حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف فرعون ،آل فرعون اور قوم فرعون ہی کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ بل کہ وہ بنی اسرائیل کی طرف بھی مبعوث ہوئے تھے اور ان کی دعوت وہی تھی جو تمام انبیا اور آخری نبی حضرت محمد ﴿مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کی ہے۔ کہ جو ہستیٔ کائنات اور انسان کی خالق، مالک اور حاکم ہے، اسی کو رب اور اللہ کہو اور اسی کی بندگی اختیارکرو۔ اسی کے اطاعت گزار اور فرماں بردار بن کر رہو اور یہ بندگی جس کی دعوت تمام انبیائ نے اپنے اپنے دور کے لوگوں کو دی اور حضرت موسیٰ نے بھی فرعون اور آل فرعون کو ، قبطیوں کو ، بنی اسرائیل کو دی، وہ کوئی محدود بندگی کی دعوت نہیں تھی۔ صرف پوجا پرستش تک محدود نہیں تھی۔ صرف مسجد و مدرسہ یاخانقاہ تک محدود نہیں تھی ، صرف نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ تک محدود نہیں تھی، صرف طلاق و نکاح اور ازدواجی و عائلی زندگی تک محدود نہیں تھی، صرف معاشرت اور معیشت تک محدود نہیں تھی، بل کہ سیاست و اجتماعیت اور حکومت کے تمام شعبوں تک انتظامیہ، مقنّنہ اور عدلیہ تک فوج ،پولیس ،سیاست اور اجتماعیت تک وسیع تھی۔ اس لیے دنیا کے مسلمان، دنیا کے کسی خطّے میں غیراسلامی اور دنیاپرستانہ اقتدار کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوں تو ان کو اسلامی دعوت وتحریک اور تبلیغ دین کامشن اپنا نا ضروری ہے۔ حکمراں طبقے کو خصوصیت سے دعوت پہنچنی چاہیے۔
موسیٰ نے فرعون اورآلِ فرعون کو بھی دعوتِ ایمان و اسلام دی، قبطیوں کو بھی دعوت دی اور بنی اسرائیل کو بھی دعوت دی، مگر بنی اسرائیل میں سے کچھ نوجوانوں کے علاوہ تحریکِ اسلامی برپا کرنے اور سرفروشتانہ انداز میں تبلیغ دین کے لیے کوشش کرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہوا۔ اس لیے کہ فرعون کاخوف تھا اور خود اپنی قوم کے اکابر، اشراف اور رؤسا کاخوف تھا۔
اگر صرف معروف خدا پرستی کی دعوت موسیٰؑ نے دی تھی۔ تو فرعون کو کیاپڑی تھی کہ اپنی وفادادار رعایا کو ستاتا اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتا، جس کے اندیشے سے نوجوان ایمان نہیں لائے اور اگر لائے تو صرف تھوڑی سی تعداد میں لائے۔اگر موسیٰ کی معروف مذہبیت کی دعوت تھی اور سیاست و اجتماعیت اور حکومت اور اس کے شعبوں سے اس کاکوئی تعلق نہیں تھا تو خود بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھے اور جہاندیدہ لوگ اپنے نوجوانوں کو موسیٰ پر ایمان لانے، ان کی رفاقت اختیارکرنے اور ان کے مشن میں شریک ہونے سے کیوں روکتے اور کیوں ان کا مستقبل بگڑنے کا انھیں خطرہ لاحق ہوتا؟ اگر دعوت موسویؑ یا دعوتِ انبیائ صرف خدا اور بندوں کے تعلق تک محدود ہوتی اور اس کا اصول یہ ہوتاکہ خدا کا حق خدا کو دو اور قیصر کاحق قیصر کو دو،موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرعون کے پاس کیوں بھیجاجاتا اور اسے ایمان کی دعوت کیوں دی جاتی اور وہ یہ کیوں کہتاکہ تم دونوں ہماری حکومت چھیننا چاہتے ہو اور خود اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔
درحقیقت بات یہی ہے کہ تمام انبیاؑ کی دعوت ایمان میں دعوتِ بندگی اور دعوتِ اطاعت میں پوری زندگی کے تمام شعبوں میں بندگی کرنے کی دعوت شامل رہی ہے، حکومت کے پاس فوج ہوتی ہے، پولیس ہوتی ہے، قانون ہوتاہے ،عدالت ہوتی ہے، حکومت کے خزانے ہوتے ہیں، ہتھیار ہوتے ہیں، بیڑیاں اور ہتھکڑیاں ہوتی ہیں۔ قید خانے اور جیل خانے ہوتے ہیں، ظالم وجابر حکام اور عملہ ہوتاہے اس لیے حکومت اپنے دائرہ اختیار اور حیطۂ اقتدار میں کسی ایسی تحریک و دعوت کو جائز اور ناجائز ہرطرح کی طاقت اور ہتھکنڈوں سے کام لے کر مٹادینا چاہتی ہے، جس سے اس کے اقتدار کو کسی طرح کاخدشہ اور اندیشہ لاحق ہو ۔ اس لیے بوڑھے جوان مرد عورتیں جہاندیدہ اور ناتجربہ کار لوگ سب ہی حکومت سے ڈرتے ہیں اور ایسی تحریکوں میں حصہ لینے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ جس کی رَد حکومت پر پڑتی ہو، مگر اس کے باوجود انقلابی تحریکیں برپا ہوتی ہیں اور انقلاب رونماہوتے ہیں اور حکومتوں کے تختے الٹ دیے جاتے ہیں۔
بہرحال موسیٰؑ کا ساتھ دینے کے لیے صرف کچھ نوجوان تیار ہوئے تھے، موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس اس لیے بھیجاگیاتھا کہ اسے مملکتِ مصر میں زبردست اقتدار حاصل تھا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے اقتدار کوچیلنج کیاتھا اور ایک فرعون کیا تمام وہ حکمراں جو اللہ کی سیاسی حاکمیت کاانکارکرتے ہیں اور خداپرستی کو غیرسیاسی حدود تک محدود رکھنے کے قائل ہوتے ہیں اور خدائی قوانین اور الٰہی شریعت کی بجائے وضعی قوانین نافذ کرتے ہیں اور اپنے اقتدار میں خدا کے اقتدار سے بے نیاز ہونے میںوہ زبان قال سے نہ سہی زبان حال سے اور اپنے عمل سے یقینا وہی دعویٰ کرتے ہیں، جو فرعون نے اپنے عمل اور حال کے ساتھ زبان سے بھی کیاتھاکہ میں ہی تمھارا رب ہوں یعنی سیاسی حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ بہرحال مجھے ہی حاصل ہے اور اگر خدا ہے تو وہ کہتاتھا کہ اُسے مسجد، مندر اور گُردوارہ تک گرجا تک اور عبادت خانوں تک محدود رکھنا چاہیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو دعوتِ انبیاؑ اور سیکولر ذہن میں بنائے مخاصمت اور بنائے اختلاف اور بنائے عداوت ہے۔
فرعون کو زبردست اقتدار حاصل تھا اور ساتھ ساتھ وہ مسرف تھا۔اخلاق، سیاست، مذہب اورزندگی میں حدود بندگی سے تجاوز کرگیاتھا۔ اس کی زندگی اور حکومت دونوں اللہ سے بغاوت پر قائم تھیں۔ اسی لیے موسیؑ نے اسے ایمان اور زندگی کی دعوت دی تھی، موسیٰ ؑنے بنی اسرائیل سے کہا:
’’اے میری قوم! اگر اللہ پر ایمان رکھتے ہو جیساکہ تمہارا دعویٰ ہے تو اللہ پر بھروسہ اور اعتمادکرکے میرا ساتھ دو اور فرعون کے ڈر سے ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے سر سے کفن باندھ لو۔ فرعون سے نہ ڈرو۔ اللہ سے ڈرو اور میرا ساتھ دو ایمان اور اسلام کاتقاضا ہے کہ جب اللہ پر ایمان اور اللہ کی اطاعت کے تقاضوں میں حکومت وقت آڑے آئے تو حکومت کانہیں ایمان اور اسلام کاساتھ دیاجائے۔‘‘
بنی اسرائیل نے جب یہ حقیقت سمجھ لی کہ ایمان اور اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ فرعون کے ظالمانہ اقتدار اور اس کی بے پناہ طاقت ، لاؤ لشکر ، فوج اور پولیس، عدالت اور جیل خانوں کے باوجود اللہ پر بھروسہ کرکے موسیٰؑ کاساتھ دیاجائے تو انھوں نے برملا کہااور ایک زبان ہوکر کہا: ہم نے اللہ پر توکل کیاہم آپ کا ساتھ دیں گے اور ہم اپنے رب سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بنایاجائے۔ ہم نے اس پر بھروسہ کرلیاہے اور ساتھ ہی ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں ظالم قوم کے ظالمانہ اقتدار سے نجات دے۔ اس کی دو ہی شکلیں تھیں۔ ایک یہ کہ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت ایمان لے آئیں اور اسلامی نظامِ زندگی قائم کریں۔ دوسری شکل یہ کہ اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اہل ایمان اور اہل اسلام کو اقتدار سے آزاد کردیں۔ بنی اسرائیل کو جانے دیں تاکہ وہ آزادفضا میں سانس لے سکیں اور اپنی مرضی سے اسلامی معاشرے اور اسلامی اسٹیٹ قائم کرکے امن و امان عافیت اور عدل و انصاف سے ماحول میں زندگی گزارس سکیں۔ چنانچہ ایمان کے علاوہ دوسرا مطالبہ موسیٰ کا فرعون سے یہی تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کردے۔ بنی اسرائیل کی انفرادی دینی تعلیم وتربیت کے لیے اسلامی اجتماعیت کاان میں شعور پیدا کرنے کے لیے اسلامی تحریک منظم طورپر برپا کرنے کے لیے فرعون اور فرعونیوں کو دعوت دینے کے لیے اور مجبوری کے درجے میں ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہے جس تیاری کی ضرورت تھی جن انفرادی اور شخصی صفات اور جن اجتماعی اور صاف اور ڈسپلن کی ضرورت تھی، اس کے لیے باقاعدہ مراکز درکار تھے۔ اس لیے باقاعدہ وحی کے ذریعے اس طرف رہنمائی فرمائی گئی کہ مملکت مصر میں منتخب مقامات پر سینٹر قائم کرنے کے لیے چند مکانات حاصل کیے جائیں اور انھیں کو قبلہ رخ کرلیاجائے اور انھیں میں نماز باجماعت کانظم قائم کیاجائے۔
اسلامی زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی مسجد کے گرد گھومتی ہے اور مسلمانوں میں اسلامی انفرادی خوبیوں اور اجتماعی اوصاف نماز ہی کے ذریعے پیدا کیے جاسکتے ہیں اس لیے اقامتِ نماز کااہتمام کیاجائے۔ اس طرح مسلمانوں سے عقاید اورفکر و نظر کوبھی اسلامی بنایاجاسکے گا۔ ان کے اخلاق سیروت وکردار کو بھی اسلامی بنایاجاسکے گا۔ ان کی سماجی زندگی اور معاشرت بھی اسلامی بنائی جاسکے گی۔ انہیں کمانے کے حرام اور حلال دونوں ذرائع سے واقف کیاجاسکے گا تاکہ حرام سے بچیں اورحلال روزی کمائیں اور انھیں اسلامی سیاست اور حاکمیت رب اور خلافت الٰہی کے تقاضوں سے بھی آگاہ کیاجاسکے گا اور ساتھ ہی ساتھ موسیٰؑ کو حکم ہواکہ جو لوگ ایمان واسلام کا شعور پیداکرکے اس کے تقاضے پورے کرنے پر آمادہ اور تیارہوجائیں انھیں دنیا میں کامیابی کی اور آخرت میں فلاح و بہبود کی خوشخبری بھی سناتے رہیں۔ موسیٰؑ جب فرعون پر حجت پوری کرچکے تو دعا مانگی کہ اے رب العالمین تو نے فرعون کو جو سامانِ زیب و زینت اور اسباب آرام و راحت اور دنیا کی دولت اور خزانے دے رکھے ہیں،وہ انکا شکر ادا کرنے کی بہ جاے سرکش ہوگیاہے۔ تو اسے سبق سکھادے۔ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول کرلی اور موسیٰ کو نصیحت کی کہ وہ صراطِ مستقیم پر جمے رہیں۔ پھر بنی اسرائیل میں اتحاد پیداہوگیا۔ پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی اور شہر سے نکل کر سمندر کے کنارے نہیں پہنچ گئی۔ فرعون اور اس کی فوج سمندر کے کنارے پہنچی، حکم خداوندی سے سمندر کی لہریں اٹھیں اورانھیںاپنی لپیٹ میں لے لیا اور بنی اسرائیل معجزانہ طورپر ان سے بچ نکلے۔
فرعون مرتے وقت کہتاہے کہ میں ایمان لے آیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے صرف وہی اللہ ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوتا ہوں۔ اگر موسیٰ اور بنی اسرائیل نے اسے ایمان اور اسلام کی دعوت نہیں دی تھی تو وہ مرتے وقت ایمان واسلام کاکیوں اقرار کررہاہے وہ سمجھ رہاہے اس کشمکش حق و باطل میں جو میرے اور موسیٰؑ کے درمیان برپاتھی اس میں، میں ہی باطل پر تھا اور موسیٰؑ حق پر تھے۔
اللہ نے کہہ دیا: تواب ایمان لاتاہے ،اب تک نافرمان رہا، اب مسلمان بن رہاہے اور کل تک تومفسد تھا۔ تجھے اب نجات نہیںملے گی۔ ہاں تیرے بدن کو ہم محفوظ رکھیںگے۔ تاکہ لوگوں کو عبرت ہو یہ فرعون اور اس کے لشکر کا غرقاب ہونا اور بنی اسرائیل کا پار ہوجانا اللہ کی عظیم نشانی تھی مگر افسوس اکثر وبیشتر لوگ اللہ کی نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2010