سب سے غیر محفوظ خطہ ہے ۔ منسٹری آف ہیلتھ اینڈ فیمیلی ویلفیئر اور WRA کے مطا بق 15%سے زائد شرح کے ساتھ نومولود بچوں کی اموات کے حوالے سے ہندوستا ن کا دنیا میں پہلا مقام ہے ۔
جیو انقلاب اور چندرایان اڑان کی ہوائی خوشیاں اس کربناک انسانی بے بسی پر پردہ ڈالنے کے لیے کافی ہیں ۔ اس صورتحال کا حل ڈھونڈھتے ہوئے بہت کم نظریں مسئلہ کی جڑ تک پہنچ پاتی ہیں ۔
2016 میں اسی تنظیم کے والنٹیرس نے اس مسئلہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی ۔ایک ملک گیر مہم کے تحت خواتین سے دریافت کیا کہ ولادت اور حمل سے متعلق ہیلتھ سروسز کے تحت ان کی کیا توقعات ہیں ۔سروے کے تحت24 ریاستوں کے تقریبا دیڑھ لاکھ ریسپانسس کا حاصل حسب ذیل پانچ نکات رہے ۔
(۱) عزت و ا حترام کا پاکیزہ ماحول
(۲) عمدہ طبی سہولیات اور انفراسٹرکچر کی فراہمی
(۳) طبی مہارت اور ہنرمند افراد کی سہولت
(۴) صفائی اور ہائیجین
(۵) اسکیمس ، سہولیات ، اور سروسز کی وضاحت اور ان کی مناسب تشہیر
آج مسلم میٹرنیٹی ہاسپیٹل حیدرآباد کے ذمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ 2016کے اس طویل سروے کے نتائج کومرحوم عبدالرزاق لطیفی(سابق امیر حلقہ ) اور ان کی وژنری ٹیم نے پچاس سال قبل (1969) ہی پڑھ لیا تھا ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شہر کے مسلمان ایک حوصلہ شکن دور سے گزررہے تھے ۔ جہاں انفرادی مسائل ہی انھیں سنبھلنے نہ دیتے تھے اس وقت سماجی ایشوز کے تحت ایک پر عزم اجتماعی پروجیکٹ کا بیڑہ اٹھانا بذات خود ایک بڑا چیلنج تھا ۔
ایک عاجزانہ آغاز
جی ہاں ، عزم آہنی ضرور تھا لیکن آغاز عاجزانہ ۔
محترم امیر حلقہ اور ان کی ٹیم نے مکمل ہوم ورک کیا ۔ اور شہر کے مختلف ایکسپرٹ ڈاکٹرس کو مدعو کیا ۔ ڈاکٹرس واقف تھے کہ کیسے چند دن قبل وکٹوریہ میٹرنیٹی ہاسپٹل میں ایک ہندو خاتون کی حیا نے یہ گوارا نہ کیا کہ لیڈی ڈاکٹرس کی غیر موجودگی میں وہ میٹرنیٹی کے مراحل سے گزرے ۔ اور اسی کشمکش کے بیچ اس نے جان کھودی ۔ یہ صورتحال ہر فرد کے لیے اور بالخصوص مخلص ڈاکٹرس کے لیے بھی بے چینی کا سبب تھی ۔
امیر حلقہ کی انسانیت نواز شخصیت کا کمال تھا کہ آپ کی ایک اپیل پر شہر کے بیشتر اسپیشلسٹس اپنے ماہرانہ تعاون کے لیے آمادہ ہوگئے ۔
ڈاکٹر عبدالمجید خان ، ڈاکٹر حیدرخان ، ڈاکٹر عبدالمنان ، ڈاکٹر اعظم، ڈاکٹر اطہر حسین، ڈاکٹر رشید خالدی ، اورڈاکٹر زہرہ بلگرامی وہ چند ماہرین ہیں جن کی دلی وابستگی روز اول سے نہ صرف ہاسپیٹل پروجیکٹ کے ساتھ رہی بلکہ وقت کے ساتھ پروان چڑھتی رہی ۔
ضرورت کے پیش نظر مقاصداور اصولوں سے سمجھوتہ کیے بغیر جماعت اسلامی ہند کی اپنی ملکیت ( پرانی حویلی ) میں ایک مختصر25بیڈ ہسپتال کا عاجزانہ آغاز ہوا ۔ جو جلد ہی عثمان پورہ کی وسیع زمین پر منتقل ہوا ۔ علامہ یوسف القرضاوی ، صبح جامعہ کی تقریب سنگ بنیاد سے فارغ ہوکر جب ہسپتال کے آغاز کے لیے عثمان پورہ تشریف لائے تو فرمایا کہ میں ابھی اس مرکز کا سنگ بنیاد رکھ آیا ہوں جہاں قلب و روح کے علاج کا سامان ہو گا اور اب اس مرکز کا سنگ بنیاد ررکھ رہا ہوں جو جسم و جان کے علاج کا مقام ہوگا ۔
دعا، خلوص و قربانیوں کا اثر رنگ لایا ۔ نصف صدی قبل جس ہسپتال نے اپنے سفر کا آغاز عارضی عمارت اور مختصر سہولیات کے ساتھ کیا تھا آج وہ ریاست کا دوسرا سب سے بڑا میٹرنیٹی ہاسپٹل کہلاتا ہے ۔
اسباب کے دھارے
نیشنل سروے اور خواتین کی دلی توقعات کے حوالے سے جن پانچ نکات کا ذکر کیا گیا ، معلوم ہوتا ہے کہ مسلم میٹرنیٹی ہاسپٹل ( MMH) کے وژن میںروز اول سے وہ تمام باتیں شامل رہیں ۔
جذبہ خلوص ، وسائل کا دروازہ ہوتا ہے ۔ بانیان ہسپتال ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ پرانی حویلی میںنیا ہسپتال کیسے ترقی پائے ، ایک دن جناب عنایت علی صاحب( ریٹائرڈ کلکٹر) تشریف لائے ۔ کہا کہ مجھے ایسے ہی جذبہ خلوص کی تلاش تھی اور شہر کے اہم ترین علاقہ میں 4800مربع گز زمین اس پروجیکٹ کے لیے عنایت فرمائی ۔ کئی صاحبان خیر نے میڈیکل آلات اور انفراسٹرکچر کی ضرورت تکمیل کی ۔
ماہر ڈاکٹرس کے بغیر عمارت و آلات کا ڈھیر گودام تو کہلاسکتا ہے ہسپتال نہیں ۔ یہاں ڈاکٹرس کی اس ٹیم نے رول نبھا یا جو امیر حلقہ کی اپیل پر محض جٹے نہیں ، جڑ گئے تھے ۔ انھوں نے ہر میدان کے ایسے ڈاکٹرس تلاش کرکے ہسپتال سے جوڑ دیے جو صرف ڈگری و مہارت نہیں احساس بھی رکھتے تھے ۔ 29سال سروس کے بعد بھی ڈاکٹر سوم لتا یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کی طبی خدمات کا بہترین مصرف صرف MMHکی بدولت ممکن ہوا۔ صرف ڈاکٹر سوم لتا نہیں ، ڈاکٹر شاکرہ ، ڈاکٹر عائشہ جہاں ، ڈاکٹر یاسمین اقبال کے بشمول اکثر ڈاکٹرس کا یہی احساس ہے ۔
باحیا ، پاکیزہ ماحول یہاں کی انفرادیت رہی ۔ پروفیشنلزم ، صفائی ، اور عمدہ سروس بھی مستقل ترقی پاتی رہی جس نے کل ملاکر ہسپتال کو ریاست کا اہم ترجیحی میٹرنیٹی ہاسپیٹل بنادیا ۔
کہاں سے کہاں تک
ہاسپٹل کی50 سالہ ترقی قابل رشک و شکر ہے ۔ آج تلنگانہ کے بیشتر مقامات کے لیے یہ ایک ترجیحی ہسپتال ہے۔70 ڈاکٹر س اور سیکڑوں طبی اسٹاف کے ذریعے روزانہ 100 تا150ان پیشنٹس اور300 سے زائد آوٹ پیشنٹس خدمات کے ساتھ ہسپتال کا شہر میں نمایاں مقام ہے ۔
طبی میدان میں ترقی کے ساتھ ساتھ علمی ( اکیڈمک ) کامیابیاں بھی ہسپتال کو اہم مقام دلواتی ہیں ۔ جناب حامد محمد خان صاحب ( امیر حلقہ) کی رہنمائی اور ڈاکٹر عبدالخبیر ، ڈاکٹر سمیع الزماں ،ڈاکٹر خالد سیف الرحمان اور ڈاکٹر مہر خاتون کی ایڈوائزری خدمات کا ہسپتال کی حالیہ ترقی میں نمایاں رول رہا ہے۔ ہسپتال کے کامیاب سفر نے اس بات کے لیے تحریک دی کہ خدمات کا دائرہ اب مزید مستحقین تک پھیلنا چاہیے ۔ چنانچہ نئے علاقہ ٹولی چوکی میں ہمہ منزلہ ملٹی اسپیشلیٹی ہاسپٹل تعمیر کی تکمیل کے ساتھ آغاز کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔ مزید دو ملٹی اسپیشلیٹی ہاسپٹلس زیر تعمیر ہیں ۔MMH کی توسیع اور چوتھے فلور کی تعمیر بھی جاری ہے۔MMHسے منسلک ایک کلنک اورڈیاگناسٹک سینٹر کا بھی آغاز ہوچکا ہے ۔
منسلک ٹیبل (1)کی تفصیلات MMH کی طبی خدمات کے وسیع دائرے کو ظاہر کرتی ہیں ۔
2013 میں ڈاکٹر الیاس علی خان (MD) محکمہ صحت کے تحت کلاس ون آفیسر کی حیثیت سے CRPF سے 24سال خدمات انجام دے کر لوٹے ۔حید رآباد کے کارپوریٹ ہسپتال نہ ان کے فوجی ڈسپلن سے ہم آہنگ تھے نہ جذبہ خدمت سے۔ بالآخر MMH نے انھیں اور انھوں نے MMH کو منتخب کیا ۔ آپ کی یہ 6سالہ وابستگی MMH کے اکیڈمک ڈولپمنٹ کا سنگ میل ثابت ہوئی ۔جنا ب ضیاء الرحمان صاحب (سیکریٹری ) کے تعاون کے ساتھ یہ سفر تیز ہوا۔
نرسنگ ٹریننگ سینٹر باضابطہ نرسنگ کالج بن گیا ۔ جہاں این ٹی آر ہیلتھ یونیورسٹی اور انڈین نرسنگ کونسل کے تحت بی ایس سی ( نرسنگ ) کی پروفیشنل تعلیم سے ایک پاکیزہ ماحول میں طالبات استفادہ کرتی ہیں ۔50 فیصد مائناریٹی اسٹیٹس کے ساتھ پوسٹ گریجویشن DNB کامیابی سے جاری ہے ۔ ڈاکٹر الیاس خان (CEO ) کے مطابق MMHکو NBE سے مسلمہ موقف بھی حاصل ہوا ۔ جو پوسٹ گریجویٹ پروگرام بالخصوص علاج نسواں و اطفال اور نیو نیٹالوجی میں فیلو شپ کورس کو بھی مسلمہ حیثیت دیتا ہے ۔MMH کی وسیع طبی خدمات کے پیش نظر امریکہ کی ٹیکسیلا یونیورسٹی نے پریکٹیکل اکزامس کے سینٹر کا درجہ دیا ۔ اسی یونیورسٹی کے الحاق سے MMHنے MRCHP پوسٹ گریجویٹ پروگرام کا آغاز بھی کیا ۔
( ملاحظہ فرمائیے گزشتہ صفحہ پر مذکور ۔ ٹیبل 2)
ہجوم سے الگ
جناب اظہر الدین صاحب کی خدمات MMHسے پچھلے کئی سالوں سے وابستہ ہیں ۔ شہر میں ہاسپٹلز اور طبی خدمات کے بے شمار ادارے ہیں ۔ میں نے اظہر بھائی سے دریافت کیا کہ آخر اس ہجوم میں MMHکو ہم کیوں الگ ٹھہرائیں ؟ اظہر بھائی کی تمہیدی مسکراہٹ چٹک گئی جو حسب معمول کسی دلچسپ واقعہ کا اشارہ ہوتی ہے ۔
سنیے ۔کل ہی کی بات ہے ، ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی ایک صحتمند خوبرو نوجوان موصوف کے ساتھ تھا۔ کہنے لگے ، آپ شائد اس نوجوان کو نہ جانتے ہوں لیکن ہم دونوں آپ کو خوب جانتے ہیں ۔
میں سوچ رہاتھا خیر تو ہے؟ کڑیل نوجوان کے ساتھ یہ تیور کہ ہم آپ کو خوب جانتے ہیں !!
کہنے لگے یہ میرے صاحبزادے ہیں، میری اس عمر کا سہارا ۔ 25سال قبل اُس سنگین کیفیت کو میں نہیں بھول سکتا ۔ جب MMHکا سہارا اگر نہ ملتا تو میں بھی شائد اس زندہ سہارے سے محروم ہوتا۔ میں نے کہا سہارا تو بس پروردگار کا ہے ، باقی سب اسباب ہیں ۔
(خواتین کی صحت کے حوالے سے تلنگانہ و آندھرا کی صورتحال کئی دیگر ریاستوں سے خراب ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے گزشتہ صفحہ پر مذکور، ٹیبل3)
سچ بتا ؤں ،تلنگانہ کے کم و بیش ہر قریہ کے لیے MMHکسی نہ کسی سطح پر بلالحاظ مسلک و مشرب محسن کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے امتیازات کو میں چند نکات میں سمیٹوں گا ۔
(۱) Affordable Service کا دعویٰ کرنے والے کئی ہیںلیکن حقیقت ، بقول اکبر
ان کو کیا کام ہے مروت سے، اپنی رخ سے یہ منھ نہ موڑیں گے
جان شائد فرشتے چھوڑ بھی دیں ، ڈاکٹر فیس کو نہ چھوڑیں گے
لیکن MMH ان میں ممتاز ہے ۔ دیگر ہسپتالوں میں میٹرنیٹی چارجس 60000 تا ایک لاکھ سے تجاوز کرتے ہیں لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ MMH وہی خدمات اسی معیار پر صرف پانچ تا آٹھ ہزار روپیوں میں انجام دیتا ہے ۔ غیر ضروری ٹیسٹس اور سرجری سے حتی االامکان پرہیز کیا جاتاہے ۔ امام، موذنین ومعلمین مدارس کے لیے خصوصی رعایت ، نیز معاشی لحاظ سے کمزور افراد کے لیے خصوصی اضافی ڈسکاونٹ ۔یہ ہسپتال کا نمایاں امتیاز ہے ۔
مختصر یہ کہ یہاں صرف افورڈیبل نہیں انسانیت نواز سروس فراہم کی جاتی ہیں ۔
(۲) خواتین کا علاج خواتین کے ذریعے ۔ جس اصول کے تحت ادارہ پچاس سال قبل قائم ہوا تھا اس پر معمولی سمجھوتہ آج تک نہ ہوا ۔ ادارہ کو مولانا احمد محی الدین نظامی جیسے جید عالم دین کی رہنمائی پہلے دن سے میسر رہی ۔ انتہائی پاکیزہ اور باحیا ماحول ادارہ کا خصوصی وصف ہے ۔ اس سخت شرط کے ساتھ خدمات انجام دینے والا اپنے طرز کا منفرد ہسپتال ہے MMH
(۳) برادران وطن کی ایک قابل ذکر تعداد اس پاکیزہ کلچر کو نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ استفادہ کنندگان میں ان کی تعداد پندرہ فیصد سے زائد ہے ۔ مسلک و مذہب کی بنیاد پر خدمات کی تفریق سے MMH پچاس سالوں سے کوسوں دور ہے۔
(۴) کرپٹ پریکٹسس عمدہ صلاحیتوں کا شمشان ہوتی ہیں ۔ اور اصول پسندی ، مہارتوںکے لیے شاہراہ عروج !
MMH ہزاروں مختلف النوع میڈیکل کیسس کا ایک ایسا منفرد اصول پسند پلیٹ فارم ہے جہاں اسٹاف کو اپنی پوری طبی مہارت کا بھرپور استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ جس میں سب کا فائدہ ہے مریض کی صحت ، معالج کی مہارت ، ہسپتال کی نیک نامی اور سب سے بڑھ کر سب کے لیے اجر !
ایک واقعہ بتاوں ، رات دو بجے ایمبولنس ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی ۔مریض سخت بے چین ۔ اسی ایمبولینس میں ایمرجنسی طبی دیکھ بھال جاری رہی ۔ ہمارے قابل لیڈی اسٹاف ممبرنے ٹیکسی کے سہارے دوڑ لگائی ۔ خون کا بندوبست کیا اور اسی ایکسیڈنٹ زدہ ایمبولینس میں تمام چیلنجنگ مراحل کو انجام دیا ۔ اس طالبہ کا یہ کارنامہ انعام واعزازہی نہیں ٹھہرا بلکہ لامحدود اجر کا سبب بھی ہے ۔ یہ جذبہ خدمت بھیMMHکا اعزاز ہے۔
کیا سب کچھ اچھا ہے ؟
لیکن اظہر بھائی ، MMHکی ان خصوصیات سے میں تو کیا ، کوئی بھی انصاف پسند شائد انکار نہ کرسکے۔ لیکن ایک سوال بلا تکلف !
کیا واقعی سب کچھ اچھا ہی ہے ؟
نہیں ! نہ یہ ہمارا دعویٰ ہے اور نہ اسباب کی دنیا میں ممکن ۔
یقیناکچھ کمزوریاں بھی ہیں ۔ یہ عوامی ادارہ ہے اور راست عوامی فیڈبیک کا تحفہ اسے میسر ہے ۔ شکایتوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ بجا بھی اور بے جا بھی ۔ بجا شکایتوں کے جواب میں احتساب و اصلاح اور بے جا کے جواب میں دعا ئے خیر!
کچھ واضح ہوجائے ، بجا کیا ہیں اور بے جا کیسی ہیں ؟
فرمایا ۔ کبھی سہولیات سے متعلق ، کبھی کبھار اسٹاف کے رویہ اور سروسز کے بارے میں ۔ انتظامی امور اور کبھی تشخیص و ڈائگناسس کی شکایات بھی ملتی ہیں ۔ ہمارا انٹرنل اصلاحی میکانیزم ہے ۔ کوشش ہوتی ہے کہ بروقت ایشوز کی اصلاح کی جائے ۔ مسائل چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی ۔ اور اسی مناسبت سے اصلاحی فیصلے عام بھی ہوتے ہیں اور سخت بھی ۔
کوئی بڑا مسئلہ ؟
اظہر بھائی نے کھلے دل سے قبول کیا ،
ہاں ، جیسے ایک آپریشن میں ہمارے سرجیکل اسٹاف سے غلطی ہوئی تھی جس کا راست اثر مریض کی صحت پر ہوا ۔ تشخیص ہوئی ۔ معلوم ہوا غلطی ہماری ہے ۔ ہم نے نہ صرف معذرت کی ، بلکہ مکمل علاج ، اخراجات اور ہرجانہ بھی قبول کیا ۔ اوراس بات کو یقینی بنایا کہ مریض کو نہ صحت کا نقصان ہو نہ ہمارے تئیں شکایت برقرار رہے۔ لیکن یہ انتہائی اتفاقی اوراستثنائی واقعہ ہے ۔
دیگرتقاضا نما شکایات بالعموم ہسپتال کے بل سے متعلق ہوتی ہیں جو انتہائی ڈسکاؤنٹیڈ ہوتے ہیں ۔ ان کی معقولیت جانچ کر حسب حال انھیں قبول بھی کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار نظر انداز بھی!
پیغام عمل
سوچ رہا ہوں پچاس سالہ ادارہ اور اس کے بانیوں کی تڑپ ہمیں کیا پیغام دیتی ہے ، جنھیں ہم سمیٹ لے چلیں ؟
(۱) اداروں کی کامیابی صرف خلوص و تڑپ نہیں بلکہ پروفیشنلزم بھی چاہتی ہیں ۔ MMH کے بانی اس نکتہ سے خوب واقف تھے اور آج بھی حافظ رشادالدین صاحب ، ڈاکٹر خالد ظفر اور ان کی پوری انتظامی ٹیم اس نکتہ سے غافل نہیں ۔ منتظمین نے ہمیشہ بیرونی مسائل خود اوڑھ لیے اور اندرونی انتظام پورے اعتماد کے ساتھ وقت کے ماہر پروفیشنلز ( ڈاکٹرس ) کے حوالے کیا ۔ اور ان پروفیشنلز نے بھی اس اعتماد کی خوب لاج رکھی۔
جہاں اس اعتماد کو ٹانگ دیا جائے، وہاں بڑے بڑے ادارے دودن کے مہمان ثابت ہوتے ہیں ۔ اس اجتماعی اعتماد و تعاون کی بحالی ہماری سخت ضرورت ہے ۔
(۲) اچھے ڈاکٹرس لاکھوں میں ـ فروخت ہوتے ہیں پھر MMHنے انھیںتیس چالیس سال کیسے جوڑ رکھا ؟ معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹرس خود مخلص گروہ سے ہیں ۔ پیسوں کی کشش سے انھیں زیر نہیں کیا جاسکتا ۔ ساتھ ہی مینجمنٹ نے بھی ہمیشہ اپنے اگریمنٹس کا ہر قیمت پر احترام کیا ۔ ابتدائی دنوں میں کرائسس کا وہ دور بھی رہا جب ہسپتال فنڈز کے مسائل سے بھی دو چار ہوتا ۔ امیر حلقہ عبدالرزاق لطیفی، حافظ انواراللہ مرحوم اور آپ کی مخلص ٹیم اس ماحول میں بھی خود کے جیب کاٹ کر اس بات کو یقینی بناتی کہ یہ پہیہ گھومتا رہے ۔ الغرض اداروں کا مستقبل ، اس کے اولین بانیوں سے خلوص و قربانی چاہتا ہے ۔ یہ کل بھی ضروری تھاآج زیادہ ضروری ہے ۔
(۳) وسائل کا رونا، حوصلہ شکن ماحول کا ماتم اور مایوسی عام ہے ۔ لیکن جو جو اںمرد اس ماتم کو پاس پھٹکنے نہ دے اور جو قائد توکل کی دولت سے اپنی ٹیم کو آراستہ کرے ان کے لیے مواقع بھی ہیں اور وسائل بھی۔ MMHکی یہ خوش قسمتی تھی کہ نہ صرف عبدالرزاق لطیفی صاحب ، بلکہ مولانا عبدالعزیز صاحب ، عبدالباسط انور صاحب ، خواجہ عارف الدین صاحب جیسے امرائے حلقہ کی باہمت قیادت اس کی ٹیم کو حاصل رہی ۔
ایک موصوف ہاسپٹل تشریف لائے، سروسز سے بڑے متأثر اور خوش ہوئے اور فرمایا کہ ایک فلور کے لیے درکار آلات میں دینا چاہتا ہوں ۔ بسا اوقات وقتی جذبات گھر پہنچتے پہنچتے پگھل جاتے ہیں اس لیے ہر بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ کچھ ہی دنوں بعد کال آیا کہ ہاسپیٹل کے نام تین کنٹینرز پارسل آئے ہیں ۔ تعجب ہوا کہ کس نے کیا بھیج دیا ۔ معلوم ہوا کہ انھیں صاحب خیر نے کروڑہا روپیوں پر مشتمل اکیوپمنٹس کی کھیپ روانہ کردی ۔ ایسے ہی انہوںنے اسباب ہسپتال کے چوتھے فلور اور دیگر ایکسٹینشنس کے لیے بھی پیدا ہوگئے ۔ مختصر یہ کہ خدمات مخلصانہ اور نتیجہ خیز ہوں اور قیادت توکل کی دولت سے مالامال ہوں تو وسائل کے لیے مسبب الاسباب کافی ہے ۔
(۴) پرانی حویلی سے کامیابی کی یہ نئی منزلیں بتلاتی ہے کہ کامیابی ابتدائی تام جھام نہیں بلکہ خلوص وقربانی چاہتی ہیں ۔
(۵) اول روز سے ، ہسپتال سے منسلک نرسنگ اسکول اس بات کا عملی اظہار ہے کہ پروجیکٹ خواہ کسی نوعیت کا ہو سیمنٹ کانکریٹ سے بڑھ کر ہیومن رسورس کی فراہمی ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے ۔ جہاں نظر چوک گئی انھیں گودام یا مقبروں میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی ۔
(۶) جو خود میں سمٹ جائیں ان کی خودی بھی سکڑ جاتی ہے ۔ایک زندہ سماج میں صرف افراد نہیں ادارے بھی قائد ہوتے ہیں ۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ تجربات و رہنمائی کی دنیا کو پھیلائیں ۔ MMHکے تجربات سے پڑوسی شہر ناندیڑ میں ارحم ہاسپیٹل نے استفادہ کیا اور بہت کم عرصہ میں نیک نامی سمیٹی ۔ہمارے کامیاب اداروں کو اس پیٹرن کو اپنانا چاہیے کہ ان کے تجربات سے دیگر مقامات پر بھی استفادہ ہو ۔
(۷) ہسپتال میں ایک غریب خاتون نے لڑکی کو جنم دیا ۔ معلوم ہوا کہ لڑکی کی خبر سنتے ہی شوہر سمیت سسرال اس غریب کو ہسپتال میں تنہا چھوڑ فرار ہوگئے ۔ ہسپتال نے نہ صرف بل معاف کیا بلکہ بڑی مشکل سے شوہر کو ڈھونڈھ نکالا ۔ان کی کونسلنگ کی ۔ وہ اپنے کرتوت پر نادم ہوئے پھر مزید تعاون کے ساتھ انھیں رخصت کیا گیا۔معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خان تاحیات ایڈوائزری کمیٹی سے وابستہ رہے ۔ آپ فرماتے تھے کہ ـ’’یہ ہسپتال ہمارے سماجی ایشوز کا آئینہ ہے ۔‘‘ یہاں اچھی بھلی سیکڑوں تصویریں نظر آتی ہیں ۔ ان تصویروں کے سہارے عوامی ادارے صرف خدمت گزار نہیں ، ذہن ساز بھی ہوسکتے ہیں ۔ MMHکو اس محاذ پر مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2019