کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے، وہیں ذمہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ اس امت کے لیے خدا ترسی، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اس امت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتی کہ اس کے قول اور عمل اور برتاؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری بڑی سخت تھی، حتّٰی کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے یہاں ماخوذ ہوتے، اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت، جو تیرے رسول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچادینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گم راہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، ان سب کے لیے ائمہ شر اور شیاطینِ انس وجن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گم راہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاںمرگئے تھے۔
(تفہیم القرآن، جلد اول، ص 120)
مشمولہ: شمارہ اگست 2021