بیف سائنس کے اسرار اور گئو معمہ کا حل

عبدالسلام پتیگے کنڑ زبان کے معروف صحافی اور وارتابھارتی اخبار کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کا تجزیہ اچھوتا اور انداز بیان انوکھا ہوتا ہے۔ درج ذیل مضمون ملک کے ایک حساس مسئلے پران کے نقطہ نظر کو پیش کرتا ہے، اس مسئلے کے مختلف مضمرات کو سمجھنے میں اس سے مدد ملے گی۔ (مدیر)

بہت سے دوسرے شعبوں میں ہندوستان کی خراب کارکردگی پر تنقید کرنے والے ایک شعبے میں ہندوستان کی نمایاں کام یابی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اور وہ ہے گائے کے گوشت کی برآمدات۔ 2024 میں، ہندوستان نے مختلف ممالک کو 1.57 ملین ٹن ‘حلال بیف’ برآمد کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ویتنام کے علاوہ ملائیشیا، مصر، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کے مسلم اکثریتی ممالک ہندوستان سے گائے کے گوشت کے سب سے زیادہ درآمد کنندگان ہیں۔ ہندوستان پہلے ہی برازیل کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کاسب سے بڑا بیف ایکسپورٹر بن چکا ہے۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک نے اس میدان میں نمایاں ترقی کی ہے۔ گائے کا گوشت برآمد کرکے ملک نے کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی کمایا ہے۔

سال 2014 کے عام انتخابات کے دوران، گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے، جو بی جے پی کے ‘اسٹار اسپیکر’ تھے، اس وقت کی حکومت کی بیف برآمد کرنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔ ان کی کئی تقریروں کا مرکزی موضوع یہی تھا۔ وہ اس وقت کی کانگریس حکومت کو بیف بیچنے پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اس پس منظر میں، بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک بار جب 2014 میں بی جے پی اقتدار میں آجائے اور مودی وزیر اعظم بن گئے تو بھارت میں بیف ایکسپورٹ انڈسٹری مکمل طور پر بند ہو جائے گی۔ لیکن مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے ملک کے اندر گائے کے ذبیحہ اور گائے کے گوشت کے استعمال کو مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے جذباتی تقریریں تو کیں، لیکن بیرون ملک گائے کے گوشت کی برآمد کے کاروبار کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جب مودی ملک کے وزیر اعظم بنے تو گزرےمالی سال (2013-14) میں 13.66 لاکھ ٹن گائے کا گوشت برآمد کیا گیا تھا، اگلے مالی سال (2014-15) میں جب وہ وزیر اعظم بنے تو گائے کے گوشت کی برآمدات کا حجم نمایاں طور پر بڑھ کر 14.76 لاکھ ٹن ہو گیا۔ درحقیقت اس سال بیف کی برآمد کی گئی مقدار پچھلے دس برسوں کے مقابلے میں ایک ریکارڈ تھی۔ اس سے تقریباً 30 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی بھی ہوئی۔ گذشتہ سال راجیہ سبھا کے رکن پی پی سنیر (سی پی آئی) نے حکومت سے پارلیمنٹ میں بیف کی برآمدات پر 5 مخصوص معلومات مانگی تھیں۔ مرکزی وزیر تجارت پیوش گوئل کی طرف سے 6 دسمبر 2024 کو دیے گئے تحریری جواب میں اہم معلومات تھیں کہ ہندوستان نے 2023-24 میں 3,740.53 ملین ڈالر مالیت کا 12.96 لاکھ ٹن ’بھینس کا گوشت‘برآمد کیا۔

پچھلے سال مارچ میں، مقبول یوٹیوبر دھرو راٹھی نے اپنی ایک ویڈیو میں درج ذیل معلومات دی تھیں: انتخابی بانڈز سے متعلق دستاویزات کے مطابق، کمپنی ‘الانا’، جو کہ ہندوستان سے گائے کا گوشت برآمد کرتی ہے، نے 20 لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ گائے کے محافظ شیوسینا پارٹی کو 2020 میں 5 کروڑ روپے اور گائے کی حفاظت کرنے والی بی جے پی کو 2 کروڑ روپے کا عطیہ دیا گیا۔ الانا کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر خود کو ‘حلال بیف’برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ یہ تضاداتنا بڑا تھا کہ اسے چھپانا ممکن نہ تھا، فطری طور پر بہت سارے اعترضات ابھرنے لگے۔ کئی حلقوں سے تند و تیز سوالات اٹھنے لگے۔ سنگھی سرکار نے، جوسیدھے اور اہم سوالات کے الجھے ہوئے جواب دینے میں ماہر ہے، ان سب کو اچھی طرح سنبھالا۔ اعظم خاں جیسے سماج وادی پارٹی کے لیڈروں نے مودی کا مذاق اڑایا اور حکومت سے بیف ایکسپورٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ بی جے پی کے اندر کے لیڈر بھی پیچھے نہیں رہے۔ ستمبر 2015 میں، سبرامنیم سوامی نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھا، جس میں انھیں یاد دلایا گیا کہ’’حکومت اپنے اپیڈا ڈپارٹمنٹ کے ذریعے مختلف غذائی مصنوعات کے برآمد کنندگان کو جو 13 قسم کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے، وہ بیف کے برآمد کنندگان کو بااختیار بنا رہی ہیں۔ انھیں فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے2014 میں اپنی انتخابی تقریروں میں، آپ نے پچھلی حکومت کی ‘بیف ایکسپورٹ پر پابندی’ کی پالیسی کی مذمت کی تھی۔‘‘

2016 میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس معاملے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی تجارتی پالیسی کے مطابق گائے کے گوشت، بیل اور بیل کے گوشت کی برآمد پر پابندی ہے اور حکومت بیف ایکسپورٹرز کو کوئی سبسڈی نہیں دے رہی ہے۔ تو یہ کیا ہے کہ ہندوستان ہر سال اتنی بڑی مقدار میں برآمد کرتا ہے؟ ایک فطری سوال پیدا ہوا۔ اس کے جواب میں ایک بار پھر مغالطہ آرائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ بھارت کی طرف سے برآمد کیے گئے گائے کے گوشت کو غیر مانوس، مصنوعی نام جیسےکارا بیف وغیرہ دیا گیا، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ گائے کا گوشت نہیں بلکہ کچھ اوربرآمد کیا جا رہا ہے۔ وہ عمل ابھی تک جاری ہے۔ اگر بھارت کئی برسوں سے جوگائے کا گوشت برآمد کر رہا ہے وہ گائے کا گوشت نہیں ہے تو پھر مودی اور ان کے انتہاپسندوں کا کیڈر 2014 کے انتخابات سے پہلے کس بیف کی برآمد کے خلاف احتجاج کر رہا تھا؟ اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا۔ سبرامنیم سوامی اکثر گائے سے اپنی محبت اور مودی سے نفرت ظاہر کرتے ہیں۔ 2017 میں، انھوں نے ایک پرائیویٹ ممبر کا بل پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کو گائے کی آبادی کے تحفظ اور گائے کے ذبیحہ پر پابندی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگلے سال پارلیمنٹ میں اس پر گرما گرم بحث ہوئی۔ سماج وادی پارٹی کے رکن جاوید علی خان نے مطالبہ کیا کہ “حکومت کو چاہیے کہ وہ گائے کو فوری طور پر قومی جانور قرار دے اور اس کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمہ داری لے۔ ہندوستان کو دنیا کے ان تمام ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے چاہئیں جو گوشت کی تجارت کرتے ہیں”۔ اسی طرح کانگریس کے رکن راجیو شکلا نے پوچھا، “بی جے پی گائے کے ذبیحہ کے معاملے پر گوا کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر جو خود بی جے پی کے ہیں ان سے بات کیوں نہیں کر رہی ہے؟”۔ موجودہ بحث سے چند دن پہلے پاریکر نے گوا میں گاؤ رکھشکوں کے مظالم کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ گوشت کے تاجروں کو تحفظ اور مدد فراہم کریں گے۔ آخر کار سبرامنیم سوامی نے اپنا بل واپس لے لیا۔

اسی سال (2018) میں، مشہور فلم آرٹسٹ پرکاش راج اور سبرامنیم سوامی کے درمیان ‘ٹائمزناؤ’ٹی وی چینل پر ایک بحث ہوئی۔ بحث کے دوران، سوامی نے گائے کی عظمت، اکثریت کے جذبات، گائے کے ذبح کرنےپر پابندی کے قانون وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ اس دوران، پرکاش راج نے طنز کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سب آپ کی سیاست ہے۔ آپ کو میگھالیہ میں گائے کے گوشت کے کاروبار سے کوئی مسئلہ نہیں…”۔ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی، سوامی نے سہولت کی سائنس کا سہارا لیا اور کہا، ’’دیکھیے، آپ کو ایک بات سمجھنی چاہیے۔ گایوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے بوس انڈیکس۔ یہ ہمارے ہندوستانیوں کی گائے ہے۔ میگھالیہ والی گائے بوس انڈیکس نہیں ہے۔ وہ بوس ٹورس ہے۔ آپ اسےجتنا چاہیں کھا سکتے ہیں۔”

چوں کہ مودی، یوگی، سوامی وغیرہ عام طور پر ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں، اس لیے انھیں ایک مسئلہ نظر نہیں آتا۔ ہندوستان میں، بڑی تعداد میں سڑکوں پر گھومنے والے یتیم اور بے کفالت جانور کئی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ یہ آوارہ جانور کھیتوں اور باغات میں داخل ہو کر فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، سڑک پر چلنے والے لوگوں، خاص طور پر بچوں پر حملہ کرتے ہیں، پالتو جانوروں پر حملہ کرتے ہیں، اور سڑک کے کنارے دکانوں میں گھس کر نقصانات کا باعث بنتے ہیں، جس سے معاشرے کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ یہ جانور ماحولیاتی آلودگی، خاص طور پر آبی ذخائر کی آلودگی، اور مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کے بھی ذمہ دار ہیں۔ آوارہ جانور ہر سال ملک بھر میں ہونے والے ہزاروں سڑک حادثات اور المیوں کی بھی وجہ بنتےہیں۔ ایک انشورنس کمپنی کی جانب سے حال ہی میں شائع کردہ 2024 کے ‘ایکسیڈنٹ انڈیکس’ کے مطابق، ملک کے بڑے شہروں میں زیادہ تر سڑک حادثات آوارہ جانوروں کی وجہ سے ہوتے ہیں، جن میں 62 فیصد حادثات آوارہ کتوں کی وجہ سے ہوتے ہیں، جب کہ آوارہ مویشی، بھینسیں اور بیل 33 فیصد حادثات کے ذمہ دار ہیں۔ اکثر ان جانوروں کو خود کئی قسم کے تشدد اور ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حکومت کی جانب سے 2019 میں کیے گئے پانچ سالہ سروے کے مطابق ملک میں لاوارث آوارہ جانوروں کی تعداد 20 ملین سے زیادہ ہے۔ جب کہ ان میں سے زیادہ تر کتے ہیں، 50 لاکھ سے زیادہ مویشی ہیں، جن میں مویشی، بھینسیں اور دیگر انواع شامل ہیں۔ چوں کہ ہمارے معاشرے میں کتوں کو کوئی تقدس حاصل نہیں ہے، اس لیے ان کا سڑکوں پر بے بسی سے گھومنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مویشی، گائے بیل وغیرہ یتیم بن کر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ یہ یقینی طور پر چین یا بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر درآمد شدہ مویشی نہیں ہیں۔ کسی بھی شدت پسند قوم پرست نے آج تک یہ الزام نہیں لگایا کہ اتنی بڑی تعداد میں ان کی سڑکوں پر موجودگی کے لیے کوئی بین الاقوامی سازش ذمہ دار ہے۔ توپھر وہ ہماری سڑکوں پر کہاں سے آتے ہیں؟ انھیں سڑکوں پر کون بھیجتا ہے؟ گلہ بان اتنی بے دردی سے ان مویشیوں کو سڑکوں پر کیوں پھینک دیتے ہیں جنھوں نے برسوں سے ان کے کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے انھیں دودھ دیا تھا؟ لوگ مویشیوں اور دوسرے جانوروں کو سڑکوں پر بھوک سے مرنے کے لیے کیوں چھوڑ دیتے ہیں، یہ سچ ہے کہ وہ دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں، تو کیا ہوا؟ اب بھی پیشاب، گوبر وغیرہ مقدّس چیزیں توپیدا کرتے ہیں، جوحضرات ان چیزوں کو مقدّس سمجھتے ہیں وہ ان کا استعمال کر سکتے ہیں؟ جہاں گائےکو لےکر بے انتہا جذبات پائے جاتے ہوں وہاں اس طرح کےسوالات کا اٹھنا فطری ہے۔

حقیقت میں، پشوپالک بے رحم نہیں ہوتے۔ اپنے لیے غیر مفید جانوروں کو سڑکوں پر چھوڑنے پر وہ مجبور ہوتے ہیں، ان کی بے بسی اور ان پر عائد کردہ ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے وہ اپنے لیے ناکارہ جانوروں کو راستوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے کسان، کارپوریٹ اشرافیہ کی طرح، صرف نفع و نقصان کا حساب لگا کر غیر انسانی فیصلے کرنے والے بے رحم شیطان نہیں ہیں۔ ہمارے کسانوں اور پشوپالکوں کی اکثریت غریب ہے۔ یہ لوگ، جو خود اپنا پیٹ بھرنے کے لیے روزانہ جدوجہد کرتے ہیں، ان کے پاس اپنے پیارے لیکن غیر مفید جانوروں کی پرورش کے لیے نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی سہولیات۔ چند دہائیوں پہلے، ان لوگوں کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اپنے غیر ضروری مویشی، جیسے گائے یا بیل بیچ کر تھوڑی سی آمدنی حاصل کر لیں۔ اس معمولی آمدنی کی ان کی نظر میں بہت قدر تھی۔ زیادہ تر گوشت کے تاجر ان جانوروں کو خریدتے تھے۔ لیکن جب سے گئو رکشا کے نام پر پورے ملک میں گھومنے والی ٹولیوں نے سڑکوں پر جانوروں کی خرید و فروخت اور نقل و حمل پر پابندی لگائی، تب سے گئو پالک اپنے غیر ضروری جانوروں کو بیچنے کے حق اور موقع سے محروم ہو گئے۔ اگر حکومت یا معاشرہ ان جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے مناسب پناہ گاہیں فراہم کرتا، تو وہ یقیناً ان جانوروں کو ایسی پناہ گاہوں میں چھوڑ دیتے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسی گوشالہ یا جانوروں کی پناہ گاہیں کتنی ہیں؟ بی جے ڈی کی راجیہ سبھا رکن سلاتا دیو نے 2023 میں پارلیمنٹ میں یہی سوال اٹھایا تھا۔ اس کے جواب میں، اس وقت کے پشوپالن وزیر پریشوتم روپالہ نے بتایا کہ ملک میں 7676 گوشالہ کام کر رہی ہیں۔ اسی سال نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجراپول، کنجی ہاؤس، گو واٹیکا جیسے مختلف ناموں سے ملک میں 5000 سے زائد گوشالہ موجود ہیں۔ ساتھ ہی، یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے صرف 1837 اداروں کو انڈیا اینیمل ویلفیئر کارپوریشن سے منظوری حاصل ہے۔ آوارہ جانوروں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں گوشالہ کی یہ تعداد نہایت کم ہے۔ مزید یہ کہ مختلف مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوشالہ کا بورڈ لگا کر، حکومت، نجی کمپنیوں اور عوام سے عطیات لے کر چلائی جانے والی بہت سی گوشالاؤں کی کارکردگی کا معیار انتہائی ناقص ہے۔

درحقیقت، جنھوں نے ‘گائے کے محافظوں’کے بھیس میں بہت زیادہ سیاست اور تشدد کیا ہے اور اسی راستے سے مرکز اور کئی ریاستوں میں اقتدار میں آچکے ہیں، اگر وہ گائے کے لیے تھوڑی سی بھی ہمدردی رکھتے تو یقیناً وہ آوارہ گایوں کے مسئلے کو پوری طرح سے حل کرنے میں کام یاب ہوجاتے۔ ہمارے ملک کے پاس یقینی طور پر انھیں مناسب پناہ گاہ فراہم کرنے کے لیے تمام ضروری وسائل موجود ہیں۔ لیکن اب تک وہ جانوروں کی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبوں کے نام پر صرف چند سستے ڈرامےکر تےرہے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ اور دیانتدارانہ کوشش نہیں کی۔ ان تمام تلخ حقیقتوں کے پیش نظر، وہ لوگ جو معاشرے کے لیے حساس ہیں، کسانوں، چرواہوں اور جانوروں کےمفاد میں کچھ امکانات پر غور کر سکتے ہیں۔

گائے کیا ہے؟ کیا نہیں ہے؟ گائے کی کون سی خاص نسل مذہبی نقطہ نظر سے مقدس ہے؟ کون سے جانور ‘مقدس’ کے لقب کے مستحق ہیں یا نہیں ہیں؟ ایسے معاملات پر باضابطہ طور پر ایک واضح، اتفاق رائے پر مبنی موقف اختیار کیا جانا چاہیے اور اس موقف کو پورے معاشرے تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس طرح مویشیوں کے ایک بڑے گروہ کو ‘پاکیزگی’ کے بوجھ سے آزاد کیا جائے اور معاشرے میں ایک بڑی غیر ضروری الجھن کو ختم کیا جائے۔

وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ’’گائے میں صرف باس انڈیکس ہی ہمارے لیے مقدس ہے، اور کوئی بھی باس ٹورس گائے کو جتنا چاہے کھا سکتا ہے‘‘، انھیں یہ سرکاری پالیسی بنانی چاہیے اور اس پالیسی کو معاشرے میں اچھی طرح متعارف کرانا چاہیے۔ گائے کی مقدس نسل باس انڈیکس کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ جب باس انڈیکس گائے ان کے مالکان کے لیے بیکار ہو جائیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ انھیں ان کے مالکان سے مناسب قیمت پر خریدے اور انھیں مناسب پناہ گاہ فراہم کرے۔ تاہم، باس ٹورس گایوں، بھینسوں اور دیگر جانوروں کو پالنے، اور بیچنے کے لیے مفت کھلا ماحول فراہم کرے۔ گایوں کے محافظ بن کر راستوں میں چوکی داری کرنے والی مسلّح ٹولیوں میں اتنی بیداری پیدا کرنی چاہیے کہ وہ مقدّس اور غیر مقدّس گایوں میں تمیز کر سکیں۔

آج کل ہندوستان سے بیرونی ممالک کو جو ‘بیف’وافر مقدار میں برآمد کیا جا رہا ہے، اسے مقامی بازاروں میں بھی اتنا ہی وافر مقدار میں دستیاب ہونا چاہیے۔ موجودہ بیف مارکیٹ کی ترقی اور توسیع کے لیے حکومت کو ہر قسم کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

آج مارکیٹ میں مٹن کے گوشت کی قیمت فی کلو 700 روپے ہے۔ گائے کے گوشت کی قیمت صرف 225روپے ہے۔ غریب قدرتی طور پر گائے کا گوشت صرف اس وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ یہ سستا ہے۔ مٹن کا گوشت ان کی پہلی ترجیح ہے اگر یہ مناسب قیمت پر دستیاب ہو۔ اگر حکومت واقعی گائے کے گوشت کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے تو وہ مٹن کو سبسڈی دے اور زیادہ بھیڑوں اور بکریوں کی فارمنگ کی حوصلہ افزائی کرے، تاکہ وہ کم قیمت پر لوگوں کو دستیاب ہو، تاکہ کسی کو گائے کا گوشت تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

کسی بھی جاندار کی تعداد صرف اس لیے کم نہیں ہوتی کہ لوگ اسے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں چکن مٹن یا گائے کے گوشت سے سینکڑوں گنا زیادہ مقدار میں فروخت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چکن دنیا سے غائب نہیں ہوا ہے۔ درحقیقت ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جوں جوں کسی چیز کا استعمال بڑھتا ہے، اس کی دستیابی بڑھانے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اگر ‘وس ٹورس’کی نسل کے مویشیوں کے ساتھ ساتھ بھینسوں وغیرہ کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے تو ان کی نسلیں معدوم ہونے کے بجائے پروان چڑھیں گی۔

مشمولہ: شمارہ جون 2025

مزید

حالیہ شمارے

Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223