قرآن اور علم نافع

قرآن تمام معاملات میں دین کی رہنمائی کوضروری قرار دیتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے قرآن دنیا و آخرت دونوں کے معاملات میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے، وہ کہتا ہے ’’وَھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَائِ اِلٰہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ‘‘ ۱؎  ’’اور وہ اللہ وہی ہے جو آسمان کا معبودہے اور زمین کا بھی معبود ہے‘‘۔

قرآن پاک علم کو نافع اور غیر نافع کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ ہر وہ علم جو دنیا و آخرت کے لحاظ سے مفید ہو اس کو حاصل کرنا انسان کی سعادت ، ترقی اور نجات کا ذریعہ ہے اور جو علم دنیا و آخرت کے لحاظ سے غیر مفید ہو اس کو ترک کرنا بہتر ہے۔ کیوں کہ جو علم نفع بخش نہ ہو اس میں وقت لگانا اپنی عزیز عمر کو برباد کرنا ہے۔ قرآن کی نظر میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو انسانوں کے لیے مفید نہیں بلکہ مضر ہیں۔ مثلاً جادو، کہانت اور سفلی علوم۔ قرآن نے یہودیوں کے ایک طبقہ کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ وہ ایسے ہی نقصان دہ علوم کو حاصل کرکے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرتے تھے، وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ ۲؎  وہ لوگ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہے، نفع بخش نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  ان مثل علم لا ینفع کمثل کنز لا ینفق فی سبیل اﷲ ۳؎  جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانہ کی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے۔

جس طرح مال ضرورت کے وقت خرچ کرنے کے لیے اور حاجت پوری کرنے کے لیے ہوتا ہے اسی طرح علم جہالت دور کرنے، روشنی پھیلانے اور منفعت عطا کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر علم نفع بخش نہ ہو تو انسانوں کو اس کی کیا حاجت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے جو نفع بخش نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللّٰھم انی اعوذبک من قلب لا یخشع ومن دعاء لا یسمع ومن نفس لا تشبع ومن علم لا ینفع۴؎’’اے اللہ میں ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں خشیت نہ ہو اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے حضور قابل قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے پناہ مانگتا ہوں جو آسودہ نہ ہو، اور ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

ما اکثر العلم وما اوسعہ من ذالذی یقدر أن یجمعہ

ان کنت لا بد لہ طالبا    محاولاً فالتمس انفعہ  ۵؎

علم کی کتنی کثرت اور وسعت ہے، کون ہے جو سارے علوم کو جمع کرلے۔ اگر تم علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو زیادہ نفع بخش علم حاصل کرو۔

قرآن پاک میں یہود کی ایک عبرت ناک مثال دی گئی ہے، ارشاد ہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَاراً۳؎

’’جو لوگ تورا ت کے حامل ہوئے پھر اس سے نفع نہیں اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی ہے جو اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھاتا ہے‘‘۔

مثال کا حاصل یہ ہے کہ علم کا مقصد دل و دماغ کو منور کرنا اور اخلاق و کردار کو سنوارنا ہے، اگر یہ حاصل نہ ہوا تو کتابوں کا بوجھ اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسے گدھا اپنی پیٹھ پر لدی ہوئی کتابوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا، کتنی ہی کتابیں اس پر لادو اس کی خر دماغی نہیں جاتی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

علم کا حاصل

جس علم سے انسان میں صحیح اور غلط کی تمیز پیدا نہ ہو، دل و دماغ روشن نہ ہو، اعمال قبیح کو چھوڑنے اور اعمال صالح کو قبول کرنے پر انسان مائل نہ ہو، حلال و حرام کی پہچان حاصل نہ ہو، غریبوں،ناداروں اور قرابت داروں کے حقوق سے واقفیت پیدا نہ ہو، مظلوموں، بے کسوں اور درمندوں کی آہ و بکا سے سروکار نہ ہو، عفت و پاکدامنی اور اخلاق و کردار سے آراستہ نہ ہو، تو اس علم سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، انسانی کمالات حاصل نہیں ہوسکتے، ایسے علم سے انسان کو کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعضا و جوارح اور عقل و خرد اس لیے عطا کیے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے، علم حاصل کرے اور زمین پر ذمہ دار اور باشعور مخلوق بن کر زندگی گذارے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاللّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ۷؎

اور اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے بطن سے نکالا، تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ا ور اس نے تم کو کان آنکھیں اور دل عطا کیے تاکہ تم شکر گزار بنو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے علم نافع عطا کرنے کی دعا مانگی ہے:   اللّٰہم انفعنی بما علمتنی و علمنی ما ینفعنی ۸؎  اے اللہ جو علم تو نے مجھے عطا کیا ہے اس کو نفع بخش بنا اور مجھے وہ علم عطا کر جو میرے لیے نفع بخش ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بڑی جامع اور معنی خیز دعا ہے۔ اس دعا کی حکمت یہ ہے کہ دنیا میں وہی چیز باقی رہتی ہے جو نفع بخش ہو اور جو چیز نفع بخش نہیں ہوتی وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ یعنی بقا کا راز مفید ہونا ہے اور غیر نفع بخش ہونے کا انجام ضائع ہونا ہے۔قرآن پاک میں ایک خوبصورت مثال کے ذریعہ نفع رسانی کے نکتہ کو سمجھایا گیا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء  مَاءً  فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَاء  حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاء  وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَالَ ۹؎

’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا، پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسان کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے، اسی طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘۔

بقاءِ انفع

اس دنیا میں بقاء انفع کااصول رائج ہے، جو چیز نفع بخش ہے وہ تو باقی رہتی ہے اور جو نافع نہیں ہے وہ اپنی جگہ خالی کردیتی ہے، جس طرح موتی سمندر میں باقی رہ جاتا ہے اور جھاگ ضائع ہوجاتا ہے اسی طرح انسانی معاشرہ میں نافع چیز اپنے بقا کا سامان رکھتی ہے اور غیر نافع چیز اپنے وجود کا جواز کھودیتی ہے۔ بیکار چیز کی حفاظت کوئی نہیںکرتا۔ کار آمد چیز کی ہرشخص حفاظت کرتا ہے۔

یہ اصول ہر شعبۂ حیات میں جاری ہے، علم کے ساتھ انسان کے اعمال اور اخلاق سب کچھ اس میں شامل ہیں۔نفع بخش شئی کی حفاظت قدرت خود کرتی ہے، جبکہ غیر نفع بخش چیزوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ اسی لیے غیر نفع بخش چیزوں کا وجود وقتی اور عارضی ہوتا ہے اور نفع بخش چیزوں کا وجود پائدار اور دائمی ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہوتی ہے کہ جبرئیل امین جب پہلی مرتبہ اللہ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غارِ حرا میں تشریف لائے اور آپؐ کو قرآن کی ابتدائی آیات پڑھائیں تو آپ کے اوپر خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ آپ واپس گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ الکبر یٰ  ؓسے فرمایا کہ مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا :

کلا واﷲ ما یخزیک اللہ ابداً انک لتصل الرحم وتحمل الکل، وتکسب المعدوم ، و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق ۱۰؎

’’ہرگزنہیں! اللہ آپ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور آپ لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیںاور مصیبت کے دن میں لوگوں کے کام آتے ہیں‘‘۔

یعنی جو شخص انسانی معاشرہ کے لیے اتنا مفید اور نفع بخش ہو اللہ اس کو ضائع نہیں کرے گا، ایسے شخص کو ضائع کرنے کا مطلب انسانی آبادی کو ضائع کرنا ہے، مہربان پروردگار ایسا نہیں کرسکتا کہ جس کو اپنی محبت اور رحمت سے آباد کیا ہے اسے برباد کردے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے  سماج کے لیے آپؐ کی مفید خدمات کا حوالہ دیا اور آپ کی افادیت کو آپ کی بقا کی ضمانت قرار دیا۔ جس معاشرہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے خدمت کرنے والے اور نفع پہنچانے والے لوگ موجود ہوں اس میں اللہ کی رحمت آتی ہے اور ایسے لوگ معاشرہ کا حوالہ اور خلاصہ ہوتے ہیں، ان کا وجود معاشرہ کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے۔

حکمت شریعت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان کی لائی ہوئی شریعت اور عطا کی ہوئی ہدایت بھی نفع بخش ہے، رسول پاکؐ نے اس کی مثال بارانِ رحمت سے دی ہے، چنانچہ بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ رسول کریم ؐ نے فرمایا ’’ اللہ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی ہے جوزمین کو سیراب کرتی ہے۔ ایک زمین  اچھی ہے جو پانی قبول کرتی ہے اور خوب سبزہ اور ترکاریاں اُگاتی ہے۔ دوسری زمین اجادب یعنی پستی ہے جو پانی کو جمع کرلیتی ہے، اس سے اللہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، لوگ خود سیراب ہوتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، زراعت کرتے ہیں۔ تیسری زمین قیعان یعنی سنگلاخ ہے، نہ تو پانی کو روک پاتی ہے اور نہ گھاس اُگاتی ہے۔ یہ مثال ہے اس کی جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور میرے لائے ہوئے علم سے فائدہ  اٹھایا، خود علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم دی اور اس کی مثال ہے جو اس کی طرف متوجہ نہ ہو اور اللہ نے میرے ذریعہ جو ہدایت بھیجی ہے اسے قبول نہ کیا۔‘‘  ۱۱؎

علم نافع انسان کی دنیاوی زندگی میں بھی باقی رہتا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ انسان خود تو مر جاتا ہے مگر اس کا فیض جاری رہتا ہے۔ دوسرے لوگ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔ چنانچہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’

’اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلٰثۃ: الا من صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ۱۲؎

’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے، سوائے تین عمل کے ایسا علم جس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے یا ایسی نیک صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرتی رہے‘‘۔

علم نافع کی وسعت

علم نافع دونوں طرح کے ہیں، ایک وہ علم جو آخرت کے لحاظ سے نفع بخش ہو، نجات کا ذریعہ بنے اور اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کا راستہ دکھائے، ہدایت اور سعادت کی منزل آسان کرے۔ یہ علم وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور انبیاء علیہم السلام اس کے حامل ہوتے ہیں۔ قرآن کریم اس کا آخری سرچشمہ ہے۔

دوسرا علم نافع وہ ہے جو دنیا میں زندگی گزارنے کے کام آتا ہے اور انسانی زندگی کی تعمیر و ترقی سے تعلق رکھتا ہے، یہ علم بالسعی ہے جو انسان کو مشاہدہ، تجربہ اور کوششوں سے حاصل ہوتا ہے، یہ انسانی تلاش و تحقیق کی پیداوار ہے۔دینی علوم کی افادیت دائمی ہے جبکہ عصری علوم کی افادیت زمانہ اور ملکی ضرورت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔

علم ریاضی، علم کیمیا، ارضیات، حیوانیات، طبیعیات، سماجیات، صحت، نفسیات، بحریات، فلکیات، شماریات اور اپلائیڈ سائنس و ٹکنالوجی سب مفید علوم کا حصہ ہیں اور انسانی کوششوں سے حاصل ہوتے ہیں، انسانی تمدن اور کائنات کی ترقی ان علوم سے وابستہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشافرمایا ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفاً أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُودٌ ، وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء  إِنَّ اللَّہَ عَزِیْزٌ غَفُور۱۳؎

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھرہم نے اس سے رنگ برنگے پھل نکالے اورپہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں، سفید اور سرخ رنگ کی، ان کے رنگ طرح طرح کے ہیں اور کالے بھجنگ ہیں اور آدمیوں اورکیڑوں میں اور حیوانات میں بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں، بے شک اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں وہ ہیں جو علماء ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے‘‘۔

مذکورہ آیت میں جن مضامین کا تذکرہ ہے وہ آج کے تعلیمی ماحول میں دنیاوی علوم سمجھے جاتے ہیں، یہاں تذکرہ ہے موسم کا، پھل پھول اور ان کے رنگ کا، پہاڑ اور ان کے اقسام کا، حشرات الارض اور حیوانات کا، انسان اور اس کے رنگ و روپ کا، یہ سب موسمیات، ارضیات، زراعت، حیوانات اور عمرانیات کے علوم ہیں۔

ان علوم سے جو لوگ اللہ کی معرفت اور خشیت حاصل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے ’’علماء‘‘کے لقب سے نوازا ہے، کیوں کہ یہ سب علوم انسانی تمدن کو آگے بڑھاتے ہیں اور خالق کائنات کی معرفت کا حوالہ ہیں۔ ان علوم کی افادیت کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ ان علوم کو حاصل کرنے میں دنیا اور آخرت کی سعادت پوشیدہ ہے۔ ڈاکٹرمحمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کو کچھ تو بنیادی تعلیم دی جائے جو لازمی ہو اور دیگر علوم کے بارے میں بھی اس کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوں، جو کسی بھی وقت اس کے کام آسکتی ہیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ قرآن مجید کو پڑھو، کیوں کہ اس میں تقریباً تمام علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔‘‘۱۴؎

انبیاء کا اُسوہ

ان مفید علوم میں زمانہ کے گزرنے کے ساتھ اور انسانی دریافت کے آگے بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے، انبیاء علیہم السلام کو ان کے عہد کی انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی علم سے نوازا گیا، مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کو جہاز رانی کے لیے موسیٰ  ؑکو جادوگری کا مقابلہ کرنے کے لیے، حضرت عیسیٰ  ؑکو بیماروں کو شفایاب کرنے کے لیے، حضرت دائود ؑ کو آلات حرب و ضرب بنانے کے لیے، حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی زبان سمجھنے کے لیے خصوصی علم سے نوازا گیا۔

حضرت یوسف ؑ جلیل القدر نبی تھے، ان کو آخرت کے علم کے علاوہ انسانوں کی مادی نفع رسانی کا بھی علم دیا گیا، انھوں نے ایمانداری وفاداری اور عفت و پاک دامنی کی پاداش میں ظلم و ستم کا سا منا کیا اور طویل عرصہ تک قید و بند کی مشقت برداشت کی۔

ایک مرتبہ مصر کے بادشاہ نے حیران کن خواب دیکھا اور اس کی تعبیر وزیروں، مشیروں اور دانشوروں سے پوچھی مگر کوئی نہ بتا سکا۔ جیل کے اندر سے حضرت یوسف ؑ نے اس خواب کی تعبیر بتائی، بادشاہ نے خواب کی برمحل تعبیر سن کر حضرت یوسف ؑ کو اپنا محرم راز اور ندیم خاص بنالیا۔ اس تعبیرکے مطابق سات سال کے بعد ملک مصر میں طویل قحط سالی آئی تو حضرت یوسف ؑ نے ملکی خزانہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے علم و امانت سے پورے ملک میں رسد رسانی اور غلہ کی فراہمی کا نظم کیا، جس سے سات سالوں تک خوفناک قحط اور خشک سالی کا اثر کم ہوگیا، مصیبت کے مارے ہوئے انسانوں کو زندگی مل گئی اور وہ موت کا لقمہ بننے سے بچ گئے۔۱۵؎

حضرت یوسف ؑ خود قید و بند کے ستم رسیدہ تھے اور  اپنے کرم فرمائوں سے زخم کھائے ہوئے تھے، مگر انسانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھا تو اپنا غم بھلا دیا اور اپنے علم سے لوگوں کو راحت رسانی کا کام کیا، اپنے وجود اور اپنے علم کو لوگوں کے لیے سراپا رحمت بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کو خواب کی تعبیر کے ساتھ، کھانے پینے کی اشیاء کو طویل عرصہ تک محفوظ رکھنے یعنیFood Preservationکا علم عطا کیا تھا۔ آپ ؑ نے ان علوم کے ذریعہ ملک کو بربادی اور ہلاکت سے بچا لیا۔یہ علم نافع کی بہترین مثال ہے۔درس گاہ نبوت کی یہ تعلیم انسانوں کو روشنی بخشتی ہے کہ وہ ان علوم کو حاصل کریں جن سے انسانوں کی مشکلات دور کی جاسکتی ہیں اور ان کو زندگی، صحت اور راحت عطا کی جاسکتی ہے، نیز اپنی صلاحیت اور لیاقت کو لوگوں کی نفع رسانی کے کام میں لگائیں۔

علم کے اثرات

علم نافع کے ساتھ عمل نافع کی بھی قرآن کی نظر میں یکساں ضرورت ہے۔ دوسرے انسان کی خدمت کرنا، ان کے دکھ درد میں کام آنا، ان کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی بیماری و آزاری سے شفاپانے میں مدد کرنا انسان کا مشن ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے:

وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً ، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء  وَلَا شُکُوراً، إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا یَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِیْراً۱۶؎

’’وہ لوگ اس کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اورزبان حال سے کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں، تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے، ہم تو اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو نہایت سخت اور اداسی کا ہوگا‘‘۔

آخرت کی سختی اور مصیبت سے بچنے کا راستہ انسانوں کی مدد اور نفع رسانی ہے، جو لوگ بندوں کی نفع رسانی کا اہتمام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی نفع رسانی کا انتظام کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلیفعل‘‘ ۱۷؎

’’جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ ضرور نفع پہنچائے‘‘۔

انبیاء علیہم السلام خاص طور پر نبی آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام کی زندگیاں دوسرے کے لیے نفع رساں تھیں۔ آج بھی بڑے بڑے مدارس، یتیم خانے، شفا خانے اور اوقاف کے ادارے مسلمانوں کی نفع رسانی کے عمل سے قائم ہیں۔ماضی قریب میں کویت کے ایک تاجر شیخ عبداللہ علی المطوع نے اپنی وفات سے پہلے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ فلسطین اور چیچنیا کے یتیموں اور بیوائوں کے لیے وقف کردیا، وہ پوری زندگی خیرات کرتے رہے اور اموال صدقات سے دنیا بھر کے اداروں اور تنظیموں کی مدد کرتے رہے۔

دعوتِ دین

نفع رسانی کا تیسرا پہلو دعوت دین ہے، انسانوں کو دنیا کی مشکلات کے ساتھ آخرت کی مشکلات سے بچانا اور ان کو نجات کا راستہ دکھانا، نار جہنم سے بچانا اور رضائے الٰہی سے ہم کنار کرانا سب سے بڑی نفع رسانی ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے:

قُلْ ہَـذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّہِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۱۸؎

’’آپ کہہ دیجئے کہ یہ میری راہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔

ایسا شخص جو دوسروں کو عذاب جہنم سے نجات کی دعوت دیتا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتا ہے وہ سماج کا بہترین انسان ہے۔ قرآن پاک میں اس کے بارے میں کہا گیا ہے:

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۱۹؎

’’اس شخص سے بہترکس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔

حواشی

۱؎ الزخرف :۸۴

۲؎  البقرہ:۱۰۲

۳؎ مسند احمد ، ج:۲، ص۴۹۶

۴؎ ترمذی، ج:۲، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی جمیع الدعوات

۵؎ ابن عبدالبر، جامع بیان العلم و فضلہ، ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی، ص ۱۸۲، دہلی ۱۹۵۳ء

۶؎ الجمعۃ:۵۰

۷؎ النحل: ۷۸

۸؎ ابن ماجہ باب دعاء رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ۹؎  الرعد: ۱۷

۱۰؎ الصحیح البخاری، باب کیف کان بدء الوحی

۱۱؎ الصحیح البخاری، کتاب العلم، باب فضل من علم و علّم

۱۲؎ الصحیح المسلم، کتاب الوصیۃ: باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ

۱۳؎ فاطر:۲۸

۱۴؎ خطباب بہاول پور، ص ۳۱۹، نئی دہلی ۱۹۹۷ء

۱۵؎ یوسف: ۵۴-۵۵

۱۶؎ الدہر:۸-۱۰

۱۷؎ الصحیح المسلم، کتاب السلام، باب استحباب الرقیۃ من العین والنملۃ والحمۃ والنظرۃ

۱۸؎ یوسف: ۱۰۸

۱۹؎ فصلت:۳۳

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau