ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے کا مسئلہ

لباس انسان کی ضرورت بھی ہے اور اس کے لیے وجۂ زینت بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس ضرورت کا ذکر قرآن کی اس آیت میں کیا ہے۔

وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْجِبَالِ أَکْنَاناً وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُم بَأْسَکُمْ کَذَلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُونَ۔ ﴿النحل:۸۱﴾

’’ اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے اپنی پیدا کی ہوئی چہروں سے سائے بنائے اور تمھارے لیے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور تمھارے لیے ایسے لباس بنائے جو تمھیں گرمی سے بچاتے ہیں اور ایسے لباس ﴿بھی﴾ جو تمھاری جنگوں میں تم کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تم پر اپنی نعمت پوری کرتا ہے تاکہ تم فرما نبردار بنو‘‘۔

اس آیت میں سرابیل کا لفظ دوبار آیا ہے ۔ یہ ’’ستربال‘‘ کی جمع ہے۔ جس کے معنی کرتے، قمیص اور پیراہن کے ہیں۔ یہ بہت ہی جامع لفظ ہے۔ لباس انسان کو سری اورگرمی سے بچاتا ہے اور موسم کی سختیوں سے اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ لباس کی تیاری اور انتخاب میں موسم کے اثرات کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے ہر آدمی لباس پہنتا ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں مولانا عبدالرحمن کیلانی تحریر فرماتے ہیں:

’’انسان کو سردی سے بچنے کے لیے بھی لباس کی ایسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے گرمی سے بچنے کے لیے اور جولباس گرمی سے بچاتا ہے وہ سردی سے بھی بچاتا ہے اور یہاں جو بالخصوص گرمی سے بچانے کا ذکر فرمایا تو اس لیے اہل عرب سردی کے موسم سے ناآشنا تھے وہاں عموماً موسم گرم ہی رہتا ہے۔ بالخصوص مکہ میں جہاں یہ سورت نازل ہوئی، ٹھنڈا موسم ہوتا ہی نہیں۔ وہاں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کبھی کم گرمی کا موسم ہوتا ہے اور کبھی شدید گرمی‘‘۔﴿تیسیرالقرآن،جلد۲ صفحہ ۵۴۰﴾

لباس کا ایک مقصد سترپوشی ہے لیکن اس کے ساتھ انسان کی فطرت زیبائش و آرائش کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ اسلام نے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو تسلیم کیا ہے اور لباس کے مقصد میں سترپوشی کے ساتھ زینت کے تصور کو بھی شامل کیا ہے ۔ اس لیے اسلام نے زیب وزینت کے لیے لباس کا استعمال مباح قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْئ َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ۔﴿الاعراف: ۲۶﴾

’’اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اُتارا ہے جو تمھارے جسم کی سترپوشی کرے اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور تقویٰ کا لباس اس سے بھی بہتر ہے۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ اس سے سبق لیں‘‘۔

اس آیت میں لباس کے دو اہم مقاصد بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ انسان اپنے ستر کو چھپائے اور دوسرا یہ کہ اس کے لیے باعث زینت ہو۔ اس آیت میں مؤخرالذکر مقصد— ’’ریش‘‘ کے لفظ سے بیان ہوا ہے۔ ریش اصل میں پرندوں کے پروں کو کہتے ہیں۔ پرندے کے پرگرمی اور سردی سے بھی اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کے لیے زینت بھی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پرندوں کا حسن وجمال زیادہ تر ان کے پروں ہی سے وابستہ ہے۔ چوں کہ پرندوں کی پروں سے رونق ہے اور وہ ان کے لیے ایسے ہیں جیسے انسان کے لیے لباس ہوتا ہے۔ اس لیے بطور استعارہ اس کا استعمال کیاگیا ہے۔

لباس سے انسان کی زیب وزینت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور اسلام کے اس پاکیزہ نظریۂ لباس سے اس مذہبی تصور کی بھی تردید ہوتی ہے جو برہنگی کو مذہبی تقدس کا درجہ دیتا ہے اور انسان سے انسانیت کا لباس اُترواکر اسے حیوانیت کی سطح پر لانا چاہتا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس قسم کے افکار کی پُرزور الفاظ میں تردید کرتے ہوئے یہ چیلنج دیا ہے۔

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ۔﴿الاعراف:۳۲﴾

’’کہو، کس نے حرام کیا اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو ۔ کہو، یہ تو دنیا کی زندگی ہی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالص انہیں کے لیے ہوں گی۔ اسی طرح ہم اپنی نشانیوں کو علم والوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں‘‘۔

اس آیت میں زینت سے مراد خاص طو رپر لباس ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب اللباس کا آغاز قرآن حکیم کی اس آیت کے شروع کے حصے سے کیا ہے ۔ نیز ایک حدیث تعلیقاً اور ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عباسؓ  کا ایک قول بھی نقل کیا ہے۔ پوری عبارت اس طرح ہے:

اللّٰہ التی اخراج لعبادہٰ۔ وقال النبیö کلواوالشربوا والبسوا وتصدقوا فی غیر اسراف ومخیلۃٍ وقال ابن عباس کل ماشئت والبس ماشئت ، مااخطاتک اثنتان سرفٌ اومخیلۃٌ ۔﴿فتح الباری،جلد۱،صفحہ ۳۱۰﴾

’’اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: کہو وہ کون ہے جس نے اللہ کی زینت کو حرام قرار دیا ہے جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھائو، پیو، پہنو اور صدقہ کرو، اسراف اور غرور سے بچتے ہوئے اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  نے فرمایا، جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو، مگر دو گناہوں۔ اسراف اور غرور سے بچتے ہوئے‘‘۔

’’مخیلۃ‘‘ جس کے معنی غرور وتکبر کے ہیں جس سے وہ لباس مراد ہے کہ جو غرور وتکبر کی بنا پر چلتے ہوئے زمین سے گھسٹتا ہو تو اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ لباس کے معاملے میں ہر وہ زائد چیز حرام ہے جو معمول کے مطابق نہ ہو تو اسے بعید از قیاس امکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ چوں کہ اسلام نے لباس کو زینت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اچھااورزیبائش والا لباس بہ شرطیکہ حد اعتدال میں ہو، ایک پسندیدہ چیز ہے۔ اس سے اس تشدد کی نفی ہوتی ہے جو زہد میں غلو کرنے والوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ چنان چہ اس سلسلے میں ایک روایت ترمذی میں اس طرح آئی ہے:

غن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اللہ یحب ان یریٰ اثرُ نعمتہٰ علیٰ عبدہٰ۔  ﴿تحفۃ الاحوذی، ابواب الاستیذان والادب۔باب ماجائ ان اللّٰہ یحب ان یری اثر نعمتہ علیٰ عبدہ۔ ج۸، ص ۸۶، حدیث نمبر۲۹۷۳﴾

’’حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھے‘‘۔

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ صلاح الدین یوسف تحریر فرماتے ہیں: ’’جس طرح اللہ کی رضا کے لیے تواضع کے طور پر سادہ لباس پہننا پسندیدہ ہے ۔ اسی طرح اللہ کی نعمتوں کے اظہار کی غرض سے عمدہ لباس پہننا، اعمال خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، محتاجوں اور ضرورتمندوں کے ساتھ تعاون اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی بہت پسندیدہ ہے۔ عمدہ اور قیمتی لباس تکبر اوربرتری کے اظہار کے طور پر پہننا سخت جرم ہے ۔ فی نفسہ جرم نہیں بلکہ اظہار نعمت کی نیت سے پہننے پر تو بہت پسندیدہ ہے۔ گویا نیتوں کے اعتبار سے ایک ہی عمل، ایک شخص کے لیے اچھا ہے تو دوسرے کے لیے برا۔ اس لیے اخلاص اور تصحح نیت بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ اتباع نبویﷺ  بھی۔ ﴿ریاض الصالحین ج۱، ص ۶۵۶﴾

اسی مضمون کی ایک روایت مسلم میں اس طرح آئی ہے:

عن عبداللّٰہ بن مسعودٍ عن النبیی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقالُ ذرۃٍ من کبیرٍ، قال رجُلٌ، ان ان الرجل یحب ان یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنۃ، قال ان اللّٰہ جمیلٌ یحب الجمال، الکبر بطرالحق وغمط الناس۔ ﴿صحیح مسلم بشرح النووی، کتاب الایمان باب تحریم الکبروبیرنہ۔ ﴿ج۱ص۳۶۶، حدیث نمبر۹۱﴾

’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا ۔ ایک شخص نے کہا کہ ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو، آپﷺ  نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ اور تکبر یہ ہے کہ حق کو ہٹ دھرمی سے ردکرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ پاکیزہ اور صاف ستھرے چیز ہی استعمال کرنا ایک اچھی عادت ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ ادا بہت پسند ہے اور ایسا کرنا تکبر اور غرور میں داخل نہیں ؟ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب کسی آدمی کی نیت میں بگاڑ اور عمل میں ریا پیدا ہوتا ہے تو اس کی چال ڈال اور کپڑے پہننے میں غرور وتکبر کی علامت نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور دیکھنے والے دیکھتے اور محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ کس طرح حق بات کو جھٹلا رہا ہے اور لوگوں کو حقیر وذلیل سمجھ رہا ہے۔

واضح رہے شرعی لباس کے حوالے سے مردوں کا ٹخنوں کے نیچے ازار لٹکانے کا مسئلہ موجودہ دور میں ایک بہت ہی اہم اور غور طلب مسئلہ ہے۔ چنانچہ اس مسئلے کے متعلق تمام احادیث کا اگربہ نظر غائر مطالعہ کیاجائے تو ان احادیث کے اصل مدعا و مقصد تک آسانی سے رہنمائی ممکن ہے۔ اوراس مسئلے کے بارے میں جو لوگ غلو آمیز رویہ اپناتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ اسلام نے ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے منع کیا ہے اور سخت وعید بھی آئی ہے۔ لیکن اس کا تعلق صرف اس شخص سے ہے جو غروروتکبر سے ٹخنوں پر ازار لٹکاتا چلتا ہے۔ اس سلسلے میں چندحدیثیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:

﴿۱﴾ عن سالم بن عبداللّٰہ عن ابیہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من جرّثوبہ خیلائ کم بنظر اللّٰہ یوم القیامۃ فقال ابوبکرٍ یا رسواللّٰہ، ان احد شقی ازاری یسترخی الا ان اتعاھد ذایت منہُ فقال النبییُ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لست ممن تصنعہ خیلائَ۔ ﴿فتح الباری، کتاب اللباس ج۱، ص۳۱۲، حدیث نمبر۵۷۸۴﴾

’’حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ ﴿حضرت عبداللہ بن عمر﴾ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص غرور کی بنا پر کپڑا زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہ دیکھے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میرے تہبندکا ایک حصہ لٹکتا رہتا ہے مگر میں اس سے بچنے کاعہد کرتا ہوں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمھارا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوگا جو غرور کی بنا پر ایسا کرتے ہیں‘‘۔

﴿۲﴾ عن ابی بکرۃ قال خسفت الشمسُ ونحن عندالنبیی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال یجرُ ثوبہ مستعجلاً حتٰی ابی المسجد اثاب الناس فصلیٰ رکعتین ۔ الحدیث ﴿ایضًا ، حدیث نمبر: ۷۵۸۵﴾

’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج کو گہن لگا ۔ آپﷺ  عجلت میں اٹھ کر مسجد کی طرف چلے گئے اس حال میں کہ آپﷺ  کا کپڑا زمین سے گھسٹ رہا تھا اور دوسرے لوگوں کا بھی ﴿اسی طرح﴾ کپڑا گھسٹ رہا تھا۔ پھر آپﷺ  نے دو رکعت نماز پڑھی‘‘۔

ان دونوں حدیثوں پر امام بخاری نے ان الفاظ میں باب ترتیب دیا ہے:

باب من جر ازارہ من غیر خیلائ ۔

’’جو اپنا تہبند تکبر کی وجہ سے نہیں گھسیٹے گا ‘‘۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری کے نزدیک تہبند نیچے لٹکنے اور گھسیٹنے پر احادیث میں جو سخت وعید آئی ہے اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو تکبر کی راہ سے اپنا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکاتا اور گھسیٹتا ہے۔ بخاری کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی اول الذکر حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

وفیہ انہ لاحرج علی انجر ازارہ بغیر قصدہ مطلقاً واما مااخرجہ ابن ابی شیبۃ عن ابن عمر انہ کان یکرہ جرالازار علی کل حال فقال ابن بطال ھومن تشدیداتہ والافقد روی ہو حدیث الباب فلم یخف علیہ الحکم قلت بل کراھۃ ابن عمر محمولۃ علی من قصد ذالک سوائ کان عن مخیلۃ ام لاوھو المطابق روایۃ المذکورۃ، ﴿فتح الباری، جلد۱،ص:۳۱۳﴾

’’اور اس روایت میں یہ ہے کہ بغیر قصد کے اگر تہبند ڈھیلا ہوجائے تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ البتہ ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ  سے جو روایت نقل کی ہے اس کے مطابق وہ تہبند کو ڈھیلا چھوڑنے کو ہر حال میں مکروہ جانتے تھے۔ ابن بطال نے کہا کہ یہ قول ان کی تشدیدات میں سے ہے ورنہ خود انھوں نے باب کی حدیث روایت کی ہے اور ان پر شرعی حکم پوشیدہ نہیں ہے بلکہ عبداللہ بن عمر کی کراہت اس پر محمول ہے جو قصداً اپنا تہبند چھوڑے خواہ تکبر ہو یا نہ ہو‘‘۔ دونوں برابر ہے اور جو روایت انھوں نے بیان کی ہے وہ اس کے مطابق ہے‘‘۔

علامہ بدرالدین ثانی الذکر حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

وفیہ دلالۃ علی ان جرالازار اذا لم یکن خیلائ جاز، ولیس علیہ بأس۔ ﴿عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری۔ ج۱۵، ص۶﴾

’’اور اس میں اس بات کے حق میں دلیل ہے کہ جس کا تہبند ڈھیلا ہوجائے لیکن تکبر کی راہ سے نہیں تو اس کا جواز ہے اور اس پر کوئی حر ج نہیں۔

امام بخاری نے کتاب اللباس ہی کے تحت ایک اور باب اسی طرح باندھا ہے:

باب من جر ثوبہ من الخیلائ۔

’’جو اپنا کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکائے۔

اور اس کے نیچے کئی حدیثیں بیان کی ہیں جن میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے:

﴿۳﴾ عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لاینظر اللّٰہ یوم القیامۃ الی من جر ازارہ بطراً ۔ ﴿فتح الباری،ج۱۰، ص۳۱۶، حدیث نمبر۵۷۸۸﴾

’’حضرت ابوہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو تکبر کی بنا پر اپنے ازار کو زمین سے گھسٹتے ہوئے چلتا ہے‘‘۔

مطلب یہ کہ اس حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وعید سنائی ہے وہ اس پر مقید ہے کہ جب آدمی ازراہ تکبراپنا ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے لیکن جس کی نیت تکبر کی نہیں اور اس کا ازارغیر اختیاری طور پر لٹک جائے تو اس حدیث میں سنائی گئی وعید کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا ہے۔

اسی طرح مسلم میں کتاب اللباس کے تحت ایک باب اس طرح ترتیب دیا گیا ہے:

باب تحریم جر الثوب خیلائ۔

’’تکبر سے کپڑا لٹکانے کی ممانعت‘‘۔

اس باب کے تحت تقریباً ایک درجن حدیثیں آئی ہیں ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ازا رلٹکانے پر جو وعید آئی ہے اس کا اطلاق ہر ازار لٹکانے والے پر نہیں ہوتا ہے کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا ازار لٹکاتا اور گھسیٹتا ہے وہ اس وعید کی زد میں آتا ہے۔ چنان چہ طوالت کے خوف سے اس باب کے تحت بیان کی گئی حدیثوں میں صرف ایک حدیث یہاں نقل کی جاتی ہے:

﴿۴﴾ عن ابن عمر انہ لابی رجلا یجر ازارہ فقال ممن انت؟ فانتسب لہ فاذا رجلٌ من بنی لیثٍ فعرفہ ابن عمر فقال سمعتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باذنی معاتین یقول من جرا ازارہ لایرید لذالک الا المخیلۃ فان اللّٰہ لاینظر الیہ یوم القیامۃ۔ ﴿صحیح مسلم بشرح النووی، ج ۷،ص ۳۱۱، ح نمبر۲۰۸۵﴾

’’حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ازار گھسیٹ رہا تھا ۔ انھو ںنے اس سے پوچھا تو کس قبیلے کا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ نبی لیث کا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کو پہچان لیا اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دونوں کانوں سے سنا ہے، آپﷺ  فرماتے تھے، جو شخص اپنی ازار تکبر کی نیت سے لٹکائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا‘‘۔

امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

ان الاسبال یکون فی ازار والقمیص والعمامۃ و انہ لایجوز اسبالہ تحت الکعبتین ان کان للخیلائ ، فان کان لغیرھا فہو مکروہ، و ظواہر الاحادیث فی تقییدہا بالجرخیلائ تدل علیٰ ان التحریم مخصوص بالخیلائ۔

’’ازار، قمیص اور عمامہ ، ان میں سے ہر ایک کو ٹخنوں کے نیچے تکبر سے لٹکانا جائز نہیں؟ اور بغیر تکبر کے لٹکانا مکروہ ہے۔ چوں کہ ظاہر طور پر احادیث میں کپڑا لٹکانے کی ممانعت کو تکبر کے ساتھ مقید کیا گیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تحریم تکبر کے ساتھ مخصوص ہے‘‘۔

امام نووی آگے اس بحث کو اس اصولی جملے پر ختم کردیتے ہیں:

واما الاحادیث المطلقۃ بان ما تحت الکعبتین فی النار، فالمراد بھا ماکان للخیلائ لانہ مطلق فوجب محلہ علی المقید، واللّٰہ اعلم۔ ﴿صحیح مسلم بشرح النووی، ج۷، ۳۱۳﴾

’’اورجن احادیث میں مطلقاً آیا ہے کہ جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم میں ہے۔ اس سے مراد وہ کپڑا ہے جو تکبر کی وجہ سے لٹکایا گیا ہو ۔ کیوں کہ یہ احادیث مطلق ہیں اور مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے‘‘۔

ایک اور حدیث میں ٹخنوں کے نیچے اور لٹکانے پر سخت وعید آئی ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم کے علاوہ ابوداؤد نے کتاب اللباس میں باب ماجائ فی اسبال الازار اور  نساء ی نے کتاب الزینۃ باب اسبال الازار کے تحت بیان کیا ہے لیکن یہاں حدیث کی عبارت مسلم کی نقل کی جاتی ہے۔

﴿۵﴾ عن ابی ذرٍّ عن النبیی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ثلاثۃٌ لایکلمہم اللّٰہ یوم القیامۃ ولاینظر الیہم اللّٰہ یوم القیامۃ ولاینظر الیہم ولایزکیہم ولہم عذابٌ الیم، قال فقرأھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاث میرارٍ قال ابوذرخابوا وخسرُوا من ھم یا رسول اللّٰہ، قال المسبلُ والمنان والمنفق سلعتہ بالخلف الکاذب۔ ﴿صحیح مسلم بشرح النووی، کتاب الایمان، باب بیان غلط تحریم اسبال الازار۔ ج۱، ص ۳۹۱، ح نمبر۱۰۶﴾

’’حضرت ابوذر غفاری ؓ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین افراد ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ آپﷺ  نے یہ تین بار فرمایا، تو حضرت ابوذر غفاری ؓ  نے عرض کیا برباد ہونے اور نقصان میں پڑنے والے کون لوگ ہیں، اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ ﷺ  نے فرمایا، ایک اپنے ازار کو زمین سے گھسیٹنے والا، دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا اپنا مال جھوٹی قسم کھاکر بیچنے والا‘‘۔

اس مضمون کی امام مسلم نے اور بھی چند حدیثیں اس مفہوم کی نقل کی ہیں۔ اور ان احادیث کی شرح میں امام نووی تحریر فرماتے ہیں:

واما قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ﴿المسبل ازارہ﴾ فمعناہ، المرخی لہ الجار طرفہ خیلائ کما جائ معسرافی الحدیث الآخر الا ینظر اللّٰہ الی امن جرثوبہ خیلائ والخیلائ، الکبر، وھذالتقیہ بالجرخیلائ یخصص عموم المسبل وہدل علیٰ ان المراد بالوعید من جرہ خیلائ وقدرخص النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ذالک لابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ وقال لست منہم اذکان جرہ لغیرالخیلائ وقال الامام ابوجعفر محمد بن جریر الطبری وغیرہ وذکر اسبال الازار وحدہ‘ لانہ کان عامۃ لباسہم وحکم غیرہ من القمیص وغیرہ حکمہ، قلت وقد جائ ذالک منصوصاً علیہ من کلام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من روایۃ سالم بن عبداللّٰہ عن ابیہ۔ رضی اللّٰہ عنہم۔ عن النبیی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال، اسبال فی الازار والقمیص والعمامۃ من جر شیئاً خیلائ لم ینظر اللّٰہ تعالیٰ الیہ یوم القیامۃ رواہ ابوداؤد وال نساء ی وابن ماجۃ باسناد حسن۔ ﴿صحیح مسلم بشرح النووی ج۱ ص ۳۹۴﴾

’’اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ۔المسبل ازارہ ﴿یعنی ازار کو لٹکانا﴾ کا مطلب یہ ہے کہ ازار کو ٹخنوں کے نیچے تکبر کی وجہ سے لٹکانا۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا تکبر سے لٹکائے اور تکبر کی یہ قید خاص کرتی ہے ازار لٹکانے والے عموم کو۔ اور یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ وعید اس کے لیے ہے جو تکبر سے ازار کو لٹکائے۔ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کپڑا لٹکانے کی رخصت دی اور فرمایا تم ان میں نہیں؟۔ اصل میں ان کا یہ فعل تکبر کی وجہ سے نہ تھا۔ اور امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری وغیرہ نے کہا کہ آپﷺ  نے صرف ازار لٹکانے والے کا ذکر کیا۔ کہا کہ اس وقت لوگوں کاعام لباس ازار ہی ہوتا تھا جبکہ قمیص وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایک اور حدیث میں صاف آیا ہے کہ سالم بن عبداللہ اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمر ّ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لٹکانا ازار میں،قمیص میں اور عمامے میں ہوتا ہے اور جو کوئی ان میں کسی کو تکبر سے لٹکائے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ اس کو ابودائود ،  نساء ی اور ابن ماجہ نے بہ سند حسن روایت کیا ہے‘‘۔

اس طرح اس ساری تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ غرور وتکبر کی بنا پر زمین پر سے ازار کو گھسیٹتے ہوئے چلنا گناہ کبیرہ ہے اور ایسے آدمی کے لیے دخول جہنم کی وعید بھی سنائی گئی ہے لیکن جن احادیث میں غروروتکبر کے بغیر بھی ازار لٹکاتے ہوئے چلنے کی حرمت بظاہر ثابت ہوتی ہے تو شارحین حدیث نے ان احادیث کا محمول ان احادیث پر کیا ہے جن میں ازار لٹکانے کے ساتھ غرور وتکبر کی بھی قید آئی ہے۔ اس لیے محض لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاکر یا گھسیٹ کر چلنا حرام نہیں ؟ جبکہ یہ عمل غرور وتکبر کے شائبہ سے پاک ہو۔ لیکن افضل یہی ہے کہ ہر ایک کو چاہیے کہ اپنی ازار کو ٹخنوں سے اوپر ہی رکھنے کی کوشش کرے اور اس کو دائمی عادت بنائے۔ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عمر ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے:

عن ابن عمرقال مررت علیٰ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفی ازاری استرخائً فقال یا عبداللّٰہ، ارفع ازارک فرفعتہ ثم قال زد فزد تُ فمازلتُ اتحراھا بعد، فقال بعض القوم، الیٰ این؟ فقال انصاف الساقین۔ ﴿صحیح مسلم بشرح النووی، کتاب اللباس، باب تحریم جرالثوب خیلائ۔ ج۷، ص۳۱۲۔ ح۲۰۸﴾

’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ  بیان کرتے ہیں کہ ﴿ایک دن﴾ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا ۔ اور اس وقت میری ازار لٹک رہی تھی، آپﷺ  نے فرمایا: اے عبداللہ، اپنی ازار کو اونچا کرو۔ میں نے ﴿تھوڑا﴾ اونچا کیا۔ آپﷺ  نے فرمایا اور اونچا کرو۔ میں نے اور اونچا کیا، اس طرح میں برابر اونچا کرتا رہا، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے کہا، کہاں تک اونچا کرے؟ آپﷺ  نے فرمایا، آدھی پنڈلی تک‘‘۔

اس حدیث میں لفظ ’’ساقین‘‘ آیا ہے جو ’’ساق‘‘ کا تشنہ ہے۔ ساق کے معنی پنڈلی کے ہیں۔ٹخنہ اور گھٹنے کے درمیان کا جو حصہ ہے وہ ساق ﴿پنڈلی﴾ کہلاتا ہے۔ اس طرح ساق کی اس وضاحت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ازار کی سب سے افضل اور بہتر صورت یہ ہے کہ و ہ آدھی پنڈلی تک یہ اور آدھی پنڈلی سے ٹخنے تک کے درمیان والے حصے تک بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن ٹخنے سے نیچے جو حصہ غرور وتکبر کی بنا پر لٹکا ہوا ہوگا۔ وہ بہر صورت دوزخ میں لے جانے والا ہوگا۔ اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے:

عن العلاء بن عبدالرحمن عن ابیہ قال سئالت ابا سعیدالخدری عن الازار، فقال علی الخبیر سقطت، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ازارۃ المسلم الیٰ نصف الساق ولاحرج اولاجناح فیما بینہ وبین الکعبین ، ماکان اسفل من الکعبین فہو فی النار، من جرازارہ بطراً لم ینظر اللّٰہ الیہ، ﴿عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی قدر موضع الازار، ج ۱۱ص ۳۰۱، حدیث نمبر۷۸۰۴﴾

’’علاء بن عبدالرحمن اپنے باپ ﴿عبدالرحمن﴾ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ  سے ازار کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے تم نے اچھے جانکار سے پوچھا ہے، ﴿سنو﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسلمان کا ازار آدھی پنڈلی تک ہے اور اگر ازار پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان ہو، تو بھی کوئی حرج یا کوئی مضائقہ نہیں اور جو حصہ ٹخنے سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں رہے گا اور جو اپنا ازار تکبر کی وجہ سے لٹکائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن﴾ اس کی طرف نظر کرم نہیں فرمائے گا‘‘۔

اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ ازار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا ہی افضل ہے لیکن اگر کسی کا ازار بغیر غروروتکبر کے عادتاً ٹخنوں سے نیچے لٹکتا ہو تو اس پر وعید و ممانعت کااطلاق نہیں ہوتا بل کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ  کو ملنے والی رعایت کے دائرے میں آتا ہے۔ نیز اس سے ان نوجوانوں کے لیے بھی گنجائش نکلتی ہے جو اسکول، کالج یا یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں اور عام رواج کے مطابق پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں ۔ چوں کہ پینٹ ایک ایسا لباس ہے جو عام طور پر ٹخنوں تک لٹک جاتا ہے اگر وہ تکبر کے ساتھ نہ ہوتو اس کے لیے جواز کی ایک صورت ضرور نکلتی ہے لیکن جو نوجوان اتنے لمبے پینٹ پہنتے ہیں جو جو توں کے نیچے بھی گھسٹتے ہوئے نظر آتے ہیں تو وہ بلاشبہ وعیدو ممانعت کی زد میں آتے ہیں۔ لیکن افضل لباس وہی ہے جو سنت کے مطابق ہو۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223