قرآن شاعری نہیں ہے، مگر شاعری سے زیادہ ہے۔ وہ تاریخ نہیں ہے اور نہ سوانح عمری ہے، مگر اس میں قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ اور انسانی تاریخ سمجھنے کی وہ محکم بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں انسانی تاریخ کے کسی دور کا بھی جائزہ لینا ممکن ہے۔ وہ انجیل کے پہاڑی مواعظ (Sermon on the Mount)کی طرح مجموعہ امثال نہیں ہے، مگر اس کے باوجود قرآن امثال کی زبان میں انتہائی پیچیدہ اور دقیق پہلوؤں کو آسان فہم بنا دیتا ہے۔ وہ مابعد الطبیعاتی مکالمہ نہیں ہے، جیسا کہ بدھا کے سوتر میں پایا جاتا ہے، مگر وہ مابعد الطبیعاتی رازوں سے پردہ کشائی بھی کرتا ہے۔ وہ محض پند و نصائح بھی نہیں ہے جیسا کہ افلاطون کے یہاں عاقل اور نادان کی مجلسوں میں پایا جاتا ہے۔[1]
مگر انسانوں کو وہ اپنے اعمال کے انجام سے آگاہ بھی کرتا ہے اور دلوں کو مسخر بھی کرتا ہے۔ وہ ایک پیغمبر کی پکار ہے۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں سائنسی معلومات کی کمی بھی نہیں ہے۔ اسی طرح وہ تہذیب و تمدن کی کتاب نہیں ہے، مگر اس میں تہذیب کی مبادیات بھی ملیں گی اور تمدن کے نشاناتِ راہ بھی۔
قرآن ایک سپاٹ کلام نہیں ہے۔ وہ اپنی بات کو قاری تک پہنچانے کے لیے مختلف بدائع اور صنائع اختیار کرتا ہے جو تقریبا سو سے زیادہ ہیں۔[2] ان میں سے قصص بھی اس کا ایک طریقہ ہے اور تمثیل بھی ایک صنعت ہے۔ قرآن میں بہت سے وہ قصے بیان کیے گئے ہیں جو تاریخی ہیں۔ ان میں بعض وہ قصے بھی ہیں جن کی تاریخ کا سراغ لگانا مشکل ہے اس لیے بعض دانش ور انھیں تمثیل کے زمرے سے سمجھتے ہیں۔[3]
انسان ہر زمانے میں اپنی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے اطراف میں پائی جانے والے قدرتی ذخائر کو دریافت کرتا اور انھیں استعمال کرتا رہا، مگر تاریخ میں بعض اہم موڑ آئے ہیں، بعض ایجادات ایسی ہوئی ہیں جنھیں ہم انقلاب آفریں خیال (path breaking idea)کہہ سکتے ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ یہ اس لیے کہ اسلام کی نظر میں علم کی جستجو میں لگنا عبادت ہے اور کسی چیز کو دریافت کرنے کے بعد اس علم کو چھپانا خیانت ہے اور انسانیت کے مفاد عامہ کے لیے کائنات کے ذخائر کو عام کرنا اس کی تعلیمات کا حصہ ہے۔
اب ہم قرآن سے چند تمثیلات پیش کریں گے۔ قرآن میں چار انبیا کے سلسلے میں واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اپنے زمانے کی ترقی میں انھوں نے بڑا رول ادا کیا ہے اور کچھ تمدنی سہولیات یا بہتر اور خوش حال زندگی کے لیے ایجادات کیں۔ اس کے علاوہ اور دو شخصیات کا تذکرہ قرآن میں ملتا ہے۔ وہ چھ شخصیات حسب ذیل ہیں:
حضرت نوح علیہ السلام
حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام
ملکۂ سبا
ذوالقرنین
ذیل میں پیش کی جانے والی دو مثالوں سے اس بات کا بھی اندازہ ہو جائے گا کہ انبیائے کرامؑ جہاں روحانی پیشوا تھے وہیں اپنے زمانے کی تمدنی ترقی میں بھی انھوں نے اپنا انوکھا رول ادا کیا جس سے انھیں دین کو قائم کرنے میں مدد ملی۔
کشتی سازی
تقریباً ایک لاکھ سال کے طویل عرصہ کومحیط انسانی تاریخ میں نامعلوم وقت سے انسان خشکی کی سواری کے لیے جانوروں کا اور بحری سفر کے لیے کشتیوں کا استعمال کرتا رہا ہے۔ قدیم زمانے میں انسانی آبادیاں عموماً آبی ذخائر کے آس پاس ہوا کرتی تھیں۔ نہر کے اس پار سے اس پار جانے کے لیے اس نے ٹوٹ کر گرنے والے درختوں کے کھوکھلے تنوں کو کشتی کے طور پر پہلے پہل استعمال کرنا شروع کیا۔ پھر رفتہ رفتہ اس نے مختلف مقاصد کے لیے طرح طرح کی کشتیاں بنائیں۔ البتہ کشتی اپنی بھرپور اور ترقی یافتہ شکل میں پہلی بار کس نے بنائی ہوگی؟ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ اس فن کے موجد تھے۔ اس دعوے کے لیے ہمارے پاس انسانی معیار کے ٹھوس تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہمیں ملتا ہے کہ آپ نے خدا کی نگرانی اور رہ نمائی میں کشتی بنائی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمدن کی جتنی بھی ترقیات ہوئی ہیں کسی فرد کے ذہن میں اس کا پہلا خاکہ بنا اور وہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو سائنس دانوں کو اس کی جانب الہام کرتا ہے۔
کشتی بنانے کے سلسلے میں قرآن میں جو ذکر آیا ہے وہ اس طرح ہے:
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْینِنَا وَوَحْینَا وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ۔ وَیصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَیهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ۔(ھود: 37-38)
’’اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کردو۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔ نوح کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں۔‘‘
یہاں قرآن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ’فلک‘ ہے اس کی تشریح میں مفسرین نے بہت سی باتیں بیان کی ہیں۔ تورات کے حوالے بھی دیے گئے ہیں جس میں حضرت نوحؑ کی کشتی بنانے کی ساری تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ امام رازیؒ نے خوب فرمایا کہ اس قدر جان لینا کافی ہے کہ کشتی میں اتنی گنجائش تھی کہ اس وقت کی مومن آبادی اور جانوروں کے جوڑے اس میں سما گئے تھے۔ [4]
غرض حضرت نوحؑ نے ایک شان دار بڑی کشتی بنائی تھی تاکہ اس وقت کے مومنین اور جانوروں کے جوڑے اس پر سوار ہو سکیں۔ یہ کشتی یا جہاز کتنا بڑا تھا اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی متعین معلومات نہیں ہیں۔ مؤرخین اور محققین کی طرف سے کئی مرتبہ یہ آوازیں اٹھیں کہ نوح کی کشتی پائی گئی۔ اسی طرح حضرت نوحؑ کے زمانے کے سیلاب کے سلسلے میں بھی مختلف تاریخی شواہد ملتے ہیں۔ ابھی قریب میں اس کا ثبوت کہ نوحؑ کے زمانے کے سیلاب کا جو ذکر بائبل میں ملتا ہے ڈاکٹر رابرٹ بیلارڈ نے اے بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں تفصیل سے بتایا ہے۔ بیلارڈ زیر آب آثار قدیمہ کے ایک مشہور ماہر ہیں۔ ثبوت کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے اپنی تحقیقات اور اس کے نتائج کے بارے میں بات کی۔ ان کی ٹیم ترکی کے ساحل سے دور بحیرۂ اسود کی گہرائیوں میں نوحؑ کے زمانے سے پانی کے اندر چھپی قدیم تہذیب کے آثار کی تلاش میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیؑ سے 12 ہزار سال قبل زمین کا بڑا حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ برف کے تودے گرنے اور پگھلنے کے نتیجے میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا۔ اس نے اس وقت کی آبادی کے بڑے حصے کو غرقاب کردیا۔ بابل اور میسوپوٹیمیا کے علاقے میں بھی اس طرح کےسیلاب کی تفصیلات کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ ایک ہی سیلاب تھا جسے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے یاد رکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ رابرٹ بیلارڈ، وہی ماہر ہیں جن کا ایک ناممکن کو تلاش کرنے کا ٹریک ریکارڈ مشہور ہے۔ 1985 میں ریموٹ کنٹرول کیمروں سے لیس روبوٹک آب دوز کا استعمال کرتے ہوئے بیلارڈ اور اس کے عملے نے دنیا کے سب سے مشہور جہاز کا ملبہ دریافت کیا تھا جسے ٹائٹینک (Titanic) کہا جاتا ہے۔ [5]
مولانا مودودیؒ نے بھی اپنی شہرہ آفاق تفسیر ’تفہیم القرآن‘ میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ ایک ہی سیلاب تھا۔ لوگ جب ایک آبادی سے نکل کر دنیا میں پھیل گئے تو انھوں نے اسے یاد رکھا اور بیان کیا۔ بعد والوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کے علاقے میں ایسا کوئی سیلاب کسی زمانے میں آیا تھا۔ اس طوفان کی روایتیں قدیم زمانے سے مشہور ہیں حتیٰ کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔[6]
قرآن میں اس کشتی کی تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہیں، البتہ بائبل میں اس کی تفصیلات ہمیں ملتی ہیں۔ ملحدین تو آج بھی کشتی نوح کو ایک داستان کہتے ہیں۔ بظاہر اس کی ایک وجہ تو ان کی الحادی فکر ہے مگر انھیں اس بات پر بھی تعجب ہے کہ کشتی بنانا پیچیدہ سائنسی کام ہے اور ایک نبی سے وہ ممکن نہیں۔ یہ بات انھیں سمجھ میں نہیں آتی کہ نبی اپنے وقت کا سب سے زیادہ ذہین اور عبقری انسان ہوتا ہے۔ وہ سائنس داں بھی ہوسکتا ہے، حکم راں بھی ہوسکتا ہے، اور ہر معاملے میں وہ عام معروف معیارات سے منفرد ہوتا ہے۔
قدیم زمانے سے لے کر آج تک کسی بھی تمدن کے فروغ میں کشتیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر حضرت نوحؑ سے پہلے کشتیاں کیسی تھیں اسے جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے ماہرین آثار قدیمہ اور مؤرخین کے پاس موجود نہیں ہے۔ مگر جو چیز حضرت نوحؑ نے بنائی وہ چوں کہ خدا کی نگرانی میں بنائی گئی اس لیے کشتی بنانے کے تمام سائنسی علوم کا احاطہ اس میں لازمی طور پر شامل رہا ہوگا۔
حضرت نوحؑ نے جو کشتی بنائی اس کی نقل ماضی قریب میں امریکہ کے ایک میوزیم میں بنائی گئی ہے۔ 7 جولائی 2016 کو ’دی آرک انکاؤنٹر‘ شمالی کینٹکی، امریکہ میں عوام کے لیے کھولا گیا۔ اسے ایک قسم کی ’تاریخی پرکشش تھیم‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ 800 ایکڑ پر مشتمل ببلیکل تھیم پارک کا مرکزی آئیٹم ’نوح کی کشتی‘ کا ایک لائف سائز ماڈل ہے۔ یہ 25 میٹر (81 فٹ) اونچا اور 160 میٹر (510 فٹ) طویل ہے۔ لمبائی میں یہ دنیا کا سب سے بڑا فری اسٹینڈنگ لکڑی کے فریم کا ڈھانچہ ہے۔ یہ جہاز کنکریٹ کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ اس کشتی کو بائبل میں بیان کردہ طول و عرض کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے، جس میں قابل تجدید جنگلات سے لگ بھگ 7800 معکب میٹر لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے اور لیڈ (Leed) سے تصدیق شدہ طریقوں پر عمل کیا گیا ہے—جیسے جیوتھرمل ہیٹنگ اور بارش کے پانی کو روکنے وغیرہ امور کے تجویز کردہ معیارات پر اس کشتی کی تعمیر کی گئی ہے۔
ایک ہزار سے زیادہ کاریگروں نے اس کشتی کی تعمیر میں حصہ لیا۔ لکڑی کے ڈھانچے کی تکنیکوں کو اپناتے ہوئے، جہاں بھی ممکن ہوسکا، ان چیزوں کی نقل تیار کی گئی جو قدیم زمانے میں استعمال ہوتی تھیں، جس میں لکڑی کو بھاپ کی مدد کے بجائے دستی طور پر موڑنا شامل تھا۔ تاہم تمام مجوزہ تکنیکوں کے باوجود یہ کشتی عمارت کے معیارات پر پوری نہیں اتری– جیسے کہ اصل منصوبہ میں اسٹیل کے بندھنوں کے بجائے لکڑی کے کھونٹوں کو استعمال کیا جانا تھا۔[7]
اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت نوحؑ نے جو کشتی بنائی وہ کتنی عظیم الشان رہی ہوگی۔ کشتی بنانے کے لیے کچھ علوم کا ہونا لازمی ہے اور ممکن ہے کہ حضرت نوحؑ کو اپنے تجربے سے بھی وہ علم حاصل رہے ہوں اور خدا نے تو ان کی رہ نمائی کی ہی تھی۔ وہ علوم یہ ہیں:
- کڑیوں کا علم جنھیں آسانی سےموڑا جا سکتا ہو اور وہ پانی میں رہ کر خراب نہ ہوں
- جیومیٹری کا علم
- بحریات کا علم
- اچھال (buoyancy)کا علم
- اچھی عملی مہارت
- مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت
- درست طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت
- ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کی صلاحیت
- اچھے ٹیم ورک کی مہارت
- اور بہت سی خصوصی کرافٹ کی صلاحیتیں
یہ کشتی کیسے بنائی گئی اس کا ایک لائحہ عمل کسی تختی میں لکھا ہوا پایا گیا۔ آثار قدیمہ اور کھدائی کی ماہرین اس زبان سے واقفیت رکھتے ہیں جسے ’کیونیے فورم‘ (Cuneiform) زبان کہتے ہیں، جو 3200 قبل مسیح میں پائی جاتی تھی۔ بائبل کی تاریخ کے حساب سے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوحؑ کے بعد کے زمانے میں بھی یہ زبان پائی جاتی تھی۔[8]
ہوسکتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی اس کشتی کے جودی پہاڑ پر پہنچنے کے بعد جو تمدن وجود میں آیا اس میں کسی نے اس لائحہ عمل کو محفوظ کرلیا ہو۔ اسے The Ark Tablet کہا جاتا ہے۔
کچھ اور تختیوں کے حوالے سے 99 قسم کے جانور چرند پرند اور ان کی بہت سے اقسام کی فہرست بھی ملتی ہے اور ان سب کو کشتی میں کس طرح سے الگ الگ سطح پر کمپارٹمنٹ بنا کر رکھا گیا ہوگا، ان کے تخیلاتی نقشے بھی ملتے ہیں۔ کشتی میں ان سب کے کھانے پینے کی ضروریات کا انتظام بھی حیرت انگیز رہا ہوگا۔[9]
کشتی جودی پہاڑ پر جا کر رکی۔ وہاں ایک نئی آبادی اور ایک نیا تمدن وجود میں آیا۔
مخزن سازی
انسانی تاریخ میں حضرت یوسفؑ کے تمدنی کارناموں کا سراغ لگانا قدرے مشکل ہے۔ زمانے کی تاریخ کے سلسلے میں جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں ان میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مگر قرآن قطعیت کے ساتھ بتاتا ہے کہ حضرت یوسفؑ کو پہلے وقت کے بادشاہ نے اپنا ایک قریبی افسر بنایا تاکہ آنے والے قحط کے زمانے کے سلسلے میں اچھی منصوبہ بندی کی جاسکے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ اس ملک کے بادشاہ بن گئے۔
قرآن بتاتا ہے کہ جب آپؑ جیل میں تھے اور بادشاہ کا ایک سفیر آپ کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا خواب سنایا تو آپ نے اس کی تعبیر بھی بتائی اور اناج کو محفوظ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ پھر بادشاہ نے جب آپ کو طلب کیا تو آپ نے فرمایا:
قَالَ اجْعَلْنِی عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ (یوسف: 55)
’’یوسف نے کہا ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘
پھر خوراک اور سول سپلائی کا قلم دان انھیں سونپ دیا گیا تو آپ نے اپنے ہی دیے گئے مشورے کے مطابق پہلے سات سال کی خوش حالی کے زمانے میں اناج کا ایک حصہ خشکی کے دور کے لیے پس انداز کرنے کا جہاں پر انتظام کیا وہ اہرام مصر تھے جنھیں silos بھی کہا جاسکتا ہے۔ چوں کہ مغربی دنیا میں معروضی مطالعہ کے نام سے انھی چیزوں کو پیش کرنا معروضی سمجھا جاتا ہے جن میں خدا و رسول, دین و مذہب, نیز آسمانی کتب اور دینی روایات شامل نہ ہوں، اس لیے اگر کوئی دعویٰ کرے کہ حضرت یوسفؑ نے اناج کی ذخیرہ اندوزی کے لیے اہرام مصر بنائے تھے تو وہ ملامت کا نشانہ بن جاتا ہے۔[10] اس کے برعکس مؤرخین، ماہرین آثار قدیمہ اور ماہرین مصریات کی وہ باتیں جن کے سلسلے میں خود ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے وہ ان تازہ دانش وروں اور کالم نگاروں کے سامنے قطعی ثبوت، حرف آخر اور الہامی تعلیمات کے برابر ہیں۔ جب کہ خود ویکیپیڈیا کا کہنا ہے کہ قدیم ترین اہرام 2600 قبل مسیح میں بنائے گئے تھے اور کاربن ڈیٹنگ سے تین سو سال کے فرق کا امکان ہے یعنی یہ کہ وہ 2300 قبل مسیح کے بھی بنے ہو سکتے ہیں۔[11]
بعض ماہرین مصریات کے نزدیک اولین اہرام مصر 2160 قبل مسیح میں بنائے گئے۔ مستشرقین اور محققین نے مصر کے شاہی خاندان اور ان کے آثار پر جو کچھ لکھا ہے اس میں بہت سے امور پرایک دوسرے کے درمیان نکتہ اتفاق پر پہنچنا ناممکن ہے۔ انھیں خود اس بات کا اعتراف ہے کہ تاریخی شواہد کی عدم موجودگی کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ان کا بیانیہ اطمینان بخش نہ ہو۔ آج سے چار ساڑھے چار ہزار سال قبل کی تاریخ سے متعلق امور کو قاری آج کے معیار پر جانچنا چاہتا ہے اور اس کی توقع یہی ہوتی ہے کہ ریفرنس سے بات کی جائے جب کہ صورت واقعہ یہ ہے کہ ماہرین آثار کی تحریروں، یا ماہرین یادگاریات نے جو معلومات اپنے پیچھے چھوڑی ہیں یا مرور زمانہ کی وجہ سے جو باقی نہ رہ سکی ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذہبی کتابوں میں موجود مواد اور بنی اسرائیل کی طویل تاریخ کے تانے بانے کو جوڑ کر پھر قیاس سے کام لیا جائے گا۔ ایسا اس لیے کہ ہمارے پاس بنی اسرائیل کے مصر میں داخلے اور مصر سے خروج کے سلسلے میں کافی حد تک درست معلومات پائی جاتی ہیں۔ اس دور کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں ایک تمدن اپنے درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ اپنی ثقافت، لباس، طرزِ معاشرت، طرزِ تعمیر، آرٹ، فنونِ لطیفہ وغیرہ میں وہ اپنے زمانے سے آگے تھے۔[12]
حضرت یوسفؑ نے اناج کی ذخیرہ اندوزی کے لیے جو انتظامات کیے، انھیں اناج کے گودام کہا جاتا ہے۔ بعض مصنفین کا خیال ہے کہ گرینریز (گودام) مصری اہراموں کا ایک نام ہے جو اکثر اس علاقے کے ابتدائی مسافر استعمال کرتے رہے ہیں۔[13] ایک مسیحی خاتون سیاح ایجیریا نے 381 اور 384 عیسوی کے درمیان اپنے دورے پر لکھا ہے کہ ’’میمفس اور بابل کے درمیان بارہ میل کے فاصلے پر [پرانے قاہرہ میں] بہت سے اہرام ہیں، جنھیں جوزف نے مکئی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا تھا۔‘‘ دس برس بعد اس استعمال کی تصدیق سات راہبوں کے گم نام سفرنامے میں ہوتی ہے جو یروشلم سے مصر کے مشہور سنیاسیوں سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے تھے، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے جوزف کے اناج گھر کو دیکھا، جہاں اس نے بائبل کے زمانے میں اناج کا ذخیرہ کیا تھا:
’’یہاں داخل ہونے کے بعد ہم نے جنوبی رخ پر چھ دن کا سفر کیا اور مصر میں بابلیا کے شہر پہنچے، جہاں ایک بادشاہ فرعون نے حکم دیا تھا، جس کے تحت یوسف نے سات گرینریوں کو تعمیر کیا، جو ابھی تک باقی ہیں۔‘‘[14]
جیسا کہ مصری عالم ابو جعفر الادریسی (وفات 1251)، جو اہرام پر قدیم ترین معروف و بسیط کتاب کے مصنف ہیں، کہتے ہیں:
’’جس قوم نے اسے بنایا وہ تباہ ہوگئی، اس کا کوئی جانشین نہیں رہا جو اس کی سچائی آگے کی نسلوں تک لے جا سکے۔ باپ سے بیٹے تک کی کہانیاں ان کے ذوق کے مطابق منتقل ہوتی ہیں، جیسا کہ دوسری قوموں کے بیٹے اپنے باپوں سے وہی آگے لے جاتے ہیں جو وہ اپنی کہانیوں میں سننا اور بیان کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ [15]
اس بحث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت یوسفؑ نے جس شان دار طریقے سے ایک تمدن کو خشک سالی سے تباہ ہونے سے بچایا اور ایک نئی زندگی عطا کی اس کے لیے انھوں نے بہت سی تکنیکیں ایجاد کی ہوں گی۔ جس طرح آج اناج کو محفوظ رکھنے کے لیے ویئر ہاؤس اور سیلوز بنائے جاتے ہیں، ممکن ہے اہرام مصر کا بھی یہی کام ہو یا کوئی اور ٹکنالوجی، جس کے ذریعے خوراک کی ذخیرہ اندوزی کی گئی ہوگی اور اس طرح سے کی گئی ہوگی کہ اناج بوسیدہ نہ ہونے پائے یا گھن اسے کھا نہ جائیں بلکہ سات سال بعد بھی وہ استعمال کے لائق رہے۔
حوالہ جات و حواشی:
[1] Syed, Ameer Ali. The spirit of Islam or the life and teachings of Mohammad. Gorgias Press, 2001, p395.
[2] جلال الدین السیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، جلد دوم۔
[3] Jeffrey Lang, Losing My Religion: A Call for Help, Amana Publications, Beltsville, 2004.
[4] تفسیر رازی الکبیر کا حوالہ تفسیر ماجدی میں دیکھا جا سکتا ہے
[5] ABC News, “Evidence Noah’s Biblical Flood Happened, Says Robert Ballard”. ABC News, 2022, https://abcnews.go.com/Technology/evidence-suggests-biblical-great-flood-noahs-time-happened/story?id=17884533.
[6] تفہیم القرآن، سورہ ھود آیت 44 کا حاشیہ
[7] ’’Noah’s Ark.‘‘ Ark Encounter, https://arkencounter.com/noahs-ark/.
[8] ’’Cuneiform.‘‘ Wikipedia. Wikimedia Foundation, March 11, 2022. https://en.wikipedia.org/wiki/Cuneiform.
[9] Finkel, Irving. The Ark Before Noah: Decoding the story of the flood. Hachette UK, 2014.
[10] Miller, Michael E. The Washington Post. October 25, 2021. http://www.washingtonpost.com/news/morning-mix/wp/2015/11/05/ben-carson-believes-joseph-built-egypts-pyramids-to-store-grain-and-it-just-may-get-him-some-votes/.
[11] ’’Great Pyramid of Giza.‘‘ Wikipedia. Wikimedia Foundation, March 13, 2022. https://en.wikipedia.org/wiki/Great_Pyramid_of_Giza.
[12] Wilkinson, John Gardner. The manners and customs of the ancient Egyptians. Vol. 2. London, John Murray, 1878.
[13] https://’’Joseph’sGranaries‘‘ Wikipedia. Wikimedia Foundation, May 19, 2021. https://en.wikipedia.org/wiki/Joseph%27s_Granaries’:%20~:%20text=Joseph’s%20Granaries%20is%20a%20designation,early%20travelers%20to%20the%20region.‘amp;text=%22So%20when%20the%20famine%20had,56.
[14] Bernard, John Henry, and Bernardus Francus. The Itinerary of Bernard the Wise:(AD 870); how the City of Jerusalem is Situated (circ. AD 1090?), Trans. by JH Bernard. Palestine Pilgrims’ Text Society, 1893.
[15] Rosenthal, Franz. “Das Pyramidenbuch des Abu Gafar al-Idrisi (st. 649/1251).” The Journal of the American Oriental Society 114, no. 4 (1994): 690-692.
مشمولہ: شمارہ اپریل 2022