’روٹی، کپڑا اور مکان‘ دور حاضر کامشہور نعرہ ہے۔ بل کہ حقیقت تویہ ہے کہ یہ محض نعرہ نہیں، عہدِ رواں کی تمام تر دوڑ دھوپ کا محور ہے۔ سیاسی گلیاروں کی تمام سرگرمیاں اسی نعرے سے وابستہ ہیں۔تعلیمی اداروں کی چہل پہل کا مقصد ومحور بھی یہی نعرہ ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ تعلیم و تعلّم، معیشت وسیاست حتیٰ کہ آج کے انسان کاچلنا پھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، کھیلنا کودنا اور ہنسنا رونا سب کا سب اسی سہ لفظی نعرے کے اردگرد گھوم رہاہے۔ اگر غور کیاجائے تو یہ کمی موجودہ زمانے کے انسان میں نہیں،بل کہ اصلاً نقص اُس نظریے اور نظام کے اندر ہے، جو آج صرف دنیا میں نہیں، انسان کے دل و دماغ پر بھی جاری و ساری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ’’آزادسرمایہ کاری‘‘ کا دل فریب جال بچھایا اور انسان اس میں ایسا پھنسااور ایسا جکڑگیا کہ اب اُس کے ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک، کان، زبان غرض کہ تمام اعضا و جوارح سرمایہ کاری ہی کی نذر ہوگئے۔ اقبال نے اسی المیے کا تو ماتم کیا ہے:
عصر حاضر مَلک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکرِ معاش
اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک مخصوص حکمت کے تحت، ایک متعین مدّت تک کے لیے اپنا کام کررہی ہے۔ جب تمام چرند، پرند اور درند ایک خاص مقصد کے لیے وجود پزیر ہوئے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات کی سب سے اشرف وافضل مخلوق ’انسان‘ کو یوں ہی بے کار ، بے مقصد اور محض موج ومستی یا کھانے کمانے کے لیے پیدا کیاگیاہو۔ یقینا تخلیق بنی آدم کے پیچھے بھی کچھ نہ کچھ مقاصد ضرور کارفرما ہوں گے۔ انسانی زندگی کے انھی مقاصد کی دل نشیں تشریح کانام ہے ’مقصد زندگی کا اسلامی تصور‘ ہے۔ کتاب کے مصنف مشہور ماہر اسلامیات اور فلسفے کے ممتاز عالم پروفیسر ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری ہیں۔ انھوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی اے، فلسفے میں ایم اے، پی ایچ ڈی اور ہارورڈ یونی ورسٹی امریکا سے ایم ٹی ایس کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے بعد سوڈان یونی ورسٹی سے ﴿سوڈان﴾، ظہران یونی ورسٹی ﴿سعودی عرب﴾ اور امام محمد بن سعود یونی ورسٹی ریاض ﴿سعودی عرب﴾ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے طورپر علمی خدمات انجام دیں۔اسی طرح دعوتی خدمات کے طورپر انھوں نے انگریزی و اردو زبان میں ایک درجن کتابیں تصنیف کیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر رہے، متعدد ملکی و غیرملکی اسفار کیے اور مسلم نوجوانوں کی اعلیٰ علمی و دعوتی تربیت کے لیے اسلامی اکیڈمی قائم کی۔
کتاب کاآغاز آٹھ صفحاتی ابتدائیے سے ہوتاہے، جس کا عنوان ہے ’زندگی کا مقصد‘۔ اِن صفحات میں مصنف نے عمومی طورپر مقصود زندگی کی اہمیت سے گفتگو کی ہے اور بتایاہے کہ مقصد زندگی کا سوال اسلامی فقہ اور اسلامی تصوف کے لیے بھی اہم ہے اور خود اسلام کو سمجھنے اور اسلام کے نظریۂ انسان کے ادراک کے لیے بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اس ابتدائیے میں مصنف نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اُن سات بنیادی تصورات کا تعین کیاہے، جو اسلام میں مقاصد زندگی قرار دیے گئے ہیں۔ یعنی عبادت، خلافت، تزکیۂ نفس، تقویٰ، احسان، رضائ الٰہی اور طلب آخرت۔ ان ساتوں میں ابتدائی پانچ تصورات بعینہٰ قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ باقی دو قرآن و سنت کی عربی اصطلاحات کی اردو شکلیں ہیں۔ رضاے الٰہی کے لیے قرآن کریم میں ابتغاء رضوان اللہ، ابتغاء وجہ اللہ اور ابتغاء مرضاۃ اللہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جب کہ طلب آخرت کے لیے ارادہ الآخرۃ اور ابتغاء دارالآخرہ جیسے الفاظ آئے ہیں۔ اسلامی اور غیراسلامی فلسفے پر گہری نظر ہونے کی وجہ سے مصنف نے اس ابتدئی بحث کے اختتام پر یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں انھی تصورات کی مدد سے مقصد زندگی کی تعبیر و تشریح کی جاتی رہی ہے۔ البتہ بعد میں بعض حلقوں میں اِن بنیادی تصورات کی تشریح کے لیے کچھ اور الفاظ استعمال ہونے لگے۔ مثلاً فلاسفہ اور حکماء کی اخلاقی کتابوں میں ’سعادت‘ کا لفظ زندگی کے مقصدِ اعلیٰ کی تعبیر کے لیے استعمال کیاگیا اور صوفیۂ کرام کے مختلف حلقوں میں ’فنا فی الحق‘ یا اِس سے ملتا جلتا لفظ انسان کی آخری غایت کی حیثیت سے پیش کیاگیا۔
کتاب میں مقاصدِ زندگی کے تذکرے میں سب سے پہلے ’عبادت‘ کاذکر ہے اور یہی بحث سب سے طویل ہے۔ انصاف کاتقاضا بھی یہی تھا کہ عبادت پر کی جانے والی بحث سب سے مفصل ہو۔ اس لیے کہ عبادت کسی مخصوص عمل کا نام نہیں ہے۔ اس کا تعلق انسان کی بنیادی وذاتی ضروریات سے لے کر قومی و عالمی ضرورتوں تک ہے۔ بل کہ اگر اجمال سے کام لیاجائے تو زیرنظر کتاب میں ذکر کیے گئے عبادت کے علاوہ تمام مقاصد زندگی بھی عبادت کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ مصنف محترم نے عبادت کی مقصودیت ، عبادت کی لغوی تحقیق، تصورِ عبادت کا تجزیہ، اصحابِ تفسیر وحدیث کی تائید اور قرآن مجید و عبادت جیسے اہم ذیلی عناوین کے تحت عبادت کی حقیقت کو پوری طرح واضح کردیا ہے۔ چوں کہ امام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگردرشید علاّمہ ابن قیّمؒ کے علوم پر ڈاکٹر عبدالحق انصاری اختصاصی نظر رکھتے ہیں، اس لیے عبادت کے متعلق امام ابن تیمیہ کے دو اقتباسات کو نقل کرکے اُنھوں نے عبادت کی تمام بحثوں کاخلاصہ پیش کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تفسیر ابن قیم سے علاّمہ ابن قیم کا ایک جملہ نقل کرکے خود امام ابن تیمیہ کے دونوں اقتباسات کا خلاصہ بھی پیش کردیاہے۔ چوں کہ عبادت دین کا سب سے اہم اور دور حاضر میں سب سے مظلوم شعبہ ہے، اس لیے مصنف نے عبادت کی بحث میں مزید وضاحت کے لیے عہد حاضر کے علما کابھی سہارا لیاہے۔ اس ضمن میں علاّمہ سید سلیمان ندویؒ ، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ کے اقتباسات نقل کیے ہیں۔ ساتھ ہی معاشرے میں عبادت کے متعلق پائی جانے والی بل کہ پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۶۳ صفحات پر مشتمل عبادت کے متعلق یہ گفتگو اس لائق ہے کہ اس کو مستقل کتابچے کی شکل میں شائع کرکے گھر گھر پہنچایا جائے تاکہ مسلم معاشرہ عبادت کے حقیقی اور وسیع تر مفہوم سے آشنا ہوسکے۔
مصنف کی ’تقویٰ ‘سے متعلق گفتگو بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں نے عبادت، خلافت اور تزکیۂ نفس کے بعد تقویٰ کو چوتھے مقصد زندگی کی حیثیت سے پیش کیاہے۔اصحاب لغت کے اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح کی ہے کہ تقویٰ کے معنی صرف ڈرنے کے نہیں ہیں، بل کہ ڈرکر بچنے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں تقویٰ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر مصنف نے فرمانِ نبویﷺ ’التقویٰ ہٰہنا‘ کی روشنی میں لکھاہے:
’آپﷺ کے اس اشارے کامطلب یہ ہے کہ دین میں جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف اعمال کی ظاہری صورتیں اور شکلیں نہیں ہیں، بل کہ ان کے ساتھ خدا ترسی ، اخلاص وللہیت بھی ہے۔ حقیقی نیکی وہ ہے جو ظواہر سے گزرکرقلب کی گہرائیوں میں اترجائے۔ عبادت ہو، اخلاق ہو یا خدا کے قانون کی اطاعت ہو، صرف ادائی فرض یا ظاہری پابندی اور خانہ پُری مقصد نہیں ہے، بل کہ مقصود یہ ہے کہ ہر کام پورے شعور اور توجہ کے ساتھ ہو، دلی جذبہ اور لگن کے ساتھ ہو اور خالصتہً خدا کی خوشنودی کے لیے ہو۔ جو عمل خدا ترسی اور اخلاص سے خالی ہو اس کی کوئی قیمت نہیں، خدا کے یہاں اسے قبولیت حاصل نہیں اور آخرت میں اس کا کوئی وزن نہیں ہے۔ اعمال کی مقبولیت، ان کی قدرو قیمت اور ان پر جزا اور انعام کا مدار ارادہ ونیت پر ہے، جس کاتعلق انسان کے ظاہر سے نہیں باطن سے ہے، اعضا وجوارح سے زیادہ قلب سے ہے۔‘ ﴿ص:۲۹﴾
حقیقت یہ ہے کہ اعمال کے ظاہر وباطن یا داخل وخارج کے متعلق پورا مسلم معاشرہ تضاد کا شکار ہے۔ کچھ لوگ تقوے کی ظاہری شکل کو اختیار کرنے پر ہی سارا زور صرف کرتے ہیں اور بہت سے لوگ ظاہر کو فضول یا اضافی شے سمجھ کر باطن کو ہی اصل سمجھ بیٹھتے ہیں اور ظاہری شکل کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ پروفیسر عبدالحق انصاری نے ایک محقق کافریضہ انجام دیتے ہوئے پوری غیرجانب داری کے ساتھ اس بحث کاخلاصہ پیش کیا ہے اور اعتدال کے ساتھ اس بحث کو اختتام تک پہنچایا ہے۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ اعمال میں داخل و خارج یا ظاہر وباطن کی یہ بحث قطعاً درست نہیں ہے۔ ہم کسی داخلی کیفیت کو یہ کہہ کر ترک نہیں کرسکتے کہ یہ مقصود نہیں ہے اور نہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ فلاں خارجی صورت شریعت میںمطلوب نہیں ہے۔ نہ داخلی کیفیات کو ظاہری احوال پر مطلقاً برتری حاصل ہے اور نہ ظاہری احوال کو داخلی کیفیات پر۔ اسی طرح وہ عبادات جن پر داخلی پہلو غالب ہے یا وہ عبادات جن پر خارجی پہلو چھایا ہوا ہے، دونوں کو آپس میں ایک دوسرے پرمطلقاً اوّلیت و افضلیت نہیں دی جاسکتی۔ نماز اور جہاد فی سبیل اللہ کی مثال دے کر مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ یقینا عام حالات میں نماز اہم ترین عبادت ہے، لیکن کیا میدانِ جنگ میں نماز کو مطلقاً جہاد پر فوقیت دی جاسکتی ہے؟ نوافل و سنن کا تو سوال ہی کیا، فرض نمازوں کے بارے میں بھی یہ نہیں کہاجاسکتاکہ انھیں میدانِ جنگ میں کسی حال میں بھی قضا نہیں کیاجاسکتا یا اس کی عام شکل بدلی نہیں جاسکتی۔ اسی بحث کے دوران ڈاکٹر انصاری کے یہ جملے پوری گفتگو کا نچوڑ ہیں:
’اخلاص اور عمل میں مقصد اور ذریعے کا تعلق نہیں ہے، بل کہ روح اور جسم کا تعلق ہے۔ جسم اگر روح سے خالی ہوتو وہ مردہ لاش ہے اور اگر روح جسم سے عاری ہوتو معطل اور بے اثر وجود ہے۔ اخلاص اور عمل کے تعلق کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ ایک کو اوّلاً مقصود اور دوسرے کو ثانیاًمطلوب کہنا بھی غلط ہے۔ مقصودیت میں درجہ بندی دو مختلف چیزوں میں ہوتی ہے، نہ کہ ایک ہی شے میں۔ اخلاص اور عمل دو چیزیں نہیں ہیں۔ ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں، ان میں درجہ بندی کا تصور ہی غلط ہے۔‘ ﴿ص ۴۹﴾
کتاب کے آخر میں’مقدزندگی کا جامع تصور‘ کے عنوان سے خالص علمی اور ٹھوس ضمیمہ بھی ہے، جس میں کتاب کے اندر پیش کیے گئے تمام تفصیلی مباحث کاعطرکشیدکرلیاگیا ہے۔ جامعیت ایسی ہے کہ یہ ضمیمہ خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ زبان پر فلسفیانہ اور منطقی رنگ کے غلبے کی وجہ سے یہ ضمیمہ اپنی دل چسپی کے باوجود عوام کے لیے زیادہ لائق استفادہ نہیں ہے۔
مجموعی طورپر یہ کتاب اپنے بیان کردہ ہر مقصد زندگی پر ایک خاص ترتیب کے ساتھ گفتگو کرتی ہے۔ اُردوالمفردات للامام راغب، المخصص لابن سیدہ، جمہرۃ اللغۃ لابن درید، المصباح المنیر، لسان العرب اردو تاج العروس جیسے اعلیٰ ترین مآخذ کاحوالہ دے کر لفظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے اور ان سب کا جامع مفہوم متعین کیاگیا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے اصحابِ تفسیر وحدیث اور متقدمین و متاخرین کے اقوال کی روشنی میں اپنے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرکے بڑا معقول اصطلاحی مفہوم بیان کیاہے۔ تفاسیر ومجموعہاے احادیث میں عام طورپر طبری، قرطبی، خازن، فتح البیان، شرح مسلم نودی، عمدۃ القاری، روح المعانی، ارشاد الساری، بیضاوی، کشاف، اَبِی السعود، ابن کثیر، ابن حبان، مہائمی، أبوحیان، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور تفاسیر ابن تیمیہ و ابن قیم جیسی مستند ترین کتابوں کاحوالہ دیاگیا ہے۔ پھرآخر میں تیسرے نمبر پر ابن قیم جیسی مستند ترین کتابوں کا حوالہ ہے۔ آخر میں تیسرے نمبر پر صاحب کتاب کبار صوفیا اور حسب ضرورت فقہا کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔ اِسی آخری حصّے میں عام طورپر وہ ابن السراج، ابوالقاسم قشیری، عبدالقادرجیلانی، عبدالحق محدث دہلوی، أبویحییٰ زکریا انصاری، ابوعلی دقاق، سہل بن عبداللہ تستری، عزالدین بن عبدالسلام اور امام غزالی جیسے اکابر کے حوالے دیے ہیں۔
’مقصد زندگی کا اسلامی تصور‘ کے مطالعے کے وقت کسی ایک مقام پر بھی یہ احساس نہیں ہوتاکہ مصنف نے بلاوجہ بات کو طول دیا ہے۔ ہر جگہ اصولِ بحث و تحقیق کی مکمل رعایت کی گئی ہے۔ البتہ مقاصد زندگی کی بیان کردہ تعداد میں کمی بیشی یا تقدیم وتاخیر کے سلسلے میں اختلاف کیاجاسکتا ہے۔ یقین ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری کی یہ کتاب مقاصد زندگی کے اسلامی تصور کی تفہیم میں ایک رہ نما کتاب ثابت ہوگی اور تحریکی حلقے میں اسے خصوصیت کے ساتھ پزیرائی حاصل ہوگی۔
﴿یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۵۲ ۰۰۱۱سے حاصل کی جاسکتی ہے﴾
مشمولہ: شمارہ مئی 2012