مغرب میں انسانی حقوق کا تصور اپنی پشت پر آٹھ صدیوں سے زیادہ طویل تاریخ نہیں رکھتا۔ ویسے مغربی مورخین اپنی تاریخ کے ڈانڈے قدیم یونان وروم کی تہذیبوں سے ملاتے ہیں۔ اتھینز اور دیگر یونانی ریاستوں میں عام درجہ کے شہریوں کو بھی سیاسی وانتظامی حقوق حاصل تھے۔ روم میں فطری قانون کے نظریہ کی تاسیس سسرو(Cicero)نے کی جس کی رو سے یہ دنیا عالمی سطح پر کار فرما قانون فطرت کے تابع ہے اور اس قانون کی روشنی میں تمام انسان برابر ہیں۔ تاہم برطانیہ میں نافذ کئے گئے اعلامیہ میگناکارٹا کو بالعموم مورخین شہری آزادی اور حقوق انسانی کے تصور کے فروغ میں سنگ میل قرار دیتے ہیں۔ میگنا کارٹاکے بعد حقوق اور آزادی سے متعلق اعلامیے مغربی ریاستوں میں نافذ ہوئے جیسے ۴؍جولائی ۱۷۷۶ء کو تیرہ امریکی ریاستوں کے ذریعہ مشتہرکردہ دستاویز جسے تھامس جیفر سن نے لاک اور مانٹیسکو کے افکار کا مطالعہ کرنے کے بعد تیار کیا تھا۔ یا ۱۷۹۱ء میں منظور کردہ قانونی حقوق بل یا ۲۶؍اگست ۱۷۸۹ء کو فرانس میں جاری کردہ اعلامیہ برائے شہری وانسانی حقوق۔ سب سے آخر میں ۱۰؍دسمبر ۱۹۴۸ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے Universal Declaration of Human Rights کا مسودہ اتفاق رائے سے منظور کیا۔
احترام قانون اور تقویٰ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ماہ رمضان ۴۱نبوی دسمبر ۶۱۰ء میں چالیس سال چھ ماہ کی عمر میں جب پہلی وحی نازل ہوئی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے سامنے ایک ریشمی جزدان میں لپٹی ہوئی کتاب پیش کرکے پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ یہ ہدایت نامہ صرف پانچ آیات پر مشتمل تھا اور ان پانچ مختصر آیتوں میں دوباراقرء (پڑھو) کا صیغۂ امر، دوبار علم کا فعل ماضی (اس نے تعلیم دی) ایک بار مالَمْ یَعْلَمْ کا صیغہ مضارع اَخف اور ایک بار القلم کا ورد ہوا تھا پڑھنے، تعلیم حاصل کرنے اور قلم کو استعمال کرنے کے یہ احکام اس ہمہ گیر اور آفاقی تہذیب وثقافت کی تشکیل کا مقدمہ تھے۔ جو تاریخ عالم میں پہلی بار حقوق انسانی کے تحفظ کی علم بردار بننے جارہی تھی، اس تہذیب نے حقوق کے تحفظ کو آئین ودستور کی ضمانت بھی دی اور اس کے ایماندارانہ بے کم وکاست مکمل نفاذ کو یقینی بھی بنایا اور سب سے بڑھ کر ایک ایسی نیت، سوچ اور فکر تشکیل دی جس نے تقویٰ اور خوفِ خدا کی بنیاد پر قانون کااحترام کرنے کا ماحول بنایا اور اس احترام قانون کے جذبہ کو عبادت اور روحانیت کو چاشنی دے کر دوآتشہ کردیا۔ قرآن کریم نے اعلان کیا۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۱ۚ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۲ۚ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۳ۙ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۵ۭ (العلق:۱تا۵)
’’پڑھو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو۔ تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ ‘‘
اِن آیات کے نزول کے بعد تقریباً چالیس دن تک وحی کا سلسلہ بند رہا جسے حدیث میں فترۃُ الوحی کہا گیاہے۔ پھر اس وقفہ کے بعد جب از سر نو نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کاآغاز سورہ مدثر کی ابتدائی سات آیات سے ہوا۔ (۱)امام زہریؒ اس وقفہ کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ایک مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول بند رہا۔ اور اس زمانہ میں آپ پر اس قدر شدید غم کی کیفیت طاری رہی کہ بعض اوقات آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرادینے کے لیے آمادہ ہوجاتے تھے۔ لیکن جب کبھی آپ کسی چوٹی کے کنارے پہ کھڑے ہوتے تو حضرت جبریل علیہ السلام متوجہ ہوکر آپ سے کہتے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اس سے آپ کے دل کو سکون حاصل ہوجاتا تھا۔ (راہ اضطرابیت دُور ہوجاتی تھی۔ ‘‘
اس کے بعد امام زہریؒ حضرت جابر بن عبداللہؓ ہی کی یہ روایت نقل کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فترۃ الوحی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا: ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا۔ یکایک میں نے آسمان کی طرف سراٹھایا تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جوغار حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہوگیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اُڑھاؤ، مجھے اُڑھاؤ چنانچہ گھر والوں نے مجھ پر لحاف (یا کمبل) اُڑھادیا۔ اُ س وقت اللہ نے وحی نازل کی یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ…. پھر لگاتار مجھ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ ‘‘
سورۂ المدّثر کی وہ آیات یہ تھیں:
يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۱ۙ قُـمْ فَاَنْذِرْ۲۠ۙ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۳۠ۙ وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۴۠ۙ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۵۠ۙ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۶۠ۙ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ۷ۭ (المدّثر۱-۷)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دور ہو اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔ ‘‘
ان آیات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی جامع ہدایات دی گئیں:
(۱) بندگان خدا کو خواب غفلت سے اٹھانے اور انہیں انجام بد سے آگاہ کرنے کی تعلیم۔
(۲) اللہ کی بڑائی اور توحید کا علم عام کرنے کاحکم۔
(۳) کپڑے پاک رکھنے کی ہدایت ، جس میں جسم ولباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں شامل ہیں۔ اس میں راہبانہ تصور مذہب کی نفی ہے کہ میلا کچیلا ہونا تقدس کی علامت ہے حکم دیاگیا کہ ظاہری حالت کو بھی پاکیزہ ، نفس اور شائستہ رکھو۔ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ لباس کی پاکیزگی کے ساتھ فخر وغرور، ریا ونمائش، اور شان وشوکت کے ہرشائبہ سے آدمی پاک ہو۔ اس میں اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کی تعلیم بھی ہے۔
(۴) گندگی سے دور رہنے کا حکم۔ اس میں ہر قسم کی گندگی مراد ہے خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو یا اخلاق واعمال کی، یا جسم ولباس اور رہن سہن کی۔
(۵) احسان کرنے اور بے غرضانہ مطا لبہ پیش کرنے کا حکم۔
(۶) صبر کرنے اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینے کی ہدایت۔
اس کے بعد اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہی مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں اور آگے چل کر مدینہ کی دس سالہ زندگی میں مختلف حالات وضروریات کے تحت احکام آتے رہے اور اللہ کی ہدایت سے مسلم معاشرہ فیض یاب ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ۱۰ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر اس دین اور ضابطۂ حیات کی تکمیل کا اعلان کردیاگیا۔
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (المائدہ:۳)
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔ ‘‘
نزول وحی کی یہ تئیس سالہ تاریخ حقوق انسانی کی تاریخ ہے۔ قرآن کریم کی شاید ہی کوئی سورت ہو جس میں ان حقوق کی ادائیگی پر زور نہ ہو اس لیے کہ دین اسلام کی تعلیمات کا محور صرف دو ہیں۔ (۱) حقوق اللہ کی ادائیگی اور (۲) حقوق العباد کی رعایت ونگہداشت۔
سورۃ المائدہ کی مندرجہ بالا آیت نے صراحت کردی کہ دین کو اللہ نے مکمل کردیا ہے۔ دین کو مکمل کرنے سے مراد اُس کو ایک مستقل نظام فکر وعمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب وتمدن بنادینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے یہاں نعمت تمام کرنے کا تذکرہ بھی ہے جس سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کردینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان نے خدا کی اطاعت وبندگی اختیار کرنے کا جواقرار کیا تھا، اس کو چونکہ وہ اپنے سعی وعمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کرچکےتھے، اس لیے خدا نے اسے درجۂ قبولیت عطا فرمایا ہے اور انہیں عملاً اس حالت کو پہنچادیا ہے کہ اب فی الواقع خدا کے سوا کسی کی اطاعت وبندگی کا جو ا اُن کی گردنوں پر باقی نہیں رہا۔ دور اوّل کے اہل ایمان صحابہ کرام سے یہ خطاب قیامت تک کے لیے تمام مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ اب دین کی تکمیل ہوچکی ہے اس میں کسی حذف واضافہ کی گنجائش قیامت تک کے لیے نہیں ہے۔ یہ دین اپنی اصل شکل میں اصولی اعتبار سے ہدایت ورہنمائی کے لیے کافی ہے۔ حقوق انسانی کے تناظر میں بھی قرآن کریم مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اور یہ رہنمائی منفرد اور ممتاز صفات کی حامل ہے۔
تعداد کی کثرت وقلت سے بے نیازی
حقوق انسانی کے تعلق سے قرآن کریم کی پہلی ہدایت یہ ہے کہ مسلمان خواہ قلیل التعداد ہوں یا کثرت میں ہوں، حاکم ہوں یا محکوم، مظلوم ہوں یا شریک اقتدار ہوں ہرحال میں ان حقوق کی ادائیگی کے پابند ہیں۔ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مسلمان بدترین مظلومیت اور کرب واذیت کے دور سے گزررہے تھے اور انہیں اپنے دماغ میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ تھی مگر جو قرآن میں سورتیں نازل ہورہی تھیں ان میں انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کی خاص تاکید تھی۔ سورۃ البلد قرآن کی موجودہ ترتیب کے مطابق ۹۰ویں سورت ہے مگر اس کا نزول مکہ کے بالکل ابتدائی دور میں ہوا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی پر تُل گئے تھے اور آپؐ کے خلاف ہر ظلم وزیادتی کو انہوں نے اپنے لیے حلال کرلیا تھا۔ مگر سورہ کا مضمون دیکھئے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے، قحط اور مصیبت کے دنوں میں انسانوں کو کھاناکھلانے اور صبرومرحمت سے کام لینے کی کتنی خوبصورت تعلیم ہے:
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ۱۱ۡۖ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَۃُ۱۲ۭ فَكُّ رَقَبَۃٍ۱۳ۙ اَوْ اِطْعٰمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَۃٍ۱۴ۙ يَّـتِيْمًـا ذَا مَقْرَبَۃٍ۱۵ۙ اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ۱۶ۭ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ۱۷ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۱۸ۭ
(البلد:۱۱-۱۸)
’’مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا یافاقے کے دن کسی قریبی یتیم یاخاک نشین مسکین کو کھاناکھلانا، پھر (اس کے ساتھ یہ کہ آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔ ‘‘
یہاں قرآن نے غلاموں کو آزاد کرنے، بھوک کی حالت میں کسی قریبی یتیم اور کسی ایسے بے کس ومحتاج کو کھاناکھلانے جسے غربت وافلاس کی شدت نے خاک میں ملادیا ہو اور جس کی دست گیری کرنے والا کوئی نہ ہو، اور صبر اور رحم کی ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کو اعلیٰ اخلاق اور بلند اقدار کی طرف جانے کاراستہ قرار دیا ہے مطلب یہ ہے کہ بلندی کی طرف جانے والا راستہ مشقت طلب اور دشوار گزار ہے مگر اس راستہ پر چلے بغیر انسان بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتا۔
سورۃ البلد کی ان آیات میں قرآن نے حقوق انسانی کے تعلق سے ایک اور سنگ میل قائم کیا ہے جو مغرب کی تاریخ میں ناپید ہے وہ یہ کہ صبرورحمت اور خلق خدا کی خدمت کو رضائے الٰہی کے حصول اور جنت الفردوس میں داخلہ کا وسیلہ قرار دیا۔ اور جو لوگ اس درد دل سے ناآشنا ہوں اور ایمان اور خدمت کو اپنا شعار نہ بناسکیں اُن کے لیے آگ کے شعلوں کی وعید سنائی۔
ایمان اور صبرورحم دلی کی صفات کا انکار کرنے والوں کے بارے میں فرمایا
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۱۸ۭ (البلد:۱۸)
’’یہ لوگ ہیں دائیں باز ووالے۔ ‘‘
اس سے آگے کی آیات میں فرمایا:
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۱۹ۭ عَلَيْہِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ۲۰ۧ (البلد:۲۰-۱۹)
’’اور جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں بازو والے ہیں۔ اُن پر آگ چھائی ہوئی ہوگی‘‘
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2014