اللہ تعالیٰ نے اس ارضی کائنات میں حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بناکر بھیجا اس ہدایت کے ساتھ کہ ہرمعاملے میں اس کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے۔ قرآن واضح الفاظ میں اس سچائی کو پیش کرتا ہے:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۶۵ۧ (انعام : آیت نمبر ۱۶۵)’’اور وہی ہے جس نے تمہیں (ایک دوسرے کا) زمین میں خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر (اعمال کے لحاظ سے ) مرتبے دیے تاکہ جو کچھ (اختیار ) تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہیں آزمائے بلاشبہ تمہارا پروردگار(بد عملیوں کی)جلد سزا دینے والا ہے اور بلا شبہ وہ بخشنے والا رحمت والا ہے ۔‘‘
قرآن مقدس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خلافت و نیابت کا یہ منصب ایک قوم سے دوسری قوم میں منتقل ہوتا رہا ۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بعد عاد کی قوم اور عاد کی قوم کے بعد ثمود کی قوم پھر آل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس شرف سےنوازاگیا ۔ ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو خلا فت و نیابت عطا کرنے کی تصریح سورہ یونس میں اس طرح ملتی ہے :
وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۰ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۱۳ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۱۴ (یونس:آیت نمبر ۳ ۱ ، ۴ ۱ )’’ اور تم سے پہلے کتنی ہی امتیں گزر چکی ہیں کہ انھوں نے ظلم کی راہ اختیار کی تو ہم نے انھیں (پاداشِ عمل میں ) ہلاک کردیا ۔ اس کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے مگر اس پر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے کہ ایمان لائیں (تو دیکھو ) مجرموں کو ہم اسی طرح ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں۔ پھر ان امتوں کے بعد ہم نے تمہیںاس کا خلیفہ (نائب ) بنایا تاکہ دیکھیں تمہارے کام کیسے ہیں ۔ ‘‘
حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمدﷺ تک جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ، ان سب نے شرک کی شدت سے تردید کی ۔ توحید کی بے آمیز دعوت دی اور احکاماتِ الٰہی کو سماج میں نافذ کرنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دی ۔وہ انسانوں کو متعدد طاغونی قوتوں کی محکومی سے نکال کر صرف ایک اللہ کی حاکمیت اور اس کے احکام کی اطاعت و فرمانبرداری کے دائرے میں لائے ۔ ماسوا اللہ اطاعتوں کی بندشوں سے آزاد کرا کے بادشاہ ِارض وسماکے احکام و قوانین کا پابند بنایا ۔ جب قوم راہ راست پر آگئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے سر پر خلافت و نیابت کا تاجِ شرف رکھا اور کچھ کو سلطنت و حکومت بھی عطا کی ۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت و حکومت اس کی روشن مثالیں ہیں ۔ حضرت محمد مصطفی ﷺکی امت کے نیک لوگوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا :
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰(النور، آیت نمبر :۵۵) جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں اور ان کے عمل بھی اچھے ہیں ان سے اللہ کا وعدہ ہوا کہ زمین کی خلافت انھیں عطا فرمائے گا ۔ اسی طرح جس طرح ان لوگوں کو دے چکا ہے جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں نیز ایسا بھی ضرور ہونے والا ہے کہ ان کے دین کو ان کے لئے پسند کرلیا گیا ہے، ان کے لئے جمادے اور خوف و خطر کی زندگی کو امن و امان کی زندگی سے بدل دے۔ (وہ بے خوف و خطر ) میری بندگی میں لگے رہیں گے اور میرے ساتھ کسی ہستی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔
سورہ النور عزوۂ بنی مصطلق کے بعد۶ہجری میں نازل ہوئی ۔یہ وہ زمانہ تھا جبکہ اہلِ ایمان چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں تھے ۔ بے اطمینانی اور بے سروسامانی کی کیفیت تھی ۔ ایسے عالم میں یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ نہ صرف پورا عرب ان کے زیر نگیں ہوگابلکہ آگے بڑھ کر وہ قیصر و کسریٰ کے تخت کو بھی الٹ دیں گے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ (رمضان۸ہجری) کے ساتھ اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور اہلِ ایمان کو نہ صرف خلافت و نیابت کے منصب سے سرفراز کیا بلکہ ایک بڑی حکومت بھی ان کو عطا کی ۔
حکومت ِالٰہی کی تاسیس :
فتح مکہ کا دن دراصل حکومت ِالٰہی کی تاسیس کا پہلا دن تھا جس کے احکام و فرامین کا تکملہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت ہوا ۔ اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس حکومت کی تشکیل کا عمل اس وقت شروع ہوا جب نبی کریمﷺ مکہ سے ۶۲۲ء میں مدینہ تشریف لائے ۔ اس چھوٹی سی اسلامی حکومت کا قصرِ شاہی مسجد نبوی اور تخت ِشاہی منبر یا کھجور کی بوسیدہ چٹائی تھا ۔ یہ حکومت ایک چھوٹے سے شہر پر مشتمل تھی ۔ لیکن جب آپ ﷺ ۸جون ۶۳۲ ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی حکومت دس سال کے قلیل عرصے میں تقریبا ً دس لاکھ مربع میل پر پھیل چکی تھی ۔ پورے عرب اور جنوبی فلسطین پر اسلام کی حکمرانی تھی ۔ مدینہ کی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے بیعت عقیہ کے باعث اسلام کی پذیرائی کے لئے پہلے سے تیار کررکھا تھا ۔ یہاں کے مسلمان نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے منتظر تھے ۔ مدینہ پہنچ کر آپﷺنے سب سے پہلے بکھرے ہوئے معاشرے کی شیرازہ بندی کی ۔ مسجد نبوی کی تعمیر کرکے اس کو دعوتِ اسلامی کا مرکز بنایا ۔ اوس و خزرج کی باہم دشمنی کا حکمتِ عملی سے خاتمہ کیا ۔ مہاجرین و انصار کو یک جاکر کے ان میں مواخات قائم فرمائی اور بھائی چارگی کے ذریعہ اس خوبی سے معاشرے کی تنظیم نو کی کہ پورا معاشرہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوگیا۔ مدینے میں یہودیوں کی بھی کثیر تعداد تھی ۔ یہ انتہائی طاقتور اور مضبوط تھے ۔ آپﷺنے ان سے بھی مراسم استوار کیے اور ان کے ساتھ اپنے بہترین اخلاق و کردارکا مظاہرہ کیا ۔ اس حکمت ِعملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آپﷺنے انتظامی امور محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے مہاجرین و انصار کی رضا مندی اور اتفاق سے ایک تحریری معاہدہ مرتب کیا تو اس میں یہود کوبھی آسانی سے شامل کرلیا گیا ۔یہ معاہدہ دراصل مدینہ کی ایک چھوٹی سی اسلامی حکومت کا دستور اساسی تھا ۔اس کی رو سے سب کواپنے دین پر قائم رہنے کی پوری آزادی تھی ۔ اس طویل معاہدے کا متن حسبِ ذیل ہے۔اسے ہم نے محمد حسین ہیکل کی کتاب حیاتِ محمدﷺ ( ص: ۲۵۰ تا ۲۵۳) مطبوعہ تاج کمپنی دہلی (۱۹۸۸ء) سے اخذ کیا ہے ۔
معاہدہ : بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ معاہدہ ہے جو محمد ﷺ کی نگرانی میں مندرجہ ذیل طبقات و قبائل میں ہوا ۔
مہاجر ( مسلمان قریش مکہ ) اور انصار ( مسلمانانِ یثرب ) اور ان دونوں کے ساتھ جو جو غیر مسلم طبقات و گروہ ملحق ہیں ‘ کے درمیان جس کے شرائط یہ ہیں :
۱۔ مہاجرین و قریش ایک ہی جماعت ہیں ۔
۲۔ مہاجرین جو قریش مکہ میں سے ہیں فوجداری جرائم پر اپنے آدمیوں کی طرف سے (دوسروں کو اور خود آپس میں بھی ) مقررہ دیت یا خون بہا ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔
۳۔ اور اگر ان کے کسی آدمی پر کسی نے ایسا ظلم کیا جو فوجداری میں آسکتا ہے تو وہ ا س کی دیت یا خون بہا وصول کرنے کے مستحق بھی ہوں گے ۔ اور فدیہ یا دیت کی صورت میں قریش اور ان کے مقابل ہر دو کو ادا کردہ رقم یا مال کے عوض میں اپنے آدمی کو قید سے رہا کرانے کا حق ہوگا ۔
۴۔ مدینہ کے رہنے والوں میںبنوعوف کے حقوق کا وہی لحاظ ہوگا جو ان میں پہلے سے رائج ہے ، جس کے مطابق انہیں دیت اور خون بہا لینے اور ادا کرنے کی پابندی کرنا ہوگی۔ اس معاملہ میں کسی فریق کو کسی پر ترجیح یا تفوق نہ ہوگا ۔
۵۔ ادائے دیت اور خون بہا دینے کی صورت میں مسلمان اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کوئی اورراستہ نکالنے کی کوشش نہ کریں گے ۔
۶۔ کوئی مومن دوسرے مومن کے غلام پر قبضہ نہ کرے گا ۔
۷۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ اگر کوئی مسلما ن کسی شخص پر زیادتی کرے تو سب مل کر ایسے شخص کو سزا دیں گے ۔اگرچہ سزا دینے والوں میں سے مجرم کسی کا فرزند ہی کیوں نہ ہو۔
۸۔ مسلمان ایک دوسرے کو کسی کافر کی طرف داری میں قتل نہ کریں گے۔ نہ مسلمان کے خلاف کسی کافر کی نصرت کریں گے ۔
۹۔ یہودیوںمیں سے جو شخص ہمارے معاہدہ کی پابندی کا وعدہ کرے ،ہماری نصرت اور یاوری اس کے لئے بھی ہے۔ اس کے دشمن کے مقابلہ میں ہم اس کے دوش بدوش مقابلہ میں شریک رہیں گے ۔
۱۰۔ مسلمانوں میں سب کا درجہ مساوی ہے۔ اگر جہاد میں ایک مسلمان دشمنوں سے صلح کرے تو یہ صلح تمام مسلمانوں کو منظور ہوگی۔ لیکن کوئی مسلمان عدل و انصاف چھوڑ کر کفار کے ساتھ صلح نہیں کرسکتا ۔
۱۱۔ غیر مسلمین کا جو لشکر ہمارے ساتھ شریک جہاد ہوگا وہ نوبت بہ نوبت مورچہ پر آئے گا ۔
۱۲۔ کافروں سے بدلہ لینے کے لئے مسلمان ایک دوسرے کی اعانت کریں گے ۔
۱۳۔ مشرکین ِمدینہ میں جو لوگ معاہدہ میں شریک ہیں ان میں سے کوئی شخص قریش مکہ میں سے کسی کے مال اور جان کو نہ تو پناہ دے گا اور نہ مسلمانوں کے مقابلہ میں مکہ کے کسی قریشی کی حمایت کرے گا ۔
۱۴۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو اس کے خلاف گواہی حاصل ہونے کے بغیر قتل کردے گا تو اس شخص سے قصاص لیا جائے گا۔ماسوااِس صورت کے کہ مقتول کے وارث قاتل کو معاف کردیں یا دیت لینے پر رضا مند ہوجائیں ۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے سے ہاتھ نہ روکنا چاہئے اور تمام مومن ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔
۱۵۔ تمام مسلمان اس معاہدہ پر متفق ہیں اور وہ اس میں سے کسی دفعہ کا انکار نہیں کرسکتے۔ جس مسلمان نے اس معاہدہ کا اقرار کرلیا وہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ۔
۱۶۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مجرم کو پناہ دے ۔ ایسے شخص پر قیامت کے روز خدا اور اس کے رسول کی لعنت اور غضب ہوگا اور اس کی کوئی نیکی قبول نہ ہوگی اور نہ قیامت کے روز اس شخص سے ایسے گناہ کے عوض میں کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا ۔
۱۷۔ مسلمان اپنے باہمی اختلاف میں خدا اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کے پابند ہیں ۔
۱۸۔ اگر مسلمان جہاد میں اپنا مال خرچ کریں تو یہود کو بھی ان کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنا ہوگا ۔
۱۹۔ قبیلہ بنی عوف کے یہود بھی اس معاہدہ میں شامل ہیں۔ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہوگا۔ لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے ۔
۲۰۔ مسلمان اور یہود دونوں کے غلام اپنے اپنے آقاؤں کے مطابق معاہدہ میں داخل شمار کئے جائیں گے ۔
۲۱۔ ( دفعہ :۹ ۱ کے مطابق ) مندرجہ ذیل یہودی قبائل بھی اس معائدہ میں شامل سمجھے جائیں گے یعنی بنونجار ، بنو حارث ، بنو ساعدہ ، بنو جشم ، بنو اوس ، بنو ثعلبہ ، بنو جفنہ ، بنو شنیبہ۔ اور وہ لوگ بھی جو ان میں سے کسی قبیلہ کے ساتھ منضم ہیں، اس معاہدہ میں شامل سمجھے جائیں گے ۔
۲۲۔ بنو ثعلبہ کے غلام بھی اس معاہدہ میںشریک متصور ہوں گے ۔
۲۳۔ اس معاہدہ میں سے کوئی شخص (جناب) محمدﷺ کی اجازت کے بغیر مستشنٰی قرار نہ دیا جائے گا۔
۲۴۔ ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا ۔
۲۵۔ جو شخص کسی کو فریب سے قتل کرے گا اس کا ذمہ دار اس کا اصل قاتل ہوگا ۔
۲۶۔ لیکن جب کسی مظلوم کے ہاتھ سے قتل ہوجائے تو یہ قتل پہلی صورت ( نمبر :۲۵) سے مختلف ہوگا ( یعنی اس پر مواخذہ کم کردیا جائے گا یا بالکل ساقط ہوگا :م:)
۲۷۔ کسی شخص کو اپنے حلیف کے جرم کی وجہ سے ماخوذ نہ کیا جائے گا۔ لیکن مظلوم کی داد رسی بہر صورت کی جائے گی ۔
۲۸۔ مسلمانوں کی لشکر کشی کی حالت میں یہود کو بھی ان کی مالی اعانت کرنا ہوگی۔ کیونکہ حلیف کے لئے دفعِ مضرت اپنے نفس کی حفاظت کے مطابق کرنا چاہئے جب تک کہ اس کی جانب سے ضرر نہ پہنچے یا اس کے ذمہ کوئی جرم عائد نہ ہو ۔
۲۹۔ حلیف کے مقدمات خود ان ہی کی طرف سے قابل ِسماعت متصور کئے جائیں گے ۔
۳۰۔ اس معاہدہ کے مطابق طبقات و افراد میں سے جس شخص سے خلاف ورزی ہو یا اس سے کوئی خطرہ لاحق ہو تو اسے خدا اور اس کے رسول (محمد)ﷺ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا اور نفس معاہدہ کی حقیقی پابندی اللہ کے سوا کسی پر منکشف نہیں ہوسکتی ۔
۳۱۔ اس معاہدہ کے مطابق نہ تو قریش کو پناہ دی جاسکتی ہے ،نہ ان کے کسی مددگار کو ۔
۳۲۔ اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہوگا ۔
۳۳۔ اگر مدینہ پر حملہ آور لشکر مسلمانوں سے صلح کرنا چاہے تو معاہدہ کے شرکا کو متفق ہوکر دشمن سے صلح کرنا ہوگی ۔
۳۴۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کے سوا دوسرے شرکائے معاہدہ پر حملہ ہو اور وہ لوگ جن کی وجہ سے حملہ ہوا ہے ، دشمن سے صلح کرنا چاہیں تو مسلمان ان کے ساتھ اس معاہدہ کے پابندہوں گے باستثنائے اس معاملہ کے جس میں شرکائے معاہدہ میں سے کسی کے دین پر زد پڑتی ہو ۔
۳۵۔ شرکائے معاہدہ میں ہر شخص کو اسی قدر استحقاق ہوگا جتنا حق اس کی قوم یا اس کے گروہ کے ساتھ طے کیا گیا ہے ۔
۳۶۔ قبیلہ اوس کے یہود اور ان کے غلاموں کو دوسرے معاہدین پر کوئی ترجیح نہ ہوگی ۔ ان سب میں جو شخص پرہیز گاری کے ساتھ معاہدہ پر عمل پیرا ہوگا عند اللہ وہ بہتر ہوگا کہ نیکی اور بدی دونوں کا فرق واضح ہے اور یہ قرار دادِ معاہدہ کسی ظالم اور مجرم کی حمایت نہ کرے گی ۔
۳۷۔ شرکائے معاہدہ میں سے اگر کوئی شخص مدینہ میں اپنی سکونت رکھے یا اس کے باہر بسیرا کرے، ارتکاب جرم کے بغیر اس پر مواخذہ نہ ہوگا ۔
خاتمہ ! اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن و سلامتی ہے اس شخص کے لئے جو نیکی کا طلب گار اور خدا سے ڈرنے والا ہو ! ( فقط)
یہ وہ معاہدہ ہے جو نبی کریمﷺ کی سیاسی بصیرت کو پورے طور سے نمایاںکرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ آپﷺ نے صدیوں پہلے اس انسانی معاشرے کو جو مختلف الخیال تھا ایک ایسا ضابطۂ اخلاق عطا کیا جس کے باعث ہر گروہ اور فرد کو اپنے عقیدے میں آزادی کا حق حاصل ہوا ۔ لوگوں کو ان کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت ملی۔ اس معائدے نے جرائم کے ارتکاب کا انسداد کیا اور اسی کے باعث فتنہ و فساد سے پُر شہر مدینہ یکایک امن وسکون کا گہوارہ بن گیا ۔ نعیم صدیقی نے اپنی مشہور کتاب محسنِ انسانیت میں اس تحریری معاہدے کو نبی اکرم ﷺ کا سیاسی لحاظ سے سب سے بڑا تعمیری اقدام اور دنیا کا پہلا تحریری دستور بتایا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ سیاست چلانے کے لئے اس کے ذریعہ مدینہ کے یہود یوں، مشرکوں اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا گیا ۔ اس دستوری معاہدے سے نبی کریم ﷺکو کیا فائدہ حاصل ہو ا۔ اس کا خلا صہ موصوف نے اس طرح پیش کیا ہے ۔
٭ مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو اساسی حیثیت حاصل ہوگئی ۔
٭ سیاسی ، قانونی اور عدالتی لحاظ سے آخری اختیار ( Authority) محمد ﷺکے ہاتھ آگیا ۔
٭ دفاعی لحاظ سے مدینہ اور اس کے نواح کی پوری آبادی ایک متحدہ طاقت بن گئی اور اس کے کسی عنصر کے لئے قریش کی حمایت کے دروازے بند ہوگئے ۔ نیز دفاعی لحاظ سے بھی مرکزی اور فیصلہ کن اختیار آنحضو ر صلعم کے پاس آگیا ۔
٭ ا س دستوری معاہدے سے باضابطہ طور پر اسلامی ریاست اور اسلامی نظام ِحیات کی تاسیس واقع ہوگئی ۔ ( محسن ِ انسانیت مطبوعہ ۱۹۶۸، ص : ۲۵۸،۲۵۹)
جنگیں :
مدنی دور کے ابتدائی آٹھ سالوں میں اللہ کے دین کی حفاظت کیلئے نبی کریم ﷺ کا اسلام کے دشمنوں سے اکثر مسلح تصادم رہا ۔ اس سلسلے میں کل ۸۱ معرکے پیش آئے جن میں ۲۷ غزوات بھی شامل ہیں ۔ یعنی ان میں نبی کریمﷺبذات ِخود امیر العسکر تھے ۔ دیگر معرکوں کے امیرالجیش اکابر صحابہ تھے ۔ ان معرکوں میں ۲۵۹ مسلمان شہید اور ۷۵۹ غیر مسلم مقتول ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ کی قیادت ، رہنمائی اور نگرانی میں اللہ کے حکم سے یہ تمام جنگیں دین و شریعت کے دائرے میں رہ کر لڑی گئیں ۔ اس کا مقصد بغض و انتقام ، ظلم و تعدی ، قتل و غارت گری ، سیادتِ ارضی ، وسعتِ ممالک ، لوٹ مار ، وحشت و بر بریت اور اظہار ِ شجاعت نہیں تھا بلکہ اس کا مقصدِاعلا فتنہ و فساد اور ظلم و تعدی کا انسداد اور دنیا کے تمام شخصی ادیان پر دین ِالٰہی کو غالب کرنا تھا ۔ مندرجہ ذیل آیات سے یہی حقائق منکشف ہوتے ہیں :
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ(الحج ، آیت: ۳۹، ۴۰) ’’جن ( مومنوں ) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے اب انھیں بھی ( اس کے جواب میں ) جنگ کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے یہ وہ مظلوم ہیں جو بغیر کسی حق کے اپنے گھروں سے نکال دیے گئے ۔ ان کا کوئی جرم نہ تھا ۔ اگر تھا تو صرف یہ کہ وہ کہتے تھے ، ہمارا پر وردگار اللہ ہے ۔‘‘
جب مسلمانوں پر مشرکین کا ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور ان ظالموں نے ہجرت کے بعدانھیں مدینہ میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا تو ان آیات میں اپنے دفاع میں مسلمانوں کو پہلی بار ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی گئی ۔الحج کی طرح الانفال بھی مدنی سورۃ ہے، اس میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے :
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ۰ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ۳۸ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۰ۚ فَاِنِ انْتَہَـوْا فَاِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۳۹ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَوْلٰىكُمْ۰ۭ نِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۴۰( الانفال : آیت ۳۸، ۳۹، ۴۰)’’ (اے پیغمبر)جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ۔ تم ان سے کہدو ، اگر وہ (اب بھی ) باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا معاف کردیا جائے گا ۔ لیکن اگر وہ پھر( ظلم و جنگ کی طرف ) لوٹے تو ( اس بارے میں ) پچھلوں کا طور طریقہ اور اس کا نتیجہ گزر چکا ہے (اور وہی انھیں بھی پیش آکر رہے گا ) اور مسلمانوں اب تمہارے لئے یہی چارۂ کار رہ گیا ہے کہ ) ان سے لڑتے رہو ، یہاں تک کہ ظلم و فساد باقی نہ رہے اور دین کاسارا معاملہ اللہ ہی کے لئے ہوجائے (یعنی دین کا معاملہ خدا اور انسان کا باہمی معاملہ ہوجائے ۔ انسان کا ظلم اس میں مداخلت نہ کرسکے ) پھر اگر ایسا ہوکہ وہ ( جنگ سے ) باز آجائیں تو جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ۔ اور اگر ( صلح و درگزر کی اس آخری دعوت سے بھی ) رو گردانی کریں تو یاد رکھو اللہ تمہارا رفیق و کارساز ہے ( اور جس کا رفیق اللہ ہوتو ) کیا ہی اچھا رفیق ہے اور کیا ہی اچھا مددگار۔‘‘
)جاری)
مشمولہ: شمارہ فروری 2016