رجوع الی اللہ کا غالب ترین مطلب تو بہ واستغفار یا انابت الی اللہ ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ اے پیغمبر (میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا وہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور جھک جاؤ اس سے پہلے کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے’’۔ ایک مشہور حدیثِ قدسی میں یہ بشارت بھی ہے کہ: ’بلاشبہ شیطان نے کہا کہ اے رب ،قسم ہے تیری عزت کی، میں تیرے بندوں کو بہکاتا رہوں گا جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی۔ اس پر اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال اور بلند رتبہ کی قسم ہے میں ان کو بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔ ‘‘
توبہ و استغفار انسان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک صفتِ عالیہ بھی ہے۔ ارتکابِ گناہ کے باب میں امام غزالیؒ نے تین درجات کا ذکر فرمایا ہے۔ فرشتوں یا انبیاءؑ کی خصوصیت ہے کہ ان سے کسی گناہ کے سرزد ہونے کاامکان ہی نہیں ہے۔ شیطان کا درجہ یہ ہے کہ اس کو ندامت کے بجائے گناہ پر اصرار ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان میں بنی آدم کا مقام یہ ہے کہ وہ گناہ کے سرزد ہوجانے پر نادم بھی ہوتے ہیں ا ور آئندہ کے لیے اسے ترک کرنے کا پختہ عزم بھی کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی خوش خبری ہے کہ:’’تم میں سے جب کوئی توبہ کرے تو اس سے اللہ تعالیٰ اتنا زیادہ خوش ہوتا ہے کہ جتنا کوئی تم میں سے اپنا گم شدہ مویشی کو پا جانے پر خوش ہوتا ہے۔ ‘‘ کیوں کہ ارشادِ ربانی ہے:’’پھر جو شخص اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔ بےشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ قرآن حکیم میں یہ ترغیب موجود ہے کہ: ’’اے ایمان والو! تم اللہ کے آگے سچی توبہ کرو کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی‘‘۔
تفسیر عثمانی میں ’’رجوع الی اللہ‘‘ کی اصطلاح کے وسیع تر معنیٰ اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ ’’رجوع الی اللہ‘‘ کا لفظ جب مومن کے لیے استعمال کیا جائے تو اس سے مراد ایک مسلمان کا اپنے پچھلے گناہوں سے معافی مانگنا اور حقوق اللہ وحقوق العباد میں اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی ادائیگی کی نیت کرنا نیز آئندہ زندگی میں فرائض و واجبات ادا کرنے اور حرام چیزوں سے بچنے کی پابندی، سنن و نوافل ادا کرنے اور مکروہات سے بچنے کا اہتمام کرنے کی نیت کرنا ہے۔ اسی ’’رجوع الی اللہ‘‘ کا اطلاق جب غیر مسلم پرکیا جائے تو اس کا مطلب گذشتہ نافرمانی اور کفر و شرک والی زندگی سے تائب ہوکر اللہ تعالیٰ اور اس کے احکامات کی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ’’رجوع الی اللہ‘‘ کا استنباط کائنات کی تمام اشیاء پر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس دنیا میں اگرچہ ظاہری طور پر انسانوں کی حکومت ہے اور دنیوی چیزیں انسانوں کی ملکیت میں دکھائی دیتی ہیں، لیکن آخرت میں انسان کے تمام ظاہری اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ہر چیز صرف اللہ کے حکم اور اختیار میں چلی جائےگی۔
کورونا کے زمانے میں آج کل ’إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کا ورد فون پر یا واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ میں ہر روز کئی بارہوتا رہتا ہے۔ اردو بولنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مختلف اصطلاحات اور الفاظ کو مخصوص معنیٰ میں محدود کردیتے ہیں۔ مثلاً انتقال کرنے کا مطلب منتقل ہونا ہوتا ہے لیکن اسے موت کے لیےمخصوص کردیا گیا ہے۔ مرحوم کا بھی یہی حال ہے کہ جس کسی کے لیے استعمال ہوا اس کی مغفرت کے لیے دعا ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ’ لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘ کا ہے۔ ویسے تو یہ ایک عاجزی وانکساری کا کلمہ ہے جس کا معنیٰ ہے ’ نہیں ہے کسی قسم کی قوت اور طاقت مگر اللہ کے سوا یا اللہ کی مدد سے‘ لیکن اس کو بھی شیطان کے بھگانے کا نسخۂ کیمیا بنا دیا گیا حالانکہ شب وروز اذان کے دوران ’حی علی الصلاۃ ‘اور’حی الفلاح‘ کے جواب میں اسے بغیر سمجھے پڑھاجاتاہے۔ یہی حال بغیر سمجھے ’إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ‘ کا ہے کہ کسی کے انتقال کی خبر آئی تو اسے پڑھ دیا۔
یہ کلمہ جس آیت کا آخری حصہ ہے، اس کا سلسلہ کلام کچھ اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ‘‘۔ یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم مدد اس وقت مانگتے ہیں جب مشکل میں ہوتے ہیں مثلاً کورونایا ایسی ہی کسی آزمائش میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے خوب مدد طلب کی جاتی ہے۔ یہاں اس کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ ایسے مواقع پرصبرو نماز کے ساتھ مدد مانگی جائے۔ نماز کے بارے میں تو خیر کوئی غلط فہمی نہیں پائی جاتی مگر صبر کا مفہوم مجبوری میں ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے رہنا لے لیا گیا ہے۔ حالانکہ جب صبر کو استقامت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس کا مفہوم ثابت قدمی ہوتا ہے اور حقیقت میں یہی ثابت قدمی یہاں مطلوب و مقصود ہے۔ اس آیت کریمہ کے اندر مشکل حالات میں اپنے دین پر جمے رہنےاور خوف و ہراس یا حزن و ملال کا شکار ہونے کے بجائے اپنی دینی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ حالتِ نماز میں اللہ سے لو لگانے سے جو حوصلہ ملتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو رات کے آخری پہر اس طرح سربسجود ہوکہ جیسےوہ رب کائنات کو دیکھ رہا ہے یا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔
اس کے بعد والی آیت میں ارشادِ قرآنی ہے:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا‘‘۔ آزمائش کی یہ انتہا ئی شکل ہے کہ انسان اپنی جان کا نذرانہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے پیش کردے۔ اس کے بعد تمام مصائب و آلام کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایک عام آدمی کی ناقص عقل اس موقع پر:’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کا تقاضا کرسکتی ہے لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں یہ آیت یہاں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد فرمایا: ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹےمیں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ‘‘۔ظاہر ہے یہ آزمائشیں ان لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جن کے حصے میں شہادت ابھی نہیں آئی۔ ان لوگوں کو مختلف حالات میں ان کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے۔
کورونا کے دوران یہ معاملات ایک ساتھ پیش آنے لگے اس لیے احساس کچھ شدید ہوگیا۔ فی زمانہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ خوف وخطر میں مبتلا ہوکر گھٹاٹوپ مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کو ذہنی دباؤ یا گھبراہٹ وڈپریشن (depression) نے اپنے پنجے میں جکڑ لیا ہے۔ فاقہ کشی پہلے بھی ہوتی تھی لیکن اس کے ایسے مظاہر منظر عام پر نہیں آتے تھے۔ اب تو یہ حال ہے کہ جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے کا اندازہ لگاتے لگاتے ماہرین تھکے جارہے ہیں۔ ایسے میں فرمان ربانی ہے:’’ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے””۔ اس پورے سیاق میں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ صبر کرنے کا مطالبہ صرف داغِ مفارقت دے کر جانے والوں کے لیے نہیں بلکہ ان آزمائشوں سے گزرنے والی زندہ روحوں سے ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں صبر و ثبات کا مظاہرہ کریں۔ ایسا کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے:’’انہیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں‘‘۔
صبر کو جب محدود معنی میں استعمال کیا جائے تو اس کا حصول نہایت سہل معلوم ہوتا ہے۔ نماز بھی اگر خشوع اور خضوع سے خالی ہو تو اس میں بھی کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن اسی سورۂ بقرہ کی آیت 45 میں فرمان قرآنی ہے:’’صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز یہ ایک سخت مشکل کام ہے‘‘۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے انسان کا ذہن پہلے مادی وسائل کی جانب جاتا ہے اور وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ دنیا ویسے توعالم اسباب ہے اور اس کے سارے اسباب اللہ تبارک و تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں اس لیے ان کو نظر انداز کردینا نعمت خداوندی کی ناقدری ہے۔ اس کے باوجود انھی کو سب کچھ سمجھ کر مسبب الاسباب سے غافل ہوجانا عام انسانی کم زوری ہے۔ دنیا کے تمام سہاروں سے مایوس ہوجانے کے بعد ہی کچھ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کرتے ہیں اور کچھ پھر بھی نہیں کرتے۔
ایمان کی کم زوری اور توکل کی کمی اس مشکل کو مشکل تر بنادیتی ہے لیکن اس معاملے میں استثنا کا ذکر آگے آیا ہے صبرو نماز سے استعانت طلب کرنا: ’’(ان) عاجزوں پر (ہرگز مشکل ) نہیں (جن کے دل محبتِ الٰہی سے خستہ اور خشیتِ الٰہی سے شکستہ ہیں)‘‘۔ یعنی اپنے آپ کو اس کا اہل بنانے کے لیے اپنے قلب کو خشیت الٰہی سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ ان خوش قسمت لوگوں کی دوسری صفت اگلی آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ:’’ (یہ وہ لوگ ہیں) جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔ صبر و نماز سے مدد لینے کی مشکل کو رب کائنات کی طرف لوٹ کے جانے کا یقین اور خوفِ آخرت آسانی میں بدل دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رجوع الی اللہ سے متصف ہونے کے لیے آخرت پر پختہ یقین ناگزیر ہے اس کے بغیر اس منزل پر فائز نہیں ہوا جاسکتا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور رجوع رہنا دراصل اہل ایمان کی ایک اہم صفت ہے۔ سورۂ مؤمنون میں ایمانیات کے بعد عمل کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے، فرمایا کہ مومن:’’جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں، جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، اور جن کا حال یہ ہے کہ جو کچھ بھی دیتے ہیں اسے دیتے ہوئے دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ رجوع الی اللہ کے بعد مومن اس کیفیت میں داخل ہوتا ہےجو ہر تحریکی کا رکن سے مطلوب ہے یعنی: ’’ بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں ‘‘۔ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ بھلائیوں کی جانب تیزی سے دوڑنے اور دوسروں پر سبقت لے جانے کی پیشگی ضرورت رجوع الیٰ اللہ ہے۔ اس کے بغیر کارکنان کو متحرک کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یکسوئی اور شرح صدر کا حصول اور پراگندہ خیالی سے نجات بھی رجوع الی اللہ سے ہی ممکن ہے۔
رجوع الی اللہ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اس کی رہ نمائی قرآن حکیم کی یہ آیت کرتی ہے کہ:’’وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُور‘‘ یعنی ’’زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں ۔‘‘ ظاہر ہے جو رب ذوالجلال زمین و آسمان کا مالک بلکہ سورہ ٔ الحدید میں فرمایا فرمانروا ہے تو سارے معاملات کو کسی اور کی جناب میں نہیں بلکہ اسی کی جانب رجوع ہونا چاہیے۔ اس کائناتِ ہستی کی ہر شئے اللہ کی بندگی کرتی ہے اس کی تسبیح بیان کرتی ہے اور اسی کے احکام بجا لاتی ہے لیکن اس معاملے میں ایک حد تک حضرت انسان کی حالت استثنائی ہے۔ انسانوں سے متعلق ارشادِ قرآنی ہے:’’إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ‘‘۔ یعنی ’’ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا ‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کو شکر اور کفر میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی ہے اور اسی آزادی کا استعمال دراصل اس کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں ابن آدم کا مقصدِ حیات اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ: ’’الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ‘‘۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاتاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے والاہے‘‘۔ یہاں پر یہ بات بتائی گئی کہ پیدائش سے موت تک عرصۂ حیات اس لیے عطاکیا گیا ہے تاکہ آزمائش ہوجائے اور پتہ چل جائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر مخلوقات کی مانند سبھی انسان یکساں عمل نہیں کریں گے۔ کچھ اچھے کام کریں گے تو کچھ برے کام بھی کریں گے۔ اس بات کی وضاحت سورہ حج میں اس طرح ہے کہ:’’وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے ‘‘۔ اسی بنا پر کچھ لوگ زندگی کی آزمائش میں کامیاب ہوں گے تو کچھ ناکام و نامرادجائیں گے۔ اس موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی دوصفات کا ذکر قابلِ توجہ ہےکہ وہ غالب و زبردست یعنی سزا دینے پر قادر ہے لیکن اسی کے ساتھ غفور یعنی معاف کرنے والا یادرگزر فر مانے والا بھی ہے۔
زندگی کے اس امتحان میں کامیابی کی شاہِ کلید عطا کرتے ہوئے سورۂ بقرہ کی آیت 210میں خلاصۂ کلام کے طور پر ارشاد ہے:’’وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ‘‘۔ آغازِ کلام تین آیت پہلے اس طرح ہوتا ہے کہ:’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ ‘‘۔ یعنی زندگی کے تمام شعبوں میں ذوق و شوق کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ ظاہر ہے انسان کے اس ارادے سے شیطان پریشان ہوکر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور مختلف حیلے بہانوں سے اس سے اپنی پیروی کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے خبردار کردیا گیا کہ:’’اور شیطان کی پیروی نہ کرو ‘‘۔ شیطان چوں کہ بہکانے کی خاطر خیر خواہ بن کر آتا ہے اس لیے اس کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ:’’ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے مگر صاف صاف ہدایات کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم ہے ‘‘۔ یعنی اس کی سزا سے مفر نہیں ہے اور اس کا نفاذ حکمت کا تقاضا ہے۔ اس تذکیر دلپذیر کا خلاصہ یہ ہے کہ:’’ (اگراِن ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو) کیا اب وہ اِس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے سا تھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں‘‘۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا منکرین کے سامنے نمودار ہوجانا تو خلاف حکمت ہے مگر انسانوں کے سارے معاملات کا مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونا تقاضائے فطرت ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لیے شیطان سے بغاوت کرکے رب کی جانب رجعت لازمی ہے۔
کائنات ہستی سے درست تعلق استوار کرنے کے لیےبھی:’’وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ‘‘ کا مفہوم سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سورۂ الحدید میں ارشادِ ربانی ہے:’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہو‘‘، یعنی تخلیق کائنات بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے مرہونِ منت ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ’’ اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے ‘‘ یعنی وہی مالک حقیقی دنیا کے سارے اتار چڑھاو کی مکمل نگرانی بھی فرما رہا ہے‘‘۔ کیوں کہ’’ وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف لوٹائےجاتے ہیں‘‘۔ یعنی پوری کائنات اپنے خالق و فرماںروا کی اطاعت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان بھی اگر خود کو اللہ تبار و تعالیٰ کا فرماں بردار بنا لے تو کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور ہر چیز اس کے ساتھ اشتراک و تعاون کرنے لگتی ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ رب کائنات سے بغاوت کربیٹھے تو کائنات کے ہر اصول و ضابطے سے ٹکراتا ہے۔ اس سےسوائے انسان کے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ہاں اس کا عرصۂ حیات اجیرن ہوجاتا ہے اور آخرت کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن عظیم میں آزمائش کی تفصیل مختلف مقامات پر الگ الگ انداز میں بیان کی ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال سورہ الروم میں اس طرح ہےکہ:’’لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتے ہیں،‘‘ یہ عام رویہ ہے کہ جب جان پر بن آتی ہے تو انسان اپنے خالق و مالک کی جانب پلٹتا ہے لیکن یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتی اور حالات بدل دیے جاتے ہیں تو فرمایا:’’ پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘۔ یعنی اس کا کریڈٹ دوسروں کو دینے لگتے ہیں۔ اس میں کبھی کبھار انسان کا اپنا نفس بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس رویہ پر آگے یوں تبصرہ کیا گیا:’’تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں‘‘ اور اس کا انجام یہ بتایا گیا کہ ’’اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا‘‘۔ یعنی جب اللہ تبارک و تعالیٰ پھر سے اپنی رسیّ کھینچ لے گا تو سب پتہ چل جائے گا کیوں کہ: ’’کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟‘‘
کتاب اللہ میں اس کے بعدانسان کے تضاد کی کیفیت بیان کی گئی ہے فرمایا: ’’ جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں، اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں‘‘۔ ان کیفیات کے مظاہر بھی آئے دن منصۂ شہود پر آتے رہتے ہیں۔ انسان کبھی تو اللہ کےسوا دوسروں کی جانب رجوع کرتا ہے تو کبھی مایوس ہوکراللہ سے بھی رجوع نہیں کرتا۔ اس کی وجہ انسانوں کی نظر سے اس حقیقت کا اوجھل ہو جانا ہے کہ: ’’ وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‘‘ یعنی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ’’زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں‘‘۔ بار بار رجوع الی اللہ کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے یہ ایک آیت کافی ہے جو قرآن حکیم میں کئی بار آئی ہے۔
عام طور رجوع الی اللہ کو فرد تک محدود کردیا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اس کا مفہوم امت کی حد تک وسیع کردیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد والی آیت کا فرمان تو پوری عالمِ انسانیت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ارشادِ حقانی ہے: ’’كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ‘‘۔ اس آیت میں امت مسلمہ کو اس کا فرض منصبی یاد دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔ یعنی ملت کافرضِ منصبی خود بھی ہمہ وقت اللہ کی طرف رجوع رہنا ہے اور دیگر لوگوں کو بھی اس جانب متوجہ کرنا ہے۔ نتائج کااندازہ لگا کر مایوس ہوجانا بے معنیٰ ہے کیوں کہ وہ داعی کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس آیت کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے کہ:’’ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا، اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں‘‘۔ دوسروں کی نافرمانی کے لیےملت اسلامیہ مسئول نہیں ہے لیکن ان تک دعوت پہنچانے کی مکلف ضرور ہے اور اسی لیے خیر امت کہلاتی ہے۔
پس نوشت: کورونا کے تناظر میں رجوع الی اللہ کی اصطلاح کو اگر دعوتی مہم کا مرکزی موضوع بنایا جائے توان آیات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جن میں رجوع کے مختلف مشتقات کا استعمال ہوا ہے۔ ایسی آیات بہت زیادہ ہیں اس لیے یہاں راجعون اور اور ترجع الامور تک اپنی گفتگو کو محدود رکھا گیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2020