یہ واقعہ ہے کہ سنگھ پریوار کے وابستگان نے مسلمانوں کے نقطۂ نظر کو جاننے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ اس کے سبب وہ اسلام کی حقیقی معرفت سے محروم ہیں۔ وہ امت مسلمہ سے متعلق ایک لایعنی خوف میں مبتلا ہیں۔ بے علمی کا کچھ ایسا ہی رویہ ہمارا بھی ہے۔آرایس ایس کی سرگرمیوں کے سلسلے میں حقیقت شناسی کے بجائے بیجا اندیشوں کے ہم شکار ہیں۔ بسا اوقات دشمن کی پسپائی بھی ہمیں سازش نظر آتی ہے۔ اس کی کمزوری میں کسی نامعلوم چال کو ڈھونڈ تے ہیں۔ اس کیفیت کے اسباب میں غلط فہمیاں اور مرعوبیت دونوں شامل ہیں۔ یوں صورتحال کا معروضی ادراک ہمارے لیے دشوار ہوجاتا ہے۔
آر ایس ایس کو اپنی تجدید نو(re-invention) کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس نےکیا سوچ کر نئی حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل امر ہے۔ ممکن ہے جس طرح مسلمان پریشان ہیں کہ اگر موجودہ حکمراں ٹولہ دوبارہ منتخب ہوجائے تو ان کاکیا ہوگا ؟ اسی طرح سنگھ کو یہ اندیشہ لاحق ہوکہ اگر ایک سال بعد ہم اقتدار سے بے دخل ہوئے تو ہمارا کیا حشرہوگا ؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نئے زمانے کے جدیدتقاضے اس کو تبدیلی پر مجبور کررہے ہوں۔ ممکن ہے۔ اس کو اپنی گزشتہ خامیوں کا احساس ہوگیا ہو اور وہ مائل بہ اصلاح ہو یا اپنی شبیہ سدھارنا چاہتی ہو ۔ اصل وجہ تو عالم الغیب کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن اس میں شک نہیں کہ سنگھ بدل رہا ہے۔ اس کے لباس میںنیکر کے بجائے پتلون اور اصل شاکھا کے ساتھ ای شاکھا کا اضافہ اس کی علامات ہیں ۔
داخلی اصلاحات
درون خانہ اصلاحات اورداخلی تبدیلیوں سے فارغ ہوکر سنگھ نے اپنے بند دروازے دوسروں کے لیے کھولنے کا جرأتمندانہ فیصلہ کیا ۔یہ اس کے اندر پیدا ہونے والی خود اعتمادی کی دلیل اور کشادگی کا اظہار ہے۔ غیروں کو قابلِ التفات سمجھ کر ان کے تجربات و مشاہدات سے کچھ سیکھنے کی اہمیت و ضرورت کا جذبہ خوش آئند ہے۔ اقتدار کے باوجود سنگھ کو اپنے نا پسندیدہ ہونے کا شدید احساس رہا ہے۔ اس پر قا بو پانے کے لیے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کو بلاکریہ پیغام دیا گیا کہ اس کی دعوت پر عمائدین وطن آسکتے ہیں ۔پرنب مکرجی اس دعوت کو قبول کرکے موضوع بحث بن گئےاورلوگوں نے اخبارات و ٹی وی چینلس پر مثبت و منفی قیاس آرائیاں شروع کردیں۔ اس بہانے سے آر ایس ایس ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوئی۔
دنیا کی ہر تنظیم مقبول ہونا چاہتی ہے ۔ سنگھ نے اس بات کا جائزہ لیا ہوگاکہ مقبولیت میں رکاوٹ کیا ہے۔غالباً اس کی سمجھ میں آیا ہوگاکہ روزآنہ کی شاکھا میں جتنے لوگ آچکے اس سے زیادہ شاید نہیں آئیں گے بلکہ ان کی تعداد میں بتدریج کمی ہی واقع ہوگی اس لیے شاکھا پر مکمل انحصار کرنے کے بجائےبیرونی افرادتک رسائی کے لیے دیگر ذرائع ناگزیرہیں ۔ سنگھ سے لوگ دور ہیںاس لیے کہ ان کے قلب و ذہن میں سنگھ کا ماضی مشکوک ہے۔ انہیں اس کے انتہا پسندانہ نظریات پر اعتراض ہے ۔ سنگھ نے اعتماد کی بحالی کے لیے افکارو نظریات میں تبدیلی کرنےکی ضرورت کو محسوس کیا ۔ دہلی کے وگیان بھون میں ۱۸ تا ۲۰ ستمبر کے دوران انہیں خطوط پر کام کیا گیا۔ وہاں شرکت کی دعوت ایسے لوگوں کو دی گئی جوسنگھ سے دور ہیں۔ ان کے سامنے تنظیم کا تعارف رکھا گیا۔ شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اپنے ماضی کو مختلف طریقے سےاور اپنےنظریا ت کو نئے انداز میں پیش کیا گیا۔ اس مقصد میں موہن بھاگوت کتنے کامیا ب ہوئے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ سنگھ پریواراس نئی ڈگر پر کب تک گامزن رہے گا اور کب دوبارہ اپنی پرانی پٹری پر لوٹ جائے گا یہ شاید خود بھاگوت جی بھی نہ جانتے ہوں۔
تبدیلی کا محرک
پرنب مکرجی نے ناگپور میں جوکچھ کہا اس پر خوب بحث ہوئی لیکن موہن بھاگوت نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ دراصل ہوا کے رخ کی تبدیلی کا مظہر تھے۔ بھاگوت نے کہا ’’تنوع ہماری شناخت ہے ۔ اختلاف رائے فطری ہے۔ہمیں اپنے جداگانہ تشخص کو محفوظ رکھتے ہوئے اختلاف رائے کے باوجود مشتر ک ہدف کے حصول کی خاطر ساتھ آنا چاہیے ۔ کثرت میں حُسن ہے مگر اس کا اختتام وحدت پر ہونا چاہیے‘‘۔ پرنب کی دعوت کا جواز اس طرح پیش کیا گیا کہ’’ مختلف شعبۂ حیات کے لوگوں کو دعوت دینا ہماری روا یت ہے ۔ اگردوسروں کے پاس کوئی قابل اشتراک شئے ہو تو ہم اسے سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم صرف ہندوؤں کو منظم کرنا نہیں چاہتے بلکہ پورے سماج کو متحد کرنا چاہتے ہیں‘‘ ۔ ویسے تو یہ عام سی بات ہے لیکن تحریک کے فکری پیشوا گرو گولوالکر کے خیالات کودیکھیں تو یہ کلمات حیرت زدہ کردیتے ہیں ۔
گولوالکر نے اپنی مشہور کتاب ’بنچ آف تھاٹ‘ میں لکھا تھا ’’ مقصد کے حصول کی خاطرسب سے اہم اور موثر اقدام یہ ہے کہ دستور کے اندر موجود دفاقی ڈھانچہ کو خدا کے واسطے دفن کردیجیے ۔ خودمختار اور نیم خود مختار ریاستوں کو ختم کردیا جائے۔ہمیں ایک قوم، ایک ریاست،ایک قانون اور ایک انتظامیہ کا اعلان کردینا چاہیے۔ہندوستان کے اندر قدیم ہندو قوم رہتی ہے اور اسی کو رہنا چاہیے، ہندو قوم کے علاوہ کسی کو نہیں رہنا چاہیے۔ وہ تمام لوگ جن کا تعلق ہندو نسل، ہندو مذہب ، تہذیب اور زبان سے نہیں ہے وہ قومی زندگی سے باہر ہوجاتے ہیں‘۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے تک بھاگوت جی بھی اس خیال کے حامی تھے ۔ اگست ۲۰۱۴ میں انہوں نے کہا تھا’’ اگر جرمنی میں رہنے والے جرمن کہلاتے ہیں تو ہندوستان میں رہنے و الوں کو ہندو ہونا چاہئے‘‘۔
موجودہ گیان بھاگوت جی کو کیوں پراپت ہوا؟ اس سوال کا جواب ان کے اعتراف میں مضمر ہے کہ ’’سرکار بہت کچھ کرسکتی ہے لیکن سب کچھ نہیں کرسکتی۔ مشترک اہداف کے حصول کی خاطر سماج کو ساتھ آنا ہوگا‘‘۔ پہلے یہ لوگ شاید اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہوجائیں گے تو بزور قوت سب کو ٹھیک کردیں گےلیکن چارسالوں کے تجربے میں اپنی سکت معلوم ہوگئی ہے ۔ پرنب مکرجی کی موجودگی میں بھاگوت نے جو بات کہی اسی کا شکاگو کی عالمی ہندو کانگریس میں اعادہ کیا ۔ انہوں نے کہا ’’ اپنی انفرادی شناخت قائم رکھ کر انسانیت کے مفاد میں، معاشرے کے مفاد میں، قوم کے مفاد میں متحد ہونا ہی ہمارا عزم ہے۔ ہم مختلف آراء رکھنے کے باوجود اجتماعی فیصلے میں یقین کرنے والی ثقافت کو مانتے ہیں۔ ہم کثرت میں وحدت کے حامی ہیں۔ ہم عبادت کے طریقہ، زبان،عقائد کی بنیاد پرتفریق نہیں کرتے ۔ قومیت کے سوال پر اپنی الگ شناخت برقرار رکھتے ہوئے ہم ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں‘‘۔
داخلی انتشار
بھاگوت نے شکاگو میں ایک خاص تناظر کے اندر شیر کی مثال دی جس کو سیاق و سباق سے ہٹا کر کچھ کا کچھ کردیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’ جب سنگھ سیوک ہندو اشراف سے متحد ہونے کا تقاضہ کرتے تھے تو جواب ملتا تھا شیر جھنڈ میں نہیں چلتا ۔ ہندو ہزاروں سال سے اس لیے معتوب ہیں کہ وہ متحد نہیں ہوتے۔ تنہا شیر کوجنگلی کتے بھی پھاڑ کھاتے ہیں‘‘ ۔ اس مثال میں ہندووں کی مشکلات کا سبب مسلمانوں کے اقتدار کو نہیں ٹھہرایا گیا ہے بلکہ ان کے داخلی انتشار کو سبب بتایا گیا ۔
بھاگوت نے آگے کہا’’ ہندو کسی کی مخالفت نہیں کرتےکچھ لوگ ہمارے مخالف ہیں لیکن ہم تو اپنے ساتھ رہنے والے کیڑے مکوڑوں کو بھی نقصان نہیں پہنچاتے‘‘۔ لیکن اس بات اور مثال کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگوں نے صدیوں تک اپنے ہی ہم مذہب شودروں کو جس طرح دبا کر رکھا اس کی دنیا کی تاریخ میں دوسری مثال نہیں ملتی ۔اس کے باوجود یہ کذب گوئی دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اب آگے یہ فریب نہیں چلے گااس لیے پرانا نقاب اتار کر نیابھیس اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنے مخالفین کو کیڑے مکوڑے قرار دینا تضحیک آمیز ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ انہیں نقصان نہ پہنچانے کی بات بھی ہے۔
گولوالکر سے جرأت
موجودہ سرکارکے اقتدار میں آنے کے بعد ایک مرتبہ بی جے پی کے سارے ارکان پارلیمان کو تر بیت کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس کے برعکس اس بار وگیان بھون میں غیروںکو بلایا گیا ۔اس موقع پر سرسنگھ چالک نے کہا ’’میں اپنی تنظیم کے متعلق چند حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ میں آپ کو قائل یا آپ کی رائے کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا۔ میں دعوت دیتا ہوں کہ آپ مطالعہ کرکے تصدیق کریں ۔ہمارے پاس آئیے ۔ مشاہدہ کیجیے کہ ہم کیسے کام کرتے ہیں؟ اور ان معلومات کی بنیاد پررائے بنائیے‘‘۔ پہلے دن بھاگوت جی نے ماضی کے داغ دھبے دھونے کے لیے کانگریس کی دل کھول کر تعریف کی ۔ جنگ آزادی میں اس کی کوششوں کو سراہا اور یہ کہا کہ ’’ سنگھ کے بانی کانگریس کی جدوجہد میں شامل ہوئے تھے اور جیل بھی گئے۔ موتی لال نہرو کے کہنے پر وہ باہر آئے اور آگے چل کر سنگھ کی بنیاد ڈالی‘‘ ۔ یہاں یہ سوال تشنہ رہ گیا کہ سنگھ کو انہوں نے جنگ آزادی کا حصہ کیوں نہیں بنایا۔
بھاگوت جی نے جملہ ۳۲ شخصیات کا ۱۰۲ مرتبہ ذکر کیا لیکن اس فہرست کے اندر سے گرو گولوالکر جی غائب تھے۔ ایک بارگروجی کاذکرآیا تو بھی بین الذات شادی کی توثیق کرنےوالے کی حیثیت سے ۔ موہن بھاگوت نے سب سے زیادہ ۴۵ بار سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار کا ذکر کیا بلکہ یہاں تک کہہ گئے کہ سنگھ کو سمجھنے کے لیے آپ کو ہیڈگیوار کو سمجھنا ہوگا۔
ڈاکٹر ہیڈگیوار ایک اچھے متنظم تھے لیکن سنگھ کی فکری اساس کو استوار کرنے کا کارنامہ گرو گولوالکر نے انجام دیا ۔ وہ ۳۳ برس تک سرسنگھ چالک رہے ۔ آریس ایس کے لیے وہ خاصہ نازک دور تھا۔ اس دوران گاندھی جی کے قتل کے بعد سنگھ پر پابندی لگی اور ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ معاملات طے کرکے سنگھ کی دستورسازی کا کام بھی اس دوران ہوا۔ گرو گولوالکر نے اپنے نظریات سے مصالحت کئے بغیر سنگھ کی فکر و نظریہ کو مختلف شعبہ ہائے حیات میں پھیلایا۔ آج ذیلی تنظیموں کے جس جال پر سنگھ فخر کرتا ہے ان میں سے بیشتر کی داغ بیل گرو گولوالکر نے ڈالی ۔ اس کے باوجود جہاں نہرو، گاندھی سے لے کرامبیڈکر، ٹیگور اور سر سید احمد خاں تک کا ذکر نہایت احترام سے کیا جارہا ہو وہاں گروگولوالکر کو نظر انداز کردیا جانا سنگھ کی حکمت عملی میں آنے والی بڑی تبدیلی کا غماز ہے۔
نئی تاویل
اختتامی اجلاس میں بنچ آف تھاٹ کے حوالے سے سوال پوچھا گیا کہ اس میں تو مسلمانوں کو دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں ’’ رہی بات بنچ آف تھاٹ کی تو باتیں جو کہی جاتی ہیں وہ مخصوص حالات اور مواقع کے تناظر میں ہوتی ہیں۔ وہ مستقل (ہر موقع پر مناسب) نہیں رہتیں ۔ ہم نے گروجی کے سدابہار نظریات کا مجموعہ ’سری گروجی: ویژن اینڈ مشن‘‘ کے نام سےشائع کیا ہے جس میں سے خاص مواقع والی باتیں ہٹاکرمستقل آراء (سدابہار باتیں) جمع کردی ہیں ۔ اس کو آپ پڑھیے اس میں آپ کو وہ باتیں نہیں ملیں گی ( جو باعث تردد ہیں)‘‘ ۔ اس کے معنیٰ صاف ہیں کہ آرایس ایس اپنی نظریاتی تبدیلی کا کام کرچکی ہے ۔ اب وہ فکر و نظر پر مبنی ہونے کے بجائے کانگریس کی مانند ایک فرد کی تابع جماعت ہے جس میں گاندھی کی جگہ ہیڈگیوار کا مجسمہ نصب کردیا گیا ہے۔
سرسنگھ چالک کے لیےممکن نہیں تھا کہ مندرجہ بالا تبدیلی کے بغیر وہ سرسید احمد خان کے وہ الفاظ یاد دلا تےجو انہوں نے آریہ سماج کی ایک تہنیتی تقریب میں کہے تھے۔ سرسید نے کہا تھا ’’ مجھے بڑ ادکھ ہوا کہ آپ نے ہم کو اپنے میں شمار نہیں کیا ۔ کیا ہم بھارت ماتا کے پتر نہیں ہیں؟ ‘‘۔ اس کے بعد موہن بھاگوت نے کہا ’’غیرمنقسم ہندوستان میں ۱۸۸۱ سے قبل یہ فضا تھی جو وقت کے ساتھ غائب ہوگئی‘‘۔ بھاگوت جی کو پتہ ہے کہ اس خوشگوار ماحول کو ختم کرنے میں انگریزوں کے ساتھ ہندو مہاسبھا اور سنگھ پریوار نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ’’ اس فضا کو واپس لانا پڑے گا ان کو(یعنی مسلمانوں کو) آپ ہندو مت کہو۔ آپ ان کو بھارتیہ کہو۔ ہم آپ کے کہنے کا سمانّ کرتے ہیں‘‘۔سنگھ پریوار کا یہ مزاج رہا ہے کہ وہ ملک کے سارے مسائل کو مسلمانوں کے دور ِ حکومت سے جوڑ دیتا تھا لیکن یہ تسلیم کرلینے سے کہ ۱۸۸۱ سے قبل اچھا ماحول تھا اس الزام کی ازخود بیخ کنی ہو گئی ۔ اس کے ساتھ اس فضا کو واپس لانے کا عزم دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ جس طرح کا خوشگوار ماحول مسلمانوں نے بنایا تھا سنگھ اس کی برتری کو تسلیم کرکے اس کے اعادہ کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔
ہندوراشٹر
وگیان بھون میں موہن بھاگوت نے ہندو راشٹر کی نئی تعریف پیش کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ انہوں نے کہا ’’ہم کہتے ہیں ہمارا ہندو راشٹر ہے ۔ ہندوراشٹر کا یہ مطلب کہ اس میںمسلمان کا وجود نہیںہونا چاہیے ایسا بالکل نہیں ہے۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں رہنا چاہیے اس دن ہندوتوا نہیں رہے گا ۔ وہ تو وشوا کٹمب (عالمی خاندان) کی بات کرتا ہے‘‘۔گروگولوالکر کے لیے بودھ مت ، جین دھرم اور سکھ مذہب کو ہندو دھرم کے دائرے میں رکھتے ہوئے اسلام اور عیسائیت کو اس دائرے سے خارج کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ انہوں نے اس کے لیے یہ فلسفہ گھڑا کہ وہ تمام مذاہب جو ہندوستان کے اندر پیدا ہوئے وہ اپنے ہیں اور جو باہر سے آئے وہ پرائےہیں ۔ بھاگوت نے عالمی خاندان کی بات کرکے اس فلسفے کو بھی ملیامیٹ کردیا۔ انہوں نے ہندو کی یہ تعریف بیان کی کہ ہندوستان کی تمام تر کثرت کے باوجود قربانی، صبر، باہمی تعاون اور عقیدت جیسی اقدار کو قبول کرنے کے بعد کوئی فرد ہندو کہلاتاہے۔ یہی عقائد و اقدار ہندوستان کے اندر رہنے والے اسلام یا عیسائیت کے پیروکاروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ (گویا ان مذاہب میں جن کی جڑیں ہندوستان کے باہر ہیں۔ )سنگھ کے اندر فکرو نظر کا یہ سب سے بڑا انقلاب ہے۔
مسلمانوں سے سلوک کے علاوہ سنگھ کا سب سے نزاعی مسئلہ ذات پات کی تفریق ہے۔ گروجی تو منو سمرتی کے قائل تھے اور ذات پات کے نظام کو تقدس کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ جیسے ہی ۳ سال قبل بھاگوت صاحب نے کہہ دیا کہ ریزرویشن پر نظر ثانی ہونی چاہیے تو ایک ہنگامہ مچ گیا اور بہار کے الیکشن پر اس کے منفی اثرات پڑے ۔ اب بھاگوت کہتے ہیں ریزرویشن نہیں بلکہ اس کی سیاست مسئلہ ہے۔ ریزرویشن کو اس وقت تک جاری رہناچاہیے جب تک کہ جن کو اس کا فائدہ مل رہا ہے وہ خود اسے ختم کرنے کا ارادہ ظاہر نہ کریں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہزار سال کی بیماری ٹھیک کرنے کے لیے ۱۰۰ یا ۱۵۰ سال نیچے جھک کر رہنا پڑتا ہے تو یہ مہنگا سودانہیں ہے‘‘۔ قومی دستور کو سیکولرزم اور سوشلزم سمیت تسلیم کرنے کا اعلان بھی ایک بڑی فکری تبدیلی ہے۔ ان بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار نے فکر و نظر کے میدان میں اپنی شکست تسلیم کرکے سارے نزاعی افکار سے رجوع کرلیا ہے۔
باطل کا زوال
ایک ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی بام عروج پر ہے سنگھ کا فکری انحطاط قرآن مجید کی وہ آیت یاد دلاتا ہے جس میں ارشاد ربانی ہے ’’اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے ‘‘۔ یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ اقتدار پر قابض ہوجانے کے بعد وہ اپنے نظریات و عقائد کو سختی سے نافذ کرتے اس کے برعکس دیکھا جارہا ہے کہ وہ اس سے رجوع کررہے ہیں اس لیے کہ بدذات درخت کو حکومت کی طاقت بھی استحکام نہیں عطا کرسکتی اور وہ عین بہار کے عالم میں خزاں رسیدہ ہونے لگتا ہے ۔ اس کے برعکس حق کے سلسلے میں فرمانِ ربانی ہے: ’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے ‘‘۔ باطل کی تاریخ شاہد ہے کہ اول تو وہ قوت کے ذریعہ اپنے مد مقابل کو زیر کرنے کی کوشش کرتاہے لیکن جب اس میں ناکامی ہاتھ آتی ہے تو سمجھوتے کی سعی کرتاہے ۔ ایسا لگتا ہے بھاگوت جی اسی تبدیلی کے مرحلے میں ہیں ۔ ماضی میں بدھ اور جین مت کی بابت یہ حکمت عملی کامیاب رہی لیکن دین حق کی کشش کا مقابلہ ان تدبیروں سے نہیں کیا جاسکتا ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018