فسادات کی آندھی پوری شدت کے ساتھ اٹھی اور راجدھانی دلی کے بڑے حصے کو تاراج کرکے گزر گئی۔ جانی اور مالی نقصان بہت ہوا، اور اس سے کہیں زیادہ معنوی نقصان ہوا۔ اقلیتوں میں بے امن وامان ہونے کا احساس بہت شدت اختیار کرگیا۔ حکومت پر تو بھروسا تھا ہی نہیں ، مگر حکومت اور حکومتی اداروں کی طرف سے شدید خطرے کا احساس پیدا ہوگیا۔ طویل عرصے سے دلی کو پرامن دیکھتے ہوئے ایسا لگنے لگا تھا کہ فسادات کا زمانہ دھیرے دھیرے رخصت ہورہا ہے، مگر وہ خوش فہمی ایک سراب ثابت ہوئی۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب راجدھانی اس قدر غیر محفوظ اور پرخطر ہوگئی ہے، تو باقی ملک کی صورتِ حال کیوں کر اطمینان بخش ہوسکتی ہے؟
⃝
ملک میں فسطائیت کے بیج پرانے ہیں ، لیکن اس کی زہرناک بیلوں نے ملک کو بری طرح اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ انصاف کے اداروں پر اس کے گہرے سائے ہیں ، ملک کی مالیہ پر اس کا پوری طرح قبضہ ہے۔ جہاں تک امن وسلامتی کے اداروں کی بات ہے، زعفرانی رنگ اپنالینے کے علاوہ اس کے کچھ عہدے داران تو ترقی اور انعام کی لالچ میں اخلاق وانسانیت کی قبائیں تار تار کردینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ملک سے محبت کرنے والے تمام لوگ بے چین اور فکر مند ہیں۔ فسطائیت پوری بے رحمی اور بے شرمی کے ساتھ آئین اور انسانیت کو پامال کر رہی ہے۔ رحم اور شرم دو بڑی رکاوٹیں ہیں ، جو انسان کو ظلم وزیادتی سے روکتی ہیں ، ان دونوں کے غائبانے میں کسی بھی پستی سے گزر جانے کی توقع غلط نہیں ہوتی ہے۔
⃝
دلی کے فسادات اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کے حکمراں پارٹی کے رویوں نے فسطائیت کے خلاف مہم چھیڑنے کا ایک زبردست موقع بھی فراہم کیا ہے۔ اس وقت فسطائیت کا مکروہ اور قابلِ نفرت وجود اس طرح بے نقاب ہوا ہے کہ ملک کی ساری دولت لوٹنے والوں کے پاس اپنے روئے سیاہ کو ڈھانپنے کے لیے کوئی معمولی کپڑا میسر نہیں ہے۔ فسطائیت جو وکاس کا بھیس بدل کر آئی تھی، اب کھل کر اصلی چہرے کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ اور یہ چہرا اتنا گھناؤنا ہے کہ کسی بھی جگہ کے مہذب عوام اس کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں گزار سکتے ہیں۔
⃝
ملک کے عوام کی سادہ لوحی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جس طرح ہم نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کا صحیح تعارف پیش کرنے کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا رویہ اپنایا، اس ملک کے لیے سب سے خطرناک رجحان یعنی فسطائیت سے باخبر نہ کرنے کی کوتاہی بھی ہم سے ہوئی ہے۔ ملک میں پنپنے والی فسطائیت نہایت خطرناک نوعیت کی ہے، کیوں کہ وہ مذہب، قومیت، اور کلچر تینوں سے جڑے جذبات کو استعمال کرتی ہے۔ اور سیاست، سرمایہ اور صحافت تینوں کو اپنا آلہ کار بناتی ہے۔ یہاں فسطائیت کا مقابلہ نہ جذباتی نعروں سے ہوسکتا ہے اور نہ ہی ذلت آمیز سمجھوتوں سے۔ یہاں فسطائیت کو بے نقاب کرنے لیے سخت محنت اور گہری حکمت درکار ہے۔ مذہب، قومیت اور کلچر کے لباسوں سے فسطائیت کو بالکل مجرد اور الگ تھلگ کرکے اس کے استحصالی اور انسانیت دشمن مجسمہ وجود کو سامنے لانا ضروری ہے۔
⃝
ملک میں ہونے والے بار بار کے بڑے گھوٹالوں کی تفصیلات سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ ہندوستان میں فسطائیت دراصل ملک کے وسائل کو بے رحمی سے لوٹنے والی ایک ہوس ناک تحریک ہے، اور اس کے لیے ملک کو باہمی منافرت کی آگ میں جھونکنا ناگزیر ہے، تاکہ اس آگ کے دھوئیں میں ساری لوٹ مار چُھپ جائے۔ ملک کو لوٹنے اور جلانے کی جلد بازی میں یہ فسطائی طاقتیںعوامی عتاب سے بالکل بے پروا ہیں۔ اور یہی وہ وقت ہے جب بڑے پیمانے پر فسطائیت سے آگاہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے، قبل اس کے کہ وہ کوئی اور مکھوٹا اوڑھ لیں۔
⃝
فسطائی ذرائع ابلاغ اپنی مختلف شکلوں میں ملک میں نفرت پھیلانے کا کام بڑے پیمانے پر کررہے ہیں ، اس ملک کی سالمیت کے لیے اسے روکنا ضروری ہے۔ جس طرح آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، اندھیرے کو روشنی کے ذریعہ دیس نکالا دیا جاتا ہے، بدبو کا ازالہ خوشبو کے چھڑکاؤ سے کیا جاتا ہے، اسی طرح نفرت اور حیوانیت کے ماحول کو بدلنے کے لیے محبت وخیرخواہی اور رحمت وانسانیت کی تعلیمات عام کرنا ہی واحد راستہ ہے۔
اہل ِاسلام کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ انھیں انسانوں کا مسیحا بننے کے لیے مصنوعی خیرخواہی اوڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اور نہ ہی انھیں اپنا چہرہ چھپانے کے لیے کوئی مکھوٹا درکار ہوتا ہے۔ خیرخواہی تو وہ لباس ہے جو اسلام قبول کرتے ہی اہل اسلام کا اصلی لباس بن جاتا ہے، اور وہی ان کا اصلی چہرہ ہوتا ہے۔
⃝
یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں پر یک طرفہ ظلم ہوا ہے، اور اب فسادیوں کی غارت گری کے بعد امن کے پہرے داروں کی زیادتیوں کا سلسلہ بھی زور وشور سے جاری ہے، مسلمان امن اور انصاف کے لیے دامن پھیلائے کھڑا ہے، اور ملک کا نظام اسے منہ چڑھارہا ہے، مایوس ہونے کے تمام اسباب موجود ہیں ، اور خوف زدہ کرنے کا پورا ماحول تیار ہے، تاہم اس سب کے ساتھ مایوسی اور خوف سے باہر نکلنے کا بہت بڑا سبب موجود ہے، اور وہ ایمان کی قوت، اور اللہ پر بھروسا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی مایوسی اور کسی خوف کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔
⃝
ہندوستان کے مسلمان اس وقت عجیب صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ عملی صورتِ حال کے جبر نے انھیں امن و انصاف مانگنے والا بنادیا ہے۔ ان کے اندر یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ جو چیز سب کو بن مانگے ملنی چاہیے وہ انھیں مانگ کر بھی نہیں مل پارہی ہے۔ دوسری طرف ان کے فرضِ منصبی کا تقاضا ہے کہ وہ اس ملک میں امن وانصاف کا کٹورا ہاتھ میں لیے گھومنے کے بجائے امن کا صحیح نظم قائم کرنے والے اور انصاف کی حقیقی ترازو نصب کرنے والے بنیں۔
اور اب تو ملک کے امن وانصاف کی حقیقی صورتِ حال سے ان سے زیادہ کوئی واقف نہیں ہے، اور ملک کے احوال کی اصلاح کے ضروری ہونے کا ان سے زیادہ کسی کو احساس نہیں ہوسکتا ہے۔
⃝
انصاف سے بیزار کرنے والے عدالتی نظام اور امن سے متنفر کرنے والے سلامتی نظام سے امن اور انصاف مانگنا ایک وقتی صورتِ حال ہوسکتی ہے، لیکن مسلمانوں کو اس سے جلد آگے گزر جانے کے بعد اپنی بہت بڑی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے میدان میں آنا ہے، اور وہ ہے اس ملک کے بے خبر عوام کو اللہ کی ہدایت سے آگاہ کرنا، بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کی راہیں بتانا، اس ملک میں پھیلائی ہوئی کسی بھی قدرتی بیماری سے کہیں زیادہ خطرناک بیماریوں کا علاج تجویز کرنا، اور اس ملک کی بگڑتی ہوئی معاشرت اور گرتی ہوئی معیشت کو خوش حال معیشت اور خوش نصیب معاشرت میں تبدیل کرنا۔
یاد رکھیں کہ جوب تک اس بڑے ملک کی بہت بڑی آبادی اللہ کی بھیجی ہوئی رسالت وہدایت سے ناواقف رہے گی، اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی کے جذبات بھڑکانے کے لیے آسان ترین امکانات موجود رہیں گے۔ یہ آگ جو ابھی بھڑکی ہے، یہ تو دیر سویر ٹھنڈی ہوجائے گی، لیکن اگر مسلمانوں نے اس ملک کے عوام کے تئیں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تو یہ آگ بار بار بھڑکے گی۔ اس ملک کو آگ سے بچانے کی ذمہ داری مسلمانوں کے اوپر ہے، انھیں کے پاس اس کا سامان بھی ہے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2020