جذبہ محبت اور اسلامی مزاج

محبت کا لفظ جب کانوں سے ٹکراتا ہے تو انسان کا دل باغ باغ ہوجاتاہے ۔ خوشی وانبساط سے جھوم جاتاہے ۔ محبت کے معنی چمٹ جانا۔ محبت کرنے والے کے دل سے چمٹی رہتی ہے اسی لیے اس کانام محبت پڑا لذت دینے والی چیز کی طرف میلان کو محبت کہتے ہیں۔ محبت ان پاکیزہ جذبات کانام ہے جو کسی انسان کے دل میںانسانیت ، خیرخواہی، حق پسندی کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگرچہ جذبات کسی نفع ولذت کی غرض سے ہوں تواسے محبت نہیں عشق و معاشقہ اورہوس کہتے ہیں۔ دراصل محبت ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے دنیا وجود میں آئی۔ یہ دنیا خالق کی محبت کا اظہار ہے ۔ اس میںانسان بنایا جواس کی تخلیق کا شاہکار ہے ۔ اس کی ضرورت کو ہر لحاظ سے پورا کیا۔ مخلوق کو جو کچھ مل رہاہے اس کی محبت وشفقت کی وجہ سے مل رہاہے، وہی زندگی دیتاہے وہی روزی دیتاہے وہی پرورش کرتاہے۔

اس خالق کی صفت ’’الودود‘‘ ہے یعنی محبت رکھنے والا۔

وَہُوَالْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ۝۱۴ۙ (بروج ۱۴)

وہی پہلی بار پیدا کرتاہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ بخشنے والا ہے محبت کرنے والاہے۔

اس کی محبت وشفقت ہر چیز میں عیاں ہے ۔ کیوں اس نے محبت ومودت کو اپنے اوپر لازم و ضروری قرار دے لیاہے ۔عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِہٖ مَنْ اَشَاۗءُۚ (سورہ اعراف ۱۵۶)

سزا تو میں جسے چاہتاہوں دیتاہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوتی ہے۔

كَتَبَ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ (سورہ ۔انعام ۔۱۲)

اس نے رحم وکرم کاشیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ۔

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ(سورہ۔ انعام۔۵۴)

تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیاہے۔

فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ(سورہ۔ انعام۔۱۴۷)

قرآن مجید میں ایک سوتیرہ سورتیں ہیںان سب کی شروعات بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ سے ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی ایک نوشتہ میںلکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جَعَلَ اللہُ الرَّحْمَۃَ مِأَۃَ جُزْئٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہ‘ لِسْعَۃً وَلِسْعِیْنَ وَ اَنْزَلَ فِیْ الاَرْضِ جُزْأً وَاحِداً فَمِنْ ذَالِکَ الْجُزْئِ تَتَرَا حَمُ الْخَلاْئِقُ حَتیّٰ تَرْفَعُ الدَّآبَّہُ حَافِرَھَا عَنْ وَلدِھَا خَشْیَۃَ اَنْ تُصِیْبَہ‘ (بخاری۔ مسلم)

اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا پھر ان میں سے ۹۹حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین میں اتا را یہ اسی ایک حصے کی برکت ہے جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہیں یہاں تک کہ اگر ایک جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھر اٹھا تاہے تا کہ اسے ضرر نہ پہنچ جائے تو یہ بھی دراصل اسی حصہ رحمت کا اثر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں بیشتر اسماء گرامی ایسے ہیں جن سے محبت ، شفقت، رحمت ، رافت ، ہمدردی، بخشش، رحم و کرم کے معنی جھلکتے ہیں۔

الرحمن   نہایت مہربان                             الرحیم رحم فرمانے والا

المومن امن دینے والے                        المھیمن                حفاظت کرنے والا

جس نے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو، نگہبان

السلام سراسر سلامتی                             التواب بہت معاف کرنے والا

الحلیم    بڑا ہی بردبار                              الواسیع                 وسیع الظرف

الشاکر قدرداں                                     الکریم بہت ہی کرم کرنے والا

العفو      نرمی سے کام لینے والامعاف کرنے والا

السمیع  سب کچھ سننے والا                        المولیٰ     خبر گیری کرنے والا

النصیر   بہترین مدد کرنے والا                   القریب بہت قریب

المجیب                 دعاؤں کو سننے اور جواب دینے والا                 الشھید  نگراں

الرقیب    ہر چیز پر نگراں                            الحفیظ   پاسبان، حفاظت کرنے والا

الغفار     درگزر کرنے والا                        الفتاح   کھولنے والا

الودود    محبت کرنے والا                           الغفور    بہت درگزر فرمانے والا

الروف    خیر خواہ  بڑی شفقت کرنے والا     الشکور                 قدر داں

المقیت روزی دینے والا                           المستعان             فریاد رس

الوھاب     داتا              الحفی          بڑا مہربان  الوارث      حقیقی وارث

الولیٰ         سرپرست    البر           بڑا ہی محسن                   الحافظ        نگہبان

الصمد         جس کی طرف حاجات کے لیے رجوع کیاجائے                الوکیل       کارساز

الھادی     رہنما          الکافی         کافی ہونے والا             الاکرم       بڑا ہی کریم

الرزّاق    روزی دینے والا           غافر الذنب                گناہ معاف کرنے والا

قابل التواب             توبہ قبول کرنے والا                    ذوالطول کشادہ دست

فیاض                        ذوالجلال والاکرام       کریم ذات، الباسط کشادہ کرنے والا

الرافع       بلند کرنے والا    المعز   عزت دینے والا                                المغیث     فریاد رس کرنے والا

الموخر       مہلت دینے والا         المحی          زندگی بخشنے والا

الغنی          دوسروں سے بے نیاز کرنے والا،    النافع         نفع پہنچانے والا

الرشید      راہ راست دکھانے والا                 الرب       آقا  مالک

المنان       بہت نوازنے والا

 

ایک معاشرہ کاوجود ایک مرد اور ایک عورت کے تعلقات کے استوار ہونے پر وجود میں آتا ہے ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالے کرتی ہے اور مرد تاحیات اس کی پوری ذمہ داری اٹھاتا ہے ایسا کیوں ہوتاہے ا س کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں محبت کے جذبات رکھے ہیں جوان کو تاحیات رفیق حیات بنے رہنے کی قابل بنا دیتے ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس رحمت کا اظہار یوں فرمایا۔

(اللہ نے) تمہارے درمیان محبت والفت پیدا کردی بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  لَمْ تَرَ لِلمُتَحَابَّیْنِ مِثْلَ النِّکاحِ (ابن ماجہ) تم نے نکاح کے مثل کوئی دوسری چیز ایسی نہ دیکھی ہوگی جو دو محبت کرنے والوں کے درمیان اس درجہ محبت کا سبب ہو ۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت والفت کو پیدا کردینے کواپنا احسان ٹھہرا یا ہے ۔ اور بتا یا کہ یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر تم دنیا کی ساری دولت خرچ کردیتے تب بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ ارشاد ربانی ہے   ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ(انفال ۶۲۔۶۳) وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنون کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی ۔ اور مومنون کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے توان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے۔

ایک دوسرے مقام پر قرآن میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے  إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَنُ وُدّاً (مریم۔۹۶)

’’یقینا جولوگ ایمان لے آئے ہیں اورعمل صالح کررہے ہیں عن قریب رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔‘‘

’’انسان   انسان سے محبت کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی محبت ورحمت کی وجہ سے کرتاہے ۔ اللہ ہی انسانوں کے دلوں میں اس کی محبت وچاہت ڈالتا ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کامحبوب بن جاتاہے۔ (مسلم)‘‘

جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاکر کہتاہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر جبریل علیہ السلام بھی اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتاہے تو بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ پھر اس کے لیے زمین (والوں کے دلوں) میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔

اور جب اللہ کسی بندے سے بغض رکھتاہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاکر فرماتاہے کہ میں فلاں شخص سے بغض رکھتاہوں تم بھی اس سے بغض رکھو۔ پھر جبریل علیہ السلام بھی اس سے بغض رکھتے ہیں اور آسمان والوں میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ کو فلاں شخص سے بغض ہے تم بھی اس سے بغض رکھو۔ پس وہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں ۔ پھر اس کے لیے زمین( والوں کے دلوں) میں بغض رکھ دیا جاتاہے۔

حضرت عمرؓ بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ قیدی آئے ان میں ایک خاتون بھی تھی قیدیوں میں جب وہ کسی بچے کو پاتی تو اس کی چھاتیوں سے دودھ بہنے لگتا وہ اس بچے کو پکڑ کر سینے سے چمٹا لیتی اور اسے دودھ پلانا شروع کردیتی یہ منظر دیکھ کر نبی کریم ﷺنے ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’کیا خیال ہے تمہارا کہ یہ عورت اپنے لخت جگر کواپنے ہاتھوں سے آگ میں پھینک دے گی؟

ہم نے عرض کیا، ہرگز نہیں، خود پھینکنا تودرکنار وہ خود گرتاہوتووہ اپنی حد تک اسے بچانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم فرمانے والا ہے ۔ (بخاری۔ مسلم  کتاب الادب باب رحمۃ الولد)

اللہ ارحم بعبادہ من ھذا ہ بولدھا

ایک دوسری حدیث میں ہے ۔ ایک صحابی رسول نبی ﷺ کی خدمت میں اس طرح آتے ہیں کہ چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور ہاتھ میں کوئی چیز پکڑے ہوئے تھے آتے ہی بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے جب سے آپ کودیکھا تو آپ کی جانب متوجہ ہواہی تھاکہ میراگزر درختوں کی جھنڈ پر ہوا میں نے وہاں پرندوں کے چوزوں کی آوازیں سنیں میں نے انھیں پکڑ کر اپنی چادر میں لپیٹ لیا ۔ ان کی ماں آئی اور میرے سر پر چکر لگانے لگی میں نے چوزوں پر سے چادر ہٹائی تووہ بے ساختہ چادر میں گرپڑی اور بچوں کے ساتھ شامل ہوگئی۔ پس میںنے ان سب کو چادر میں اکٹھا کرلیا۔ اور یہ میرے پاس ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’زمین پر رکھو‘‘ میںنے زمین پر رکھ دیا تو ان کی ماں نے انھیں چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا  اوران کے ساتھ چمٹی رہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’کیا چڑیا کا اپنے بچوں سے اس قدر محبت والفت کرنا تمہارے لیے باعث تعجب ہے؟ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ (ابودادو کتاب الجنائزباب الامراض)

عام انسانوں سے محبت

اسلام اپنے ماننے والوں کو الفت ومحبت کی تعلیم دیتا ہے اور ایک مومن کی علامت ہی یہ بتاتی ہے کہ وہ سراپا الفت ومحبت ہوتاہے جب وہ کسی سے ملتاہے تو مسکراکر ملتاہے خندہ پیشانی سے پیش آتاہے اظہار ہمدردی اس سے چھلکتاہے بنی اکرم ﷺ نے فرمایا ۔ المُوْ مِنْ مَأَلِفٌ وَلاَ خَیْرَ فِیْمَنَ لاَ یَأْلَفُ وَلاَ یُؤْلَفُ (احمد)

مومن محبت والفت کا مسکن ہوتاہے اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے محبت کرے اور نہ جس سے کوئی محبت کرے۔

اسلام لوگوں سے ہمدردی سے پیش آنے کو صرف ایک اخلاقی خوبی کی حیثیت سے پیش نہیں کرتا ہے بلکہ اس کو اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بتاتاہے۔

لَا یَرْحَمُ اللہُ مَنْ لَاّ یَرْحَمُ النّاسُ (بخاری مسلم)

اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتاہے جولوگوں پر رحم نہیں کرتا۔

اسلام تمام انسانوں سے بھلائی وخیر خواہی کرنے کی تعلیم دیتاہے اس کو ایمان کاجز قرار دیتاہے اگر آج انسان بحیثیت انسان دوسرے کے ہمدرد ہوجائیں ، ان کاخیال رکھیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہیں تو دنیا سے بگاڑ ختم ہوجائے اور نفرت وعداوت کی فضا کے بجائے محبت والفت کی فضا قائم ہوجائے گی۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا لا یومن اخذکم حتی یحب للناس مایحب لنفسہ (مسند احمد)تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک دوسروں کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ احب للناس ماتحب لنفسک تکن مسلما (ترمذی) لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جواپنے لیے چاہتے ہو تو مسلم بنوں گے۔

لقد رأیت رجلا یتقلب فی الجنۃ فی شجرۃ قطعھامن ظھر الطریق کانت تؤذی الناس (مسلم) میں نے ایک آدمی دیکھا ہے جو جنت میں اپنی مرضی سے اس کی نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہورہاتھا، اس بناپرکہ اس نے راستے سے ایک ایسے درخت کو کاٹ پھینکا تھا جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی۔

نبی کریمﷺ کو مکہ والوں نے ستا یا اور آپ ہجرت (گھر بار چھوڑ نے پر مجبور) کرکے مدینہ تشریف لے گئے اور جب آپ کو اطلاع ملی کی مکہ  میں قحط پڑا ہے تو آپ نے اہل مکہ کی بڑی تعداد میں مالی امداد وسامان سے مدد کی اور ام المومنین حضرت صفیہؓ نے دویہودیوں کو ۳۰ ہزار مالیت کا صدقہ دیا ۔ ابوسیرہ عمر و بن میمون اور عمر وبن شرجیل صدقہ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے ۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور نبوی میں اپنے مشرک بھائی کو تحفہ دیا۔(بخاری)

کوئی سما ج ومعاشرہ اسی وقت اچھا ابھر سکتاہے جب کہ وہاں رہنے والے ایک دوسرے کاخیال رکھیں، ایک دوسرے کے کام آئیں ۔ اسی سے آپس میں محبت ، انس ، پیارپیداہوتاہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کا حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے پڑوس کاخیال رکھیں۔اس میں اسلام اور مسلمان ہونا شرط نہیں بلکہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے صرف پڑوس ہے آپ ؐ نے فرمایا الجار احق بسقبہٖ (بخاری) پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ مستحق ہے۔

جب تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کرو اور اپنے پڑوسیوں کاخیال رکھو۔

خیر الاصحاب عند اللہ خیرُ ھم لصاحبہٖ وخیر الجیران عنداللہ خیرھم لجارہٖ (ترمذی ) اللہ کے نزدیک بہتر دوست وہ ہے جواپنے دوست کے لیے اچھا ہو اوربہتر پڑوسی وہ ہے جواپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو۔

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میر ی جان ہے کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جواپنے لیے پسند کرتاہے۔(مسلم)

ایک دفعہ حضر ت عبداللہ بن عمر ؓ کے گھر بکری ذبح کی گئی۔ انھوں نے گھروالوں سے پوچھا کہ پڑوس میں بھی گوشت پہنچایا یا نہیں ؟ گھروالوں نے کہاکہ پڑوسی تو یہودی ہے ۔ انھوں نے کہاکہ اس سے کیاہوا اورپھر اس یہودی پڑوسی کے گھر گوشت پہنچایا۔

حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺمیری ماں میرے پاس آئی ہے اوروہ مشرکہ ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جس زمانہ میں آپؐ نے قریش سے صلح کا معاہدہ فرمایا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ دین اسلام سے بیزار ہیں تو کیامیں رشتہ کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپؐ نے فرمایا نَعَمْ صَلِیْ اُمَّکِ  ہاں اپنی ماں کے حقوق کاپاس ولحاظ رکھ کر حسن سلوک کرو(مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا ۔ اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تھا۔ تونے میری عیادت نہیں کی۔ وہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں کیسے آپ کی عیادت کرتا آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔

اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیاتھا تونے مجھے نہیں کھلایا۔ وہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو ساری کائنات کے پروردگار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیاتو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیاتھا اور تونے اسے نہیں کھلایا۔ کیاتونہیں جانتاکہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے یہاںپاتا۔

اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو تونے مجھے پانی نہ دیا۔

وہ عرض کرے گا اے میرے پرور دگار ! میں کیسے آپ کو پانی پلاتا آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تونے اسے پانی نہ پلایا اگر تواسے پانی پلا دیتا تو اس پلائے ہوئے پانی کو میرے یہاں پاتا۔ (مسلم)

رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے گھر کادروازہ اپنے ہمسایہ کے ذریعہ اہل اور مال پر دست درازی کے اندیشہ سے بند کیا تووہ پڑوسی مومن نہیں۔ اور نہ ہی ایسا شخص ہی مومن ہے کہ جس کی تکلیف دہ چیز اور عادتوں سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔ تجھے معلوم ہے کہ پڑوسی کاکیا حق ہے؟ (اس کا حق تو اتناہے) کہ جب وہ تجھ سے مدد کا طلب گار ہو تواس کی مددکرے، اور جب وہ تجھ سے قرض کا خواست گار ہو تو اسے تو قرض دے ، اور جب وہ محتاج وفقیر ہوجائے تواس کے لیے دست تعاون دراز کرے ، اور جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت وتیمارداری کرے اور جب اسے خیر و بھلائی ملے تواسے مبارک باد دے اورجب مصیبت سے دوچار ہوتواسے حوصلہ دے اور ہمت افزائی کرے، اورجب وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو، اور اس کے مقابلے میں اپنی عمارت اونچی وبلند تعمیر نہ کرکہ اس کے لیے ہوا کی آمد ورفت میںرکاوٹ پیداہو ۔ہاں اگروہ اس کی اجازت دے (توایسا کرنا ممنوع اور قابل مواخذہ نہیں) اور نہ اسے اپنی ہنڈیا میں پکتے ہوئے گوشت کی مہک وخوشبو سے تکلیف واذیت دے الا یہ کہ اس میں سے تھوڑا بہت اسے دے اور اگر اپنے لیے پھل خریدے تواسے بھی ہدیہ کے طورپر دے۔ (جاری)

مشمولہ: شمارہ اگست 2015

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau