قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ
’’تم بہترین امت ہو جس کو انسانوں کے لیے برپاکیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو…‘‘ (آل عمران:۱۱۰)
قرآن مجید جب نازل ہوا تو دنیا میں بہت سی قومیں اور گروہ موجود تھے، جن میں مشرک، یہود، عیسائی اور دیگر قومیں شامل تھیں۔ لیکن ان سب گروہوں کے اندر بگاڑ تھا، اس لیے اللہ کے رسولﷺ کی بعثت ہوئی۔ رسول پر ایمان لانے والوں سے اللہ تعالیٰ نے کہا :’’کنتم خیرامۃ‘‘ تم بہترین اُمت، یعنی ’خیرامت ہو۔‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کو اعزاز تھا۔ اس سے اُمتِ مسلمہ کی عظمت اور شان ظاہر ہوتی ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ بہترین امت کے معنی کیا ہیں؟
خیرِ أمت کا منصب
بہترین امت کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت، ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے بہتر ہے۔ اس کا عقیدہ کفر اور شرک سے پاک ہے۔ یہ توحید کے قائل افراد کا گروہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے۔ یہ لوگ جاہلیت اور جہالت میں نہیں بھٹک رہے ہیں، بلکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیاکا حال یہ ہے کہ وہ اللہ سے بے خوف ہوکر زندگی گزار رہی ہے،جس کے نتیجہ میں یہاں دھوکہ ہے، مکر و فریب ہے، رشوت اور بدکاری ہے ،غرض بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اللہ پر ایمان لانے والے ان خرابیوں سے پاک ہیں۔ ان کی سیرت، اخلاق و کردار اس ماحول میں سب سے ممتاز ہے۔ دنیا اپنے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ اہلِ ایمان دوسروں کی فلاح کے لیے محض اللہ کی رضا کی خاطر، بے غرض خدمت کرتے ہیں۔ غیب پر ایمان، ان کی طاقت اور صلاحیت کا سر چشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنے اور بولنے کی طاقت دی ہے، قوت عمل سے نوازا ہے اور عزم وحوصلہ اور ہمت عطا کی ہے۔ خیر امت وہ ہے جو اپنی تمام صلاحیتوں کو اللہ کے دین پر عمل کے لیے استعمال کرتی ہے ۔
انسانوں سے تعلّق
اس کے بعد قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ امتِ مسلمہ خیرامت کیوں ہے؟ ایمان لانے والے ایسی امت ہیں جسے ایک اہم مقصد کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ اس اُمت کے وجود سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ دنیا کا ہر گروہ، اپنے مفادات پر نظر رکھتا ہے۔ لیکن یہ امت دوسروں کی فلاح کے لیے برپا کی گئی ہے۔ اللہ کے مخلص بندے، انسانوں کو نفع پہنچانے والے ہیں، لوٹ مار کرنے اور استحصال کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ انسانوں کی بھلائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ اس امت کی حقیقی تصویر ہے۔
انسانوں کی خدمت کے بہت سے پہلو ہیں۔ کسی غریب کی مدد کرنا اس کے لیے ایک نفع بخش عمل ہے ۔کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا بھی کارِ خیر ہے۔ کسی ناخواندہ کو تعلیم سے آراستہ کرنا بھی بڑی نیکی ہے۔ لیکن کسی بھی انسان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اسے اللہ کے دین سے آگاہ کیا جائے۔ ا س سے اس کی دنیا بھی درست ہو گی اور آخرت کی فلاح وکامرانی بھی اسے حاصل ہوگی۔ ہر نیک کام جو آدمی کرسکتا ہے وہ اس عظیم خدمت کے مقابلے میں چھوٹا کام ہوگا۔ اُس اُمت کو اس لیے برپا کیا گیا کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کا راستہ دکھائے۔ امت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اُس کے اندر ایسے لوگ موجود ہو ں جو خیر کی طرف بلائیں۔ ارشادِ الٰہی ہے ’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ۔‘‘ یعنی ’’تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہوں، جو بھلائی کی دعوت دیں۔‘‘ معنوی اعتبار سے خیر کی دعوت پوری امت کی ذمہ دا ر ی ہے۔ خیر کی جامع تعبیر— اسلام ہے۔ منشا یہ ہے کہ بعض افرادِ اُمت، اہتمام کے ساتھ دینِ اسلام کی دعوت دیتے رہیں۔ ایسے لوگ کسی ایک گوشے میں اپنی کوشش کو محدود نہ کریں۔ علم و فکر کے میدان میں، فلسفہ کے دائرے میں، مطالعہ تاریخ اور اس سے نتائج اخذ کرنے میں، غرض تمام علوم میں دین کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جس میں کہا جاسکے کہ اس شعبہ میں اسلام کی ترجمانی کرنے والے موجود نہیں ہیں۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کا کیا فلسفہ حیات ہے ؟ اس کی کیا تہذیبی قدریں ہیں؟ اس نے سیاست میں کیا رہ نمائی کی ہے؟ مختلف سطحوں پر اسلام کے تعارف و ترجمانی کا کام پوری امت کو مل کر کرناچاہیے۔ باصلاحیت لوگ خود بخود تیار نہیں ہوں گے، بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اہلِ ایمان کی تربیت کرکے صلاحیتیں بیدار کی جائیں۔ دین کا تعارف کرانے والے لاکھوں انسان دنیا میں ہوں، تب کہا جاسکتا ہے کہ دین کی ترجمانی کا حق ادا ہورہا ہے۔ دین کی دعوت اور اس کے تعارف کی ذمہ داری اس امت کو سنجیدگی کے ساتھ اٹھانی ہوگی۔
انبیاء کا نمونہ:
اسلام سے بڑی بھلائی دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ عقل بتاتی ہے کہ بہترین امت اور خیر امت وہ ہے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے۔ دنیا کے اندر بہت سے انبیاء آئے۔ قرآن نے ان کی دعوت کا ذکر کیا ہے۔ وہ خیر کی دعوت دیتے تھے اور خود خیر کے راستے میں آگے بڑھتے تھے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ: اِنَّہُمْ یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ( الانبیاء:۹۰) ’’وہ نیکی کے کاموں میں (خیرات میں) سبقت کرنے والے تھے اور بازی لے جانے والے تھے۔ (واضح رہے کہ عربی میں ’خیرات‘ کے معنی تمام بھلائیوں کے ہیں۔ محض سائل کی مدد کرنے کے نہیں ہیں۔) پیغمبروں کی یہ صفت قرآن میں بیان کی گئی کہ بھلائی کے کاموں میں وہ آگے بڑھتے تھے اور سب سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ دوسری طرف اللہ سے اُن کےتعلق کا حال یہ تھا کہ وَیَدْعُوْنَنَا رَغْبًا وَّ رَھَباً۔ یعنی وہ نیکی میں آگے بڑھنے اور بازی لے جانے کی کوشش کے ساتھ اللہ کو پکارتے تھے اور اس کی عبادت کرتے تھے، اس سے رحمت کی امید رکھتے تھے۔ امید کے ساتھ ہی وہ اللہ سے ڈرتے بھی تھے، اللہ تعالیٰ کے غضب سے بے خوف نہ تھے، اس لیے کہ اُس کی پکڑ سخت ہے۔ إنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ( البروج:۱۲) ’’جب خدا پکڑنے پر آتا ہے، تو اس کی پکڑ شدید ہوتی ہے۔‘‘ انھیں اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں کوتاہیوں کی وجہ سے ہم گرفت میں نہ آجائیں۔اللہ کے اِن مخلص بندوں کی پکار یہ تھی کہ ’’اے اللہ! بھلائی کے جو کام ہیں اُن میں ہماری مدد فرما، برائیوں سے ہمیں محفوظ رکھ۔‘‘ اللہ کے پیغمبروں کے تذکرے میں مزید بتایا گیا کہ وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ (الانبیاء:۹۰) یعنی ’’ہمارے سامنے وہ عاجز بن گئے تھے۔‘‘ ایسا نہیں تھا کہ کچھ نیکیاں کرلیں تو اپنے نیک ہونے کا زعم پیدا ہوگیا۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی شخص کے دل کے اندر اللہ کی رحمت سے امید بھی ہے اور خوف بھی توقع ہے کہ وہ نجات پا جائےگا۔ آدمی اللہ سے رحمت کی توقع رکھے اور ساتھ ہی وہ اُس کے عذاب سے ڈرتا بھی ہو تو اس کے لئے نجات کا راستہ کھل جاتا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے رسول ایک طرف اس کے دین کی تبلیغ میں سب سے زیادہ فکر مند اور سب سے زیادہ سرگرم ہوتے ہیں ، دوسری طرف اللہ سے ان کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے اوروہ بیم ورجا کی کیفیت کے ساتھ اسے یاد کرتےرہتے ہیں۔
منصبی تقاضوں کا استحضار
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خیرامت کہا ہے، یہ بہت بڑا اعزاز اور بہت بڑی سعادت ہے۔ البتہ یادرکھنا چاہیے کہ اِ س اُمت کو خیرِ امت کیوں کہا گیا ہے؟عموماً یہ بات ذہن میں نہیں رہتی کہ اس منصب کے کچھ تقاضے ہیں۔ اس کاایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جس دین کی وہ حامل ہے اسے دوسروں تک پہنچائے ۔ اللہ کا دین ایک امانت ہے ،اس امانت کی حفاظت اور اسے اس کے مستحق تک پہنچانا اس کی منصبی ذمہ داری ہے۔
یہ امت تہی دامن نہیں، خالی ہاتھ نہیں۔ یہ مانگنے والوں کا گروہ نہیں ہے۔ یہ سائل اور گدا گر نہیں ہے۔ دنیا کو دینے کے لیے بہت کچھ اس کے پاس ہے۔ بہت بڑی دولت ہے جو ان کو حاصل ہے۔ دنیا کے پاس بہت سی چیزیں ہوں گی۔ ممکن ہے، آج کے دور میں اس کے پاس حکومت ہے، اقتدار و دبدبہ ہے ، دولت اور اثرورسوخ ہے لیکن اللہ کا دین اس کے پاس نہیں ہے ۔ یہ امت اس گراں بہادولت کی حامل ہے ۔ وہ دنیا کو اس سے مالا مال کرسکتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا :
یَا أَبَتِ إِنِّیْ قَدْ جَاء نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْ أَہْدِکَ صِرَاطاً سَوِیّاً( مریم:۴۳)
’ابا جان! مجھے وہ علم اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ آپ میری بات مانیے۔میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤںگا۔‘
مطلب یہ کہ آپ عمر میں بڑے ہیں، آپ نے دنیا مجھ سے زیادہ دیکھی ہوگی، لیکن مجھے جس علم سے نوازا گیا ہے اس سے آپ تہی دامن ہیں۔
اس تاریخی واقعے میں بیٹا باپ سے کہہ رہا ہے : فَاتَّبِعْنِیْ۔ میری بات آپ کو ماننی چاہیے۔ کام یابی کے لیے میرے پیچھے چلنا ہوگا۔ میںآپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔
آج کی دنیا میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کی غلط تصویر بنی ہوئی ہے کہ یہ دریوزہ گر ہیں۔ یہ اپنے وجود وبقا کی دوسروں سے بھیک مانگتے ہیں۔ ان کے پاس ملک کو ، عام انسانوں کو اور دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ تصویر صحیح نہیں ہے۔ اس کو بدلنا چاہیے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کے پاس وہ کچھ ہے جس سے دنیاکا رُخ بدل سکتا ہے اور صراط مستقیم مل سکتی ہے۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ دنیا کو بتائیں کہ زندگی گزارنے کا صحیح راستہ کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کا انسان مختلف غلط راہوں میں بھٹکا ہوا ہے۔ شرک، کفر اور اخلاقی پستی کا شکار ہے۔ رات دن بگاڑ نظر آتا ہے، اس کے چرچے بھی ہوتے ہیں۔ اخبار، ٹی وی اور ابلاغ کے ذرائع، ان میں کوئی ایسا نہیں جس میں بگاڑ کے چرچے نہ ہوں اورانسان کی پریشانیوں کا ذکر نہ ہو۔ دراصل انسانیت کے مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےامن و سلامتی کا پیغام ہے۔ اسے قبول کرنے سے امن و سکون حاصل ہوسکتا ہے اور سلامتی مل سکتی ہے۔ اسلام وہ قیمتی دولت ہے جو اہلِ ایمان دنیا کو فراہم کرسکتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ خیر کی طرف بلانا یعنی بھلائی کی دعوت اس امت کا مقصد ہے۔ امت کی تربیت کے لیے ہدایت دی گئی : يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا (الحج:۷۷ ) اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو۔ اور وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ’’پوری زندگی میں اپنے رب کی عبادت کرو۔‘‘ رکوع و سجدہ نماز کے ارکان ہیں۔ ’’رکوع کرو، سجدہ کرو‘‘ سے مراد نماز کا اہتمام ہے۔ اس کے بعد اہلِ ایمان سے قرآن نے خطاب کیا کہ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ ’’خیر کے کام انجام دو۔‘‘ خیر اللہ کے دین کی جامع تعبیر ہے۔ اللہ کا دین جن باتوں کے کہنے اور کرنے کا حکم دیتا ہے وہ سب خیر میں شامل ہیں۔ اعمالِ خیر کے اہتمام سے امید ہے کہ فلاح کا راستہ کھل جائے گا۔ امتِ مسلمہ کی تصویر کو بدلنا باعمل مسلمانوں ہی کا کام ہے۔ محض یہ دعویٰ کہ ہم بہترین امت ہیں، کافی نہیں۔ منصب کی ذمہ داریوں اور تقاضوں کو بھی محسوس کرنا چاہیے اور باشعور زندگی بسر کرنی چاہیے۔
معروف و منکر:
بہترین امت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھائے۔ فلاح، کام یابی، ترقی اور امن و سلامتی کی راہ اُن کو بتائے۔ اس امت سے خطاب کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے ایک متعین ذمہ دار ی اُس پر ڈالی تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ’’تم بھلائیوں کا حکم دیتے ہو‘‘ اور تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ’’برائیوں سے روکتے ہو‘‘۔ یہ بات جس وقت کہی گئی اس وقت دنیا میںجو گروہ تھے، وہ عموماً اس کے برعکس کام کررہے تھے اور آج بھی یہی صورتِ حال ہے۔ شیطانی طاقتیں منکرات کو پھیلارہی تھیں اور معروفات کو ختم کررہی تھیں۔ اس ماحول میں اہلِ ایمان کو ایک عظیم ذمہ داری دی گئی۔ اُن سے کہا گیا کہ تم اس لیے برپا کیے گئے ہو کہ دنیا کو معروف کا سبق دو، بھلائی کو پھیلاؤ اور عام کرو ۔ یہ بھی بتاؤ کہ بھلائی کیا ہے اور برائی کیا ہے؟ بھلائی پر کیسے عمل ہوتا ہے اور شر سے آدمی کیسے بچتا ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت بھلائی اور برائی کے درمیان امتیاز کرتی ہے۔ آدمی کی فطرت جانتی ہے کہ بھلائی کیا ہے اور برائی کیا؟ اسلام نے فطرت کی اس واقفیت کو شعور کی روشنی بخشی ہے۔ لیکن کبھی کبھی انسان کی فطرت خارجی عوامل سے متاثر ہوجاتی ہے۔ ماحول اسے غلط رُخ پر لے جانے لگتا ہے ۔ اس لیے اسلام کی نظر میں بھلائی اس وقت حقیقتاً ’بھلائی‘ ہوگی جب ہدایتِ الٰہی کی سند اُسے حاصل ہو۔ فطرت سلیم ہو تو تسلیم کرلے گی کہ جس چیز کو اسلام معروف کہے وہ معروف ہے۔
غلط کار سوسائٹی میں کوئی چیز مشہور ہوجائے اور غلط رویہ معروف ہوجائے تو اسے بھلائی نہیں مانا جاسکتا۔ کوئی کہے کہ شراب پینا ہمارے سماج میں معروف ہے، ننگا ناچنا ہمارا کلچر ہے تو یہ غلط کام صحیح نہیں ہوجائے گا، فطرتِ سلیم اسے قبول نہیں کرے گی اور اللہ کے دین کی سند اسے حاصل نہ ہوگی۔ بعض کاموں کو عرب کے جاہل اپنا رواج کہتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے اور کہتے کہ باپ دادا سے یہی کام ہوتا آیا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر وہ برے کاموں کے بارے میں دعویٰ کرتے تھے کہ وَاللّٰہ اَمَرَنَا بِہَا اللہ کی یہی تعلیم تھی۔ آج کل تو اللہ کا نام نہیں لیا جاتا، کلچر اور تہذیب کا نام لیا جاتا ہے۔ غلط روی کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ یہی ہماری تہذیب اور کلچر ہے۔چنانچہ واضح رہنا چاہیے کہ معروف وہ ہے جسے اللہ کی کتاب معروف کہے اور اللہ کے رسول نے جسے معروف قرار دیا ہو۔ اسی طرح برائی وہ ہے جسے اللہ کا رسول برائی کہے اور اللہ کی کتاب اسے برائی قرار دے۔
معروف اور منکر و سیع تعبیریں ہیں۔ ان کی وسعت میں پورا دین آجاتا ہے۔ سب سے بڑا معروف توحید اور اس کے تقاضوں پر عمل ہے۔ توحید سے عظیم تر معروف کوئی نہیں ۔ اسی طرح شرک و الحاد سے بڑا کوئی منکر نہیں۔ آج کی دنیا معروف ومنکر کے تصور ہی سے ناآشنا ہوگئی ہے۔ آج کوئی نہیں کہے گا کہ خدا کا انکار ’منکر‘ ہے۔ کوئی کہے تو شاید مذاق اڑایا جائے گا۔بہرحال حالات کیسے بھی ہوں، امت اسی لیے وجودمیں آئی ہے کہ دنیا کومعروف ومنکر کا صحیح تصور دے اوربتائے جب تک معروف کو اختیار نہیں کروگے اللہ کے دین پر عمل نہ ہوسکے گا۔ جب تک منکر سے نہیں بچوگے تب تک صحیح معنی میں اللہ کا دین قائم نہ ہوگا۔
ایمان کے درجات
رسول اللہﷺ نے فرمایا: من رأی منکم منکرًا فیلیغیّرہ بیدہ۔ کوئی شخص برائی کو دیکھے تو طاقت سے روک دے، منکر کو بدل دے۔ فان لم یستطع فبلسانہ اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے برائی کو برا کہے۔ برائی کو مٹانے کی طاقت نہیں تو برائی کے خلاف بول تو سکتا ہے، لکھ تو سکتا ہے، ماحول تو بناسکتا ہے۔ فضا تو بدل سکتاہے، میڈیا کے سامنے تو معاملے کو لاسکتا ہے۔ اگر زبان و قلم کا استعمال بھی نہیں کرسکتا ، زبان پر تالے لگادیے گئے ہیں، بولنے کی اجازت نہیں ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں بدی کو دل سے بدی سمجھو کہ یہ برائی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ دل سے برا ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ سےدعا کرو اور التجا کرو : اے اللہ یہ برائی ہے، میں بے بس ہوں، میں اسے روک نہیں سکتا ، اگر تو طاقت دے گا تو اسے مٹادوں گا۔ علماء نے لکھا ہے کہ محض سرسری طور پر برائی کو قبیح کہنا کافی نہیں۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ یہ قبیح فعل ہے، برائی ہے، اسے معاشرے سے مٹ جانا چاہیے۔ اس کی تمنا ہونی چاہیے کہ مجھے طاقت ہوتی تو میں مٹادیتا۔ میں اس کے خلاف فضا پیدا کرسکتا،میرے پاس ابلاغ کے ذرائع ہوتے تو اس کے خلاف مہم چلاتا۔ غلط کار سماج اور برائی میں ملوث افراد غلط راہ پر جارہے ہیں، یہ جہنم کی طرف جارہے ہیں۔ اگر طاقت ہوتی تو میں اس حالت کو بدل کررکھ دیتا۔ اس جذبے کے ساتھ خیر کا طالب جب کام کرتا ہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف بھی کردے گا۔ اگرچہ آپﷺ نے فرمایا: وذَلک اضعف الایمان۔ یہ ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ نتائج کے لحاظ سے یہ کم زور ترین موقف ہے۔
امتِ مسلمہ کا عمل درست ہوگا تو اس کی شبیہ بھی درست ہوگی۔ یہ غلط تصویر ہے جو آج بن گئی ہے کہ اہلِ اسلام مانگنے والے او رگدا گر ہیں۔ دینے کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں۔ خدا گواہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح سے آراستہ گروہ کے پاس وہ ’حق‘ ہے، جو ناواقف اور گم راہ انسانوں کی بھیڑ کے پاس نہیں ہے۔ اسے لے کر اہلِ حق کھڑے ہوں تو بعید نہیں کہ دنیا اُن کے پیچھے چلنے لگے اوراُن کی رہ نمائی کو تسلیم کرے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016