گذشتہ چند برسوں سے دینی تعلیم و تربیت کی جو تحریک چل رہی ہے اس نے ملت کے ایک معتدبہ حصے کو لڑکوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی طرف کسی حد تک متوجہ کردیا ہے، لیکن لڑکیوں کی تعلیم کی طرف سے اب بھی خاصی لا پروائی برتی جاری ہے۔ حالاں کہ بنیادی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونا جہاں مردوں کے لیے ضروری ہے وہیں عورتوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: ‘‘(ضروری دینی) علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت کا فریضہ ہے۔’’ اس لیے ملت کے رہ نماؤں کو تعلیم نسواں پر بھی اتنی ہی توجہ صرف کرنی چاہیے جتنی لڑکوں کی تعلیم یر۔ بلکہ سچ پوچھیےتو لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ایک لڑکے کے بننے یا بگڑنے سے جہاں صرف ایک فرد بنتا یا بگڑتا ہے، وہیں ایک لڑکی کے بناؤ بگاڑ پر پورے ایک خاندان کے بناؤ بگاڑ کا انحصار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نئی نسلیں مستقبل کی ان ماؤں ہی کی گود میں پروان چڑھتی ہیں، اور ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ایک بچہ بھلی بری جو باتیں اپنی ماں کی گود یا گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر ابتدائی چند برسوں میں سیکھ لیتا ہے، ان کے اثرات پوری زندگی برقرار رہتے ہیں، اور اتنے گہرے نقوش سیکڑوں اساتذہ اور درجنوں مدارس مل کر بھی نہیں ڈال سکتے۔
ادھر ملک کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اور جبری تعلیم کے تحت ابھی گیارہ سال کی عمر تک اور رفتہ رفتہ چودہ سال کی عمر تک لڑکے لڑکیوں دونوں کو جس نظام و نصاب کے تحت اور جس فضا و ماحول میں تعلیم حاصل کرنا پڑے گی، اس کا تقاضا ہے کہ بچیوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی طرف ابھی سے خصوصی توجہ صرف کی جائے تاکہ حرم کا قلعہ محفوظ رہے۔ اور نہ صرف وہ بچیاں، بلکہ ان کی گود میں پلنے والی آئندہ نسل بھی تجدد و مغربیت، الحاد و شرک اور فیشن پرستی و بے حیائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہتھیاروں سے لیس ہو سکے۔
(حوالہ جماعت اسلامی ہند اور دینی تعلیمی تحریک، ص ۲۰)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2023