انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس پرورش اطفال پر اثرات

ایک تنقیدی جائزہ (7)

پچھلے مضمون میں LGBTQ+ اور ادارہ نکاح کے حوالے سے تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے سلسلے میں LGBTQ+ کے ذریعے دیے گئے دلائل ادارہ نکاح کے حوالے سے کسی طرح سے عقل کو مطمئن نہیں کرسکتے۔ مزید یہ کہ اس ڈسکورس میں اس طرح کی شادیوں کے لیے درکار بنیادی ایپسٹیمولوجیکل فریم ورک یا تو موجود ہی نہیں یا فریم ورک بہت ہی کھوکھلا اور غیر علمی بنیادوں پر کھڑا ہے، اور کئی اعتبار سے اپنے اندر خامیاں رکھتا ہے۔ ان میں اہم ترین خامی اس کا مختلف فیہ اور اپنے آپ میں متضاد ہونا بھی ہے۔

اب ذیل کی سطور میں انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کے ایک اور اہم نکتے کا تنقیدی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ہم جنس پرست جوڑوں کے پروردہ بچوں کے حوالے سے ہے۔ یعنی یہ ڈسکورس مانتا ہے کہ ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑوں کے پروردہ بچے اور عام شادی شدہ جوڑوں کے پروردہ بچے کسی اعتبار سے مختلف نہیں ہوتے۔ ان کے درمیان کسی بھی سماجی اشاریے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ بچے نفسیاتی اعتبار سے، جنسی رخ کے اعتبار سے نیز جنسی رجحان کے اعتبار سے عام بچوں کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے جو مذہبی افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنس پرست والدین، ہم جنس پرست بچے ہی پروان چڑھائیں گے وہ غلطی پر ہیں۔ مزید یہ کہ اس طرح کے بچے جو ہم جنس پرست والدین کے پروردہ ہیں وہ سماج میں “فٹ” نہیں ہوں گے۔ یہ بھی ایک خام خیالی ہے۔

اس طرح کے بیانات یا مفروضات کو فیصل کس طرح کیا جائے گا؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ اس طرح کے ‘مشاہداتی’ (observation) مفروضات یا قیاسات (hypothesis) دراصل جانب دار ہوتے ہیں۔ وہ خاص مذہبی یا معاشرتی کنڈیشننگ کے ذریعے وجود میں آتے ہیں اور ایک خاص اخلاقی، معاشرتی و تہذیبی سیاق (context) میں تشکیل (construct) پاتے ہیں۔ اس لیے شماریاتی سائنس کا استعمال کرکے باقاعدہ تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ:

ہم جنس پرست جوڑوں کے پروردہ بچوں اور عام جوڑوں کے ذریعے پروان چڑھائے گئے بچوں میں فرق ہوتا ہے۔

اس ‘فرق’کو باقاعدہ زمرہ بند کیا جانا چاہیے، جیسے یہ فرق کن کن حوالوں سے ہے۔

ان حوالوں کا واضح اندراج ہونا چاہیے۔ جیسے ‘جنسی رخ’یا ‘جنسی میلان’یا سماج میں گھلنے ملنے کی صلاحیت وغیرہ۔

ان حوالوں کے اعتبار سے ایک واضح تحقیقاتی ڈیزائن کے تحت اعداد و شمار جمع ہونے چاہئیں اور ان کا تجزیہ ہونا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ اوپر دیے گئے نکات کے تحت باقاعدہ اس طرح کی تحقیقات تو ہوئی ہیں لیکن ان کے نتائج میں اختلاف ہوگیا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس طرح کی تحقیقات کے حوالے سے بات کرتے ہیں، وہ عام طور پر افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں، کیوں کہ سائنسی تحقیقات ‘خلا’ میں انجام نہیں دی جاتیں۔ وہ بہرحال ایک خاص تہذیبی، سیاسی، ثقافتی ماحول میں انجام دی جاتی ہیں۔ یقینًا نتائج کے حاصل کرنے میں سماجی سائنس داں اور محققین چیک اور بیلنس لگاتے ہیں لیکن بہت بار یہ کافی و شافی نہیں ہوتے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں سائنسی تحقیقات کی رفتار بہت تیز ہے۔ اور ہمارے تصور سے کہیں زیادہ وسیع، وقیع اور متنوع ہے۔ مثلًا معاشرتی ڈسکورس کے مختلف پہلوؤں پر باقاعدہ جرنل موجود ہیں۔ ذیل کا جدول ملاحظہ ہو:

نمبر شمارجرنل کا نامتحقیق کا پہلو
۱جرنل آف فیملی سائیکولوجیخاندان اور نفسیاتی شمول LGBTQ+ نفسیات
۲جرنل آف ریسرچ ایڈولسنٹبلوغت اور اس سے جڑے پہلوؤں پر تحقیقات
۳جرنل آر ڈیولپمنٹل سائیکالوجینفسیات کا ارتقا بشمول LGBTQ+، پرورش، والدین وغیرہ

اس کے علاوہ اس قسم کے موضوعات پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں مقالے موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تجزیہ ہمیں درج ذیل نتائج تک پہنچاتا ہے:

تحقیقات کا ڈیزائن اور ان سے حاصل شدہ نتائج: اس موضوع یا اس ڈسکورس کے اس نکتے کے ضمن میں کی جانے والی تحقیقات میں ریسرچ ڈیزائن کے حوالے سے بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ان خامیوں سے صرف نظر کرکے بھی اگر ان تحقیقات کو معتدل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دو قسم کے محققین سامنے آتے ہیں۔ ایک، جنھیں اس ڈسکورس سے مکمل اتفاق ہے اور دوسرے، وہ جو عیسائی یا زیادہ صحیح لفظوں میں کیتھولک عیسائی ہیں۔ (کسی محقق کا بیک گراؤنڈ معلوم کرنے کے لیے معمولی سی انٹرنیٹ سرچ کافی ہے)۔

(دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک تحقیق صرف اسی نکتے کو سامنے رکھ کر کی جاسکتی ہے۔ یہ تجزیاتی تحقیق کسی محقق کی وابستگی(affiliation) اور اس کی تحقیق پر اس کے اثر کو ظاہر کر سکتی ہے!)

چناں چہ ان تحقیقات میں ایسے ڈیزائن کی گنجائش موجود ہوتی ہے جس سے آپ اپنے من پسند نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ایک عام قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ جو تحقیق اس کے سامنے ہے اس کے ڈیزائن میں جانب داری ہے یا نہیں۔

لیکن اس تفریق کے علی الرغم بھی اگر دیکھا جائے تو اس قسم کی تحقیقات میں ڈیزائن کے حوالے سے، نمونے کے حجم اور سائز کے حوالے سے، سوالات کے ڈیزائن کے حوالے سے بہت سارے مسائل ہیں۔ ان مسائل کی ابتدا تحقیق میں استعمال کردہ اصطلاحات کی تعریف سے شروع ہوتی ہیں۔ درج ذیل اصطلاحات اور پھر ان کے معنی ملاحظہ ہوں۔

جنسی کشش کی تعریف: جنسی کشش کی تعریف کیسے کی جائے؟اسے متعین کرنے میں کن پہلوؤں کا خیال رکھا جائے؟ یعنی جنسی کشش کی تعریف ہر بچے اور ہر نوجوان کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ اور بہت آسان اور سادہ سا نظر آنے والا یہ پہلو جنسی انحرافی رویوں پر تحقیق کی دنیا میں تعریف کے حوالے سے بہت مختلف فیہ اور مشکل ہے۔ اس لیے جب ہم جنس پرست جوڑوں کے پروردہ بچوں اور عام جوڑوں کے پروردہ بچوں میں جنسی کشش کے پہلو کے اعتبار سے فرق دیکھنے کے لیے جو اسکیل ترتیب دیا جاتا ہے یا جو سوال نامہ بنایا جاتا ہے، اس میں بڑی شدید قسم کی دشواریاں پیش آتی ہیں، کیوں کہ جنسی کشش کا غیر ہم جنس پرستی والاعلاقہ (landscape) اور ہم جنس پرستی والا علاقہ کافی مختلف ہوتا ہے۔ یقینًا یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جدید دور میں اس پر کافی کام ہوچکا ہے اور اب یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن یہ ایک مفروضاتی دلیل ہے۔ بات اب بھی وہیں ہے جہاں 70 کی دہائی میں تھی کہ جنسی کشش کی تعریف دو مختلف گروہوں کے لیے کیسے، کیوں اور کس لحاظ سے متعین کی جائے!

ظاہر سی بات ہے کہ اتنے اہم پہلو کے حوالے سے، جس پر ہماری بحث کا دار و مدار ہے اسی پہلو کی تعریف میں اگر اختلاف ہو جائے تو پھر بعد کے بہت سارے چیک اور بیلنس بھی بے کار ٹھہریں گے۔ یقیناً سائنسی میدانوں میں اختلاف کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے، لیکن کم از کم بنیادی باتوں پر یا مقدمات (premises) پر عمومی اتفاق رائے بہرحال ہوتا ہے۔

یہ پہلو اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہم اس فرق کو ایک اہم ترین اشارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں اور عام جوڑوں کے پروردہ بچوں میں یہ اشاریہ سب سے اہم ہوتا ہے کہ بچوں میں جنسی کشش کیسی ہے۔ کیوں کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ LGBTQ parents raise LGBTQ kids + یعنی LGBTQ ماں باپ اپنے ہی جیسے بچے پروان چڑھاتے ہیں۔ ایک ڈسکورس کے حاملین اسے ایک انسانی ہمدردی سے عاری (homophobic) جملہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس جملے کو مشہور کرنے والوں کے پاس اپنی دلیلیں ہیں۔

جنسی رخ اور صنفی میلان: اسی طرح یہ ایک اور اصطلاح ہے جو اس طرح کی تحقیقات میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ جنسی رخ اور صنفی میلان کے حوالے سے یہ بات اب تقریبًا پایہ ثبوت تک پہنچنے لگی ہے کہ جنسی رخ اور صنفی میلان نہ تو مکمل طور پر جنسی سطح سے فیصل ہوتا ہے اور نہ ہی پوری طرح ماحول کی دین ہے۔ نہ ہی یہ جین کے ذریعے منضبط ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر پرورش اور بچپن کے تجربات کی وجہ سے نشو و نما پاتا ہے، بلکہ یہ ان کے بین بین کہیں ہے! لیکن کب کیسے اور کتنے عوامل کا کتنا حصہ ہے، اور کون کون سے عوامل مل کر یہ سب طے کرتے ہیں، یہ بات ابھی اندھیرے ہی میں ہے۔

چناں چہ اس طرح کی تحقیقات میں اس حوالے سے بڑی پریشانی آتی ہے۔ مثلاً ہم جنس پرست والدین کے پروردہ بچوں میں جنسی رخ ہم جنس پرستی کی طرف ہے، تو اس کا کتنا حصہ جنسی اعتبار سے ہے اور کتنا ماحول کی دین ہے! اس کا فیصلے کیسے کیا جائے گا۔ اس طرح غیر ہم جنس پرست والدین میں جب ان کے بچے ہم جنس پرست ہو جاتے ہیں تو اس کا فیصلے کیسے کیا جائے کہ ان کے جین کتنے فیصد اس بات کے لیے ذمہ دار ہیں اور کتنے فیصد وہ ماحول ذمہ دار ہے، جس میں یہ بچے پرورش پاتے ہیں۔

حالاں کہ دیگر معاملات میں مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات بڑی سادہ سی معلوم ہوتی ہے۔ مثلا تمباکو نوشی کرنے والے والدین کے زیادہ تر بچے تمباکو نوشی کرتے پائے جاتے ہیں۔ شراب کی لت میں ملوث والدین کے بچوں میں بڑے ہوکر شراب نوشی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ دیگر نشے کے عادی افراد کے بچے کسی نہ کسی نشے میں ملوث ہو ہی جاتے ہیں۔ درحقیقت بادی النظر میں بہت زیادہ قائل کر دینے والے مشاہدات سائنسی بنیادوں پر بہت آسانی سے فیصل نہیں کیے جا سکتے۔

مثلًا ایک ہی شرابی والدین کے پروردہ چار یا پانچ بچوں میں صرف ایک یا دو یا کوئی بھی بچہ شرابی نہیں بنتا! ایسا کیوں! اگر یہ صرف ماحول کا اثر ہے تو تمام بچوں کو شرابی بننا چاہیے تھا۔ اگر یہ جینی بنیادوں پر طے ہوتا ہے تو تمام بچوں نے ایک ہی جیسا ڈی این اے پایا ہے۔ اس لیے تمام بچوں کو شرابی ہونا چاہیے۔ یہی بات دیگر نشوں کے عادی والدین اور ان کے بچوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اس طرح کی تحقیقات کے ڈیزائن میں، ان اصطلاحات میں اور ان سے جڑے معنی میں اور ان کے ذریعے حاصل کردہ نتائج میں غلطیوں کا بڑا امکان موجود ہوتا ہے۔ اور یہ دونوں طرح کی تحقیقات کے لیے درست ہے۔ مثلًا ان تحقیقات کے لیے بھی جو جنس پرست والدین کے پروردہ بچوں کو عام جوڑوں کے پروردہ بچوں کے مساوی بتاتی ہیں، اور ان کے لیے بھی جو اس کے مخالف نتائج پیش کرتی ہیں۔

لیکن ہم دیکھ سکتےہیں کہ دونوں صورتوں میں، اس طرح کی تحقیقات میں ایک سطح کی جانب داری در آتی ہے۔ اس کی صریح مثال بالکل حال ہی میں شائع تحقیق میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

”حالیہ برسوں میں بہت سارے LGBTQ+ طیف رکھنے والے افراد والدین بنے ہیں حالاں کہ امریکہ، یوروپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں LGBTQ+ والدین ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ LGBTQ+ والدین کام یاب والدین ہیں اور ان کے بچے مثبت انداز میں پرورش پاتے ہیں۔ مجموعی طور پر (تحقیقات) یہ بتاتی ہیں کہ والدین کا جنسی رخ اور صنفی میلان جنسی شناخت وغیرہ۔”[1]

قارئین یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس تحقیقاتی مقالہ میں ‘خطابت’ (rhetoric) کا وہی زور ہے، جس کا محققین شد و مد سے انکار کرتے ہیں۔ اس میں مفروضات کو اتنے ہی شدید طریقے سے ”سائنس”بنا کر پیش کیا گیا ہے جس کا طعنہ عام طور پر واعظین کو دیا جاتا ہے۔ مثلًا:

”متعدد تحقیقات کے باجود ‘یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ LGBTQ+ والدین ام یاب والدین ہیں۔

بہت ساری تحقیقات میں LGBTQ+ رویہ رکھنے والے جوڑوں کے پروردہ بچے عام والدین کے بچوں کے مقابلے میں بہت سارے اشاریوں میں مختلف ہوتے ہیں۔”

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ضمن میں کی گئیں تمام تر تحقیقات قابل اعتنا نہیں ہیں اور محض ردی کا پلندہ ہیں جیسا کہ بعض حلقوں کی جانب سے باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہرگز نہیں! اس پہلو سے تحقیقات قابل قدر ہیں، جن کی اپنی اہمیت ہے اور وہ بہت ساری خامیوں سے پاک ہیں۔ یہاں بس یہ بتانا مقصود تھا کہ آنکھیں اور دماغ بند کرکے محض محققین اور تحقیقات کا کلمہ رٹنے سے سائنسی بنیادوں پر کسی ڈسکورس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ضرور دیکھا جائے گا کہ جو تحقیقات پیش کی جارہی ہیں، ان کی حدود کیا ہیں! ان کا ڈیزائن کیا ہے! ان کے مفروضات ان کے نتائج کے ذریعے سے فیصل ہو رہے ہیں یا نہیں۔

جنسی رویہ: اس ڈسکورس کے اس نکتے کے تحت تیسرا بڑا مسئلہ جنسی رویے کی تعریف ‘حدود’ اور افعال کے متعین کرنے کا ہے۔ جنسی رویہ کسے کہیں گے! دل چسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کی تقابلی تحقیقات 4 سے 14 سال کی عمر تک کے بچوں میں ہوئی ہیں۔ زیادہ تر امریکہ یا یوروپ میں ہوئی ہیں۔ دونوں جگہ جنسی رویے کی تعریف کے تعین لیے حدود و دائرہ کار (parameters) تھوڑے مختلف ہیں۔ اس نکتے پر بڑی طویل اور دل چسپ بحثیں ہیں۔ یہ مقالہ اس کا متحمل نہیں ہیں۔ جنسی رویہ کیا کامل فعل سے عبارت ہے۔ یعنی مرد کا مرد کے ساتھ ‘فعل مجامعت’ ہی کامل جنسی رویہ کہلائے گا۔ اگر کوئی فرد صرف کشش محسوس کرتا ہے فعل کی طرف آمادہ نہیں ہوتا اسے کس درجے میں رکھیں گے۔ جو فاعل ہے اور جو مفعول ہے ان دونوں کو ایک ہی درجے میں کیسے رکھا جا سکتا ہے، یا رکھا جانا چاہیے! اگر ہاں تو کیوں؟ اور نہیں تو کیوں؟ جنسی رویہ فعل کے علاوہ اور کن پہلوؤں تک پھیلایا جا سکتا ہے؟ بچوں میں جنسی رویہ کب تکمیل پا جاتا ہے؟ کیا اس کے لیے کوئی اوسط عمر بھی فیصل کی جا سکتی ہے؟غرض اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں، جو اس طرح کی تقابلی تحقیقات میں پیش آتے ہیں اور تحقیق میں جانب داری کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ان تمام تحقیقات کو جو بطور خاص پالیسی کی تدوین میں بطور دلائل پیش کی جاتی ہیں خوب چھان پھٹک کر کسی نکتے کے لیے دلیل بنانا چاہیے۔ لیکن عام طور پر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ غالب اقلیت جب کسی ڈسکورس کی قائل ہو جاتی ہے تو پھر تحقیق کے نام پر بہت ساری بے اعتدالیوں کو بھی گنجائش مل جاتی ہے۔

یہاں والٹر شُم (Walter R. Schumm) کے اقتباس کو نقل کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ شم نظام خاندان LGBTQ+ والدین اور اس ضمن کے غیر معمولی جدید تصورات پر غیر معمولی پکڑ رکھتے ہیں۔ 300 سے زائد اوریجنل مقالات کے مصنف ہیں۔ اور اسکول آف فیملی اسٹڈیز اور ہیومن سروسیز کے ہیڈ اور پروفیسر رہے ہیں۔ اپنے شہرہ آفاق اور غیر معمولی مقالہ بعنوان A Review and Critique of Research on Same-Sex Parenting and Adoption میں رقم طراز ہیں:

”ایل جی بی ٹی مسائل سے متعلق تحقیق کی محدودیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وقت سے پہلے سائنسی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش پر تنقیدی نظر رکھنی چاہیے، چاہے وہ کسی اچھے یا نیک مقصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ اس ضمن میں اتفاق رائے سے بچنے کی ترغیب سب سے پہلے سائنس دانوں بشمول سماجی سائنس دانوں کو دی جانی چاہیے۔ جیسا کہ گونسیورک نے استدلال کیا ہے: ”سائنسی فکر اپنی اصل کے اعتبار سے، ارتقا پذیر اور مبہم ہے” مانزی نے بھی اسی طرح کا استدلال کیا ہے: ”سائنس کبھی بھی حتمی سچائی کی بات نہیں کرتی کیوں کہ اس بات کا ہمیشہ امکان رہتا ہے کہ کوئی بھی سائنسی عقیدہ، چاہے وہ کسی متفقہ رائے کی کتنی ہی نمائندگی کیوں نہ کرے، غلط ثابت ہوسکتا ہے۔ سائنس کی یہ محدودیت سماجی سائنس میں اور زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے، کیوں کہ انسانی سماجی رویے بہت زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔”

اس غیر معمولی مشاہدہ کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ مستند تحقیقات کے حوالے سے یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ عام شادی شدہ جوڑوں اور ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑوں کے پروردہ بچوں میں کن حوالوں سے فرق محسوس کیا گیا۔[2]

نمبر شمارتربیت اور پرورش کے پہلو(مرد و عورت) جوڑوں کے پروردہ بچےہم جنس پرست جوڑوں کے پروردہ بچے
۱جنسی/صنفی ترجیح (sexual orientation)عام جنسی ترجیحسات گنا زیادہ ہم جنسی میلان
۲سماجی اور جذباتی مسائلعامعام کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں
۳خوش باشیعامعام کے مقابلے میں کافی کم ہوتا ہے
۴گانجے کی لتعامعام کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتے ہیں
۵رشتے بنانے میں آسانیعاممشکلات کا سامنا زیادہ کرتے ہیں

واضح رہے کہ یہاں صرف نمونے کے چند پہلو دیے گئے ہیں جو لوگ اس ضمن میں تفصیل سے دیکھنا چاہتے ہیں وہ ماخذ [3-4]کا مطالعہ کریں۔

تحقیقات کیا کہتی ہیں اس کے علاوہ بھی ہم جنس پرست والدین اور ان کے ذریعے بچوں کی پرورش پر ذیل کے پہلوؤں سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہمارے نزدیک جب تک ان پہلوؤں کو کماحقہ ایڈریس نہ کر لیا جائے، اس ضمن میں ہو رہی تحقیقات جانب داری اور غیر جانب داری کی دوئی میں قید رہیں گی۔ وہ پہلو درج ذیل ہیں:

بچوں کے احساسات کو اعداد و شمار کی زبان دینا: اگر یہ ممکن ہے کہ اس سوال کا جواب کوئی دے سکے کہ دو ماؤں والا بچہ، یا دو باپوں والا بچہ اپنے ہم عمروں کے ان سوالات کا کیا جواب دیتا ہے کہ تمھاری والدہ کہاں ہیں! یا تمھارے والد کہاں ہیں! یا وہ جب ہم جنس پرست جوڑوں سے یہ سوال کرتا ہے کہ میرے والد/والدہ کہاں ہیں! ہم جنس پرست والدین کی تربیت کے ڈسکورس میں بچوں کی ذہنی کیفیت کے حوالے سے مضحکہ خیز حد تک سادگی پائی جاتی ہے۔ جو بھی اشاریہ وہ ان احساسات کے ناپنے کے لیے دیتے ہیں وہ ان احساسات کو ناپ ہی نہیں سکتے۔

بچے کے فطری طور پر مختلف ہونے کے احساسات کو قلم بند کرنا

بچہ اپنے اطراف جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو وہ ہم جنس پرست جوڑوں کے گھر میں دیکھتا ہے۔ مثلًا جنسی دوئی والے مکمل رشتے، پیرینٹس ٹیچر میٹ میں اپنی ماں، باپ کا ہاتھ تھامے لڑکے اور لڑکیوں سے مختلف ہونے کے احساس کو پل پل بھگتنے والا بچہ کس قسم کے ‘مائنارٹی اسٹریس’ سے گزرتا ہے اور وہ اس کی ذہنی صحت پر کیا اثر نہ ڈالتا ہوگا؟ اس کے لیے کوئی اشاریہ یا انڈیکس نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ “سوشل ایڈجسٹمنٹ” کے کھوکھلے اشاریے ہیں۔ جن کے نتائج ہمارے نزدیک بالکل بچکانہ سطح کے استنباط اور استخراج ہیں۔

بچے کے ‘جنسی رجحان’ کو متاثر کرنے والے پہلو کی نفی کرنا یا اسے کم کرکے دکھانا

بچے عام طور پر والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ یہ شعور عامہ کا مسلمہ ہزاروں سال پرانا کلیہ ہے۔ دو ہم جنس پرست والدین کو دیکھ کر بچے اپنے جنسی رجحان کے سلسلے میں کیسے کیسے کرب سے نہ گزرتے ہوں گے؟ ہو سکتا ہے ان میں جنسی رجحان بالکل عام ہو! لیکن اپنے والدین کو ہم جنس پرست دیکھ کر وہ کیا سوچتے اور سمجھتے ہیں اس پر بالکل خاموشی ہے! کوئی تحقیق ہم جنس پرست والدین اور LGBTQ+کے معاشرتی ڈسکورس کے اس طرح کے گہرے سوال (deep question) کو قابل اعتنا نہیں سمجھتی، بلکہ الٹا ان کا مذاق اڑاتی ہے۔ کیوں! اس لیے کہ ان سوالات کے جوابات میں غالبًا یہ امکان پوشیدہ ہے کہ وہ اس کھوکھلے ڈسکورس کی عمارت کو دھڑام سے منہ کے بل گرا دے۔

حواشی و حوالہ جات:

  1. Mazrekaj¡ D.¡ De Witte¡ K.¡ & Cabus¡ S. (2020). School Outcomes of Children Raised by Same-Sex Parents: Evidence from Administrative Panel Data. American Sociological Review¡ 85(5)¡ 830–856. https: //doi.org/10.1177/0003122420957249
  2. Schumm¡ W. R. (2016). A Review and Critique of Research on Same-Sex Parenting and Adoption. Psychological Reports¡ 119(3)¡ 641–760. https: //doi.org/10.1177/0033294116665594
  3. Hansen¡ T. (2008). A Review and Analysis of Research Studies Which Assessed Sexual Preference of Children Raised by Homosexuals. Western Journal of Nursing Research¡ 10(5)¡ 550-565.
  4. Fitzgibbons¡ R. P. (2016). Growing up with gay parents: What is the big deal?. The Linacre Quarterly¡ 83(2)¡ 332-336.

مشمولہ: شمارہ مارچ 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223