رمضان کا مہینہ روزےداروں کو ہمدردی اورغم گساری کی تربیت دیتا ہے۔ایک روز دار بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو تا ہے کہ دنیا میں اللہ کے بے شمار بندے ہیں جن کو دووقت کی روٹی نہیں مل پاتی ہے ۔آج بھی ہمارے ملک کے بعض حصوں میںپانی کے لیے میلوں کا سفر کرنا پڑتا ہے ۔کتنے انسان ہیں جن کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا نہیں ہو پاتا ہے۔ وہ کس کرب میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے تئیں ہمدردی اورتعاون کا جذبہ ابھرتا ہے۔یہ مہینہ دلوں کو نرم کرنے والا ہے۔ سماج کے بے سہارا ، یتیموں ،بیواوں ،غریبوں ،محتاجوں، ضعیفوں،اور بے کسوں کے ساتھ ہمدردی،خیر خواہی اور نرمی و شفقت، کا رویہ اختیار کرنے کے لیے دلوں کو تیارکرتا ہے ۔ملک میں کتنے ہی انسان ہیں جو بھوک کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں، کتنے بچے ہیں جو تغذیہ کی کمی وجہ سے بچ نہیں پاتے ہیں،کتنی مائیں ہیں جو دوران حمل اچھی خوراک نہ ملنے کی وجہ ولادت کے وقت خود موت کا نوالہ بن جاتی ہیں۔سماج میں کتنے ہی بچے ایسے ہیں جوگھور کے ڈھیر پر پھینکے گئے خراب پھل اٹھا کر کھالیتے ہیں اور بیماریوں کے شکا ر ہو جاتے ہیں کتنے ہی باپوں کی تنگ حالی کی وجہ سے ان کے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کا نظم نہیں ہو پاتا ہے۔
ہمدردی اورمواسات کاایک طریقہ انفرادی ہے۔ کہ ہر فرد اپنے طور پر اپنی استطاعت بھر لو گوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے، ان کی پریشانیوں ، مشکلات ،مسائل کو حل کرنے میں مدد و رہنمائی کرے ۔بھوکوں کوکھانا کھلائے، پیاسوں کو پانی پلائے۔
دوسرا اجتماعی طریقہ ہے اجتماعی طور پر بیت المال کا قیام ہو اور وہاں سے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کی جائیں۔جب لوگ انفرادی واجتماعی طور سے اس طرح کام کریں گے تب ہی معاشرے میں خوشگواری آ سکتی ہے۔
ہمدردی کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں ۔٭لو گوں کی مالی امداد کر نا ۔ ٭لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا۔٭بیمارو ں کی عیادت کرنا۔ ٭علاج معالجہ کرنا۔٭قیدیوں کو رہائی دلانا۔ ٭لوگوں کے کام میں ہاتھ بٹانااور ان کا تعاون کرنا۔٭لوگوں کی حقیقی اور جائز ضرورتوں کے لیے سفارش کرنا۔٭لوگوں کے معاملات میں اچھے اور نیک مشور ے دے دینا۔ ٭لوگوں سے ہمدردی کی بات کر لینا ۔ ٭لوگوں کے غم میں شریک ہو جانا ۔ ٭لوگوں سے نرم خوئی سے پیش آنا۔
یو ں تو اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ مواسات ، اورخیر خواہی کی تعلیم دیتا ہے، تاکہ اس کے نتیجہ میں ہی ایک پر امن سماج تشکیل پائے۔ لیکن رمضان کے مہینہ میں خصوصیت سے اس کی تعلیم دی ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے ۔ ان اللہ یا مر بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی (نحل:۹۰)اللہ تعالی عدل،احسان،اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔
احسان :۔ احسان کا رویہ اختیار کرنے سے مراد یہی ہے کہ معاملات میں فیاضی، ہمدردی، معافی اور ایک دوسرے کے ساتھ رعایت کا رویہ اختیار کیا جائے ،انسانوں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے سے تعلقات میں بہتری آتی ہے ۔
صلہ رحمی:۔ صلہ رحمی کے معنی شفقت و رقت اور رحمت و رافت ہے ۔اس کا عملی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے۔ ان کا خیا ل رکھے۔ ان کی ضروریات کو پور اکرنے کے لیے فکر مند رہے۔کسی کو کھانا میسر نہیں ہو تو اس کے لیے کھانے کا نظم کرنا یاکروانا،موسم کے لحاظ سے کپڑوں کی ضرورت ہو یا عید کے موقع پر وہ نئے کپڑے بنانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو اس کے لیے کپڑوں کا نظم کرنا۔ غرض ہر صاحب استطاعت اور خوش حال فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی ضروریات کا خیال رکھے۔صلہ رحمی کے معنی رشتوں کو جوڑنا ہے رشتے اسی وقت استوار اور بہتر ہوتے ہیں جب کہ رشتہ دارں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔
قرآن مجید میں تمام انسانوں کے حقوق و فرائض بتائے گئے ہیں ،ان سب کی ادائیگی ضروری ہے، لیکن اللہ نے اپنے کمزور بندوں اور کمزور طبقات کے حقو ق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ خیر خواہی پر خصوصی زور دیا ہے۔ان کے ساتھ کوتا ہی پر متنبہ کیا ہے،اور انسان کی نجات و کامیابی کے لیے اللہ کے کمزور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو ضروری قرا دیا گیاہے ۔لا تعبدون الا اللہ و بالوالدین احسانا و ذی القربی و الیتامی و المساکین وقولوا للناس حسنا و اقیموا الصلوۃ و آتواالزکوۃ(بقرہ: ۸۳)اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ ،رشتے داروں کے ساتھ ،یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا،لوگوں سے بھلی با ت کہنا، نماز قائم کرنا، اور زکوۃ دینا۔
رمضان کا مہینہ ہمیں ان تعلیمات پر مزید عمل کرنے کا موقع عنایت کر تا ہے ۔اس لیے کہ دن بھر کا روزہ معاشی تنگی سے بھو کے رہنے والوں کی تکالیف کا اندازہ کرادیتا ہے کہ ان پر کیا گزرتی ہوگی، جو بے گنا ہ لو گ گرفتار ہو جاتے ہیں اور ان کے ذمہ ہی گھر ہو تا ہے ان کے قیدی بن جانے کے بعد گھر کے دیگر افراد پر کیا کچھ مصائب آتے ہوں گے۔اس ماہ میں نیکیوں کا اجر بڑھ جا تا ہے اس لیے بھی روزہ دار کے اندر ان اعمال کے کرنے کا جذبہ ابھر تا ہے ۔ نبی ﷺ نے افطار کرانے کی بڑی اہمیت بتائی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر مایا: یہ مہینہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا ہے ، اور یہ وہ مہینہ ہے جس مومن کا رزق بڑھا یا جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روز دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزدار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے ، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔ حضرت سلمان ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا : اللہ تعالی یہ اجر اس شخص کو بھی دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوادے یا ایک کھجور کھلادے یا گھونٹ پانی پلادے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھاناکھلادے تو اللہ تعالہ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا (اس حوض سے پانی پی کر) پھر اسے پیاس محسوس نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے۔(بیہقی ٰ)
نبی اکرم ﷺ کامعمول :۔ نبی اکرم انساینت کے لیے سراپارحمت ورافت تھے ۔ہمیشہ غریبوں ،محتاجوں،ضرورت مندوں ،بیواوں ،یتیموں اور غلاموں کا خیال رکھتے اور اسی کی تعلیم دیتے تھے ۔ رمضان ا لمبارک کے مہینہ میں آپ کا دل مزیدرقیق ہوجاتا تھا اور جود وفیاضی بخشش، عنایات میں اور شدت و تیزی آجاتی تھی۔ حضرت عباس ؓ سے راویت ہے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں :اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی و فیاض تھے اور سب زیادہ فیاض اس وقت ہوتے جب رمضان میں حضرت جبریل ؑ آپ سے ملاقات کرتے تھے ۔حضرت جبریل ؑ آپ ﷺ سے رمضان میں ہر رات ملا قات کرتے ،یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا ۔ آپ ﷺ روزانہ حضرت جبریل ؑ کے سامنے قرآن پڑھتے تھے ۔جب حضرت جبریل آپ ﷺ سے ملتے تھے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔(بخاری،مسلم)
رمضان کے روزے کی قبولیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ انسان کادل انسانوں کے تئیں نرم پڑ جائے۔ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو۔رمضان گزرجانے کے بعد بھی اللہ کی مخلوق پر شفقت ،پریشان حال لوگوں پر ترس آئے، غربا ء مساکین کے ساتھ حسن سلوک کا داعیہ پیدا ہو سکے ۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2020