تحقیق کے مطابق ہماری گفتگو کا پینسٹھ (65)فی صد حصہ کہانیوں اور قصوں سے بھرا ہوتا ہے۔ آپ کوپتا ہے وہاں ایسا حادثہ ہوا!اس نے یہ کہا! فلاں کو کام یابی ملی! فلاں علاقے میں شادی ہے، ہمارے مباحثے میں دل چسپی کا ایک خاص عنصر یہی واقعات، قصے اور کہانیاں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر میکسین الٹیریو، ایک تجربہ کار لیکچرر اور ادیب ہیں، دوران تدریس قصہ گوئی کے طریقوں پر تحقیقات پیش کرچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم نے اپنی معلومات، خیالات اور احساسات کو لکھنا نہیں سیکھا تھا تب بھی ہمیں کہانیاں سنانی ضرور آتی تھیں۔‘‘ فن تحریر سے قبل اقوام قصہ گوئی کے ذریعے اپنی روایات اور ورثے کو اپنی آئندہ نسلوں تک پہنچاتی تھیں۔ کہانیوں سے نہ صرف تاریخ محفوظ ہوتی رہی بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں زندگی کے مختلف تجربات منتقل ہوتے رہے اور انھی کی بدولت تہذیبیں اور روایتیں زندہ رہیں۔ مذاہب عالم کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں نے اپنی اخلاقی اقدار اور اصولوں کے بیان اور ترویج کے لیے کہانیوں کا راستہ اختیار کیا۔
قصہ گوئی قرآن کریم کا نمایاں عنصر ہے۔ قرآن جس اسلوب میں قصے سناتا ہے، اس میں ہمارے لیے سیکھنے کا بڑا سامان ہے۔ قرآن میں مذکور ہر قصے کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ کہیں ڈراوا ہے اور کہیں تسلی اور صبر واستقامت کی تلقین ہے۔ کہیں دعوت کے حق میں دلائل ہیں تو کہیں تزکیہ و تربیت کا سامان ہے۔ اور پھرتمام قصے مل کر اس مقصد کی تکمیل کرتے ہیں جس کے لیےقرآن نازل کیا گیا۔ قرآن میں مذکور قصے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہورہا ہے، اور قصے سے برآمد ہونے والا سبق ہمارے کانوں کو صاف سنائی دیتا ہے۔
قرآن کریم میں قصوں کی کثرت اور تکرار یہ بتاتی ہے کہ انسان کی اصلاح و تربیت میں قصہ گوئی کا اہم کردار ہے۔ ورنہ کلام الہی میں اسے اتنی زیادہ جگہ کیوں کر ملتی۔
عمر کے ہر دور میں انسان کو قصہ اور کہانیاں مرغوب ہوتی ہیں۔ خصوصاً بچپن میں کہانیاں سننے کا شوق عروج پر ہوتا ہے۔ اور والدین کے لیے قصے کہانی سنانا تربیت کا ایک اچھا آزمودہ وسیلہ ہے۔ واضح رہے کہانی سنانا ایک دل چسپ ہنر ہے اور اسے سیکھ لینے کے بعد تربیت کے بہتیرے مسائل حل ہوتے نظر آتے ہیں۔
کہانی سنانے کے فائدے
(الف) اخلاق سنوارنا
اسٹیو جابز ایپل کے بانی جنھوں نےکم عمری میں موبائیل ہاتھ میں دینے کے بجائے بچوں کو کہانیاں سنانے کو ترجیح دی۔ وہ کہتے ’’کہانی سنانے والا اس دنیا کا سب سے طاقتور شخص ہے۔ کہانی سنانے والا آنے والی پوری نسل کا وژن، اقدار اور ایجنڈا طے کرتا ہے۔‘‘ ماہرین نفسیات کے مطابق جب بچہ کہانی سننے بیٹھتا ہے تب اس کا دماغ سیکھنے کے عمل کے لیے بالکل تیار رہتا ہے۔ بچپن کی کہانیاں نہ صرف تا عمر یاد رہ جاتی ہیں بلکہ اپنا تاثر تادیر قائم رکھنے میں کام یاب رہتی ہیں۔ والدین جو خوبیاں بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں ان خوبیوں کے حامل کرداروں کی کہانیاں بچوں کو سنائیں۔ اپنے علاقے ملک و ملت کی ثقافت و تہذیب نیز دین و مذہب کا فلسفہ کہانیوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
(ب) بچوں کی توجہ دینے اور سننے کی صلاحیت
بچوں کو طویل عرصے تک ایک ہی سمت میں توجہ مرکوز کرنا مشکل لگتا ہے۔ ان کی توجہ کو زیادہ دیر تک کسی ایک مقصد کے تحت یا کسی ایک کام کے لیے روکے رکھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا کیوں کہ ان کا ننھا دماغ کچھ ہی دیر میں کہیں اور نکل جاتا ہے۔ تاہم، بچوں کو کہانی سنانے سے ان کی سننے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ کہانی دل چسپ ہو تو وہ زیادہ دھیان دیں گے اور سیکھیں گے کہ کسی خاص موضوع پر اپنی توجہ کیسے بڑھائی جائے۔اس طرح بچوں میں اور وں کو سننے کی صلاحیت اور صبر کی قابلیت پروان چڑھتی ہے جو سماج کے بہترین فردکانمایاں وصف ہے۔
(ج) تخلیقی اور تخیلاتی صلاحیتیں
جب بچے کوئی کہانی سنتے ہیں، تو ان کے ذہن کی اسکرین پر کردار، مناظر، حالات وغیرہ تصورات کی شکل لیتے ہیں۔ واضح رہے یہ موبائیل اسکرین پر کچھ دیکھنے سے بالکل مختلف ہے۔ کہانی سنانے سے بچوں کی قوت متخیلہ پھلتی پھولتی ہے جو کہ تخلیقی صلاحیت کی غذا ہے۔ اور یہی صلاحیت شخصیت میں ہنر مندی، خوداعتمادی، حکمت عملی جیسی قابلیتوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔
بروس کارموڈی، کینیڈا کے ماہر تعلیم اور پروفیشنل قصہ گو ہوا کرتے تھے۔ ان کے مطابق قصہ گوئی (کہانی سنانا) بچوں میں تنقیدی اور تخلیقی صلاحیت بڑھاتی ہے۔کارموڈی اسکول، چرچ اور دیگر اسٹیجوں پر کہانی اور قصہ گوئی کے کئی ورکشاپ کرتے رہے۔ ورکشاپ کی ابتدا وہ اکثر کہانی سے کرتے اور گروپ کے تاثرات اور شرکت کو نوٹ کرتے۔ وہ کہانی کے بعد لوگوں سے پوچھا بھی کرتے کہ وہ کیا محسوس کررہے تھے۔ ان کے مطابق عام طور پر لوگ یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ تصور کر رہے تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہےاور اس کے لیے وہ اس کہانی میں ہونے والے واقعات کو دوسری کہانیوں سے جوڑ رہے تھے۔ کارموڈی کے نزدیک یہ تمام چیزیں تنقیدی سوچ کو بڑھانے کے لیے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہیں، اور ایسی سوچ بچوں میں کہانیوں کے ذریعے ہی بڑھتی ہے۔ انھوں نے Pippin میں دوران انٹرویو گروپ کے تعلق سے اپنے تجربات بیان کیے ہیں کہ کس طرح ان کی کہانی ان سے منتقل ہوکر ایک فرد کے ذہن میں اترتے ہوئے نیا موڑ لیتی ہے جب وہ فرد اسے محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کارموڈی کہتے تھے کہ قصہ گوئی لوگوں کے تخیل کو بہتر بنانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے، کیوں کہ کہانی سنتے ہوئے لوگ فطری طور پر کہانی میں موجود چیزوں کا تصور کرتے ہیں۔
(د) بچوں میں بات چیت کی مہارت
بچوں کو کہانیاں سنانے سے ان میں اظہار خیال کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ کہانیاں انھیں اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ڈاکٹر میکسین الٹیریو کے لیے قصہ گوئی یا کہانی کہنا ایک ایسا عمل ہے جس سے صحت مند بحث کے دروازے کھلتے ہیں، آپس میں تعاون و روابط بڑھتے ہیں، سوال پوچھنے کی قابلیت بڑھتی ہے، جس کی بدولت علم مستحکم ہوتا ہے۔
کہانی سنانے کے دوران اپنے بچوں کو سوالات پوچھنے اور ان کے خیالات پر گفتگو کرنے کے مواقع نکالیں۔اس سے بچوں کی گفتگو میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ وہ والدین کے ساتھ کارآمد وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اچھی بات کرنا بھی سیکھ جاتے ہیں۔
(ہ) یادداشت بڑھانے کے لیے کارآمد
رڈیارڈکپلنگ کا ایک مشہور قول ہے ’’اگر تاریخ کو کہانی کی شکل میں پڑھایا جائے تو اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔‘‘ اور یہی سچ ہے کہ بچے کہانی کے ذریعے واقعات کی ترتیب اور باریکیاں جلدی یاد کرلیتے ہیں۔ دماغ رب العالمین کی طرف سے ایسی عطا کردہ نعمت ہے کہ جس کا جتنا (اچھا) استعمال کیا جائے اتنا ہی وہ تیز اور تندرست رہتا ہے۔ بچوں میں آئی کیو بڑھانے کے لیے کہانی بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ کہانی کے ذریعے بہت سی معلومات وہ ذہن نشین کرنے لگتے ہیں جو ایک دماغی ورزش ہے اور یہ ذہنی نشوونما کے لیے مفید ہے۔
لہذا کہانی سنانا یا قصہ گوئی کرنا ایک نفع بخش عمل ہے اور والدین کے لیےبہترین ہنر ہے۔ اس کے فائدوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس آرٹ کو اپنانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس عمل کی تاثیر اور دل پذیری کو بڑھانے کے لیے درج ذیل کچھ تدبیریں اختیار کرنا مفید ہوگا:
(الف) کہانی سنانے کا مقصد
روتے ہوئے بچے کو چپ کرانا، بہلانا پھسلانا، توجہ کہیں سے ہٹانا، یا نیند بلاناہی کہانی سنانے کا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ کہانی سنانے کا بڑا مقصد ہونا چاہیے، کیوں کہ کہانی تھیراپی کا کام کرتی ہے۔ کہانی کے ذریعے بچوں میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور اچھی عادات سکھلائی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کہانی سنانے کے لیے والدین کے پاس مقصد ہونا چاہیے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ سب سے پہلے مقصد کا تصور کرلیں کہ آپ کے سامنے مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کرنا چاہتے ہیں ؟ ان میں موجودکون سی بری عادت نکالنا چاہتے ہیں؟ ان کے اندر کون سی خوبی ڈالنا چاہتے ہیں؟ مثلاً بچے آپس میں جھگڑتے ہیں تو انھیں صلہ رحمی کے متعلق قصے کہانیاں سنائیں۔ بچوں کو صفائی کی اہمیت بتانی ہے تو اس تعلق سے کہانی سنائی جائے۔
(ب) والدین میں ذوق مطالعہ
اکثر و بیشتر والدین کا یہی سوال ہوتا ہے کہ کہانی کیسے بُنی جائے۔ کہانی بُننا ایک ہنر ہے۔ ایک دوسرے سے دوران گفتگوا فسانے تو معلوم ہوتے رہتے ہیں، لیکن بچوں کی سبق آموز کہانیاں مطالعہ کے ذریعے کم ہی ہماری دسترس میں آتی ہیں۔ ان والدین کے لیے کہانی بُننا مشکل ہے جو اس قسم کے مطالعہ سے فیضیاب نہیں ہوپاتے۔ دنیا کے مشہور و معروف ادبا اور قصہ گوئی کے میدان کے ماہرین بھی یہی صلاح دیں گے کہ سب سے پہلے والدین کو چاہیے کہ بچوں کی کہانیاں اور حکایات کا مطالعہ بڑھائیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ ہوگا اور کہانیاں نظروں سے گزریں گی اتنی ہی آسانی کہانیاں یاد رکھنے اور کہنے میں ہوگی۔ والدین کے پاس ایک ہی موضوع کے تحت کئی کئی کہانیاں ہونی چاہئیں۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ بچہ ایک مرتبہ کہانی سن لے اور فوراً عمل کرے۔ مثلاً ’ہمیشہ سچ بولنا ’ اس اچھی عادت کے لیے صرف ایک ہی کہانی کے بعد بچہ سچ بولنے کا عادی ہو جائے، یہ مشکل ہے۔ ایک ہی کہانی باربار سنانے سے وہ بوریت کا شکار بھی ہوگا۔ مطالعہ کےنتیجے میں ڈھیر ساری کہانیاں والدین کے پاس ہوں۔ جس سے بچوں کی دل چسپی بڑھتی رہے گی۔ والدین تربیتی پہلو کے پیش نظر خود کہانیاں بُن کر بیان کرسکتے ہیں۔
(ج) کہانی سنانے کے لیے مناسب وقت
ماہرین نفسیات کے مطابق تین اوقات: کھانا کھانے کے دوران، سونے سے قبل اور تفریح کے دوران بچے سیکھنے سمجھنے کے لیے بالکل تیار رہتے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہانی سنانے کے لیے سب سے مقبول وقت سونے سے پہلے کا ہے۔ بیڈ ٹائم اسٹوری (سونے کے وقت کی کہانی)کی اصطلاح لوئیس چاندلر مولٹن (امریکی ادیبہ، شاعرہ اور نقاد) نے1873میں اپنی کتاب بیڈ ٹائم اسٹوریز میں پیش کی۔اسکالر رابن برنسٹین (ہارورڈ یونیورسٹی) نے تحقیق پیش کی کہ کس طرح ایک بچے کے سونے کے وقت اونچی آواز میں کہانی پڑھنے یا سنانے کی رسم بنیادی طور پر انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں قائم ہوئی اور بیسویں صدی کے اوائل میں اس عقیدے کے ساتھ اہمیت حاصل کرگئی کہ دن کے اختتام پر بچوں کے لیے سکون بخش سرگرمیاں ضروری ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق والدین اور اولاد کے درمیان اس عمل سے باہمی ہمدردی اور اپنائیت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ بچے نیند کی آغوش میں محبت کے جذبات سمیٹے ہوئے جاتے ہیں جو بچوں کی ذہنی نشوونما اور ان کی صلاحیتوں کے لیے بہترین مشق ہے۔ مغرب میں والدین بچوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے اور پر امن نیند کے لیے سونے سے پہلے کہانی سنانا ضروری سمجھتے ہیں۔ یورپ میں بیڈ ٹائم اسٹوری کے طور پر وسیع خزانہ موجود ہے جو نہ صرف یورپ میں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہے۔ ہندوستان میں ایک دہائی قبل تک دادیوں اور نانیوں میں سونے سے پہلے کہانی سنانے کا عام رواج تھا۔ جس کے باعث ہمارے ملک میں بچوں اور بزرگوں میں کافی دوستی تھی۔ چند معلوم اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس عمل میں کاہلی بڑھتی جارہی ہے۔ جس سے نسلوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔
(د) کہانی کہنے کا فن
کہانی سپاٹ لہجے میں اور ایک ہی سانس میں بیان کرنے کی چیز نہیں ہے۔ کہانی سنانے والے کا لب و لہجہ، اتار چڑھاؤ، چہرے کے تاثرات کہانی میں کشش پیدا کرتے ہیں۔ کہانی اس طرح سنائی جائے کہ پانچوں حواس کی عملی شرکت رہے۔ مناظر کو اس طرح بیان کریں کہ بچے کے ذہن میں تصویریں بنتی رہیں۔
مثال کے طور پر رنگوں کے نام لیں جیسے: ’’خوب صورت ہرے بھرے جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔‘‘ اور ’’باغیچے میں لال گلاب اور سفید موگرے تھے‘‘
کھانے کے بارے میں کوئی بات آئے تو ذائقہ کا نام لیں جیسے: ’’میٹھا شربت‘‘ اور ’’کھٹی املی‘‘
کبھی کبھی کہانی سناتے وقت مختلف آوازوں کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ ہاتھوں کی حرکت کا اپنا کردار ہوتا ہے۔
اس طرح دلآویز مہارتوں کے استعمال سے بچوں کی توجہ بڑھ جاتی ہے۔کہانی آسان اور سلیس زبان میں سنائی جائے لیکن والدین نئے نئے الفاظ کا استعمال کرکے بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
(ہ) فضول کہانیوں سے گریز کریں
ایسے مناظر اور واقعات جن سے خوف طاری ہوتا ہے جیسے بھوت، چڑیل کا ذکر،خوف ناک آوازیں اور منفی قوتوں کی کہانیاں بچوں کے سامنے بیان کرنے سے گریز کریں۔ شیطان، جہنم وغیرہ کا تعارف ضروری ہے لیکن اس طریقے سے نہیں کہ بچہ ڈر جائے بلکہ اس اندازسے کہ بچہ میں ان سے ہوشیار رہنے کا سچا جذبہ پیدا ہو۔ ایسی کہانیاں جو اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام ہوں، انھیں سنانا وقت کا ضیاع ہے۔
(و) اسلامی تاریخ کی یاددہانی
والدین کو چاہیے کہ سبق آموز اور سچی کہانیاں بچوں کو سنائیں۔ کہانی کا مقصد بچوں میں اعلی اخلاقی اقدار کی ترویج ہے چناں چہ ایسی کہانیوں کا انتخاب کریں جن سے بچے اپنا احتساب کرسکیں اور اچھی عادات و اطوار اپناسکے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں کو پچھلی امتوں کے قصے سنایا کرتے اور نصیحت کرتے تھے۔جیسے نبی کریمﷺنے لوگوں کو ان تین آدمیوں کا قصہ سنایا جو چٹان گرنے سے غار میں پھنس گئے تھے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے نیک اعمال کے حوالے سے چٹان کو ہٹانے کے لیے مدد مانگی، یہاں تک کہ وہ ہٹ گئی۔
مسلمان والدین قرآنی قصوں کے ذریعے بچوں کو قرآن سے قریب کرنے کی ترکیبیں کریں۔ انبیائے کرام کے تذکرے، جیسے یونس علیہ السلام اور مچھلی کا واقعہ، ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے واقعات، موسی علیہ السلام اور فرعون کا قصہ، یوسف علیہ السلام کا عفو و درگزر وغیرہ آسان اسلوب میں بچوں کو سنائے جائیں۔ ان قصوں کے ذریعے بچوں میں انبیائے کرام کا تعارف بھی ہوتا رہے گا۔ رسول پاک ﷺ کی پاک سیرت ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔سیرت کی کرنیں بچپن ہی سے معصوم ذہن اور ننھے دلوں میں داخل ہوتی رہیں، تو بچے ایمانداری، سچائی، صداقت، امانت داری، دلیری، رحم دلی، محنت کشی، شرم و حیا اور پاک دامنی جیسی ان گنت اخلاقیات سیکھتے رہیں گے۔ صحابہ و صحابیات کے قصّے شجاعت و اطاعت سے لبریز ہیں۔ تابعین، تبع تابعین، اماموں اور بزرگوں کی زندگیاں علم وعمل کے شوق سے بھری پڑی ہیں۔ اس کے علاوہ پوری اسلامی تاریخ بے باک اور نڈر شخصیات کے عظیم الشان کارناموں سے مزین ہے۔ والدین اگر اپنی نسلوں کی دینی و اخلاقی تربیت چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کرتے رہیں۔
کہانی، بچے کی شخصیت میں اعلی اقدار کے پودے اگاتی ہے،ماضی و حال سے اس کے رشتوں کو مضبوط کرتی ہے اور روشن مستقبل کی سیر کراتی ہے۔ اس لیے بچوں کی بہتر پرورش کے لیےکہانیاںسناتے رہیں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2022