ارض فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے دعوے کی حقیقت

انیس احمد فلاحی

تورات اور اس سے ملحق صحائف کے مطابق اللہ تعالی نے سرزمین فلسطین کے تعلق سےابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ سرزمین ان کی نسل کی دائمی ملکیت میں دے گا۔ نیز تورات کی کتاب استثنامیں صراحةً مذکور ہے کہ اس ملک میں کسی اور شخص کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ میراث میں دی ہوئی قومیں کلیتاً نیست و نابود کردی جائیں۔ اس بابت تورات کی اہم ہدایات درج ذیل ہیں:

وعدہ الہی کے مطابق فلسطین نسل ابراہیم کی دائمی ملکیت ہے۔

کتاب پید ائش باب 12/ فقره رقم 5-8 میں ہے:

’’ اور ابرام اپنی بیوی ساری (سارہ)اوربھتیجے لوط کو اور سب مال کو جو انھوں نےجمع کیا تھا اور ان آدمیوں کو جو ان کوحاران میں مل گئے تھے ساتھ لیا وہ ملک کنعان(فلسطین کا قدیم نام) کو روانہ ہوئے اور ابرام اس ملک سے گزرتا ہوا مقام سکم میں مورہ کے بلوحا تک پہنچا۔ اس وقت ملک میں کنعانی رہتے تھے۔ تب خداوند نے ابرام کو دکھائی دے کر کہا کہ یہی ملک میں تیری نسل کو دوں گا اور اس نے وہاں خداوندکے لیے جو اسے دکھائی دیا تھا ایک قربان گاہ بنائی۔

پیدائش ہی میں آگے ہے:

’’اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پر دیسی ہےایسا دوں گا کہ تیری دائمی ملکیت ہو جائے۔ ‘‘(باب 17،فقرہ 8)

پیدائش 23میں ہےکہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اضحاق علیہ السلام کے لیے سر زمین عراق سے بیوی لانے کے لیے کہا اور نوکر کے اس استفسار پر کہ اگر وہ عورت میرے ساتھ نہ آئے تو کیا میں اضحاق علیہ السلام کو وہاں لے جاؤں تو آپ نے فرمایا ہرگز نہ لے جانا اور فرمایا ’’ خداوند آسمان کا خدا جو تجھے تیرے باپ کے گھر اور میری زاد بوم سے نکال لایااور جس نے مجھ سے باتیں کیں اور قسم کھا کر مجھ سے کہا کہ میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا وہی تیرے آگے آگے اپنا فرشتہ بھیجے تا کہ تو وہاں سے میرے بیٹے کے لیے بیوی لائے۔ ‘‘(اصحاح 22/ 7)

ملک میراث میں اسرائیلیوں کے علاوہ کسی اور قوم کو رہنے کا حق نہیں۔

کتاب استثناء میں ہے:

’’لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنھیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتاہےکسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جینا نہ چھوڑ یو بلکہ تو ان کو ختم کیجیو۔ ‘‘(20/16)۔

ملک میراث میں رہنے والی کسی قوم سے کوئی ایسا معاہدہ نہ کیا جائے جس سے ان کی جاں بخشی ممکن ہو۔

کتاب خروج میں ہے:

’’آج کے دن جو حکم اب تجھے دیتا ہوں تو اسے یاد رکھنا، دیکھ میں اموریوں، کنعانیوں اور حتیوں اور فرز یوں اور حویوں اور یبوسیوں کو تیرے آگے ہانکتا ہوں۔ سوخبردار رہنا کہ جس ملک کو تو جاتا ہے اس کے باشندوں سے کوئی عہد نہ باندھنا ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے لیے پھندا ٹھہرے بلکہ تم ان کی قربان گاہوں کو ڈھا دینا اور ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا۔ ‘‘(اصحاح 24 فقره: 11-12)

فلسطین پر دائمی ملکیت کا یہ وعدہ احبار کی تحریف ہے۔ خود تو رات میں متعدد مقامات پر صراحت ہے کہ : یہ وعدہ شریعت الہی کی پابندی کے ساتھ مشروط تھا اوراس باب میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جانشین یوشع بن نون علیہ السلام کی تنبیہات ملاحظہ ہوں :

موسی علیہ السلام کی پہلی تنبیہ : کتاب استثنا میں ہے :

’’لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی ۔‘‘( باب28 – 15)

دوسری تنبیہ :

’’اور چوں کہ تو خدا وند اپنے خدا کی بات نہیں سنے گا اس لیے تم اس ملک سے اکھاڑ دیے جاؤ گے جہاں تو اس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے اور خداوندتجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پرا گندہ کردے گا۔ ‘‘(استثنا، باب 28 فقره 62-63)

یوشع بن نون کی تنبیہ : جب تم خداوند اپنے خدا کے اس عہد کو جس کا حکم اس نے تم کو دیاہے توڑ ڈالو اور جاکر اور معبودوں کی پرستش کرنے اور ان کوسجدہ کرنے لگو تو خد اوند کاقہر تم پر بھڑکے کا اور تم اس اچھے ملک سے جو اس نے تم کو دیا ہے، جلد ہلاک ہوجاؤ گے۔ (سفر یشوع، باب 23 فقره 16)

سفرحزقیال میں ہے : وہاں میں تجھ کو قوموں میں پراگندہ اور ملکوں میں تتربترکروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابودکردوں گا۔ (باب 22/15)

سرزمین فلسطین کےمقدس ہونے کے دیگر اسباب

وعدہ الہی کے علاوہ یہو دیوں کے نزدیک سرزمین فلسطین کے مقدس ہونے کے دیگراہم اسباب درج ذیل ہیں:

قدس ہی ابراہیم علیہ السلام کی جائے ہجرت اور وہیں انھوں نے خدا کے لیے قربان گاہ بنائی ( پیدائش با ب 13–1- 2 ) اور یہیں یہودیوں کے مورث اعلی یعقوب علیہ السلام اور ان کے جدامجد اضحاق علیہ السلام پیدا ہوئے.(پیدائش 21–2-3 )

اور جب بنی اسرائیل کے کنعانیوں سے جہاد سے انکار کرنے کی بنا پر ان پر سر زمین فلسطین میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا اورصحرائےسینا میں بھٹکناطے کر دیا گیا تو اس مقدس زمین میں داخل نہ ہو پانے کا موسی علیہ السلام کو بے حد غم لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں کوہِ بنو کے اوپر سکتہ کی چوٹی پر جویریحوکے بالمقابل ہےچڑھنے کا حکم دیا تا کہ آپ کو میراث کا ملک دکھایا جا سکے۔ (استثناء باب 34- 1- 5)

تو رات سے ملحق صحائف کے مطابق بنی اسرائیل کی مملکت اسی علاقے میں قائم ہوئی۔ 1176ق م سے لے کر 1020 ق م تک، یہ لوگ فلسطین میں جزئی طور اور پھر پورے فلسطین پر حکم رانی کرتے رہے۔ 1176 ق م – 1020ق م تک کا دور عہد قضاة سے تعبیر کیا جاتا ہے جو یوشع بن نون سے شروع ہوکر طالوت کی بادشاہت کی تعیین پر اختتام پذیرہوتاہے۔ اس عہد کی مکمل تفصیل، سفر یشوع اور سفر قضاةمیں بیان کی گئی ہے۔

1030 ق م۔922ق م کا عہد، عہدملوکیت کہلاتا ہے۔ یہ عہد بنی اسرائیل کی تاریخ کا زریں عہد کہلاتاہے۔ اس عہد میں ان کی سلطنت انتہائی مستحکم تھی اور تورات کی شریعت سرزمین فلسطین میں مکمل طور پر نافذ تھی۔ اس عہد میں تین بادشاہ بنی اسرائیل میں پیداہوئے۔ 1۔طالوت علیہ السلام 2۔داودعلیہ السلام 3۔ سلیمان علیہ السلام۔ اسی عہد میں ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھی گئی۔

اس عہدکی مکمل داستان سلاطین اول، سلاطین ثانی، تواریخ اول اور تواریخ ثانی میں بیان کی گئی ہے۔

922 ق م–586 ق م –یہ عہد عہد افتراق کہلاتاہے۔ اس عہد میں بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی:

مملکت اسرائیلی .: اس کا پایہ تخت سامرہ تھا۔ اور اس کے اس موسس یاربعام بن ناباط تھے۔مشہور آشوری حکمراں سر جون نے722 ق م میں اس سلطنت کے آخری حکمراں ہو شع کو شکست دے کر اس کا خاتمہ کر دیا اور یہودیوں کو قیدی بنا کر شمالی عراق، نینوی وغیرہ میں پھیلا دیا۔

مملکت یہوداه: اس کا پایہ تخت یوروشلم تھا اور اس کے پہلے حکمراں رحبعام بن سلیمان تھے اور آخری حکمران صدقیا تھے۔ بخت نصر کے ہاتھوں اس مملکت کا سقوط 586 ق م میں ہو ا۔

یہ دونوں مملکتیں فسادفی الارض کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔

ارمیانبی کے بقول : برگشتہ اسرائیل اور غدر و فریب دینے والایہوداہ۔ (یرمیاه، 3/6-13)

بیت المقدس میں صخره کو داؤد علیہ السلام نے قربان گاہ بنایا، تالمود میں صخرہ کے تقدس کے تعلق سےمتعدد روایات پائی جاتی ہیں۔ الیعاز رالبا بلی کہتے ہیں: ’’اللہ تعالی نے زمین کو اسی صخرہ سے ابتدا کرتے ہوئے بنایا اور یقینًا صہیون پورے عالم کی خوشی ہے اور جمال و بہاکا حامل ہے۔ (تالمودبابلی۔بوما54)

تالمود کے مطابق یہ صخره زمین سے تین انگلیوں کے بقدر اونچا تھا۔(تالمود–بوما /58۔3،4،توسفتا83/6)جب کہ موجوده صخرة زمین کی سطح سے ایک میٹر بلند ہے۔مشہور مستشرق’’شیک‘‘کاخیال ہے موجودہ صخرہ تالمودی صخرہ نہیں ہے۔

بیت المقدس میں یہو دیوں کی مرکزی عبادت گاه ہیکل سلیمانی واقع ہے۔اسے سلیمان علیہ السلام نے تابوت الہی رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ اس کی لمبائی ساٹھ ہاتھ، چوڑائی بیس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ تھی اور اس کے سامنے ایک برآمدہ اس گھر کی چوڑائی مطابق بیس ہاتھ لمباتھا اور اس گھر کے سامنے اس کی چوڑائی دس ہاتھ تھی۔( سلاطین اول 6/30)

یہ ہیکل یہودی روایات کے مطابق بے حد خوب صورت تھا اور جب عہد کے تابوت کوہیکل میں رکھا گیا تو اس نے مزامیر 132کی آیت رقم 14کو گنگنایا۔( اس نے اسے اپنے مسکن کے لیے پسندکیا۔یہ ہمیشہ کے لیئے میری آرام گاہ ہے۔)

اس ہیکل کوآخری بار قیصر ہیڈریان نے 135م میں گرادیا تھا۔ صرف اس کی ایک مغربی دیوار باقی بچی تھی۔ جہاں یہود سال میں اس کی تباہی کے دن آکر روتے ہیں اس لیے اس دیوار کا نام دیوار گریہ پڑ گیا۔

یہودی کہتے ہیں : ’’مسجد اقصیٰ ہیکل کی قدیم بنیادوں پر قائم ہے ’’یہودیوں کا یہ دعوی تاریخی شواہد و دلائل سے عاری ہے۔ اس کی دلیل صرف وہ شفوی روایات ہیں جو نسلًا بعد نسل منتقل ہوتی آرہی ہیں کہ مسجد اقصی ہیکل کی بنیادوں پر استوار ہے لیکن یہ رائے درج ذیل اسباب و وجوہ کی بنا پردرست نہیں۔

مسجد اقصی کے نیچے اور اس کے ارد گرد 1967ء سے اب تک ہونے والی مسلسل اسرائیلی کھدائیوں کے دوران عہد اموی کا شان دار محل اور بعض رومی آثار تو ملے ہیں لیکن کوئی ایسا اسرائیلی نشان نہ ملا جس سے ان کے اس دعوے کی تائید ہوتی ہو۔

فلسطین پر برطا نوی استعمار کے عہد میں جب یہودیوں نے مسجد پراپنے استحقاق کا دعوی کیا تو اس کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا اور 1930م میں لیگ آف نیشنز نے ان لفظوں میں حائط براق پر مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کی۔

’’دلائل و شواہد کی روشنی میں ہم درج ذیل نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ مغربی دیوار(حافظ براق) صرف مسلمانوں کی ہے کیوں کہ وہ حرم شریف کے صحن کا غیر منقسم حصہ ہے اور وہ صحن وقف کی زمین ہے۔ صحن کے آگے قائم رصیف اور محلہ مغار بہ بھی مسلمانوں کی ملکیت ہیں کیوں کہ یہ عمارتیں اسلامی شریعت کے مطابق وقف ہیں۔ (دیکھیے القدس بین الامس والیوم ص30)

مشہور ماہر آثارقدیمہ ڈی سولس ’’ کے مطابق مسجد اقصیٰ کی مساحت ہیکل سے کئی گنا زیادہ ہے۔ چناں چہ ہیکل کی لمبائی ساٹھ ہاتھ اور چوڑائی بیس ہاتھ تھی جب کہ حرم شریف کی مشرقی دیوار کی لمبائی 384 میٹر اور جنوبی دیوار کی 225 میٹر ہے اور مغربی دیوار کا کوناز او یہ منفرجہ کی شکل میں اور پھر خط مستقیم کی شکل میں ہے اور شمالی دیوار جنوبی دیوار سے کافی لمبی ہے۔ نیز حرم شریف مستطیل اور اس کی سمت شمال سے جنوب کی جانب ہے جب کہ ہیکل سلیمانی کی سمت مغرب سے مشرق کی جانب (یعنی سورج کی جانب) تھی۔ اس زمانے میں بابل اور مصر کی قدیم عبادت گاہوں کا رخ اسی جانب ہوا کرتا تھا۔( ہیکل سلیمان،، ڈاکٹر محمد السید علی بلاسی : ص 57–البعث الاسلامی،جمادی الثانیہ 1323 میں شائع شدہ مضمون )

مذکورہ بالا دلائل و شواہد کی روشنی میں یہودیوں کے اس دعوے کی بخوبی تردید ہو جاتی ہے کہ دیوار گریہ ہیکل سلمانی کا جزنہیں ہے حقیقت میں وہ مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کا ایک حصہ ہے۔

یہودیوں کا یہ خیال ہےکہ فلسطین قدیم ترین زمانے سے ان کے آبا واجداد کا مسکن رہا ہے . لیکن تاریخی لحاظ سے ان کایہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ خودتو رات اس پرشاہد ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام فلسطین ہجرت کرکے آئے تو وہاں مختلف قومیں آباد تھیں اور یہ ملک کنعانیوں کی کثرت کے سبب کنعان کے نام سے معروف تھا۔(دیکھیے کتاب پیدائش باب 13 فقره : 7)

یہودبحیثیت قوم اس علاقہ میں 1176 ق م میں داخل ہوئے جب کہ کنعانی یہاں 3500 ق م میں آئے اور فینیقی بھی 3000 ق م میں اور1200 جزیرہ تکریت سے فلسطینی نامی ایک قبیلہ وہاں پہنچا۔ کنعانیوں نے انھیں فلسطینی کے نام سے پکارا اور پھر اس نام کا اطلاق اس پورے علاقے پرہونے لگا۔

خود تورات اور اس سے ملحق صحائف اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قبائل اس علاقے میں مستقل آباد رہے، اور ان کے درمیان اور بنی اسرائیل کے درمیان یہود کے اس علاقے میں سکونت کی پوری مدت میں کے دوران متعدد خوں ریز جنگیں ہوتی رہیں۔یہود اس علاقے میں فینیقی،کنعانی اور فلسطینیوں کے بعد داخل ہوئے اور بعض مختصر ادوار کو چھوڑ کر اپنے پورے دور حکومت میں فلسطین کے تمام علاقوں پرنہیں بلکہ بعض پر ان کا قبضہ رہا نیز 135م میں انھیں وہاں سے جلا وطن کر دیا گیا اور یہ اٹھارہ صدیوں تک ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔ جب کہ مذکورہ بالاتینوں قبائل اب تک وہاں آباد چلے آرہے ہیں اورمذہبی اعتبارسے وہ پہلے موحد، پھر مشرک پھر عیسائی رہے اور ظہوراسلام کے بعد انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔اس پوری تفصیل سے یہ بات واضح طور پر سانے آتی ہے کہ یہودیوں کےفلسطین میں سکونت کا تاریخی دعوی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

مذکورہ بالا اسباب و وجوہ کی بنیاد پر فلسطین یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس اور ان کا حقیقی و دائمی وطن ہے۔ اور اس کی اسی مذہبی اہمیت کے پیش نظر وہ اپنے عہدمہاجرت میں فلسطین واپس لوٹنے کی آس لگائے رہے اور اس امید کو ان پیشین گوئیوں نے مزید تقویت پہنچائی جو دوسری تباہی سے پہلے اور اس کے بعد کے ادوارمیں ان کے انبیا نے کی تھیں۔حزقیال نبی کی پیشین گوئی ملاحظہ ہو:

’’خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ جب میں بنی اسرائیلی کو قوموں میں سے جن میں وہ پراگندہ ہو گئے جمع کروں گا تب میں قوموں کی آنکھوں کے سامنے ان سے اپنی تقدیس کراؤں گا۔ وہ اپنی سرزمین میں جو میں نے اپنے بندہ یعقوب کو دی تھی بسیں گےاور وہ اس میں امن سے سکونت کریں گے بلکہ مکان بنائیں گے اورانگورستان لگائیں گے اور امن سے سکونت کریں گے۔‘‘(باب 28-  25 ، 26)

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau