دھات کاری
وَلَقَدْ آتَینَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا یا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ۔ أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ۔
ہم نے داؤد کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو۔ (اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو دیا۔ ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ زر ہیں بنا اور اس کے حلقے ٹھیک اندازے سے رکھ۔ اے آل داؤد، نیک عمل کرو، جو کچھ تم کرتے ہو میں دیکھ رہا ہوں۔ (سورہ سبا: ۱۰،۱۱)
قرآن میں بعض انبیا کی تخلیقات کا ذکر آیا ہے۔ یہ تمدنی کارنامے قابلیت کے لحاظ سے کسی بھی دوسرے وقت اور جگہ سے اور معلوم و معروف سائنس دانوں کے کارناموں سے مختلف نہیں ہیں۔ اس لیے معجزاتی اور مافوق الفطرت وضاحتوں کا سہارا لیے بغیر طبعی علوم اور سماجی سائنسی تجزیے کے مطابق انھیں سمجھا جا سکتا ہے۔ عام طور پر مفسرین نے حضرت داؤد علیہ السلام کے سلسلے میں یہ بات بیان کی ہے کہ ہاتھ میں جب وہ لوہا لیتے تو موم کی طرح پگھل جاتا تھا ، اور یہ ان کا معجزہ تھا۔ مگر مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ علیہ نے لوہے کو پگھلانے کے سلسلے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ حضرت داؤد علیہ السلام کی اپنی سائنسی ایجاد تھی۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’رات کا راہب دن کا شہ سوار : یعنی یہ زاہد شب زندہ دار یہ نہ سمجھو کہ صرف تنہائی کے گوشوں میں بیٹھ کر اللہ ہو کرنے والا ہی تھا ، بلکہ یہ جس طرح رات کا راہب تھا اسی طرح دن کا شہ سوار بھی تھا۔ ہم نے جنگ کے حملوں سے حفاظت کے لیے اس کو ایک خاص لباس بنانے کی تعلیم دی۔ اس خاص لباس سے اشارہ زرہ کی طرف ہے۔ اس کے موجد حضرت داؤد ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ زرہ کی جو اعلیٰ قسمیں حضرت داؤد نے ایجاد کیں، ویسی زر ہیں ان سے پہلے وجود میں نہیں آئی تھیں۔ عربی کی رزمیہ شاعری میں داؤدی ساخت کی زر ہوں کا ذکر بہت آتا ہے۔ اس عہد کے دفاعی اسلحہ میں سب سے زیاہ اہمیت اسی کو حاصل رہی ہے۔ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ ان آلات و اسلحہ کی اب کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔ لیکن جس زمانے کی یہ بات ہے اس زمانے میں حضرت داؤد اپنی انھی ایجادات کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے مالک تھے۔ مقصود اس کے ذکر سے یہ ہے کہ حضرت داؤد باللیل رھبان وبالنھار فرسان کی صحیح تصویر تھے۔ ایک طرف ان کی پرسوز دعاؤں اور مناجاتوں سے پہاڑوں کا دل موم ہوتا، دوسری طرف ان کی جنگی ایجادات اور ان کی فوجی یلغاروں سے دشمنوں پر لرزہ طاری رہتا۔‘‘[1]
مولانا امین احسن اصلاحی اس بات پر رک گئے کہ وہ حضرت داؤد علیہ السلام کی ایجاد تھی مگر مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ نے دور جدید کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے حوالے سے بتایا ہے کہ حضرت داؤد کے زمانے میں وہ بھٹیاں کہاں پائی جاتی تھیں جن میں لوہے کو پگھلایا جاتا اور اس سے تمدنی ضرورت کی اشیا ڈھالی جاتی تھیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’ اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کردیا (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک اندازے سے کڑیاں جوڑ ۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی، اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی و اثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور (iron age) 1200 ق م اور 1000 ق م کے درمیان شروع ہوا ہے، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حِتّی قوم (Hittites)کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1200 ق م تک رہا ہے، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھ رہی تھی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فلستیوں نے یہ طریقہ معلوم کرلیا، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حتیوں اور فلستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بےدخل کردیا تھا، بائبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے۔ اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے (یشوع باب 17۔ آیت 16۔ قُضاة باب 1۔ آیت 19۔ باب 4۔ آیت 2۔ 3)۔ 1020 ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرماں روا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (1004 ق م 965 ق م) نے نہ صرف فلسطین و شرق اردن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کردی۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بےنقاب ہوگیا، اور صرف بےنقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے (iron ore) کی دولت سے مالا مال ہے، اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عَقبہ اور اَیلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ، عِسْیون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (blast furnace) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہوگا، کیوں کہ تھوڑی ہی مدت پہلے آس پاس کی دشمن قوموں نے اسی لوہے کے ہتھیاروں سے ان کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا۔‘‘[2]
حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے دور حکومت کے بعد جو شان دار تمدن اسرائیل کے علاقے میں اور آس پاس کی دنیا میں نمودار ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تمدن کی تبدیلیاں سماجی معاشی قانونی اور روحانی پہلوؤں کو ضرور متاثر کرتی ہیں۔
1300 -1200 قبل مسیح حضرت موسی علیہ السلام کا دور تھا۔ آپ کے بعد بنی اسرائیل کی قوم فلسطین میں کنعان علاقے میں آ کر آباد ہوئی۔ ان کے نبی یوشع بن نون تھے 1200 قبل مسیح کے آس پاس ان کا زمانہ تھا۔ بنی اسرائیل اس وقت پہاڑی علاقے میں آباد تھے۔ اس میں پانی کی قلت تھی اور سرسبزی و شادابی سے محروم علاقے تھے۔ ان کی آبادی سے قریب کی زمینیں قابل کاشت تھیں مگر ان علاقوں میں دیگر قومیں آباد تھیں۔ ان زمینوں پر قبضہ جمانے کے لیے بنی اسرائیل کو لڑائی کرنے کی ضرورت تھی جس کے لیے تمدنی قوت ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ جب کہ ان فلسطینیوں کے پاس لوہا موجود تھا۔
بائبل کا کہنا ہے :
’’اور خداوند یہوداہ کے ساتھ تھا۔ اور اس نے پہاڑ کے باشندوں کو نکال باہر کیا۔ لیکن وادی کے باشندوں کو نہ نکال سکے کیوں کہ ان کے پاس لوہے کے رتھ تھے۔[3]
لیکن یشوع (یوشع بن نون ) نے یوسف کے قبیلوں سے یعنی افرائیم اور منسی سے کہا، ’’تم بہت زیادہ اور بہت طاقت ور ہو۔ تمھارے پاس نہ صرف ایک الاٹمنٹ ہوگا بلکہ جنگلات والا پہاڑی ملک بھی ہوگا۔ اسے صاف کریں، اور اس کی سب سے دور کی حدیں تمھاری ہوں گی۔ اگرچہ کنعانیوں کے پاس لوہے سے لیس رتھ ہیں اور اگرچہ وہ مضبوط ہیں، تم انھیں نکال سکتے ہو۔‘‘[4]
ہومر کی مشہور رزمیہ نظم
اوڈیسی (odyssey – سفر کی داستان) میں لوہے کےجو زیادہ تر حوالہ جات کا ذکر ملتا ہے ان میں ہتھیار، بلیڈ، کلہاڑی کے سرے شامل ہیں۔ ہیرا کے جنگی رتھ میں پہیے، ریلنگ چمکتی ہوئی قیمتی دھاتوں کی ہو سکتی ہیں، لیکن رتھ کا جوا اور رتھ کا چھپا ہوا حصہ جو اس کا کافی وزن برداشت کرتا ہے ، وہ لوہے کا ہے۔[5]
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کی جب سموئیل نبی نے اللہ کے حکم سے طالوت کو بنی اسرائیل پر حاکم مقرر کیا تو اس نے کنعانیوں کو زیر کر لیا اور فلسطین کے بیشتر حصے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ آپ کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام (1004-965 قبل مسیح) نے نہ صرف پورے فلسطین اور اردن کو اسرائیلی سلطنت میں شامل کر لیا بلکہ شام کا ایک بڑا حصہ بھی ان کے زیر نگیں آگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہتھیار بنانے کا راز جو صرف حتیوں اور فلستیوں کے پاس تھا داؤد علیہ السلام نے اسے دنیا کے سامنے آشکار کیا اور ان کے دور اور بعد کے ادوار میں لوہےسے روزمرہ کے استعمال کی سستی چیزیں بننے لگیں۔ اس کے بعد لوہے نے زمانے سے اپنا لوہا منوالیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوہے کا استعمال بہت محدود تھا اور کچھ ہی لوگ اس کے فن سے آشنا تھے ،جسے انھوں نے چھپا کر رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ لوہے کے پگھلنے کا درجہ حرارت یا نقطہ گداختگی (melting point) 1500 ڈگری سیلسیئس ہے ، جب کہ اسے پگھلانے کے لیے داؤد علیہ السلام کی ٹیکنالوجی سے قبل جو ٹیکنالوجی اس زمانے میں موجود تھی اس کا نقطہ گداختگی 1000 ڈگری تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’اس وقت اسٹیل کو وسیع پیمانے پر استعمال میں لانے کے لیے قابل انحصار طور پر پیدا کرنا بہت مشکل تھا۔‘‘[6]
مگر جنگی لباسوں کے لیے بڑے پیمانے پر لوہے کا استعمال حضرت داؤد سے قبل کسی نے نہیں کیا۔
فلسطین کے جنوب میں واقع ادوم (Edom) —جو لوہے سے مالا مال ہے—میں کی گئی حالیہ آثار قدیمہ کی کھدائی سے لوہے کو پگھلانے اور ڈھالنے والی بھٹیاں دریافت ہوئیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں خلیج عقبہ کی بندرگاہ عصیون جابر (Ezion-Geber)کے قریب کھدائی میں پائی گئی بھٹی بھی بظاہر انھی اصولوں پر بنائی گئی تھی جو جدید بلاسٹ فرنس میں استعمال ہوتے ہیں۔
2005 سے 2011 تک غاصب اسرائیل کے نوادرات کی اتھارٹی کی طرف سے کھدائی کی گئی۔ قابل ذکر نتائج میں متعدد بھٹیوں، دھاتی کام کے اوزار اور مٹی کے مختلف ظروف سازی کے شواہد شامل ہیں، جن میں قریہ ( علاقے کا نام ) پینٹ کے سامان، ہاتھ سے بنے نیگیوائٹ ( علاقے کا نام ) ویئر، اور پہیے سے بنے برتن شامل ہیں۔ Unearthing the Wilderness نامی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس کتاب پر مبصر نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ حسب ذیل ہے:
’’بہت سے چیلنجوں کے باوجود کتاب Unearthing the Wilderness نیگیو (Negev)کے جاری مطالعہ میں ایک قابل قدر تعاون ہے۔ کتاب کے چاروں مقالے عام طور پر اس خطے میں بائبل کے آثار قدیمہ کے مشکل نقطہ نظر سے گریز کرتے ہیں، اس کے بجائے ان سماجی، سیاسی، اور معاشی قوتوں کا پتہ لگاتے ہیں جو کانسی اور لوہے کے ادوار میں ان آبادیوں اور علاقوں پر اثر انداز ہوئے اور انھیں تشکیل دی ۔ معموں کو حل کرنے کے لیے ڈیٹا اور وسیع پیمانے پر سائنسی طریقہ کار کے آلات و طریقہ کار استعمال کیے گئے۔ تحقیق و مطالعہ کا بڑا حصہ آثار قدیمہ کے مستحکم ڈیٹا پر مبنی ہے۔ اس طرح یہ مضامین کے سیٹ مقام نیگیو کے بارے میں معلومات کی اشاعتوں کے حالیہ سلسلے اور اس میدان سے وابستہ کام کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں ایک اہم اور خوش آئند اضافہ ہیں،جو خطے کے بارے میں وضاحت اور ہماری سمجھ کو پیچیدہ بنانے میں مدد کریں گے۔‘‘[7]
لوہے کے سلسلے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: وانزلنا الحدید فیه باس شدید ومنافع للناس[8]۔ انبیا کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرآن بتاتا ہے کہ وہ سماج میں عدل و قسط کا قیام کریں۔ اس کے قیام میں مزاحمتی قوتوں کو زیر کرنے کے لیے عسکری طاقت و قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس غرض سے اللہ تعالی نے لوہا اتارا۔ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اس کے بہت سے معاشی فوائد بھی ہیں۔ ان دونوں پہلوؤں سے لوہے کے استعمال کے موجد حضرت داؤد علیہ السلام ہیں۔حضرت داؤد کا عظیم کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے لوہے کے جنگی استعمالات کے اوزار اور ہتھیار بھی بنائے اور تمدنی استعمال کی راہیں بھی روشن کیں۔ لوہے کے ان دونوں استعمالات کے حوالے سے ایک نئے طرز پر سیاسی سماجی اور معاشی دور کا آغاز ہوا۔ یہ دریافتیں اور ایجادات انسانی تاریخ کے سفر کے نہایت اہم سنگ میل مانی جائیں گی ۔ یہاں سے انسانی تاریخ ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ ان باتوں کا ثبوت دور جدید کی تحقیقات سے بھی ملتا ہے۔
آثار قدیمہ کے ثبوت اشارہ کرتے ہیں کہ دسویں صدی کے دوران اور اس کے بعد آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ بروشی (1978) نے لگایا ہے کہ یروشلم جسے داؤد علیہ السلام نے فتح کیا، 1000 سے 930 قبل مسیح تک 12 سے 32 ایکڑ تک پھیلا ہوا تھا، جب کہ اس کی آبادی 2000 سے 5000 تک بڑھ گئی۔ ان کی بادشاہت کے دور میں تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں سیمنٹ سے بنی بھٹیوں کی تعمیر اور لوہے کے اوزار کا استعمال سامنے آیا۔ [9]
اوپر کے مباحث سے یہ بات ثابت کی گئی کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں لوہے کو پگھلانے کا فن ایجاد ہوا اور بڑے پیمانے پر اس سے برتن، عام اشیا کی چیزیں اور جنگی زرہیں بنائی جانے لگیں۔ عام مفسرین نے اسے حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک معجزہ قرار دیا ہے۔ جب کہ تفسیری حوالوں اور تحقیقی کتابوں اور مقالوں کے حوالوں سے ہم نے بتایا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نہ صرف ایک نئے تمدن کے بانی ہیں بلکہ عہد آہن کے بابائے اول بھی وہی ہیں۔
عالمی تجارت کا فروغ اور بندرگاہیں
وَلِسُلَیمَانَ الرِّیحَ عَاصِفَةً تَجْرِی بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِی بَارَكْنَا فِیهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَیءٍ عَالِمِینَ (سورة الأنبیاء: ۸۱)
’’(اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھیں جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے)‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ اسرائیلی تاریخ کا سب سے شان دار دور مانا جاتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس زمانے کی دو عظیم اسرائیلی ریاستوں کی کل آبادی تقریبا چالیس لاکھ تھی( جو داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں متحدہ ریاست تھی)۔یہی وہ زمانہ تھا جس میں عالمی تجارت کا سلسلہ شروع ہوا اور عالمی منڈی میں بنی اسرائیل کا حصہ ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ تھا۔ دنیا کے دور دراز علاقوں سے مختلف سامان تجارت فلسطین پہنچتے تھے اور اسرائیلی ریاست کی پیداوار یورپ، افریقہ،ہندوستان اور چین تک جاتی تھی۔ سن 1000 سے 800 قبل مسیح تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیلی ریاست میں بہت سی صنعتی پیداواریں ہوتی تھیں، ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں :
1.برتن
اردن کے سرحدی ضلع میں برتن بنانے کے کارخانے بڑے پیمانے پر پائے جاتے تھے۔ عہد آہن کے خوب صورت ترین برتن وہاں بنائے جاتے تھے۔اس علاقے کی کھدائی سے پتا چلتا ہے کہ برتن بنانے کی صنعت کاری میں پہیوں (چاک) کا استعمال ہوتا تھا۔ برتن کی صنعت میں بڑے پیمانے پر محنت کش مزدوری پر رکھے جاتے تھے۔
2. کپڑوں کے کارخانے
آثار قدیمہ کے شواہد بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کا علاقہ اونی سوت سے بنے کپڑوں کے لیے مشہور تھا۔ کھدائی سے پتہ چلا کہ کپڑوں کی انڈسٹری کے لیے لوہے سے بنے اوزار اور لوم چلانے کے لیے جو اوزان چاہیے تھے وہ یہاں پائے جاتے تھے۔ اسی طرح رنگ چڑھانے کے خاص کارخانے بھی ہوتے تھے۔
3۔ چمڑے کی دباغت کے کارخانے
اسرائیلی تمدن میں چمڑوں کی دباغت اور اس سے پہناوے تیار ہوتے تھے۔
4. زیتون کے تیل کے کارخانے
زیتون کا تیل کھانے میں، علاج اور مختلف ضروریات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ حسن افروز اور زیبائش کی چیزیں بھی اس سے بنائی جاتی تھیں۔ عطر میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا۔ اسرائیل کی زیتون کے تیل کی صنعت اپنے بام عروج پر تھی اور اس کا خام مال برآمد کیا جاتا تھا۔ ان علاقوں کی تباہ شدہ بندرگاہوں کے آس پاس جو بڑے بڑے برتن پائے گئے ان کے نیچے عبرانی زبان میں ان کی تفصیلات لکھی پائی گئیں۔ آشوریوں نے جب اسرائیل پر حملہ کیا تو ان کارخانوں کو بھی انھوں نے تباہ کر دیا۔
5. دھاتوں کی کان کنی اور دھات کاری
ٹرانس اردن میں اعلیٰ درجے کا لوہا دستیاب تھا جب کہ تانبے کے بڑے ذرائع سینائی اور عربہ میں تھے۔ عربہ وہ پست علاقہ ہے جو بحیرہ مردار کے جنوبی سرے اور خلیج عقبہ کے شمالی حصے کے درمیان ہے جہاں سے دریائے اردن بہتا ہے۔ سینائی میں تقریباً 100,000 ٹن سلیگ ( دھات پگھلنے کے بعد بچا ہوا فضلہ ) موجود پایا گیا۔ تل الخلیفہ (Tell el-Kheleifeh)خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی کناروں کے درمیان ساحل سے تقریباً ایک تہائی میل کے فاصلے پرواقع ہے۔ اس کی کھدائی سے آثار قدیمہ کے ماہرین نے ’’فلسطین کا پٹس برگ‘‘( آئرن اور اسٹیل انڈسٹری کے لیے ایک تشبیہ) کے کھنڈرات دریافت کیا ہے۔
انجیل کے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی ریاست میں دھاتوں کی کان کنی ہوتی تھی اور دھات کاری کے ذریعے مختلف دھاتوں کی صنعت کاری ہوتی تھی۔ انجیل میں کئی ایک حوالے ملتے ہیں مگر ذیل میں صرف ایک حوالہ نقل کیا جارہا ہے۔ گو کہ عذاب کے حوالے سے حضرت یرمیاہ کی ایک تقریر ہے مگر اس میں جو زبان اختیار کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے لوگ دھاتوں کو دریافت کرنے، بنانے، پگھلانے اور صاف کرنے کے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ انھیں تمثیلی زبان میں ڈرایا گیا اور جو اشارے کیے گئے وہ دھاتوں کی صنعت کار ی سے متعلق ہیں۔
28ویں آیت: میرے لوگ میرے خلاف ہو گئے ہیں،اور وہ بہت ضدی ہیں۔وہ لوگوں کے با رے میں بری باتیں کہتے پھر تے ہیں۔وہ تو تانبے اور لوہےکے مانند ہیں۔ اور وہ اپنے سلوک سے تبا ہ کن ہیں۔
29ویں آیت: جب دھونکنی تپش پیداکر تی ہے تو سیسہ کو آ گ سے با ہر آنا چا ہیے۔لیکن صاف کرنے والے کا صاف کرنے کا کام بے کار ہے کیوں کہ برائی کو ہٹایانہیںگیا۔
30ویں آیت: میرے لوگ ’کھو ٹی چاندی‘ کہلا ئیں گے،ان کو یہ نام ملے گا کیوں کہ خداوند نے انھیں رد کر دیا ہے۔[10]
6۔ فن تعمیر
پہاڑی علاقوں اور نشیبی علاقوں میں رہائشی کالونیاں بنائی گئی تھیں۔
7. زرعی پیداوار
فلسطین چوں کہ ایک خشک علاقہ ہے جہاں کھیتی کی جڑوں میں نمی کو برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اسرائیلی جانوروں کے گوبر جمع کرتے تھے جو بیک وقت کھاد کا کام دیتے اور جڑوں کو نم رکھنے میں بھی کام آتے تھے۔اس کا ذکر بائبل کی کتابوں میں ملتا ہے۔ماہر کسان کی تمثیل :
23: غور سے میری بات سنو! دھیان سے اُس پر کان دھرو جو مَیں کہہ رہا ہوں!
24: جب کسان کھیت کو بیج بونے کے لیے تیار کرتا ہے تو کیا وہ پورا دن ہل چلاتا رہتا ہے؟ کیا وہ اپنا پورا وقت زمین کھودنے اور ڈھیلے توڑنے میں صَرف کرتا ہے؟
25: ہرگز نہیں! جب پورے کھیت کی سطح ہم وار اور تیار ہے تو وہ اپنی اپنی جگہ پر سیاہ زیرہ اور سفید زیرہ، گندم، باجرا اور جَو کا بیج بوتا ہے۔ آخر میں وہ کنارے پر چارے کا بیج بوتا ہے۔
26: کسان کو خوب معلوم ہے کہ کیا کیا کرنا ہوتا ہے، کیوں کہ اُس کے خدا نے اُسے تعلیم دے کر صحیح طریقہ سکھایا۔
27 .چنانچہ سیاہ زیرہ اور سفید زیرہ کو اناج کی طرح گاہا نہیں جاتا۔ دانے نکالنے کے لیے اُن پر وزنی چیز نہیں چلائی جاتی بلکہ انھیں ڈنڈے سے مارا جاتا ہے۔
28: اور کیا اناج کو گاہ گاہ کر پیسا جاتا ہے؟ ہر گز نہیں! کسان اُسے حد سے زیادہ نہیں گاہتا۔ گو اُس کے گھوڑے کوئی وزنی چیز کھینچتے ہوئے بالیوں پر سے گزرتے ہیں تاکہ دانے نکلیں تاہم کسان دھیان دیتا ہے کہ دانے پِس نہ جائیں۔
29: اُسے یہ علم بھی رب الافواج سے ملا ہے جو زبردست مشوروں اور کامل حکمت کا منبع ہے۔[11]
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں ریشم، اون، کپاس، اناج،گرم مسالے، زرعی پیداوار، مختلف دھاتوں اور اس سے بنے اوزار اور ہتھیار، برتن، کپڑے، عطریات وغیرہ کی عالمی تجارت کےدور کا شان دار آغاز ہوا۔ باربرداری کے لیے ہزاروں گھوڑوں، گدھوں خچروں اور اونٹ کو بڑے پیمانے پر سدھانے کا دور شروع ہوا۔ تفصیلات کے طالب دیکھیں کتاب Prophets and Markets۔[12]
مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ نے اپنی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے کے شان دار تمدن پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’اس کی تفصیل سورہ سبا میں یہ آئی ہے وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّ یْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَ رَوَاحُھَا شَھْرٌ، ’’ اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو ۔‘‘ پھر اس کی مزید تفصیل سورة ص میں یہ آتی ہے فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ رَخَآءً حَیْثُ اَصَابَ۔ ’’ پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اس طرح تابع امر کردیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جاسکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق باد موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی۔ بائبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحر روم کی بندر گاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بائبل میں ’’ترسیسی بیڑہ ’’کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورة سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ وَاَسَلْنَا لَہ عَیْنَ الْقِطْرِ، ’’ اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا ۔‘‘ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ’’ مسخر ’’کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی۔‘‘[13]
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بحری بیڑے کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
’’حضرت سلیمان کا عظیم بحری بیڑا: یہاں ’ل‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ فعل مخدوف ہے۔ سخرنالہ کا مفہوم ہم اس کے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ ’ ل ’ کے صلہ کے ساتھ یہ لفظ کسی شے کا کسی کی خدمت میں لگا دنیے کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی ہم نے تند ہواؤں کو بھی مسخر کر کے سلیمان کی خدمت میں لگا دیا تھا۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کی برّی قوت تو بہت تھی لیکن ان کی حکومت کی بحری قوت میں بےمثال ترقی حضرت سلیمان کے عہد میں ہوئی۔ انھوں نے ایسے باد بانی جہاز ایجاد کیے جو ہندوستان اور مغربی جزائر تک سفر کرتے تھے۔ ان کا بحری بیڑا وقت کا سب سے زیادہ طاقت ور بیڑا تھا۔ بحر احمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جو خلیج عقبہ میں واقع تھا اور بحر متوسط میں صور، طائر اور یافہ کی بندرگاہیں اس زمانے تک سمندری ہواؤں کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بادبان ہی تھے۔ یہی بادبان جہازوں کے لیے انجن کا کام دیتے تھے۔ حضرت سلیمان نے ایسے بادبان ایجاد کیے جو تند ہواؤں میں بھی جہاز کی آمد و رفت میں خلل واقع نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ اپنی معینہ سمتوں میں، موافق و ناموافق ہر قسم کی ہواؤں میں، اپنے لمبے لمبے سفر بےخوف و خطر جاری رکھتے۔ یہ چیز چوں کہ خدا کی سکھائی ہوئی سائنس کا ثمرہ تھی اس وجہ سے فرمایا کہ ہم نے سلیمان کے لیے تند ہوائیں مسخر کردی تھیں جو اس کے حکم سے چلتی تھیں۔‘‘ (تدبر قرآن سورة الانبیاء آیت 81)
ہو سکتا ہے عام قاری کو تعجب ہو کہ ایک نبی کا کام تو دعوت دین ہے مگر ملک کی قیادت و سیادت کرنا، معیشت اور کاروبار کو چمکانا، عالمی تجارت کی منڈی قائم کرنا، تجارت کی عالمی شاہراہیں بنانا اور بحری بیڑے قائم کرنا تو سائنس دانوں کا کام ہے۔ مگر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں جو ترقیاں ہوتی ہیں اور جو نئی ایجادات ہوتی ہیں وہ سائنس دانوں کے ہاتھوں انجام پائیں یا انبیاکے ذریعے وجود میں آئیں سب خدا کی دی ہوئی رہ نمائی اور علم کی روشنی سے منصہ شہود پر آتی ہیں۔
’’تسخیر کائنات خدا کا فضل ہے: انھیں تسخیر کائنات کی مہمات میں جو کام یابیاں حاصل ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں ان کو وہ خدا کا فضل سمجھنے کے بجائے اپنی ذہانت کا کرشمہ تصور کرتے ہیں حالاں کہ انسان کو جو کام یابی بھی حاصل ہوتی ہے خدا کی بخشی ہوئی عقل اور خدا ہی کی رہ نمائی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اوپر ’’وکنا فاعلین ’’سے اشارہ فرمایا ہے۔ پھر جب انسان اس مغالطہ میں پڑجاتا ہے کہ اس کی یہ تمام ایجادات اس کا اپنا کار نامہ ہیں تو اس مغالطے کے بطن سے ایک اور مغالطہ جنم لیتا ہے جو اس سے بھی زیادہ مہلک ہے، وہ یہ کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ ان حاصل کردہ قوتوں سے جس طرح چاہے کام لے کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے۔ قرآن نے وکنا بکل شیء عالمین سے اس مغالطے پر بھی ضر ب لگائی ہے کہ قدرت نادان نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے خزانوں کی کنجیاں پکڑا کر خود کنارہ کش ہو کر بیٹھ رہے، لوگ جو چاہیں بناتے پھریں، بلکہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور جب وہ آگاہ ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی بخشی ہوئی قوت کو اگر کسی نے غلط استعمال کیا تو وہ لازماً اس کے لیے ایک دن مسئول ہوگا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) اس رمز سے خوب آگاہ تھے اس وجہ سے برو بحر دونوں میں عظیم کام یابیاں حاصل کرنے کے باوجود ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اس مغالطے میں مبتلا نہیں ہوئے کہ یہ ان کے اپنے کارنامے ہیں بلکہ انھوں نے ان ساری چیزوں کو خدا کا فضل سمجھا اور جو قدم بھی اٹھائے یہ سوچ کر اٹھائے کہ ایک دن ان کو خدا کے سامنے پیش ہونا اور اپنے ہر عمل کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہی احساس ہے جو انسان کو خدا کا حقیقی شکر گزارو تابع دار بندہ بناتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن سورة الانبیاء آیت 81)
حوالہ جات و حواشی:
[1] تدبر قرآن قرآن سورہ انبیا آیت 80
[2] تفہیم القرآن سورة الانبیاء آیت 80
[3] Judges 1: 19, King James Version
[4] Joshua 17: 14-18, New International Version
[5] The Heart of Steel: A Metallurgical Interpretation of Iron in Homer. Ruth Russo, Whitman College۔Bull. Hist. Chem., Volume 30, Number 1 (2005)
[6] Jordan: Ancient Metallurgy Ancient Metallurgy- An Overview for College Students https://pages.ucsd.edu/~dkjordan/arch/metallurgy.html’iron
[7] Erin Darby; Unearthing the Wilderness: Studies on the History and Archaeology of the Negev and Edom in the Iron Age. Journal of Eastern Mediterranean Archaeology and Heritage Studies 1 December 2018; 6 (4): 392–394.
[8] Quran 57: 25
[9] Prophets and Markets: The Political Economy of Ancient Israel Morris Silver City College of the City University of New York Kluwer-Nijhoff Publishing Boston The Hague London
[10] Jeremiah 6: 28-30
[11] یسعیاہ 28: 23-29
[12] Prophets and Markets: The political economy of ancient Israel Morris silverCity College of the city University of New York Kluwer-Nijhoff publishing Boston The Hague London 1983 edition
[13] تفہیم القرآن سورة الانبیاء آیت 81
مشمولہ: شمارہ مئی 2022