قرآن اور تکریم انسانیت

اسلام کے قائم کردہ اصولوں میں انسانی حقوق، شرفِ انسانیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار شامل ہیں۔ انسانیت کی تکریم کا سبب بننے والے عوامل کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور انسانی عزوشرف کے لیے خطرہ بننے والے عوامل کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اسلام کا موقف یہ ہے کہ انسان زمین پر خدا کاخلیفہ (نائب) ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرے گا اور وہ تمام امور میں احکام خداوندی کو مقدم جانے گا۔ منصب نیابت سے متعلق اس کی جانچ پڑتال ہوگی اور قیامت کے روزفیصلہ حق وانصاف کی بنیاد پر ہوگا۔

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ۧ

(بنی اسرائیل:۷۰)

’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں) پر سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نےانہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنادیا۔ ‘‘

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ۝۱ۙوَطُوْرِسِيْنِيْنَ۝۲ۙوَہٰذَاالْبَلَدِ الْاَمِيْنِ۝۳ۙ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ (التین۱تا۴)

’’انجیر اور زیتون کی قسم اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میںپیدا کیا ہے۔ ‘‘

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۝۱ (النساء:۱)

’’لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا یعنی اوّل اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت روائی کا ذریعہ بناتے ہو ،ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہاہے۔ ‘‘

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۝۱۳ (الحجرات:۱۳)

’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والااور سب سے خبردار ہے۔ ‘‘

اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالصّٰۗىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللہَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ۝۰ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۳۵ (الاحزاب:۳۵)

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبرکرنے والے مرد اورصبر کرنے والی عورتیں اورفروتنی کرنے والے مرد اورفروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی عورتیں خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں ، کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم تیار کررکھاہے۔ ‘‘

فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ (آل عمران۱۹۵)

’’پھر ان کے رب نے ان کی دُعا قبول فرمالی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا خواہ مرد یا عورت تم سب ایک دوسرے کی جنس ہو۔ ‘‘

قرآن مجید کی مندرجہ بالاآیات سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں:

(۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔

(۲) اللہ تعالیٰ نے انسان کو صاحبِ عزت بنایا ہے اور بے شمار احسانات اور انعامات سے نواز کر مرتبہ کمال عطا کیا ہے۔

(۳) اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لیے یکساں مرتبے کا تعین کیا ہے جس میں ،نسل، رنگ ، جنس، زبان، اور مال ودولت کاکوئی دخل نہیںہے۔

(۴) اسلامی تعلیمات میں عزت کا معیار تقویٰ یعنی خوف خداوندی اور اعمال صالح کو قرار دیا گیا ہے۔

(۵) انسانوں (مرد ہوں یا عورت) کے نیک اعمال کا بدلہ بھلائی کی صورت میں دیا جائے گا اور کسی کے بھی اعمال صالحہ کو ضائع نہیں کیاجائے گا۔

قانونی اقدامات

انسانی تکریم کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔  انسانی زندگی کا تقدس اسلامی تعلیمات میں سرفہرست ہے:

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ۝۰ۚۛؔ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ (المائدہ۳۲)

’’اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ ‘‘

وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا۝۶۸ۙ (الفرقان:۶۸)

’’اور جس جاندار کو مارنا اللہ نے حرام ٹھہرایا وہ اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق (یعنی شریعت کے حکم) سے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا وہ سخت گناہوں میں مبتلا ہوگا۔ ‘‘

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاہُمْ۝۰ۚ    (الانعام:۱۵۱)

’’اور(ناداری) کےاندیشے سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم رزق دیتے ہیں۔ ‘‘

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۵۱ (الانعام:۱۵۱)

’’اور کسی جان والے کو جس کے قتل کو خدانے حرام کردیاہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر ان باتوں کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ ‘‘

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۝۰ۭ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا۝۳۱ (بنی اسرائیل:۳۱)

’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا کیونکہ ان کو اور تم کو ہم رزق دیتے ہیں کچھ شک نہیں کہ ان کا مارنا بڑا سخت گناہ ہے۔ ‘‘

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۝۳۳ (بنی اسرائیل:۳۳)

’’اور جس جاندار کا مارنا خدانے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پراور جوشخص علم سے قتل کیا جائے تم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے کہ ظالم قاتل سے بدلہ لےیا تو اس کو چاہےتو قتل کے (قصاص) کے یا زیادتی نہ کرے کہ وہ منصوروفتح یاب ہے۔ ‘‘

انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بعد قرآنی احکام میں انسانیت عزت وآبرو کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ ہرفرد کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی عزوشرف کو نقصان نہ پہنچائے۔ عزت وآبرو اور نجی زندگی کے تحفظ کا بنیادی حق اسلام میں تمام انسانوں کو حاصل ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْہُنَّ۝۰ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۝۰ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ۝۰ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۱۱ (الحجرات:۱۱)

’’مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ایمان لانے کے بعد برانام (رکھنا) گناہ اور جوتوبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔ ‘‘

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۝۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲ (الحجرات:۱۲)

’’اے اہلِ ایمان بہت زیادہ گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کاگوشت کھائے اس سے تم ـضرور نفرت کرو گے اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ‘‘

اہل ایمان کو جن امور کی تلقین کی گئی ہے وہ یہ ہیں:

(۱) مسلمان مردوں میں سے کوئی کسی مرد کی تحقیر نہ کرے اور نہ ہی عورتوں میں سے کچھ عورتیں دوسری عورتوں کی تحقیر کریں۔ تمام اہل ایمان ایک دوسرے کا ادب واحترام کریں۔

(۲)اہل ایمان ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کریں جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ستارو العیوب یعنی عیبوں پر پردہ ڈالنے والی ہے اسی طرح تمام مسلمان بھی دوسرے مسلمانوں کے عیوب پر پردہ ڈالیں اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔

(۳) اہل ایمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ناموں کو بگاڑیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بھائیوں کا ادب واحترام کریں اور کسی بھی صورت میں ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھیں۔ کسی کا برانام رکھنا، برائی کی غرض سے نام کو بگاڑنا یہ سب امور گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔

(۴) اہل ایمان کو بدگمانی سے بچنا چاہئے اس لیے کہ یہ انسان کو ہلاکت تک پہنچادیتی ہے مسلمانوں کے مجموعی طرز عمل کی بنیاد حسن ظن اچھا گمان ہوناچاہئے۔

(۵) اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ دوسرے مسلمان کے عیوب کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی ان کی عدم موجودگی میں ان کی برائیوں، کو لوگوں کے سامنے اُجاگر کریں اس لیے کہ غیبت (پیٹھ پیچھے برائی) ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ جس کی مشابہت اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے دی گئی ہے۔

احتساب

کسی کی عزت وآبرواور اس کے وقار کو مجروح کرنا ایک جرم ہے جس کی سزا کا تعین کیاگیا ہے ارشادِ خداوندی ہے:

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۴ۙ (النور:۴)

’’اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چارگواہ نہ لائیں ان کو اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہی لوگ نافرمانی کرنے والے ہیں۔ ‘‘

قرآن مجید میں انسان کی ذاتی زندگی کے تحفظ کو یقینی بنایاگیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۲۷ (النور:۲۷)

’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے کہ شاید تم یاد رکھو۔ ‘‘

قرآنی احکام وتعلیمات میں انسانی معاشروں میں توازن قائم رکھنے کے لیے عدل وانصاف کے بنیادی حق تسلیم کیاگیا ہے۔

وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝۵۸ (النساء۵۸)

’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ ‘‘

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ وَلَا تَكُنْ لِّلْخَاۗىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا۝۱۰۵ۙ (النساء ۱۰۵)

’’(اے رسول) بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے اور آپ بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں۔ ‘‘

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۝۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۳۵ (نساء۱۳۵)

’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑدینا اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہوگے تو جان رکھو تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔ ‘‘

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸ (المائدہ:۸)

’’اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے گھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو اور انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے واقف ہے۔ ‘‘

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۹۰

(النحل:۹۰)

’’بیشک اللہ عدل واحسان کا حکم فرماتاہے اور قرابت داروں کو رُتبے دینے کا اور بے حیائی اور برے کاموں سے اور سرکشی ونافرمانی سے منع فرماتا ہے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔ ‘‘

مذہبی آزادی

قرآنی احکامات وتعلیمات میں انسانیت کے لیے حقیقی آزادی کاپیغام بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسلام ایک فطری دین ہے اور دین کے معاملے میں جبر کو برداشت نہیں کرتا، ارشادِ خداوندی ہے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ (البقرہ:۲۵۶)

’’دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔ ‘‘

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۹۹ (یونس:۹۹)

’’اور اگر تمہارا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرناچاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں۔ ‘‘

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۝۹۲ (المائدہ:۹۲)

’’اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول (خدا) کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اور اگر نہ پھیروگے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کاکھول کر پہنچادینا ہے۔ ‘‘

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكُوْا۝۰ۭ وَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ۝۱۰۷ (الانعام:۱۰۷)

’’اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے اور (اے پیغمبر) ہم نے تم کو ان کا نگہبان مقرر نہیں کیا اور نہ تم ان کے داروغہ ہو۔ ‘‘

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭ لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ۝۲۲ۙ

(الغاشیہ:(۲۱-۲۰)

’’تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہو تم ان پر داروغہ نہیں ہو۔ ‘‘

ملکیت کا حق

قرآنی احکام وتعلیمات میں انسانوں کو ملکیت کابنیادی حق دیاگیا ہے، خداوندی ہے:

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ

لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ (البقرہ:۱۸۸)

’’اور تم ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوتاً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر نہ کھاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو۔ ‘‘

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۝۰ۚۖۛ وَاَحْسِنُوْا۝۰ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۹۵ (البقرہ:۱۹۵)

’’اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ‘‘

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۝۰۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْہِ۝۰ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ۝۲۶۷ (البقرہ:۲۶۸)

’’مومنو! جوپاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمہارے لیے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا بجز اس کے تم آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو اللہ بے پرواہ اور قابل ستائش ہے۔ ‘‘

دورِ حاضر کی مادّی ترقی نے انسانی زندگی کے بعض پہلوؤں پر منفی اثر ڈالا ہے مادّی منافع کے حصول کی خواہش نے انسانی عزوشرف پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور معاشرتی اقدار وروایات کا پیمانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ دورِ حاضر کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے کہ اسلام کی عطا کردہ اخلاقی اقدار و روایات معاشرے میں رواج پاسکیں۔ جو انسانی عزوشرف کو یقینی بناتی ہیں۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223