قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے جوقیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت اوررہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی تعلیمات پر عمل کرکے انسان دنیا میں بھی کامیاب اورسرخ رو ہوسکتا ہے اورآخرت میں بھی ابدی فوز وفلاح سے ہم کنار ہوسکتا ہے ۔ یہ کتاب روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوںکے لیے صراط مستقیم ہے ۔ اس دنیا میں انسان کے سامنے مختلف راہیں کھلی ہیں یہ کتاب وہ سیدھا اورسچا راستہ دکھاتی ہے جس پر چلنے والا کہیں بے راہ روی کا شکار نہیںہوسکتااورجو اسے چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے گا منز ل مقصود تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک تعالیٰ نے اسی بات کی طرف یوں رہنمائی فرمائی ہے۔
قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۱۵ۙ يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۱۶(۱)
(ترجمہ)’’ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اورایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوجواس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اِذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کراجالے کی طرف لاتا ہے اورراہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے‘‘۔
قرآن مجید انسان کی فطرت کوآواز لگاتا ہے اوراسے اپنے فطرتِ سلیمہ پر چلنے کی دعو ت دیتا ہے قرآن پاک اس کو اس کی فطرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہےاوراسے قبول حق کی دعوت دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن پاک کوذکر کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰہُ۰ۭ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ(۲)
(ترجمہ) ’’ اوراب یہ بابرکت ذکر ہم نے تمہارے لیے نازل کیا ہے ۔ پھر کیا تم اس کو قبول کرنے سے انکاری ہو‘‘۔
ذکر کے معنیٰ یاد دہانی کے ہیں اس میں شرق ومنزلت اور عظمت کا تصور ہے اس لیے قرآن نوع انسانی کے لیے باعث شرف ہے وہ اسے عظمت وسر بلندی عطا کرتا ہے انسان جب اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرکے قرآنی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو وہ اشرف المخلوقات کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتا ہے اورجب قرآنی تعلیمات کوچھوڑکر اپنے نفسانی خواہشات کا پیرو بنتا ہے تو وہ دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی کا سامنا از خود کرتا ہے۔
جب ہم قرآنی تعلیمات کا احاطہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام ؑ کی دعوت اور ان کی تعلیمات کا مرکزی نکتۂ عقیدہ توحید ورسالت وآخرت پر مکمل ایمان ہوا کرتا تھا ۔حضرت آدمؑ سے لے کر آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیائے کرام نے اسی مرکزی نکتہ پر اپنی پوری توانائی صرف کردی اوربندگان خدا کو ہزاروں خداؤں کی غلامی سے نکال کر اللہ واحد کی بندگی اوراس کی اطاعت میں لانے کے لئے کوششیں کرتے رہے۔ یہ مرکزی نکتہ دین کی بنیادی اساس ہےاسی سے مومن اورکافر کے درمیان فرق کیا جاتا ہے اوراسی کودل سے تسلیم کرلینے اور زبان سے اقرار کرلینے کا نام اسلام ہے ۔ یہ مرکزی نکتہ کوئی ایسی شئی نہیں ہے کہ اس کو زبردستی ماننے پر مجبور کیا جائے، کسی کے اوپر زبردستی تھوپا جائے ، طاقت اورتلوار کے زور پرکسی سے مطالبہ کیا جائے کہ اس عقیدہ کوتسلیم کرلوبصورت دیگر تمہیں دنیا میں رہنے کا حق نہیں ہے بلکہ یہ خالص د ل کی آمادگی اوراس کودل وجان سے قبول کرلینے اورخوش دلی سے اقرار کرلینے کا نام ہے۔
اسلام کا بنیادی حق
لغت کی رو سے اسلام کے معنیٰ فرما ں برداری کے ہوتے ہیںلیکن گفتگو جب دین کی زبان میں ہورہی ہوتو اس وقت اس لفظ کے معنیٰ اس فرماں برداری کے ہوتے ہیں جواللہ تعالیٰ کے لیے ہواور مسلم وہ ہوتا ہے جواحکامِ اِلٰہی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے اور اللہ کے احکام کی سرتابی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور عقیدۂ توحید کودل سے تسلیم کرلینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پوری طرح اللہ رب العالمین کے حوالے کردے اوراپنے آپ کواس کی بندگی میں لگادے ۔ وہ ٹھیک اس طرح زندگی بسر کرے گا جس طرح ایک وفادار بندہ اپنے مالک کے احکام کے آگے اپنے سرکو جھکا دیتاہے اوراس کی اپنی کوئی مرضی اورخواہش نہیںہوتی ہے ۔ اس کی تمام تر خواہشیں اپنے مالک کے تابع ہوجاتی ہیں وہ وہی سوچتا ہے جواس کا مالک پسند کرتا ہے وہی کرتا ہے جواس کا مالک چاہتا ہے۔ اس کے حرکات و سکنات اپنے مالک کے احکام کے تابع ہوجاتے ہیں ۔ ایک بندۂ مومن جب اپنے آپ کواللہ کے احکام کے تابع ہونے کا اعلان کرتا ہے تو اس کا قدم اسی جانب بڑھتا ہے جس جانب اللہ بڑھنے کا حکم دیتاہے اوراس کا قدم اس جانب بڑھنے سے یکسر رک جاتا ہے جس جانب بڑھنا اللہ کوناپسند ہے ۔ اللہ کا فیصلہ ہی اس کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ وہ دوسرے فیصلوں کونہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس کے سامنے اپنے سر کو جھکاتا ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بندۂ مومن کی صفات کا نقشہ یوں کھینچا ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(۳)
(ترجمہ)’’ کہومیری نماز ، میرےتمام مراسم عبودیت ، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے بندگی کا عہدوپیمان کرلینے کے بعدبندۂ مومن کے اندر کون سی صفات پیدا ہونی چاہئیں اوراس کے اندر کون سی تبدیلیاں رونما ہونی چاہئیں سید جلال الدین انصرعمری نے اپنی مشہور کتاب اسلام کی دعوت میں اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے :
’’ اللہ پر ایمان لانے اور عقیدۂ توحید کواپنی زندگی کا لازمی جزء بنالینے کے بعد آپ کا اپنا کچھ باقی نہیں رہتا ہے بلکہ اللہ رب العالمین کے ساتھ بندگی کا عہد آپ سے آپ کا سب کچھ چھین لیتا ہے ۔ اگرآپ اس عہد میں سچے ہیں توکوئی چیز آپ کی اپنی نہیںرہتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہوجاتی ہے ۔ اس عہد کے بعد آپ کا ذہن وفکر آپ کا نہیں بلکہ اللہ کا ہوگا آپ اسی کی رضا کے لیے سوچیں گے اوراسی کی خوش نودی کے لیے فکر مند ہوںگے ۔ آپ کو اللہ کی یاد کے سوا اور کوئی یاد نہ ستائے گی ۔ آپ کے جذبات اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہوںگے۔ آپ کی خوشی اورغم کا محرک صرف اس کی ذات ہوگی آپ اس کی محبت میں جٹیں گے اوراس کی محبت میںہی جان دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا تو آپ اپنے جانی دشمن کوسینے سے لگانے کے لیے تیارہوجائیںگےاوراگر اس کی مرضی نہ ہوتو اپنی اولاد کوبھی اپنے سے جدا کرنے میںآپ کوتامل نہ ہوگا۔ آپ کے تمام اوقات پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہوگا ۔ آپ ہر اس مصروفیت سے دامن کش ہوںگے جو آپ کواس سے دور کردے ۔ یہی صبح وشام جن کی رنگینیوں میں دوسرے کھوئے ہوئے ہیں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا ذریعہ ہوںگے۔ اس کی خوش نودی آپ کا مطلوب مقصود ہوگی اورآپ کی ہر جدوجہد کے پیچھے صرف یہ جذبہ کام کررہا ہوگا کہ آپ اس سےقریب ہوجائیں۔ آپ جس حال میں بھی ہوںگے سراپا بندگی کی تصویر ہوںگے۔آپ کی روح اس طلب میں بے چین ہوگی کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے آپ کی بہترین تمنا یہ ہوگی کہ کل اللہ کے حضور جب پیشی ہوتو اس کے سچے غلام کی حیثیت سے ہو۔آپ اپنا سب کچھ لٹا چکنے کے بعد کانپتے ہوئے ہونٹوں سے بے تابانہ عرض کریں گے مولا! جو کچھ تھا غلام نے حاضر کردیا ۔ اب توقبول فرما‘‘۔(۴)
اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی میںاس طرح آتا ہے کہ کسی معاملہ میں فیصلہ کا اختیار اللہ کو نہیں دینا چاہتا بلکہ اپنی مرضی اورخواہش کے مطابق یا رسم ورواج سے اورسماجی بندھنوں سے مرعوب ہوکر وہ فیصلہ کرتا ہے اوراسی کے مطابق اپنی شب وروز کوگزارتا ہے تو صحیح معنی میں وہ اللہ کی بندگی اور اس کی عبدیت میں داخل ہی نہیں ہوتا ہے ۔ جب تک انسان اپنی مرضی اورسماجی رسم وررواج اورمختلف بندھنوں سے آزاد نہ ہوجائے اورمکمل طور سے اس سے دست کش ہونے کا اعلان نہ کردے اوراپنے آپ کو اور اپنی ہرچیز کو اللہ کے حوالے نہ کردے وہ اس کا بندہ نہیں ہوسکتا ۔ اللہ تعالیٰ کامطالبہ ہم سے جزوی غلامی کا نہیں بلکہ کلی غلامی کا ہے ۔ قرآن پاک کا اہل ایمان سے مطالبہ ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۲۰۸(۵)
(ترجمہ)’’ اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اورشیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘۔
قرآن پاک کے اس حکم کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے کہ ’’ یعنی کسی استثنا ء اور تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ ۔ تمہارے خیالات ، تمہارے نظریات ، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات اورتمہاری سعی وعمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں ۔ ایسا نہ ہوکہ تم اپنی زندگی کومختلف حصوں میں تقسیم کرکے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کواس کی پیروی سے مستثنیٰ کرلو‘‘۔(۶)
روایتی یا شعوری ایمان
ایمان باللہ انسان کو اللہ کا مخلص اوروفادار بندہ بناتا ہے ۔ وہ اس کے سوا کسی کوخدائی کا مقام دینے یا خدائی میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اوریہ اس وقت ہوتا ہے جب بندۂ مومن پورے شعور کے ساتھ اللہ پر ایمان لانے کا اعلان کرے۔ ایمان ایسی چیز نہیںہے جو محض ماحول کے زیر اثر اختیار کرلی جائے ۔ ایمان ذہن وفکر کے فیصلے کا نام ہے۔ جس کواپنانے کے بعد انسان کی اپنی زندگی بالکل تبدیل ہوجاتی ہے ۔ وہ اپنے پرانے رسم ورواج اور باطل خداؤں کے پندار کوتوڑ کر ایک نئے نظام کا پابند ہوجاتا ہے جوسراسر اس کی زندگی کوتبدیل کردیتا ہے اوراگر ایسا نہیں ہے تو اس کا دل اوراس کی روح اس ایمان سے خالی ہے جس کو شعوری ایمان کہا جاتا ہے جس کے بغیر ایمان کے حقیقی ثمرات حاصل ہی نہیں کئے جاسکتے۔ روایتی ایمان کے ساتھ سماجی زندگی میںہم مسلمان کہلائیںگے۔ مسلمانوں کے رجسٹر میں ہمارے نام کا اندراج ہوگا۔ مردم شماری میں ہمارے نام کے ساتھ مسلم لکھا جائے گا ہمارے ساتھ وہ سارے سلوک روا رکھے جائیں گے جوایک مسلمان کے ساتھ ہورہا ہے لیکن اللہ کے رجسٹرمیں شعوری ایمان کے بغیر اندراج مشکل ہے اورقیامت کے دن اللہ کے دربار میں کامیابی وکامرانی کا تصور محال ہے۔
تعلیماتِ قرآنی
قرآن مجید کی تعلیمات سماج، ملک اورعام انسانوںکے لیے کس قدر مفید اوربابرکت ہیں اور معترضین کا پروپیگنڈہ کتنا غیر منصفانہ اور گمراہ کن ہے اس کا اندازہ قرآنی احکامات کے مطالعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے :
لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ(۷)
(ترجمہ) ’’ زمین میں فساد برپا نہ کرو‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:
وَابْتَغِ فِــيْمَآ اٰتٰىكَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَـمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ(۸)
(ترجمہ)’’ جومال اللہ نےتجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کراوردنیامیں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اورزمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کوپسند نہیں کرتا‘‘۔
ایک اور مقام پر وقت کے رسول سے کہلوایاجارہا ہے :
وَيٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ(۹)
(ترجمہ)’’ اور اے برادران قوم ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اورتولو اور لوگوں کوان کی چیزوں میںگھاٹا نہ دیا کرو اورزمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
قرآن میںایک جگہ اللہ کا فرمان اس طرح ہے:
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۰ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ(۱۰)
(ترجمہ)’’ وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جوزمین میںاپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اورانجام کی بھلائی متعین ہی کے لیے ہے ‘‘۔
قرآن پاک میں دشمنوں تک سے عدل وانصاف کرنے کا حکم موجود ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۱)
(ترجمہ)’’اے لوگو! جوایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستے پر قائم رہنے والے اورانصاف کی گواہی دینے والےبنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ ۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتےرہو ۔ جوکچھ تم کرتے ہواللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے‘‘۔
ایک جگہ قرآن پاک نے ہدایت دی کہ:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ(۱۲)
(ترجمہ) ’’اوراے نبیؐ ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔تم بدی کواس نیکی سے دفع کرو جوبہترین ہو۔ تو دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
بھلے کاموں میں غیر مسلموں کے ساتھ تعاون کرنے کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۰ۘ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ(۱۳)
(ترجمہ)’’ اوردیکھو ایک گروہ نے جوتمہارے لیے مسجد حرام کاراستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں ، جوکام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کیا کرو اور جوگناہ اورزیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے ‘‘۔
انسانی جان کا تحفظ
قرآن مجید میں اللہ نے یہ قیمتی اوردائمی اصول بھی لوگوں کودیا ہے :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا(۱۴)
(ترجمہ)’’ جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کوقتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کوزندگی بخش دی‘‘۔
قرآن کریم نے اس آیت کریمہ کے ذریعہ یہ اصول مقرر کردیا ہے کہ کسی بھی انسان کو(بلا لحاظ ملت ومذہب) ناحق موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے ۔ قاتل کو موت کی سزا دی جاسکتی ہے اور اس شخص کو موت کی سزا دی جاسکتی ہے جومعاشرہ اور ملک کا امن ومان تباہ کرنے پر تلا ہوا ہو اوراس نے زمین میں فساد برپا کررکھا ہو۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ کے ذریعہ مزید یہ صراحت کردی کہ ایک شخص کا ناحق قتل ایک شخص کا قتل نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسانی کے قتل کے مترادف ہے اوراسی طرح ایک شخص کی جان بچانا پوری بنی نوع انسانی کی جان کی حفاظت کرنا ہے ۔ کتنی اعلیٰ اور مبارک ہے یہ تعلیم کہ اس پرپوری انسانیت کوقرآن مجید کا مرہون منت ہونا چاہئیے چہ جائیکہ وہ قرآن کریم کو ہی ہدف ملامت بنارہے ہیں اور اس پر زور زبردستی اور قتل وغارت گری کا الزام لگارہے ہیں۔
قرآن کریم کی تعلیمات کا مطالعہ ہم کوبتاتا ہے کہ وہ ہر شحص کو اپنا مذہب ماننے اور اپنے عقیدۂ پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دیتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیںہے کہ قرآن مجید بجا طور پر چاہتا ہے کہ ایک خدا کے سوا کسی اور کو خدا نہ تسلیم کیا جائے اور صرف اسے ہی خالق، مالک ، پروردگار ، قادر مطلق ، رز اق، موت وحیات کا مالک، حاکم حقیقی ، مرجع محبت، حقیقی مطاع، عالم الغیب، حاجت روا،مشکل کشا اورقیامت کے دن انسانوں کا حساب کتاب لینے والا اور سبھی کے ساتھ عدل کرنے والا تسلیم کیا جائے۔ اس کا بت نہ بنایا جائے اس کے علاوہ کسی اورکے سامنے اپنے سر نیاز کونہ جھکایا جائے لیکن قرآن اپنی اس جائز اورمعقول بات کو بھی زور زبردستی اورطاقت سے نہیں منواتا بلکہ اس کے لیے وہ دلائل دیتا، نصیحت کرتا اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن پاک کی تعلیم ہر گز یہ نہیںہے کہ جواللہ کومعبود حقیقی نہ مانے اور اس کےسامنے اپنے سر کو نہ جھکائے اس کے احکامات کی پابندی نہ کرے تومحض اس بنا پر اس سے جنگ کی جائے اوراسے موت کے گھاٹ اتاردیا جائے ۔ یہ ایک کھلا بہتان ہے جوقرآن اوراسلام پر لگایا گیا ۔
مذہبی آزادی
قرآن پاک نے تو جگہ جگہ اس حقیقت کوبیان کیا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو فکروعمل کی آزادی د ے کر آزمائش کے لیےبھیجا گیا ہے اورزور زبردستی سے کسی عقیدہ کا پابند نہیں بنایا گیا ہے ۔ اس دنیا میں وہ جوبھی رویہ اختیار کرے گا موت کےبعد آنے والی آخرت کی زندگی میںاس کے مطابق انعام یا سزا پائے گا ۔ طاقت یا تلوار کے ذریعہ کسی کواپنا عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی تعلیم اگر قرآن دیتا، تو پھر اس صورت میں آزمائش کا وہ مقصد ہی فوت ہوجاتا جس کا ذکر قرآن میں بار بار کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُہَيْمِنًا عَلَيْہِ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۰ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ(۱۵)
(ترجمہ)’’ پھر اے نبیؐ، ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اورالکتاب میں سے جوکچھ اس کے آگے موجودہے اس کی تصدیق کرنے والی اوراس کی محافظ ونگہبان ہے لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوںکے معاملات کا فیصلہ کرو اور جوحق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اورایک راہ عمل مقرر کی ۔ اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کوایک امت بھی بناسکتا تھا لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جوکچھ اس نے تم لوگوںکودیا ہے اس میںتمہاری آزمائش کرے ۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔آخر کار تم سب کوخدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے ، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو‘‘۔
ایک دوسرے مقام پر قرآن کا فرمان ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۶ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۱۶)
(ترجمہ)’’ اچھا تو اے نبیؐ شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینےوالے ہواگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ۔و اقعہ یہ ہے کہ یہ جوکچھ بھی سروسامان زمین پر ہے اس کوہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تا کہ ان لوگوں کوآزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے ‘‘۔
ایک اور مقام پرقرآن کا اعلان ہے:
تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۰ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ(۱۷)
(ترجمہ)’’ نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی ) سلطنت ہے اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اورزندگی کوایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کوآزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔
جبر و اکراہ کی نفی
اسی طرح قرآن پاک کی متعدد آیات کے ذریعے سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ انسان کواس دنیا میں فکروعمل کی آزادی دے کر اس کی آزمائش ہورہی ہے ۔ ان تعلیمات کے ہوتے ہوئے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ کسی کوتلوار یا طاقت کے زور پر ایک ہی عقیدہ ماننے پر مجبور کرنے کی تعلیم قرآن دیتا ہے ۔ قرآن پاک میں جن لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ان کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے دیا گیاہے کہ وہ اسلام کی اشاعت وتبلیغ میں روک لگانے کی کوشش کرتے تھے۔ اہل اسلام پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑتے تھے۔ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کےاوپر ایمان لانے والے صحابۂ کرام پر بڑھ چڑھ کر حملے کرتے تھے ۔ اہلِ ایمان کوختم کرنے اوراسلام کے چراغ کوبجھانے کی کوشش کرتے تھے ۔ مسلمانوں کواسلام پر عمل کرنے اوران کوفکروعمل کی آزادی سے روکتے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد اور خاص طور سے فتح مکہ سے پہلے کے حالا ت واقعات ان حالات کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
قرآن کریم دین حق کوقبول کرنے اس کواپنی زندگی کے لیے بنیادی اور مرکزی نکتہ بنانے کے سلسلے میں ایک بنیادی اصول کلیہ کے طور پر اعلان کرتا ہے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ(۱۸)
(ترجمہ)’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیںہے‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ(۱۹)
(ترجمہ)’’ صاف کہہ دوکہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی چاہے مان لے اورجس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔
ایک اور موقع پر قرآن کا اعلان ہے :
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۶ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكُوْا۰ۭ وَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۰ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ۱۰۷ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۭ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ۰۠ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(۲۰)
(ترجمہ)’’ اے نبیؐ، اس وحی کی پیروی کیے جاؤ جوتم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیوںکہ اس ایک رب کے سوا کوئی اورخدا نہیں ہے اور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو۔ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خودایسا بندوبست کرسکتا تھاکہ ) یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کوہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔ (اوراے مسلمانوں) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کوپکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ شرک سے آگےبڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ ہم نے تواسی طرح ہرگروہ کے لیے اس کے عمل کوخوش نما بنادیا ہے پھر انہیں اپنے رب کی طرف پلٹ کر آنا ہے اس وقت وہ انہیں بتادے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا آیات کریمہ سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اللہ کے پیغام کوبندگانِ خدا تک پہنچا دینا تھا ۔ حق کا اظہار اورباطل کا کھلے عام ابطال کرنا تھا۔ حق کوقبول کرنا یا اس کا انکار کردینا بندگانِ خدا کا حق تھا ۔ ان پر کوئی زور زبردستی نہیں کرسکتا تھا یہاںتک کہ وقت کا نبی بھی کسی کو حق قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا تھا ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھاہےکہ :
’’ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں داعی اورمبلغ بنایا گیا ہے ۔ کوتوال نہیںبنایا گیا ہے ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کردو اوراظہار حق کا حق ادا کرنے میںکوئی کسراُٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کوقبول نہیںکرتا تو نہ کرے۔ تم کواس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کوحق پرست بنا کر ہی رہواور نہ تمہاری ذمہ داری وجواب دہی میںیہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقۂ نبوت میںکوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کوکس طرح بینا بنایا جائے اورجوآنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے ۔ اگر فی الواقع حکمت اِلٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے ملنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کوحق پرست نہ بنا سکتا تھا ؟ مگر وہاں تو مقصود سرے سے یہ ہے ہی نہیں ۔ مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اورباطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اورپھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کرکے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کوانتخاب کرتا ہے ۔ پس تمہارے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ جوروشنی تمہیں دکھادی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کواس کی دعوت دیتے رہو۔ جولوگ اس دعوت کوقبول کرلیں انہیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں اور جواسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجام بد کی طرف وہ خود جاناچاہتے ہیں اور جانے پر مُصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انہیں چھوڑدو‘‘۔(۲۱)
دعوت کا فریضہ
رسول حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی حیثیت مبلغ اورداعی کی ہے آپ کسی کو زبردستی نہ تو اسلام کےدائرے میں داخل کرسکتے ہیں اورنہ کسی سے مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کے ذریعےپیش کردہ عقیدۂ توحیدکوتسلیم کرے۔ قرآن پاک میں ایک مقام پر آپؐ کو خطاب کرکے کہا گیا :
فَذَكِّرْ۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۲۱ۭ لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ(۲۲)
(ترجمہ)’’اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیںہو‘‘۔
قرآن میںایک اورمقام پر اللہ کا حکم موجودہے:
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا(۲۳)
(ترجمہ)’’ ہم نے اسے راستہ دکھادیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘۔
قرآن پاک کی اخیر سورتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوخطاب کرکے کہا گیا :
قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۳ۚ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۴ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۵ۭ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۶ (۲۴)
(ترجمہ)’’کہہ دو کہ اے کافر و میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔ نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہوجس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اورمیرے لیے میرا دین ‘‘۔
قرآن پاک کی یہ سورہ مکی ہے اس وقت نازل ہوئی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوایک خدا کی بندگی کی طرف بلا بلا کر تھک گئے تھے اور بعضـ لوگوں نے اپنی ہٹ دھرمی اورعناد کی وجہ سے تسلیم کرکے نہیںدیا اوراب ان سے کوئی امید بھی باقی نہ رہی کہ وہ ایک خدا کی بندگی کے لیے آمادہ ہوں گے۔ ان حالات میں پیغمبر سے اعلان کروایا گیا اورانکار کرنے والوں سے کہہ دیا گیا کہ اگرتم اپنی روش پر قائم رہنا چاہتے ہو تو قائم رہو۔ بالآخر سب کو خد ا کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔
مندرجہ بالا قرآنی تعلیمات انسان کی مذہبی آزادی کا کھلا اعلان ہیں۔ جودین اور جوکتاب یہ اعلان کرتی ہواس کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ جواس پر ایمان نہ لائے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے کتنا بڑا ظلم اورنا انصافی ہے۔ قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کے بارے میں غلط اورگمراہ کن پروپیگنڈا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآنی تعلیمات میں اس قدر کشش ہے کہ غلط کار لوگ اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔
تعلیقات وحواشی
(ا) القرآن الکریم ، سورۃ المائدہ: ۱۵۔۱۶
(۲) القرآن الکریم ،سورۃ الانبیاء:۵۰
(۳)القرآن الکریم ،سورۃ الانعام:۱۶۲
(۴) سید جلال الدین انصر عمری، اسلام کی دعوت ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ،فروری ۲۰۰۷ء ، ص ۱۶۸
(۵)القرآن الکریم ، سورۃ البقرۃ:۲۰۸
(۶) سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، تفہیم القرآن ، جلد اوّل، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ۱۹۸۵، ص ۱۶۰
(۷) القرآن الکریم ،سورۃ البقرۃ:۱۱
(۸) القرآن الکریم ،سورۃ القصص :۷۷
(۹)القرآن الکریم ، سورۃ ہود، ۸۵
(۱۰) القرآن الکریم ،سورۃ القصص: ۸۳
(۱۱) القرآن الکریم ، سو رۃ المائدہ:۸
(۱۲) القرآن الکریم ،سورہ حم السجدہ:۳۴
(۱۳) القرآن الکریم ، سورۃ المائدہ: ۲
(۱۴) القرآن الکریم ، سورۃ المائدہ:۳۲
(۱۵) القرآن الکریم ، سورۃ المائدہ : ۴۸
(۱۶) القرآن الکریم ، سورۃ الکہف :۶۔۷
(۱۷) القرآن الکریم ، سورۃ الملک :۱۔۲
(۱۸) القرآن الکریم ، سورۃ البقرۃ : ۲۵۶اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہاں دین سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے اور وہ پورا نظام زندگی ہے جواس عقیدے پر بنتا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا یہ اعتقادی اوراخلاقی وعملی نظام کسی پر زبردستی نہیں تھونسا جاسکتا ۔ یہ ایسی چیزہی نہیں ہے جوکسی کے سرجبراً منڈھی جاسکے۔ (سید مودودی، تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، حوالہ بالا ، ص ۱۹۶)
(۱۹) القرآن الکریم ، سورۃ الکہف :۲۹
(۲۰) القرآن الکریم ،سورۃ الانعام: ۱۰۶۔۱۰۸
(۲۱) سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، تفہیم القرآن ، جلد اوّل، حوالہ بالا ، ص ۵۷۰
(۲۲) القرآن الکریم ،سورۃ الغاشیہ: ۲۱۔۲۲
(۲۳) القرآن الکریم ، سورۃ الدھر :۳
(۲۴)القرآن الکریم ، سورۃ الکافرون: ۱۔۶
مشمولہ: شمارہ جولائی 2018