جماعت اسلامی ہند کا طریقہ دعوت

بعض امتیازی خصوصیات کا تعارف

اس مضمون میں جماعت اسلامی ہند کے طریقِ دعوت کی تمام امتیازی خصوصیات کا جائزہ لینے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی بعض امتیازی خصوصیات کا تعارف پیش کیا جائے گا۔

پہلی امتیازی خصوصیت: اجتماعی غور و فکر کا ثمرہ

جماعت اسلامی ہند کا دعوت کے سلسلے میں وژن پہلے دن ہی سے بالکل واضح رہا ہے۔ یہ وژن کسی ایک فرد یا دو ایک دانش وروں کی علمی وتحقیقی کاوشوں کا نتیجۂ فکر نہیں ہے، بلکہ قیام جماعت کے آغاز ہی سے مجلسِ شوریٰ نے ملکی حالات کا جائزہ لے کر کتاب و سنت کی روشنی میں دعوت کے تعلق سے وابستگانِ جماعت کی ذہن سازی اور کام کے تعلق سے رہ نمائی کی۔ دعوت کے کام کو اولین ترجیح حاصل رہی۔ دیگر جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ دعوت کے سلسلے میں کوششوں کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

جولائی 1949 کی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں درجِ ذیل باتیں نوٹ کی گئیں:

’’ہندی زبان میں قرآن پاک کے ترجمے اور لٹریچر کی تیاری کا کام منظم طریقے پر جلد شروع کیا جائے۔

غیر مسلموں میں دعوت کا تعارف زائد سے زائد کیا جائے اور اپنے لٹریچر اور شخصی ملاقاتوں سے انھیں یہ سمجھنے کا موقع دیا جائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور کس کام کے لیے اٹھے ہیں۔‘‘

(رودادِ مجلسِ شوریٰ، اگست 1948 تا جولائی 1966، صفحہ: 8-19)

اپریل 1950 میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں ایک فیصلے کے ضمن میں مولانا ابو اللیث اصلاحی ندویؒ دعوت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غیر مسلموں میں کام کرنے کے سلسلے میں طے پایا کہ جماعت اسلامی کو جو کام انجام دینا ہے اس میں غیر مسلمین کی شرکت اور ان کا تعاون بھی ضروری ہے۔ اس لیے جس حد تک بھی ان کو دعوت سے روشناس کرانے کے مواقع میسر آ سکیں ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس سلسلے میں ان سے زیادہ سے زیادہ میل جول پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمیں اور ہماری وساطت سے ہماری دعوت کو سمجھ سکیں یا کم از کم ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے جو آپس کی دوری سے خواہ مخواہ پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔

اسی سلسلے میں یہ بھی طے پایا کہ تربیت گاہ کے پروگرام کے سلسلے میں رفقاء کو غیر مسلمین میں دعوت کو روشناس کرنے کا طریقہ بھی بتلایا جائے اور جہاں جہاں ممکن ہو غیر مسلم لیڈروں سے مقامی جماعتیں بھی ارتباط پیدا کریں اور مرکز بھی ملک کے مشہور غیر مسلم لیڈروں سے ارتباط کی کوشش مناسب طریقے پر کرے۔‘‘

(تشکیلِ جماعت اسلامی ہند کیوں اور کیسے، صفحہ: 97 – 98)

جنوری 1951 میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔ دعوت کے تعلق سے اس کی درجِ ذیل رہ نمائی ملاحظہ کریں:

غیر مسلم عوام سے ربط کے سلسلے میں حسبِ ذیل اصول ملحوظ رکھے جائیں:

ان سے میل جول پیدا کیا جائے اور اپنے اچھے برتاؤ کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی نفرت کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

ان کے ساتھ بات چیت کرنے میں متانت اور سنجیدگی اور ساتھ ہی دعوت اور داعی کے وقار و عزت کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے۔

دعوت پیش کرنے کے سلسلے میں حسبِ ذیل ترتیب ملحوظ رکھنی چاہیے:

ابتدائی ملاقاتیں جو محض ربط ضبط قائم کرنے کے لیے ہوں۔

عام دل چسپی کے مسائل پر بات چیت اور ان کے ضمن میں خداپرستی کی دعوت۔

خداپرستی کی مسلّمہ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش۔

ان مسلّمہ بنیادوں کے تقاضوں کی توضیح۔

(رودادِ مجلسِ شوریٰ، جماعت اسلامی ہند، اگست 1948 تا جولائی 1966)

مجلسِ شوریٰ نے دعوت کا کام کرنے والوں کی ضروریات پر بھی غور و خوض کیا اور اس ضمن میں ضروری اور اہم اقدامات کیے، مثلاً:

ہندی ترجمۂ قرآن کی اشاعت

دیگر زبانوں میں ترجمۂ قرآن کی اشاعت

دعوت کا کام کرنے کے لیے وابستگان کی تربیت اور

مختلف زبانوں میں دعوتی لٹریچر کی اشاعت وغیرہ۔

خلاصہ یہ ہے کہ جماعت کے منصوبوں، پروگراموں اور اقدامات میں دعوت کوئی ضمنی اور سرسری قسم کی بات نہیں رہی۔ جماعت کی مجلسِ شوریٰ نے ہمیشہ دعوت کو ترجیح دی۔ وابستگان کی ذہن سازی کی گئی۔ دعوتِ دین جماعت میں کسی منصبی ذمہ دار یا تنہا فرد کی فکر و تحقیق کا ثمرہ نہیں بلکہ ہمیشہ مجلسِ شوری کے غور و خوض کا ایجنڈا رہا ہے۔ قرآن و سنت اور اسوۂ رسول ہی دعوت کے لیے اصل بنیاد ہیں۔

دوسری امتیازی خصوصیت: اقامت دین کی تکمیل کو آخری منزل قرار دیا گیا

بعض دعوتی گروپوں، تنظیموں اور اداروں کے برعکس جماعت کا کام دعوت سے شروع ہو کر دعوت پر ختم نہیں ہو تا، بلکہ دعوتِ دین سے شروع ہوکر اقامت  دین کی منزل کے حصول تک جاری رہتا ہے۔

جماعت کے سامنے دعوت کے سلسلے میں وہ پوری اسکیم ہے جو قرآن مجید، اسوۂ رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ سے ثابت ہے۔ جماعت کے نزدیک اس دور میں جو کوششیں دعوت سے دعوت تک ہو رہی ہیں وہ قابل قدر اور قابل تحسین ہیں۔ البتہ جماعت نے اپنے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں، اسوۂ رسول ؐ کو سامنے رکھ کر اس پوری اسکیم یعنی دعوت سے اقامتِ دین تک کو سامنے رکھا ہے۔ وابستگانِ جماعت کو اسی کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، نیز مسلمانوں کوبھی اس کی طرف دعوت دیتی ہے۔

اقامتِ دین کی واضح ہدایت سورہ شوریٰ، آیت نمبر 13 میں ملاحظہ کریں:

’’اس نے تمھارے لیے دین کا و ہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسیؑ اور عیسیؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔‘‘

خدا کے رسولوں اور نبیوں نے اپنی قوموں میں صرف دعوتِ دین کا کام ہی نہیں کیا، بلکہ اسلام کے نظامِ عدل و رحمت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ مشرکانہ جاہلیت کے نظام کو ختم کرنے کے لیے تگ و دو کی۔ اس سلسلے میں سورہ الفتح کی آیت 38 کا ترجمہ اور تشریح ملاحظہ کریں:

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘

حضرت محمدؐ کے مقصدِ بعثت کے سلسلے میں سورہ الفتح کی آیت 38 کی تشریح میں مولانا سید احمد عروج قادریؒ لکھتے ہیں:

’’سورہ الفتح کی اس آیت نے بالخصوص خاتم النبین ؐ کی غایتِ بعثت صریح الفاظ میں ہمیں بتا ئی ہے اور ٹھیک یہی غرض و غایت سورہ توبہ آیت نمبر 33 اور سورہ صف آیت نمبر 9 میں بیان کی گئی ہے۔ بعثتِ محمدی ؐکی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ دینِ حق کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کر دیا جائے۔ آیت کے آخری ٹکڑے وکفی باللہ شھیداً نے واضح کیا کہ بعثتِ محمدیؐ کی اس غرض و غایت پر اللہ کی گواہی کافی ہے، کیوں کہ ان کو رسول بنا کر اسی نے بھیجا ہے اور وہی جانتا ہے کہ انھیں بھیجنے کی غرض و غایت کیا ہے۔ اب اگر ساری دنیا مل کر بھی یہ کہے کہ محمد ؐ کی بعثت کا مقصد یہ نہیں تھا تو اس کی بات قابل سماعت نہ ہو گی۔‘‘(امت مسلمہ کا نصب العین، صفحہ 36- 37)

تیسری امتیازی خصوصیت: اسلامی معاشرے کی عملی شہادت

وابستگانِ جماعت دعوتِ دین کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جماعت میں دعوت کے کام کو تقویت پہنچانے کے لیےایک ہدف صالح معاشرہ کی تعمیر رکھا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں اسلام کی جملہ خصوصیات کارفرما ہوں۔ دیکھنے والی آنکھوں کو نظر آ سکے کہ اسلام اس طرح کا خاندان اور معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے۔

ایک مفکر نے کہیں لکھا ہے کہ اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات کے تعارف کے لیے کی جانے والی سیکڑوں تقاریر، ہزاروں ویڈیو فلمیں، ہزاروں کتابیں اور بے شمار کانفرنسیں زمین کے کسی گوشے میں ایک جیتے جاگتے اسلامی معاشرے کے برابر نہیں ہو سکتیں جہاں اسلام کی خیر و برکت، رحمت اور بھلائی، عدل و انصاف، خوشحالی اور تعمیر و ترقی دیکھنے والوں کو نظر آ سکے۔

برادرانِ وطن سے گفتگو کرنے والوں اکثر یہ سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ جس اسلام کا تعارف ہو رہا ہے، جس کی دعوت بھی پیش کی جا رہی ہے اس اسلام پر عمل کرنے والے لوگ کہاں ہیں؟ کیا دنیا میں کوئی مسلم ملک اسلام کا نمونہ کہا جا سکتا ہے؟ اگر ہے تو وہ کون سا ملک ہے؟ بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے برادرانِ وطن کہتے ہیں کہ اسلام کی باتیں تو اچھی اچھی ہیں، یہ صرف کہنے سننے کی ہیں، عملی زندگی میں ان تعلیمات پر عمل نہیں ہو سکتا۔ اگر عمل کرنا ممکن ہوتا تو پہلے مسلمان خود عمل کرتے۔ میقاتِ رواں کے منصوبے میں جماعت نے اپنے وابستگان کو چار بنیادی لازمی کام تفویض کیے ہیں۔ ان میں ایک اصلاحِ معاشرہ ہے۔ ایک نمونے کا اسلامی معاشرہ اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی بہت ساری غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا مؤثر جواب ہے۔ ایک صالح اسلامی معاشرے کی طرح بندگانِ خدا کی بے لوث خدمت بھی دعوت کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ انسانوں کی خدمت کسی شکریہ اور اجر و صلہ کی خواہش کے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا اور فلاحِ آخرت کے حصول کے لیے کرنی ہے۔

چوتھی امتیازی خصوصیت: انسانوں سے ہم دردی اور ان کی خدمت

بے لوث خدمتِ خلق ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک بندہ اللہ سے بے پناہ محبت کرے، اس کے دین کی طرف دعوت دے، لیکن اس کے بندوں سے ہم دردی نہ رکھے اور ان کے مسائل کی شدت کو محسوس نہ کرے۔ بندوں سے محبت کا تقاضا ان کی خیرخواہی، ان کی خوشی اور غم میں شریک رہنا اور ان کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا ہے۔ رسول اللہؐ کی شناخت نبوت سے قبل خدمت کرنے والی ہستی کی تھی۔ نبوت کے بعد اس شناخت کے ساتھ دعوت والی شناخت بھی شامل ہوگئی، پچھلی شناخت میں کوئی فرق نہ آیا۔

یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ اہل اسلام مدعو قوم کے مسائل، مصیبتوں اور دکھ درد سے صرفِ نظر کریں اور صرف دعوت پیش کرنے میں دل چسپی لیں اور بس اسی حد تک ان سے تعلق رکھیں۔ یہ طرزِ عمل دین کی بنیادی تعلیمات اور دعوت کے بنیادی تقاضوں دونوں ہی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انفرادی حیثیت میں خدمت کا کام انجام دینا اور اجتماعی سطح پر رفاہی اداروں کے ذریعے خدمت کی راہیں نکالنا، اہل اسلام کی ذمے داری ہے۔

پانچویں امتیازی خصوصیت: اہم تصورات اور اصطلاحات کی وضاحت

جماعت نے دعوت کے حوالے سے بعض اہم تصورات کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کی ہے۔ ان تصورات سے مسلمان آشنا تو تھے لیکن یہ پوری طرح واضح نہیں تھے۔ ان کی موجودہ حالات میں اہمیت،معنویت اور دعوت کے میدان میں ان کے اطلاق کا قرآنی فہم ناگزیر تھا۔ جماعت نے اس اہم ضرورت کو پورا کیا۔

دعوت اور داعی کیا ہے؟

دعوت فرضِ کفایہ ہے فرضِ عین ہے؟

امتِ مسلمہ کی پوزیشن کیا ہے؟

دعوت، ہجرت، نصرت اور جہاد و شہادت کی اصطلاحات کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟

اس ملک کی حیثیت کیا ہے؟ دار الاسلام، دار الحرب اور دارالامن جیسی اصطلاحات کی اس دور میں کیا معنویت رہ گئی ہے۔ کافر اور مشرک کی اصطلاحات کو بھی واضح کیا۔

اسلام مکمل دین اور کامل نظامِ زندگی ہے، یہ عام مذاہب میں سے ایک مذہب نہیں ہے۔

دیگر مذاہب کے ماننے والے بھائیوں اور بہنوں سے اپنائیت کا تعلق اور اس تعلق کے تقاضےواضح کیے گئے اور ان کے لیے برادرانِ وطن کی اصطلاح رائج کی گئی۔

  • اسلام سب کے لیے ہے
  • حضرت محمدؐ سب کے لیے ہیں
  • قرآن سب کے لیے ہے

مسلمانوں کے بعض حلقوں میں اسلام مسلمانوں کا قومی مذہب، حضرت محمد ؐ مسلمان کہی جانے والی قوم کے ایک پیغمبر اور قرآن مسلم قوم کا مذہبی صحیفہ سمجھا جا رہا تھا۔ اسی طرح بعض مذہبی حلقوں میں تصور تھا کہ کافروں اور مشرکوں کو قرآن نہیں دینا چاہیے۔

جماعت نے مختلف ریاستوں میں مہمات چلا کر ذہنوں کو صاف کیا۔ان اہم حقائق کو واضح کیااور ذہن سازی کی۔

چھٹی امتیازی خصوصیت: سازگار ماحول کی فراہمی

جماعت ملک کے تمام باشندگان کے اندر دعوت کو سننے سمجھنے اور آزادانہ غور و فکر اور فیصلے کے سلسلے میں سنجیدہ اور خوشگوار ماحول بنانے کے لیے سرگرمِ عمل رہی ہے۔ اس کے لیے نہایت ضروری تھا کہ اسلام، مسلمانوں اور تحریکِ اسلامی کے متعلق غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کیا جائے۔ چناں چہ اس کے لیے مختلف ریاستوں میں معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مہمات مثلاً ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تعمیرِ اخلاق‘‘، ’’اپنے پڑوسیوں کو جانیں، ان سے ملیں‘‘، ’’امن و انسانیت‘‘، ’’فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور سماجی انصاف کا حصول‘‘ وغیرہ موضوعات کے تحت چلائی گئی۔

سدبھاؤنا منچ یا کمیٹی، فورم برائے جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور دھارمک جن مورچہ – ریاستی اور مقامی سطح کے ایسے ادارے ہیں جن کے ذریعے جماعت نے ملک کے ماحول اور حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کی ہیں۔ یہ کوششیں معاہدہ حلف الفضول کی یاد دلاتی ہیں۔ اس معاہدہ کے بنیادی مقاصد: 1۔ قیام  امن 2۔ انسانیت، 3۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور 4۔ مظلوموں کی دادرسی تھے۔ (الرحیق المختوم، صفحہ 91)

ان تمام کوششوں کے مقاصد مفادِ دعوت سے ٹکراتے نہیں ہیں، بلکہ دعوت کے حق میں ہیں۔ ترسیلِ دعوت میں کارآمد ہیں۔

ان کوششوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ بعض ملکی امور و مسائل کے لیے برادرانِ وطن کے ساتھ مل جل کر مشرکہ جدوجہد کی راہیں ہم وار ہوں۔ مولانا افضل حسین لکھتے ہیں:

’’جماعت غیر مسلم بھائیوں سے بھی وسیع پیمانے پر بے لوث برادرانہ تعلقات اور روابط قائم کر کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور باہمی دوری و منافرت کو ختم کرنے، رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ کی فضا بنانے اور اسلام و تحریکِ اسلامی سے انھیں صحیح طور سے متعارف کرانے کے ساتھ ان کو اپنے رب کی سیدھی سچی راہ اختیار کرنے کی بھی دعوت دیتی ہے۔ نیز مشترک مقامی اور ملکی امور و مسائل کو مل جل کر حل کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ملی جلی آبادیوں میں مجموعی فلاح و بہبود اور خدمتِ خلق کے لیے رفاہی اور فلاحی ادارے قائم کرنے اور بھلائی کے کاموں کو انجام دینے اور سب کی نظروں میں کھٹکنے والی برائیوں کو دور کرنے میں ان کا تعاون حاصل کرتی ہے اور جہاں اس طرح کا کوئی کام پہلے سے ہو رہا ہو وہاں اپنا تعاون بھی پیش کرتی ہے۔‘‘

(جماعت اسلامی ہند – ملک وملت کی تعمیر میں اس کا رول، صفحہ 7)

جماعت کےوابستگان نے برادرانِ وطن کے سامنے توحید، رسالت اور آخرت کو خالص شکل اور بے آمیز رنگ میں پیش کیا، ان کے تقاضے سمجھائے۔ اس کے ساتھ شرک، اوتارواد اور آواگمن (پنرجنم) کی دلائل اور حکمت کے ساتھ تردید کی۔ اس کے لیے برادرانِ وطن کی زبانوں ہندی اور علاقائی زبانوں میں لٹریچر شائع کیا۔ ان بنیادی عقائد کی توضیح اور تفہیم کے ساتھ ساتھ اسلامی قدروں کا تعارف کرایا گیا مثلاً تکریم انسانیت، عظمتِ انسان، انسانی مساوات، وحدتِ بنی آدم، عورت کی حیثیت، حقوق اور سماج کی تعمیر میں اس کا رول وغیرہ۔

جماعت نے ایک طرف ملک کے اندر دعوت کی ترسیل کے لیے سازگار ماحول بنانے، برادرانِ وطن کے اندر پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف کفر و شرک، الحاد اور باطل افکار کی حکمت اور دلائل کی روشنی میں تردید کی۔

آج جن انسانی اور تہذیبی قدروں کا عالمگیر سطح پر چرچا ہے، آج انسانیت کو ان قدروں پر فخر ہے۔ لیکن دعوتِ اسلامی نے حضرت محمد ؐ کے دورِ نبوت میں ان قدروں کو پیش کیا۔ ان کا نفاذ کیا۔ ان قدروں کے نفاذ میں عقیدہ، رنگ و نسل، زبان و علاقہ کے فطری فرق کو آڑے آنے نہیں دیا۔ ان کی بنیاد پر کسی حامی یا مخالف قوم کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونے دیا۔

جماعت کے طریقِ دعوت کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ دعوت کی ترسیل میں اسلام کی آفاقی قدروں کو بھی بلا لحاظ رنگ و نسل، زبان و علاقہ سب کے لیے پیش کیا۔ ان قدروں میں بعض قدریں تکریمِ انسان، عظمتِ انسان، انسانی مساوات، وحدتِ بنی آدم، سماجی انصاف اور خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ ہیں۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی، رواداری،بھائی چارہ کے فروغ کے لیے جماعت نے ایک جامع پروگرام اپنے وابستگان کو دیا ہے، جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

  • برادرانِ وطنن  محلّے/بستی کے یا کام کرنے کی جگہوں کے، داعیوں کو آگے بڑھ کر تعارف کراتے ہوئے ان کا تعارف حاصل کریں۔
  • اس تعارف کو پائیدار دوستی میں ڈھال لیں۔
  • میل جول بڑھائیں، خوشگوار اور مضبوط تعلقات بنائیں۔
  • ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوں۔ ان کو احساس ہو کہ آپ ان کے خیر خواہ ہیں۔ عیدین میں گھر بلا کر ضیافت کریں۔
  • کوشش کریں کہ ان سے گھریلو سطح پر تعلقات قائم ہوں۔ یہاں بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔
  • ان کے انسانی حقوق ادا کریں۔ ان کی خلاف ورزی نہ ہونے دیں۔
  • مذکورہ پورے پروسیس میں تبادلۂ خیال، حالاتِ حاضرہ پر گفتگو، قرآن کی آیات کے ترجمے، احادیث کے ترجمے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔
  • ان کی دل چسپی دیکھتے ہوئے فولڈر اور کتابچے مطالعہ کے لیے فراہم کریں۔
  •  یہ سارے کام روز مرہ کی زندگی میں فطری انداز میں ہوتے رہیں۔
  • مسلمان وسیع پیمانے پر برادرانِ وطن کے ساتھ ان طریقوں سے خوش گوار اور مضبوط تعلقات بنانے میں کام یاب ہوتے ہیں تو بعض مخالف اسلام عناصر کی نفرت اور تعصبات کو ہوا دینے کی ناروا کوششیں کبھی کام یاب نہیں ہو ں گی۔

برادرانِ وطن سے مسلمانوں کے تعلق اور رویے کے بارے میں ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں:

کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عام انسانوں سے ہمارا تعلق صرف دعوت دینے کا ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہو کہ دیگر تعلقات ہیں تو، مگر ان کی حیثیت ذرائع کی ہے تو یہ بھی غلطی ہوگی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں عام انسانوں سے خوش تعلقاتی، ان کی خدمت، حاجت روائی اور دست گیری، ان کی دل جوئی اور ان کے ساتھ غم گساری وغیرہ نارمل اخلاقی رویے مطلوب ہیں۔ ساتھ ہی ان کو ان کے پروردگار کی بندگی کی طرف بلانا بھی مطلوب ہے۔ مگر ہم سے جو رویہ مطلوب ہے اس پر اس بات کا اثر نہیں پڑنا چاہیے کہ کس انسان نے اپنے لیے کون سا دین پسند کیا، کون سا مذہب اختیار کیا۔(مقاصدِ شریعت، ص 270)

ساتویں امتیازی خصوصیت: معروف ذرائع سے دعوت

جماعت چاہتی ہے کہ مسلمانوں کی زندگیوں میں دعوت کو ترجیح حاصل رہے۔ دعوت کی ترسیل میں جماعت نے ہمیشہ پر امن، تعمیری طریقے اختیار کیے ہیں۔ اخلاقی حدود کا لحاظ رکھا ہے۔ جبر، زور زبردستی، لالچ اور مال و مناصب کی پیش کش – یہ وہ باتیں ہیں جن سے قرآن و سنت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ مناظرانہ اندازِ دعوت، تکرار، بحث اور تلخی، منھ بند کرنا، لاجواب کرنا، فتح اور شکست کا ماحول نہ ہو۔ قرآن کی ہدایت کے تحت حکمت، موعظت اور جدالِ احسن،ڈائیلاگ کے طریقے کو ترجیح دی ہے۔

جماعت نے دعوت کی ترسیل میں ہمیشہ معروف ذرائع، پر امن طریقوں اور اخلاقی حدود کے دائرے میں رہ کر کام کیا ہے۔ دستورِ جماعت میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ

’’جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع اور طریقے استعمال نہ کر ے گی جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہو۔‘‘ (دستورِ جماعت، دفعہ 5،شق 2، صفحہ 8)

دعوت کے لیے جن معروف ذرائع سے جماعت نے استفادہ کیا ہے ان کی فہرست طویل ہے۔ وہ قدیم اور روایتی ہیں اور جدید بھی۔

جماعت نے جدید طریقوں کے سلسلے میں وابستگان کی ذہن سازی کی ہے۔ اس میں دیگر لوگوں کے لیے رہ نمائی بھی ہے کہ ان کے ذریعے دعوت موثر انداز میں پہنچائی جا سکتی ہے۔ ان میں سے بعض درجِ ذیل ہیں:

  • تقابلی مطالعۂ مذاہب اورڈائیلاگ بین المذاہب پروگرام
  • مسجد درشن ، مدرسہ وزٹ پروگرام
  • قرآن پروچن، حدیث پروچن، سیرت پروچن پروگرام
  • قرآن سبھا (چند برادرانِ وطن کے ساتھ ماہانہ نشست میں جماعت کے رفقا منتخب آیاتِ قرآنی کا اجتماعی مطالعہ کرتے ہیں۔)
  • آن لائن دعوہ پروگرام
  • دعوہ آن wheels آٹوز میں دعوتی فولڈر رکھے جاتے ہیں۔ یہ ایک شیلف میں آٹو ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے مسافروں کے پڑھنے کے لیے ہوتے ہیں
  • خطبۂ جمعہ اور نمازِ جمعہ میں برادرانِ وطن کو شریک کرنے کی کوشش کرنا۔
  • نکاح کی سادہ اور اسلامی طریقے پر مجلس میں برادرانِ وطن کو شریک کرنا۔
  • میت اور تدفین کے آداب اور تعلیمات سے واقف کرانا
  • ربیع الاول کے پورے مہینے میں سیرت  رسول ؑ کے سلسلے میں ملاقاتیں۔
  • موجودہ بگاڑ کے تمام ماحول اور مسلمانوں کے اندر خرابیوں کے باوجود اسلامی کلچر اور اسلامی قدروں کا تعارف برادرانِ وطن کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے اور بہت بڑی کشش اپنے اندر رکھتا ہے۔
  • جماعت کی یہ کوشش بہت خاص اہمیت اور قدر و قیمت کی حامل ہے کہ اسلامی قدروں پر عمل کو دعوت کا ذریعہ بنایا جائے۔
  • ہر وہ معروف طریقہ جس کی شریعت میں ممانعت نہ ہو، موجودہ حالات میں دعوت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جماعت نے وابستگان کی ذہن سازی مسلسل کی ہے کہ معروف ذرائع سے دعوت پہنچانے کے بعد مسلسل فالواپ ضروری ہے۔ دعوت کے سلسلے میں ایک بارکوئی سرگرمی خواہ بھرپور دل چسپی اور توجہ سے ہی کیوں نہ ہو کرنے کے بعد کام ختم نہیں بلکہ شروع ہو تا ہے۔

آٹھویں امتیازی خصوصیت: مسائل سے نمٹنے کی سنجیدہ تدبیریں

جماعت نے پیغام حق کو قبول کرنے والوں کے مسائل کے سلسلے میں قرآن و سنت اور ملکی سماج کی صورت حال کے پیشِ نظر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا۔ مختلف مسائل کو شریعت اور ملکی قوانین کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ ان مسائل کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے۔ مسائل کے حل میں تاخیر بھی نہیں ہو نی چاہیے۔ ملک کا دستور اس میں مانع نہیں ہے۔ مسائل کی نوعیت الگ الگ ہے۔ حالات اور مختلف پہلوؤں سے غفلت برتی جائے تو مسائل پیچیدہ ہونے لگتے ہیں۔ جماعت نے بعض اصطلاحات کو اصلاح کر کے رائج کیا، کیوں کہ ان کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ مثلاً نو مسلم اور تبدیلی مذہب جیسے الفاظ۔ اسلام میں داخل ہونے والوں کو نو مسلم کہنا صحیح نہیں ہے۔ یہ مسلم امت کا حصہ ہیں، کوئی الگ فرقہ یا طبقہ نہیں ہیں۔ قبولِ حق تبدیلی مذہب نہیں ہے۔ ہر انسان کی اصل اور حقیقی فطرت ہی دینِ حق ہے۔ انسان کی فطرت اور روح کی گہرائیوں میں ایک خالق، مالک اور پالنہار کی غلامی اور بندگی کا جذبہ پیوست ہے۔ اسلام اسی فطری جذبے کی تکمیل ہے، یہ کسی مذہب کو ترک کر کے نئے مذہب کو قبول کرنا نہیں ہے۔

دستورِ ہند میں کسی بھی مذہب پر عمل کرنے، اس کی بعض شرائط کے ساتھ اس کی تبلیغ و اشاعت کرنے اور قبول یا انکار کی آزادی حاصل ہے۔ یہ بھارت کے دستور میں دفعہ 25 کے تحت بنیادی حق میں شامل کیا گیا ہے۔

نویں امتیازی خصوصیت: رائے عامہ کی مثبت تبدیلی

جماعت نے جاری میقات اپریل 2023 تا مارچ 2027 کے لیے اقامتِ دین کی منزل کی طرف پیشِ رفت کے لیے میقاتی منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کو میقاتی مشن پر مرکوز کیا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی اس کی اہمیت کو اس طرح بتاتے ہیں:

’’اس میقاتی منصوبے کو میقاتی مشن پر مرکوز کیا گیا ہے اور رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کو اس میقات کا مشن قرار دیا گیا ہے۔ جماعت کے تمام حلقے، مقامی شاخیں، ذیلی ادارے اور وابستہ افراد اپنی تمام کوششوں کو اسی مشن پر مرکوز کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کی سرگرمیاں اور کاوشیں اپنے اپنے دائرہ اثر میں رائے عامہ میں ٹھوس مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں۔‘‘

آگے لکھتے ہیں:

’’جو کام بھی ہوں گے وہ ایک مقصدی وحدت کا حصہ ہوں گے اور ایک ہی مشن کے حصول کے ذرائع ہوں گے۔ ہر رکن، کارکن اورتحریک کے ہر فرد کا ایک ہی خواب ہوگا کہ اس کے علاقے میں اسلام کے بارے میں لوگوں کی رائے عامہ مثبت رخ پر بدلے۔‘‘(میقاتی منصوبہ، صفحہ 7)

میقاتی مشن درجِ ذیل ہے:

’’اسلام کے حق میں رائے عامہ کی مثبت تبدیلی اور اس کے لیے مطلوب انفرادی و اجتماعی کردار سازی اس میقات مشن ہے۔‘‘(میقاتی منصوبہ، صفحہ 11)

میقاتی منصوبے میں بنیادی و لازمی کام کے عنوان کے تحت جو کچھ درج کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ:

’’دعوت، اصلاح، تزکیہ اور خدمت جماعت کے اصل کام ہوں گے۔ انھیں باہم مربوط طریقے سے انجام دیا جائےگا۔ اس کام کے ذریعے اسلامی نظریے اور تعلیمات کو نمایاں کیا جائے گا۔ یہ کام تمام ارکان و کارکنان، مقامی جماعتوں اور حلقوں کے لیے لازمی ہو ں گے اور ان کاموں پر ہماری قوتوں اور توانائیوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ صرف ہوگا۔ مساجد اور مختلف ادارے بھی ان کاموں کو پیشِ نظر رکھیں گے۔‘‘(میقاتی منصوبہ،اپریل 2023 تا مارچ 2027، صفحہ 12)

دسویں امتیازی خصوصیت: رکاوٹوں اور چیلنجوں کے ساتھ حکیمانہ تعامل

جماعت کی کوشش رہی ہے کہ دعوت کی راہ میں مسائل اور چیلنجوں کا ادراک کیا جائے اور منصوبہ بند انداز میں ان کا ازالہ کیا جائے۔ جماعت نے ماضی اور حال میں پیش آنے والے علمی و فکری اور عملی چیلنجوں کا دلائل اور حکمت و بصیرت کی روشنی میں حل پیش کیا تاکہ اہل علم و دانش اس پر غور کر سکیں۔

1947 میں ملک کی آزادی اور تقسیم کے فوری بعد فرقہ وارانہ صورت حال بہت کشیدہ ہو گئی تھی۔ تقسیمِ ملک کی ذمہ داری، غلط طور پر مسلمانوں پر عائد کی گئی۔ اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ منافرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مسلمان جینے کا حوصلہ ہار رہے ہیں۔ مایوسی اور مستقبل سے ناامیدی ان پر چھا رہی تھی۔ بڑے پیمانے پر پورے ملک میں جگہ جگہ یک طرفہ فسادات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ یہ حالات دعوت کی ترسیل کےلیے بہت بڑی رکاوٹ تھے۔

ان حالات میں جماعت نے جرأت مندانہ اقدامات کا آغاز کر دیا۔ مسلمانوں کو حوصلہ بخشنے اور ایمان و توکل علی اللہ کے سہارے اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر فریضۂ اقامتِ دین انجام دنیے کی ترغیب دی۔ دوسری طرف اکثریت کو مخاطب کیا، ظلم و ناانصافی اور فساد و بگاڑ کی ملکی سلامتی کے لیے خطرناکی کو واضح کیا۔

جماعت نے مسلمانوں کو خاص طور پر یاد دلایا کہ وہ ملک میں بسنے والی قوموں میں سے ایک قوم نہیں ہیں۔ مسلمان ایک با مقصد نظریاتی اور مشنری امت ہیں۔ ان کی مخاطب پوری انسانیت ہے۔ انسانوں کے مسائل ان کے مسائل ہیں۔ وہ مظلوموں کے لیے کھڑے ہوں، عدل و قسط کے علم بردار بنیں۔ ظالموں کے خلاف حکمت و جرأت کے ساتھ پر امن جدوجہد کریں۔ فرقہ وارانہ اور سیاسی کشمکش کو قبول نہ کریں۔

مسائل اور چیلنجوں کی درجِ ذیل فہرست سے ایک اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ جماعت نے کس طرح کے مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کیا:

  • فرقہ وارانہ اور سیاسی کشمکش کا خاتمہ
  • مسلم قوم پرستی اور اکثریت کی قوم پرستی
  • وحدتِ دین نہ کہ وحدتِ ادیان
  • کلمۂ سوا (قدرِ مشترک) کےصحیح مفہوم کو پیش کرنا اور اسے دعوت کی ترسیل کے لیے بنیاد بنانا۔
  • کفر، شرک اور الحاد اور باطل افکار و نظریات پر جدید لٹریچر
  • ہندوتو کی تحریک اور جارحانہ قوم پرستی۔ ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ۔
  • اسلاموفوبیا
  • جدید الحاد

گیارہویں امتیازی خصوصیت: جدید ترین ذرائع کا استعمال

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دعوت کے لیے استعمال ہر سطح پر کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جماعت اپنے کیڈر کے علاوہ مسلم نوجوانوں اور طالبات اور لڑکیوں کو بھی دعوت کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ بعض مذہبی حلقے ایسے ہیں جن کے نزدیک انٹرنیٹ شیطانی ایجاد ہے، بلکہ ایک سازش ہےاور دعوت اور اصلاح کے کاموں میں مسلمانوں کو چاہیے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال نہ کریں۔ بلکہ انٹرنیٹ سے قبل ماضی سے جو طریقے چلے آ رہے ہیں انھی پر اکتفا کریں۔ اس تعلق سے جماعت کا موقف بہت صاف ہے۔ جماعت کو یقین ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا دعوت کے لیے استعمال کیا جانا ضروری ہے۔ ماضی کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام کی دعوت لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس محاذ پر باطل قوتیں انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر جدید ٹیکنالوجی سے نہایت وسیع پیمانے پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں کہ:

’’انبیا کرام ؑ نے تبلیغ کے وہ طریقے اختیار کیے ہیں جو ان کے زمانوں کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ اور ترقی یافتہ اور یہ طریقے حالات کے تغیر اور تمدنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ بدلتے بھی رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس معاملے میں کسی ایک ہی طریق پر اصرار صحیح نہیں ہے، بلکہ داعیانِ حق کو چاہیے کہ وہ ہر زمانہ میں تبلیغ و تعلیم کے وہ طریقے اختیار کریں جو ان کے زمانوں میں پیدا ہو چکے ہوں اور جن کو اختیار کرکے وہ اپنی کوششوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ مفید اور نتیجہ خیز بنا سکتے ہوں۔‘‘(دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار: صفحہ 72)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ مزید لکھتے ہیں کہ:

’’اگر اہل حق یہ خیال کر کے ان چیزوں کو نظر انداز کر دیں کہ انبیا ؑ نے تبلیغِ دین کے کام میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کیا ہے بلکہ ایک ایک شخص کے پاس پہنچ کر ہی اس پر تبلیغ کی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے لیے بھی اولیٰ یہی ہے کہ ہم ان چیزوں کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ گھر گھر پہنچ کر ہی لوگوں کو تبلیغ کریں تو یہ انبیاؑ کے طریقے کی پیروی نہیں ہو گی، بلکہ یہ شیطان کا ایک بہت بڑا دھوکا ہوگا، جو وہ آپ کو اس لیے دے رہا ہے تاکہ جب تک آپ اپنے دین دارانہ طریقے پر چل کر دو آدمیوں سے کوئی بات کہیں اس وقت تک وہ ان سائنٹفک وسائل سے کام لے کر ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں تک اپنی دعوتِ باطل نہایت مؤثر طریقے سے پہنچا دے۔‘‘(ایضاً، صفحہ: 74-75)

چناں چہ حضرت محمد ؐ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے کہ اس دور کے جو طریقے اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے رائج تھے ان سب سے آپؐ نے فائدہ اٹھایا۔ جو خراب پہلو کسی طریقے میں تھا آپؐ نے انھیں ترک کیا۔ جیسا کہ کوہِ صفا پر آپؑ نے جاہلیت کے ایک کام کو ترک کر کے دعوت پیش فرمائی۔

بے شک اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت میں تمام مسلمانوں کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کی دعوت کا سچا جذبہ اور صحیح شعور عطا فرمائے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223