قرآ ن کا تصور فلاح ونجات

ڈاکٹر سید فرحت حسین

نجات کے لغوی معنی چھٹکارا پانے یا بچ جانے کے ہیں یعنی کسی دکھ ، تکلیف یا نقصان اور خسارے سے بچ جائیں یا اس سے نجات مل جائے۔ مذہبی اصطلاح میں نجات کا مطلب اس روحانی کیفیت سے ہے جس میں پریشانی ، تکلیف اور عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔ قرآن میں نجات کے معنی تکلیف، پریشانی ، خوف، ملال، عذاب اور خسارے سے بچ جانے کے ہیں۔اسلام میں نجات اور فوز وفلاح کا بہت وسیع تصور ہے۔ اصلا تو آخرت کی زندگی میں عذاب ، تکلیف، نار جہنم سے بچ جانے اور جنت مل جانے کا تصور ہے مگر ساتھ ہی دنیا کی زندگی کو بھی پر امن ، پر سکون ، مطمئن اور خوشحال بنانے کا مفہوم شامل ہے گو کہ اصل ہدف نجات اخروی ہی ہے۔قرآن مجید میں نجات اور فوز و فلاح کو بہت واضح اور دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہیں اس کو عذاب الیم سے نجات یا گھاٹے سے بچ جانا کہا گیا ہے۔ کہیں فوز وفلاح جنت کا حصول اور رضائے الہی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ خوف اور رنج سے عافیت بھی تصور نجات میں شامل ہے۔ ان عنوانات کے تحت اہم آیات پیش کی جا رہی ہیں۔

۱ نجات

دردناک عذاب سے چھٹکارہ کے ضمن میں سورہ الصف کی آیات ۱۰ تا ۱۲ بہت اہم ہیں۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ (۱۰) تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۱) یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۲)  (ترجمہ )اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو میں بتاؤں تمہیں وہ تجارت تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے ؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے ۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی (الصف ۔ ۱۰۔۱۲)

یعنی اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر مکمل ایمان اور اللہ کے راستہ میں مال وجان کا سرمایہ لگاکر جو تجارت کی جائے گی اس سے نہ صرف یہ ہے کہ عذاب الیم سے چھٹکارا مل جائے گا بلکہ ایک بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ جنت میں ابدی قیام حاصل ہو جائے گا۔ اس سے اگلی آیت (۱۳) میں دنیامیں اللہ کی نصرت اور فتح کی بشارت بھی سنا دی گئی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو اسلام کے کامیابی کے تصور کو دیگر ادیان سے ممتاز کرتا ہے کہ اولیت تو اخروی نجات اور فلاح کو حاصل ہے مگر دنیا کی کامیابی کو بھی فراموش نہیں کیا گیا ہے۔

۲  گھاٹے سے بچاؤ

تصور نجات اور نقصان سے بچاؤ کے لئے سورہ العصر کی تعلیمات بہت جامع ہیں۔

وَالْعَصْر(۱) إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲)إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر(۳)     (ترجمہ)  زمانہ گواہ ہے ، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی تلقین کی (العصر۔ ۱۔۳)

یعنی زمانہ شاہد ہے کہ نوع انسانی سراسر نقصان اور خسارے میں ہے ۔اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں نجات اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو ایمان ، عمل صالح اور حق و صبر کی تلقین پر کار بند ہوجائیں۔

سورہ الزمر آیت ۱۵ میں غیر اللہ کی بندگی کو حسران مبین کہا گیا ہے۔

فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِہِ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ وَأَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَلَا ذَلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ  (ترجمہ) تم اس کے سوا جس کی بندگی اختیار کرنا چاہو کرتے رہو ۔ کہو اصل دیوالئے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔ خوب سن لو یہی ہے کھلا خسارہ (الزمر۔۱۵)

ظاہر ہے اللہ کی بندگی کے ذریعہ ہی اس دیوالئے پن سے نجات مل سکتی ہے ۔

نجات کے اوپر کے مدارج فلاح، فوز، رضائے الہی، خوف و غم سے عافیت ہیں۔ ان کا تذکرہ الگ الگ آرہا ہے۔

۳۔فلاح:

کامیابی اور نجات کے لئے قرآن میں کئی مقامات پر لفظ فلاح آیا ہے جا کا اطلاق آخرت میں پائدار اور مستقل کامیابی اور دنیا میں آسودگی اور مطمئن زندگی سے ہوتا ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ، تقویٰ، ہدایات الہی کی پیروی ، تزکیہ نفس اور دین حق کے غلبہ کے لئے اجتماعی جد و جہد کرنے والے لوگ فلاح پائیں گے۔ خاص خاص آیات پیش ہیں۔

 متقین اور مؤمنین کامیاب ہیں:

سورہ البقرہ کے شروع میں متقین کے صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ۔

أُوْلَـئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ(ترجمہ) ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (البقرہ۔۵) یہی مضمون سورہ لقمان کی آیت ۵ میں ہے۔ سورہ المومنون کے شروع میں ہے ۔ قدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُون      (ترجمہ) یقینا فلاح پائی ہے مومنین نے ۔(المومنون ۔۱)  اس کے بعد مومنین کی صفات بیان فرمائی گئی ہیں اور پھر فرمایا گیا ہے۔أُوْلَئِکَ ہُمُ الْوَارِثُونَ (10) الَّذِیْنَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (11)    (ترجمہ) یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (المومنون۔۱۰۔۱۱)

سود، جوا اور شراب سے بچنے والے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون(ترجمہ) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، یہ بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے فلاح پاؤگے (آل عمران۔ ۱۳۰)  یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسَرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون(ترجمہ) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پالے سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو امید ہے کہ فلاح پاؤگے۔ (المائدہ۔ ۹۰)

تزکیہ نفس کرنے والے:

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی(ترجمہ) فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الاعلی۔ ۱۴)  قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا (ترجمہ)  یقینا فلاح پائی اس نے جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔(الشمس ۹)

 اللہ کی پارٹی والے:

أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُون (ترجمہ) اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں (المجادلہ ۔ ۲ ۲ )

 نبی امی کی پیروی کرنے والے:

سورۂ اعراف میں نبی اکرم ؐ کا ذکر خیر کرنے کے بعد آیت ۱۵۷ میں فرمایا گیا۔الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُونَہُ مَکْتُوباً عِندَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیْلِ یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ فَالَّذِیْنَ آمَنُواْ بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِیَ أُنزِلَ مَعَہُ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون (ترجمہ) لہذا جو لوگ اس (نبی امی) پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں (الاعراف۔ ۱۵۷)

رسول اللہ کی سمع وطاعت:

إِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا دُعُوا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أَن یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون(ترجمہ) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمہ کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (النور۔۵۱)

 فلاح پانے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون(ترجمہ) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے (آل عمران۔۱۰۴)

 بندگی رب میں فلاح:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (ترجمہ)اے لوگوجو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو ، اپنے رب کی بندگی کرواور نیک کام کرو، اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کوفلاح نصیب ہو (الحج۔۷۷)

 اللہ کی راہ میں جد وجہد:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَابْتَغُواْ إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُواْ فِیْ سَبِیْلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرواور اس کی راہ میں جد و جہد کرو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے (المائدہ۔۳۵)

مقابلہ کے موقع پر ثابت قدمی اور پامردی:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُواْ وَاذْکُرُواْ اللّہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلَحُون(ترجمہ)اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو توقع ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی (الانفال۔۴۵)  یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون(ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ ، حق کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے کہ فلاح پاؤگے (آل عمران۔۲۰۰)

 کشادہ دل لوگ:

وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون(ترجمہ)جو اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں (الحشر۔۹ ۔ التغابن۔۱۶)یعنی تنگ دلی پست حوصلگی اور بخل سے محفوظ رہے، ہمت ،حوصلہ اور کشادہ دلی سے زندگی گزاری وہ فلاح پانے والے ہیں۔

 کون لوگ فلاح یاب نہیں ہو سکتے:

ظالم (یوسف۔۲۳)    مجرمین(یونس۔۱۷)

چھوٹے اور افترا باندنے والے (یونس۔۶۹) جادوگر(یونس۔۷۷)

واضح رہے کہ اسلام کا فلاح اور کامرانی کا تصور صرف دنیوی اور مادی نہیں ہے اور نہ محض اخروی ہے بلکہ دونوں عالموں پر محیط ہے۔ اس میں ایمان عمل صالح تقوی اور پرہیز گاری شرط اول ہے۔معاشرہ کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی فرض ہے۔ ظلم وزیادتی، جرائم، جھوٹ، افتراء، جادو ٹونے اور شیطانی افعال سے چاہے مادی اعتبار سے کتنا ہی نفع حاصل ہوجائے اسلام کے مطابق اللہ کی نظر میں یہ فلاح نہیں ہے۔ اسلامی نظریہ کا اصل ہدف آخرت کی کامیابی ہے مگر دنیا کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ سورہ القصص کی آیت ۷۷ سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلَا تَنسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَأَحْسِن کَمَا أَحْسَنَ اللَّہُ إِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِیْ الْأَرْضِ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(ترجمہ) جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر (القصص۔۷۷)

۴۔فوز:نجات اور کامیابی کے لئے کلام الٰہی میں فوز ، فوز عظیم ، فوز کبیر، فوز مبین بھی آیا ہے۔ قرآن مجید کے طابق فوز اور فوز عظیم یہ ہے کہ آخرت میں جنت حاصل ہوجائے۔ اس کے لئے ایمان و عمل صالح ضروری ہےجس کے ذریعہ اللہ کی رضا اور مغفرت مل جائے ۔ کچھ خاص آیات پیش کی جارہی ہیں۔

 ایمان اور عمل صالح:

وَمَن یُؤْمِن بِاللَّہِ وَیَعْمَلْ صَالِحاً یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہِ وَیُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم(ترجمہ)جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کرتا ہے اللہ اس کے گناہ جھاڑدیگا اور اپنی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے (التغابن ۔ ۹)تقریبا یہی مضمون سورہ الصف آیت ۱۲ اور سورہ التوبہ آیت ۸۹ میں ہے۔

إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ(ترجمہ) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ بڑی کامیابی ہے (البروج۔۱۱)سورہ نور میں فرمایا گیا ہے۔  وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَخْشَ اللَّہَ وَیَتَّقْہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَائِزُونَ (ترجمہ) جو اللہ اور رسول کی فرمابرداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نا فرمانی سے بچیں وہی لوگ کامیاب ہیں (النور۔۵۲)

اللہ کی خوشنودی:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء  بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَـئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(71) وَعَدَ اللّہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّہِ أَکْبَرُ ذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم(ترجمہ)مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقینا اللہ غالب اور حکیم ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی، یہی بڑی کامیابی ہے (التوبہ۔۷۱۔۷۲) اسی سے ملتا جلتا مضمون آیت نمبر ۱۰۰ میں بھی ہے۔

مبارک سودا:

إِنَّ اللّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْہِ حَقّاً فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ مِنَ اللّہِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِئبعکُمْ  الَّذِیْ بَایَعْتُم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم(ترجمہ)حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور مارتے مرتے ہیں۔ ان سے( جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمہ ایک پختہ وعدہ ہے تورات ، انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو؟پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے کیا ہے۔یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ۔۱۱۱)

مہاجرین اور مجاہدین:

الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ أَعْظَمُ دَرَجَۃً عِندَ اللّہِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَائِزُون(ترجمہ) اللہ کے ہاں تو انہیں لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جان مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں(التوبہ۔۲۰)

دوزخ سے بچ کر جنت میں پہنچ گئے:

فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَاز(ترجمہ) جو آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہی اصل میں کامیاب ہے (آل عمران ۔۱۸۵)  سورہ الحشر میں ہے۔  لا یَسْتَوِیْ أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَائِزُونَ  (ترجمہ)  دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہو سکتے ۔جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔(الحشر۔ ۲۰)

ٹھیک بات کرنے والے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِیْداً (۷۰)  یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً(۷۱)(ترجمہ) اے ایما ن لانے والو اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔(الاحزاب ۷۰،۷۱ )

اللہ کے دوست

أَلا إِنَّ أَوْلِیَاء  اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ(۶۲)الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ(۶۳) لَہُمُ الْبُشْرَی فِیْ الْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الآخِرَۃِ لاَ تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم(۶۴)(ترجمہ)سنو جو اللہ کے دوست ہیں،جو ایمان لائے جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ۔یہی بڑی کامیابی ہے(یونس ۔۶۲۔۶۴)

جو سزا سے بچ جائے:

مَّن یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْن(ترجمہ) اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی (فوز المبین) ہے۔(الانعام۔ ۱۶)

مطلب یہ ہے کہ فوز،فوز عظیم فوز کبیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مرنے کے بعد جنت حاصل ہو جائے مگر یہ بھی ایمان عمل صالح اور غلبہ دین کی جد و جہد اور قربانی سے مشروط ہیں۔

۵۔ رضا الٰہی:

انسان کی اس سے بڑی خوش بختی اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ مالک کائنات اس سے راضی ہو جائے ۔ ملاحظہ فرمائیے سورہ البینہ کی آیتیں۔

إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ(۷) جَزَاؤُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً رَّضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہ(۸)(ترجمہ)جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کئے وہ خوش بخت ہیں ان کا بدلا ان کے رب کے پاس ہے۔دائمی قیام کی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی۔وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اللہ ان سے راضی ہواوہ اللہ سے راضی ہوئے۔یہ کچھ ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔(البینہ ۔۷۔۸) سورہ الفجر میں ہے۔  یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ (۲۷) ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃ(۲۸)  فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ (۲۹) وَادْخُلِیْ جَنَّتِی (۳۰) (ترجمہ) اے مطمئن نفس! اپنے رب کی طرف لوٹ جااس حال میں کہ وہ تجھ سے راضی ہو اور تو اس سے راضی ہو۔شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں (الفجر۔ ۳۷۔۳۰)  سورہ المائدہ میں رب کی رضا کو بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔  رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم (ترجمہ) اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المائدہ ۱۱۹)  سورہ توبہ میں ہے :  وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم(ترجمہ) وہ مہاجر و انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوئے۔اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔(التوبہ ۱۰۰)    ملتا جلتا مضمون آیت ۷۲ میں گزر چکا ہے۔

۶۔آگ سے بچاؤ :

جہنم کی آگ سے دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی در اصل نجات ہے اس لئے مومن یوں دعاء کرتا ہے ۔

وِمِنْہُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّار (ترجمہ)اے ہمارے رب دنیا اور آخرت میں ہمیں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا (التوبہ۔ ۲۰۱)  سورہ آل عمران میں فرمایا گیا  فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَاز (ترجمہ) جو آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہی کامیاب ہے۔(آل عمران ۱۸۵)  ایمان والوں کو حکم دیا گیا  یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً (ترجمہ)اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔(التحریم ۔۶)

۷۔خوف اور رنج سے عافیت :

اسی مفہوم میں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون آیا ہے یعنی انھیں نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہونگے۔اس کے لئے بھی ہدایت الٰہی کی پیروی ایمان،نیک عمل،انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ ضروری ہیں۔ إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُون (ترجمہ)بے شک وہ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے  تو ایسے لوگوں کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں (الاحقاف۔۱۳)۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau