رسول عربی محمدﷺ کو خالق کائنات نے نسل انسانی کے لئے کامل و مکمل نمونہ اور اسوۂ حسنہ بنا کر مبعوث کیا، اور آپ ﷺ کے طریقوں کو فطری طریقہ قرار دیا ہے، محسن انسانیت نبیﷺ کے معاملات زندگی ہی قیامت تک کے لئے روشن اور واضح ہیں،یہی وجہ ہے کہ سیرت نبویﷺ کے ہر گوشہ تابناک اور ہر ہر پہلو روشن ہے،یوم ولادت سے لے کر رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے،لہٰذا سیرت نبوی کی جامعیت واکملیت ہر قسم کے شبہ سے بالکل محفوظ اور صاف و شفاف آئینہ کی مانند موجود ہے، دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتبت ہستی کی حالات زندگی ،انداز و اطوار، مزاج،حرکات و سکنات نشیب و فراز اور خیالات اتنے مکمل و مدلل انداز میں وضع نہیں ہیں، جس طرح سیرت النبیﷺ کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے،یہاں تک آپﷺ سے متعلق ہر ہر گوشہ کی تفصیل سند کے ساتھ سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔
اس دنیا فانی میں زندگی گزارنے کے لئے اللہ رب العالمین نے اسلام کو نظام زندگی اور محمدﷺ کو نمونہ حیات کے طور پرمبعوث کیا،آپ کا طریقہ زندگی سب سے زیادہ صحیح اور قابل قبول اور اسلامی طریقہ ہے،آپ کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اورآپ کا ارشاد ہے:
فمن رغب عن سنتی فلیس منی ۱؎
’’جس نے میرے طریقہ سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ اور عادات و اطوار کے متعلق مسلسل لکھا اور بیان کیا جاتا رہا ہے اور آگے بھی انشاء اللہ لکھا جاتا رہے گا۔
صحابہ کا نمونہ
صحابہ کرام سیرت نبوی ﷺ کا عملی پیکر تھے،ہر اعتبار سے جانچنے اور پرکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کو نسل انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان و عمل کا معیارزندگی قرار دیا گیا ،اور خود رسولﷺ نے ان کی تربیت فرمائی ہے اللہ رب العالمین ایمان واسلام،توحید و عقیدے، ان کے عمل و کردار ،اخلاق حمیدہ ،صلاح و تقوی کو بار بار جانچاوپرکھا ،اور پھر اپنی رضا و پسندیدگی سے سرفراز فرمایا ہے۔
اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبھم للتقوی ۲؎
’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقوی کو اللہ رب العالمین نے جانچا ہے‘‘۔
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
آمنوا کما آمن الناس ۳؎
’’اے لوگوں ایسے ایمان لاؤ جیسا کہ محمد ﷺ کے صحابہ ایمان لائے ہیں‘‘۔
رسول کائنات ﷺ نے فرمایا:
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم ۴؎
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جن سے بھی اقتدار و محبت کا تعلق جما لو گے ہدایت پاجاؤ گے‘‘۔
صحابہ کرام ؓ کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ کفر و شرک سے بالکل پاک و صاف تھے،اور مینارہ ایمان تھے، رسول ﷺ نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد ایک ایسے معاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت سے سرفراز فرمایا، جو جہالت و گمراہی کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گرفتار تھا،جو کفر و شرک کے دلدل میں پھنسا تھا،ضلالت و گمراہی کا شکار تھا،درندگی اور حیوانیت برسراقتدار تھی ،ہر وقت کمزور پر ظلم و جبر کیا جاتا،ہر طرف ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا، قتل وغارت گیری چاروں طرف عام تھی،نہ عز ت وعظمت محفوظ تھی، نہ عورتوں کا کوئی مقام تھا، نہ غریبوں کے لئے کوئی پناہ کا سہارا ، نہ یتیموں کا کوئی پرسانِ حال تھا ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی بے حیائی بالکل عام ہو چکی تھی،مطلب پرستی کا دور۔ دورہ تھا جوا ، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی،ناانصافی اور ظلم و ستم ،نفرت وعداوت کا زہر انکی رگ رگ میں رچا بسا تھا،اور انسانیت اس وقت آخری سانس لے رہی تھی،معاشرہ میںشرک بالکل گھر کر گیا تھا،انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا ۔اورہلاکت سے بالکل دوچار تھا ایسے وقت میں رحمت حق کو رحم آیا اور کوہ صفا سے صدیوں کے بعد انسانیت کی بقا کے لئے اعلان ہوا۔
یایھا الناس قولوا لا الٰہ اللّٰہ تفلحوا ۵؎
’’اے لوگوں لا الٰہ اللہ محمد رسول پر ایمان لاؤ گے تو فلاح سے ہمکنار ہوگے‘‘۔
جامع انقلاب
یہی وہ آواز بر حق تھی جو ایک عظیم انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ کو بدل دیا اور یہ اعلان توحید تھی، جس نے مردہ کو زندہ کیا ان میںتوحید کی روح پھونکی اور دنیائے اسلام نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا کہ قاتل عادل بن گئے،ظلم و جبر اور حق پرست لوگ رحم دل اور امانت دا ر بن گئے، اور سیکڑوں باطل معبودوں کے سامنے جھکنے والے سر خدا ئے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئے اور عورتوں پر ظلم ڈھانے والے انکے محاٖفظ و مددگار بن گئے ،نفرت و عداوت مٹ گئی ،محبت و اخوت کی فضا چھاگئی۔
گویا آپ کی آمد سے تاریکی کی جو فضا چھائی تھی ،کفر کے بادل بالکل چھٹ گئے تھے،جیساکہ جعفر بن ابی طالب ؓکی اس تقریر سے معلوم ہوتا ہے، جو انہوں نے نجاشی کے دربار میںکی تھی،اس طرح ہے:
’’اے بادشاہ !ہمار ی قوم کی یہ حالت تھی کہ ہم سب جاہل تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے برے کاموںکے مرتکب ہوتے ۔ رشتے ناتے توڑ دیتے۔ پڑوس سے براسلوک کرتے ،اور ہم میں کا قوی کمزور کو کھا جاتا تھا یہ ہماری حالت تھی ۔کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جانب ہمیں میں سے ایک شخص کو رسول بناکر بھیجا جس کے نسب سچائی،امانت اور پاکدامنی کو ہم سب جانتے ہیں ،اس نے ہمیں اللہ تعالی کی جانب دعوت دی کہ ہم اسے یکتا مانیں اور اس کی عبادت کریں ،ہم اور ہمارے بزرگوں نے اس کو چھوڑ کر پتھروں اور بتوں کی پوجا اختیار کر رکھی تھی، اس کو چھوڑ دیں اس رسول نے ہمیں سچی بات ، امانت کی ادائیگی،رشتہ داروں سے تعلقات کے قائم رکھنے،پڑوسیوں سے نیک سلوک کرنے ،حرام باتوں اور قتل و خون ریزی سے باز رہنے کا حکم فرمایا ، اور ہمیں بری باتوں ،جھوٹ بولنے یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا‘‘ ۶ ؎
زمانہ جاہلیت میںانسانیت ختم ہوگئی تھی، عورتوں پر ظلم کیا جاتا تھا ،معصوم بچوں کوقتل کیا جاتا تھا، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، کمزور ضعیف طبقے کے لوگوں کو غلامی کی زندگی نے گھیر رکھا تھا ،لیکن اس ظلم و جبر،استحصال وبغاوت اور انسانیت کے اقدار کی پامالی کو ختم کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے تما م اشرف المخلوقات کے لئے حضورﷺ کو بحیثیت داعی مبعوث کیا ،آپ ﷺ نے آکر تمام جہالت و گمراہی اور ذلت و رسوائی اور بے بسی کی زندگی کو روشنی میں تبدیل کر دیا ،عدل و انصاف کی ترازو قائم کی ، حق شناخت کرکے لوگوں کو ظلمت و تاریکی سے نکال کر نورمبین کی طرف راہ دیکھائی،اور امت میں خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذاآپﷺ کے بتائے ہوئے ۔طریقۂ زندگی کو موجودہ دور میں نافذ کرنے کی سخت ضرورت ہے،اگر یہ معاشرہ میں عام ہوجائے تو معاشرہ کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی،معاشرہ فلاح وکامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔
اصلاحِ معاشرہ
مفتی محمد امین صاحب پالنپوری تحریر کرتے ہیں:
’’معاشرے کو سنوارنے اور فلاح و کامیابی کی منزل تک پہنچانے میں سب سے بڑا دخل خوف خداوندی اور فکر آخرت کا ہے، اس لئے معاشرے میں خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے کی جتنی کوشش کی جائے گی اتنا ہی معاشرہ ترقی کریگا،اس کے برعکس جب معاشرے میں خداکا خوف اور آخرت کی فکر ختم ہو جائیگی، تو طرح طرح کی برائیاں پھیلنی شروع ہوجائیں گی،کیونکہ انسان خلوت وجلوت میں برائیوں سے اسی وقت رک سکتا ہے جب اس کو یہ خوف ہو کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ،اور آخرت میں اسکا حساب دینا ہوگا،ہادی عالمﷺ نے اسی لئے اپنی امت میں ان دو چیزوں کو پیدا کرنے پر خاص زور دیا ہے‘‘۷؎
داعی اعظم کی پوری زندگی اعتدال و امتزاج کا جامع و متوازن نمونہ تھی،آپﷺ نے شوق و بندگی اور بے مثال ذوق عبادت کے باوجود بھی حقوق و فرائض کا پورا پورا خیال رکھا،خاندانی ،سماجی،معاشرتی حقوق و فرائض بھی بحسن خوبی انجام دیئے ۔
۱۔آپ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے۔
۲۔ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔
۳۔ بیواؤں کی مدد کرتے تھے۔
۴۔معزوروں اور بے کسوں کا ہمیشہ ساتھ دیتے تھے۔
۵۔مہمانوں کی مہمانوازی کرتے تھے۔
۶۔کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے
۷۔مصیبت میں لوگوں کے کام آتے تھے۔
۸۔ لوگوں سے جب بھی ملتے تھے،خوش اخلاقی سے ملتے تھے،آپ کے اخلاق کو دیکھ کر ہر شخص آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔
آپﷺ کی زندگی کا کوئی پہلو یا گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں اصلاح معاشرہ کی تعلیمات موجود نہ ہو،ہر فرد کا سب سے پہلے فرض منصبی یہ ہے کہ اپنے آپ کو ساری آلائشوں ،ظاہری و باطنی برائیوں اور معاشرہ میں بدامنی اور فتنہ و فساد پھیلانے والی باتوں سے پاک و صاف کرے خدا کی شریعت اور حکمت طیبہ کے سچے اور اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کے بعد تمام اخلاقی ضوابط اور انسانی دستور و کردار کو اپنائے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو مدنی الطبع بنایا اسلئے انسان اگر معاشرہ کے بغیر زندگی گزارنا چاہئے تو نہیں گزار سکتا معاشرہ میں جب بگاڑ و فساد پیدا ہوتا ہے تو زندگی اجیرن بن جاتی ہے ،ظلم و ستم عام ہو جاتے ہیں اور قتل غارت گیری ،مال و دولت ،عزت و آبرو محفوظ نہیں رہتی،جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں پورے معاشرہ کا چین و سکون درہم برہم ہو جاتا ہے ۔
سیرت کی رہنمائی
آج ہمارا معاشرہ انحراف و بگاڑ کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے، دینی شعور کے فقدان ،صحیح تعلیم اور تر بیت کی کمی،برے اخلاق والی چیزوںکا فروغ،اور بے راہ روی نے ہمارے معاشرہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے،معاشرہ کی اس صورت حال پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے سیرت نبویﷺ کی روشنی میں معاشرہ کی اصلاح کی جائے معاشرہ میں جو بد اخلاقی،اور بد کرداری کا چلن عام ہے،اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے معاشرہ میں آپسی تعلقات کو بحال کرنے کی ازحد ضرورت ہے،جب تک لوگوں کے درمیان آپسی معاملات ،اخلاق اور حقوق و فرائض کی ادائیگی آپﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا نہیں کی جائیگی تب تک معاشرہ میں آپسی تعلقات خوشگوار نہیں ہوں گے۔
ـمولانا محمد اسجد قاسمی اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں:
’’ہر وقت دوسرے کے اعمال کی برائیوں ،دوسرے ـــ کے عقائدکی خرابیوں پر نظر رکھنے کے بجائے خود اپنے افعال و اعمال،کردار و سیرت، ِاخلاق و اقوال،افکار وخیالات کو خرابی اور برائی سے بچانے کی فکر وسعی ہونی چاہئے انسان کو ہمہ وقت اس بات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ وہ خدا اور بندگان خدا کے حقوق کی ادائیگی کر رہا ہے یا نہیں؟ اگر انسان میں یہ احساس فکر پیدا ہوجائے تو وہ کامیاب ہے کسی کی گمراہی اس کے لئے شمّہ برابر بھی ضرر ساں نہیں ہو سکتی۔ــ‘‘۸ ؎
انسان کو اپنے افعال و اعمال،سیرت و اخلاق،افکار و خیالا ت کو برائیوں سے بچانا ہے، اوراگر چین و سکون کی زندگی بسرکر نی ہے،اور معاشرہ کو تباہ و برباد ہونے سے بچانا ہے تو ایسے حالات میں ایک ہی صورت نظر آتی ہے اور وہ ہے معاشرہ کی اصلاح، لہذا ہمیں چاہئے کہ سیرت نبوی کی روشنی میں اصلاح معاشرہ کو عام کریں ۔
محمد شریف قاضی اس طرح رقم طراز ہیں:
’’انسانی معاشرہ جس کی تعمیر و اصلاح اسلامی نظام کے قیام و نفاذ کے لئے حضوراکرم ﷺ نے اپنی دعوت و تبلیغ اور سیرت و کردار کے ذریعے فرمائی تھی فی الواقع ایسا ہی معاشرہ اسلامی نظام کی برکات سے لطف اندوز ہوسکتا ہے‘‘ ۹؎
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس معاشرہ میں زندگی گزارے اور موجودہ دور میںنبیﷺ کے پاکیزہ طریقوں کو اپنانا اور سنتوں پر عمل کرنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے، کہ دین کو اس دنیامیں پھیلائے ،اس مشکل دور میں نبیﷺ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکل حالات میں گھبرانے اور مایوس ہونے کے بجائے اپنے اعمال کی اصلا ح کی طرف توجہ دیں،آج کے انسان نبیﷺ کے مبارک طریقوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
الغرض معاشرہ میں رہ کر آپ ﷺ کے طریقہ زندگی کو اپنائے،اورلوگوں کے ساتھ نیک نیتی،خلوص دل سے پیش آئیں،اور انکے حقوق و فرائض کو مکمل طور پر ادا کریںتبھی ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے گا،جسکی آج کے دو ر میں اہم ضرورت ہے۔
مصادر و مراجع
۱۔الصحیح البخاری،کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح،جلد دوم،ص۷۵۷،مطبع کتب خانہ رشیدیہ دہلی
۲۔سورۃ الحجرات آیت :۳
۳۔سورۃ البقرۃ آیت:۱۳
۴۔حافظ ابن حزم،الاحکام فی اصول الاحکام،جلد۶،ص۸۲،الطبعۃ الاولی سنۃ،۱۳۴۷ھ،مطبع النھضہ شارع عبد العزیز بمصر
۵۔امام احمد بن حنبل،مسنداحمد،جلد ۲۵،رقم الحدیث ۱۶۰۲۳،للطباعۃ والناشر موسسۃ الرسا لۃ،الطبعہ ثانیہ ۱۴۲۹ھ،
۶؎ ابو محمد عبد الملک بن ہشام ،سیرت النبی ابن ہشام،جلد اول،ص ۲۴۲۔۲۴۳ ،مطبع لٹل اسٹارپرنٹرز،اسلامی کتب خانہ لاہور
۷۔مولانا مفتی محمد امین صاحب پالنپوری،اصلاح معاشرہ،ص۱۶۶،ناشر الامین کتابستان دیوبند
۸ ۔مولانا محمد اسجد قاسمی،اصلاح معاشرہ اور تعمیر سیرت،ص۱۰،نشر مرکز الکوثر التعلیمی،والخیری مرادآباد،طبع اول۲ ۰۰۷
۹۔محمد شریف قاضی،اسلامی معاشرے کی تعمیر و تزئین،ص:۱۳۵، مطبع دعوت آفسیٹ پرنٹرز دہلی،ناشر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز
مشمولہ: شمارہ اگست 2018