الحاج محمد بشیر

داستاں ایک دریا دل درویش کی

عمر کے آخری حصے میں انسان کے لیے اس کے ماضی کے دریچے بے حد دل کش ہوجاتے ہیں، جن سے ایسے ایسے تاب ناک چہرے روندگان بزم ہستی کے نظرآتے ہیں، جو دیکھنے والے کی رگوں میں خون کی گردش تیز کردیتے ہیں اور بجھے ہوئے حوصلوں کو تازگی اور التھاب عطا کرتے ہیں۔ میرے ماضی کا ایک تاب ناک دور اودھ کے تاریخی شہر سے وابستہ ہے۔ جہاں سے کچھ ہی فاصلے پر میراوطن تھا اور خوش قسمتی سے تعلیم کی تکمیل کے بعد وہیں ایک قدیم کالج میں انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے مجھے نہایت پرسرور اور حرکت و عمل سے لبریز زندگی کے ۸ سال گزارنے کا موقع ملا۔ یہ دور اگرچہ ہندوستان میں ملّت اسلامیہ کے لیے بے حد خارہ شگاف دور تھا اور مولانا آزاد پنڈت نہرو کے بعد پورے ملک میں فاشسٹ طاقتیں مسلمانوں کا وجود ختم کردینے پر کمربستہ تھیں۔ جگہ جگہ آئے دن فسادات ہورہے تھے۔ فیض آباد میں میری ملازمت کے آغاز ۱۹۶۵سے کچھ ہی پہلے جبل پور کے خوف ناک فسادات ہوچکے تھے۔ جہاں یہ حقیر ریلیف کی خدمات کے لیے علی گڑھ سے مستعد نوجوانوں کے ایک قافلے کے ساتھ حاضر ہواتھا اور بیس دن لٹے پٹے انسانوں کی داد رسی کی کوششوں میں جماعت اسلامی ہند اور جمعیتہ العلمائ کے کارکنوں کے ساتھ مصروف رہا۔ فیض آباد اس عہد میں بحمدللہ اس قدر پُرسکون تھاکہ میں ہندی کے لیکچرار اور نہایت ذی علم شخصیت پنڈت رام رکچھا ترپاٹھی کے ساتھ اکثر اجودھیا میں سیرو تفریح کے لیے جاتا اور قدیم بزرگوں کے مزارات ،خانقاہوں اور مساجد میں کچھ وقت گزارتاتھا۔ فیض آباد کی خوشنما گلاب باڑی اور بہو بیگم کا مقبرہ بے حد پُرفضا مقامات تھے۔ لیکن ان سب سے زیادہ کشش ان درویشوں اور قلندروں اور اسلام کے روشن نقوش کو قائم رکھنے کی کاوشوں میں مصروف اہل اللہ میں محسوس ہوتی، جو ہر ہفتے مغرب بعد شہر کی ایک نہایت قدیم مسجدمیں جمع ہوتے تھے۔ وہاں مجھے آٹھ سال تک درس قرآن دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس محفل میں سب سے نمایاں، سب سے ممتازاور سب سے دل کش شخصیت حاجی بشیراحمدکی تھی، جو فیض آباد میں اہل قلوب کا محور اور ہر نیک اور فلاحی کام میں پیش پیش تھے۔ جماعت اسلامی ہند سے ان کا قلبی تعلق تھا اور اس کے اکابرین کی مدارات میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔ اس نیازمند نے ان کو ۱۵۹۱ سے ایک آئیڈیل شخصیت سمجھنا شروع کیا۔ جب میں ہائی اسکول کاطالب علم تھا اور جماعت کے ماہانہ ضلعی اجتماعات میں نوجوان طلبہ کی ایک پُر جوش ٹیم کے ساتھ شریک ہوتاتھا۔ حاجی صاحب اس پورے حلقے میں سب سے زیادہ پُرکشش محسوس ہوتے۔ پھر جب فیض آباد مستقل طورپر مستقر بناتو مجھے تقریباً ہر روز ان سے فیض یاب ہونے پر شرف حاصل ہوتا۔

آخر وہ کیا چیز تھی جو اس سادہ سودہ انسان میں جونہ تو کوئی بہت بڑا ذی علم انسان تھانہ کسی اعلیٰ منصب پر کارفرماتھا، نہ کسی مشہور خاندان کاچشم وچراغ تھا، موجود تھی جو ہمارے لیے باعث کشش نہ تھی۔ حاجی صاحب ایک بسکٹ کے کارخانے کے مالک تھے۔ اس چھوٹے موٹے کارخانے کے بسکٹ نے لوگوں کے دلوں کو اس طرح جیت لیاتھا کہ لوگ اس پرٹوٹے پڑتے تھے۔ ہر طرف اسٹار کے بسکٹوں کی دھوم تھی۔ مگر اس کارخانے کے مالک کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے کارخانے کا خود ایک مزدور تھا اوراپنے ملازمین کے ساتھ مل کر ہر روز ۵ ،۶ گھنٹے کام کرتاتھا۔ ان کے مختصر سے کارخانے سے ہمیں ان کے کام کے اوقات کے دوران جب کارخانے میں ملنے کا اتفاق ہوتاتو وہ نہایت سادگی سے ہمیں بسکٹ بنانے والی مشین کے قریب بلالیتے اور اپنے کارکنوں کے ساتھ بسکٹ کو سانچے میں ڈھالنے کا عمل جاری رکھتے ہوئے گفتگو بھی کرتے جاتے اورمناسب مشورے بھی دیتے۔ اس دوران وہ ایک عام مزدور نظر آتے اور درجنوں ملازمین کے لباس میں شانہ بشانہ کام کرتے نظرآتے۔ مگر یہی محنت کش قلندر جب قومی وملکی ضروریات کی تکمیل کا وقت آتا تو اپنے خزانے کا منہ کھول دیتا۔ نہ جانے کتنے حاجت مند اور مشکلوں میں مبتلا لوگ ان سے مسلسل فیض یاب ہوتے، ان میں علماء، طلبا، اہل قلم اور دانشور سب ہی شامل تھے۔

حاجی بشیر کے اندر اسلامی تعلیم وتہذیب کا بے پناہ احترام موجود تھا۔ وہ اپنے احباب ونیازمندوں کے اندر بھی کوئی خامی دیکھتے تو فوراً متوجہ کرتے ۔ میرے ذاتی تجربات کئی ایک ہیں جب انھوں نے مجھے ٹوکا، ان میں دو  کا ذکر کروںگا۔ میں نے اپنی پہلی بیٹی کی تعلیم کے لیے جب ایک مشنری انگلش میڈیم اسکول کا انتخاب کیا تو انھیں ناگوار خاطر ہوا۔ انھوں نے ناپسندیدگی ظاہر کی اور میں نے ان کے احترام میں سیشن کے دوران ہی اسے ایک دوسرے اسلامی مزاج کے ادارے میں داخل کرادیا۔اسی طرح ایک بار غروب آفتاب کے بعدمیں اہلیہ اور بچیوں کے ساتھ کسی ضرورت سے بازارگیا اور بچیوں کی خاطر سڑک کے کنارے ایک دوکان پر آئس کریم کھانے لگے۔ اتفاق سے حاجی بشیر صاحب کاگزرادھر سے ہوا۔ دوسرے روز انھوں میرے ایک رفیق کے ذریعے اپنی ناپسندیدگی کااظہارکیا۔ اس لیے اسلامی تہذیب میں سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر کھانا پینا ناپسندیدہ بات ہے۔ میں نے حاجی صاحب سے معذرت کااظہارکیا۔ ان کے اندر غیرت اسلامی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جدید مغربی تہذیب کی اندھی پیروی سخت ناگوار تھی۔ فیض آباد میں ہم دو افراد عبدالحفیظ صدیقی پرنسپل درس گاہ اسلامی ہائی اسکول اور اس راقم الحروف سے تحریکی حلقے کے لوگوں میں سب سے زیادہ لگاؤ حاجی صاحب کو تھا۔ اکثر وہ رات کے کھانے پر ہم دونوں کو طلب کرتے۔ بسکٹ کے تحائف ارسال فرماتے اور یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب میں سلطان پور کے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج میں چلاگیا۔ یہ شہر فیض آباد سے قریب تھا اور مجھے یونیورسٹی میں فیض آباد اکثر آناپڑتا۔

حاجی صاحب یوں تو ایک مصروف انسان تھے جن کے تجارتی مشاغل کے علاوہ رفاہی اور خدمت خلق، دعوت اسلامی اور تحریکی مصروفیات کم نہ تھیں، لیکن ان کے دل میں اپنی ملت کے نونہالوں کی تعلیم وتدریس کے لیے غیرمعمولی لگن تھی۔ اس زمانے میں جب کہ اترپردیش حکومت نے صوبے کے نظام تعلیم کی بساط الٹ کر اسے ہندوکلچر اور دیومالا کے رنگ میں رنگنے کی ہرممکن کوشش شروع کرر رکھی تھی اور پرائیویٹ اسکول بہت کم قایم ہوسکے تھے مکاتب اور اردو میڈیم اسکولوں کے قیام کی طرف مسلمان متوجہ تھے۔ حاجی صاحب نے اس نازک موڑ پر فیض آباد میں بچوں کی تعلیم کاایک ادارہ ۵۳-۱۹۵۲ میں قایم کیا اور مولانا مصطفی ندوی کو اس کا ذمّے دار بنایا۔ چناں چہ حاجی صاحب اور ان کے مخلص رفیق محمد اسحاق ایم اے ایل ایل بی کی کوششوں سے یہ ادارہ دن بہ دن ترقی کرتاگیا اور اس وقت ایک انٹرمیڈیٹ کالج کی شکل میں ایک عظیم الشان عمارت میں قایم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حاجی صاحب اسے ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنے کے لیے کس قدر مضطرب رہتے تھے اور اس پر کسی طرح کی آنچ آئے برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ یاد آتاہے کہ ۱۹۶۰سے جب قاضی عدیل عباسی کی قیادت میں اترپردیش میں دینی تعلیمی تحریک شروع ہوئی تو اس میں حاجی صاحب اور انکے رفقا دل و جان سے شریک تھے۔

حاجی صاحب اپنے عہد کے سیاست دانوں کے دام فریب سے بہت دور رہتے تھے۔ سیاست داں اہل زر کو بے وقوف بنانے کا آرٹ جانتے ہیں بالخصوص مسلمانوں میں خوش حال طبقہ سیاست دانوں کو بھاری بھرکم چندے دے کر اپنے لیے جائے عافیت تلاش کرتا ہے۔ کتنے ایسے مسلم سرمایہ دار ہیں جو انتخابات کے موقع پر اپنی مشقت کی دولت دونوں ہاتھوں سے سیاست کے لٹیروں کی خاطر لٹاتے ہیں اور اپنی قوم کی سنگین ضروریات کے لیے کچھ نہیں دے سکتے اس لیے کہ اس میں نام و نمود ، شہرت اور سیاسی فوائد کے بے شمار امکانات ہوتے ہیں۔ حاجی صاحب نے پوری عمر میں کسی سیاست داں کو منھ نہیں لگایا، ہاں دین کی خدمت کرنے والے مخلصین اور علم وادب میں اسلامی اقدار کاپرچم بلند کرنے والوں کے لیے ان کا سینہ فراخ تھا۔

حاجی صاحب جیسے صاف باطن اور بلند کردار شخصیت کاپورا شہر فیض آباد گرویدہ تھا۔ کوئی معقول انسان ان کا نکتہ چیں نظرنہیں آتا۔ اگروہ چاہتے تو دولت کاانبار لگاسکتے تھے، مگر انھوںنے دولت کو بندگان خدا اور ملّت کی اہم ضرورتوں پر لٹایا۔ اس جوار کا چپہ چپہ ان کا ممنون احسان تھا۔ اپنی مصروف تجارتی زندگی کے باوجود وہ کافی وقت اسلام کے پیغام کو برادران وطن کے سامنے پیش کرنے کی سرگرمیوں میں شریک رہتے۔ جدید ترین کتب و رسائل جو اسلامی موضوعات پر شائع ہوتیں، ان کے یہاں موجود ہوتیں۔ ایک خطیر رقم وہ ایسے اداروں کو پیش کرتے رہتے تھے، جو دعوت اسلامی کے کاموں میں منہمک تھیں۔ بیسویں صدی میں آزادی کی ۴، ۵ دہائیاں گزرنے کے بعدتک ہندوستان اپنی اقدار سے محروم ہوکر مغرب کی نقالی میں دیوانہ ہورہاتھا۔ فاشسٹ قوتیں بابری مسجد توڑنے کے بعد ملک کی اکثریت کے اندر اقلیت سے ہر معاملے میں ٹکرانے کا جنوں پیدا کررہی تھیں اور خوف ناک فسادات ہورہے تھے۔ حاجی صاحب اقدار کے اس زوال اور انسانیت کاشیرازہ بکھرنے کا منظر دیکھ کر بہت اداس رہتے۔ جماعت اسلامی شریف انسانوں کو حق کی حمایت میں سامنے آنے کا پیغام دے رہی تھی اور حاجی صاحب نے پوری عمر اس تحریک کے لیے اس خطے کے چپے چپے کو روند ڈالا تھا۔ آج وہ یہی سوچتاہے کہ کیاپھر ایسی رفعت کردار کے بے لوث انسان پیداہوسکیں گے یا نہیں؟

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223