مقبول بارگاہ طریقۂ زندگی اسلام کا آخری منشور قرآن مجید ہے، جو آخری رسول حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ نعمت غیر مترقبہ کی شکل میں انسانیت کو ملا۔ یقیناً تمام پیغمبروں پر ایمان لانا ایمان کے لازمی شرائط میں ہے لیکن تمام انبیاء اپنی اپنی قوم میں ہدایت و راہنمائی کے لیے بھیجے گئے اور کتب و صحائف بھی متعدد زمانوں میں متعدد انبیاء و رسل کو ملے لیکن زمانے کے دست برد سے یہ نوشتے محفوظ نہ رہ سکے۔ محمد عربی ﷺ آخری نبی ہیں، قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور آپ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ تمام قسم کے قطع و برید، اور حذف و اضافہ سے قیامت تک محفوظ رہے گی، تمام پیغمبروں، کتب مقدسہ اور صحف سماویہ پر اس طور پر ہی ایمان مطلوب ہے۔ اللہ پر ایمان حقیقی معنوں میں ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے اسماء حسنیٰ ، اس کی صفات و کمالات اور اختیارات پر ایمان نہ لایا جائے۔ اسی طرح محمد عربی ﷺ پر ایمان معتبر اور مستند نہیں ہوسکتا جب تک آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر ایمان نہ لایاجائے۔ ختم نبوت پر ایمان انسانیت کے لیے عزت و شرف اور اعزاز و اکرام کا موجب ہے۔ یہ ایمان اس حقیقت کا اعلان ہے کہ انسانی سماج بلوغت کے اس مرحلے میں پہنچ چکا جس میں خداکے پیغام کی اشاعت عام کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ختم نبوت پر ایمان ایک رسمی اور خشک مذہبی عمل نہیں ہے بلکہ اس سچائی کا برملا اظہار ہے کہ انسانیت کی نجات و فلاح کا راز اس میں پنہاں ہے کہ وہ رسول اللہ پر ایمان لائے اور اس کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا ہوجائے۔ ۱؎
لسان العرب کے مطابق خاتم القوم قوم کا آخری فرد کہلاتا ہے ،اسی طرح ’خاتم النبیین‘ نبیوں میں آخری نبی کو کہا جاتا ہے۔ ۲؎
امام راغب الاصفہانی کے بقول محمد مصطفی ﷺ کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کا ظہور نبوت کی معراج ہے اوراب ان کی بدولت اب انبیائی بعثت مبارکہ کا باب بند ہوگیا۔ ۳؎
قرآن پاک کے ایک بڑے مفسر آلوسی خاتم النبیین کی وضاحت میں رقم طراز ہیں کہ خاتم کے معنی مہر کے ہیںجس کے ذریعہ کوئی چیز محفوظ شکل میں بند کردی جاتی ہے۔ خاتم النبیین کا مطلب ہے ایسی شخصیت جس کی بعثت مبارکہ کے بعد اس سلسلۃ الذہب کا خاتمہ ہوگیا اور یہیں سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام فرستادوں میں محمد عربی ﷺ آخری فرستادہ اور رسول ہیں ۔۴؎
نبی اکرم ﷺ کے انبیائی بعثت مبارکہ کی آخری کڑی ہونے کا مستند ترین ثبوت اسی نوشتۂ ہدایت سے ملتا ہے جو آپ ﷺ پرنازل کیا گیا۔ کتاب حکیم کی یہ آیت کریمہ ختم نبوت کے عقیدہ پر دلیل ناطق ہے:
مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ ۵؎
( لوگو! محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں)
مذکورہ آیت کریمہ میں خدائے عزو جل نے محمد ﷺ کے رسول ہونے کا اعلان کیا، مزید برآں نبیوں کی آمد کے سلسلے کو ختم کرنے والا قرار دیا۔ یعنی ان کے بعد کوئی رسول اورکوئی نبی بھی نہ آئے گا۔۶؎
آپ ﷺ کی بعثت پرنبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اللہ رب العزت نے اس کا خود اعلان فرمایا۔ چنانچہ آپ ﷺ آخری نبی ہیںاور آپ کی امت آخری امت ہے۔ ختم نبوت کے عقیدہ سے متعلق رسول اکرم ﷺ کی متعدد احادیث واقوال ہیں جو احادیث کے مستند ذخیروں کی زنیت ہیں۔ چنداحادیث نبویہ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔آپ ﷺ نے اپنی نبوت کے تعلق سے فرمایا:
ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ إلا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ہلا وضعت ہذہ اللبنۃ، فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین۔ ۸؎
(میری اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اوراس پر اظہار حیرت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی، پس وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ )
اس تمثیلی انداز گفتگو سے واضح ہے کہ نبوت کی شاندار عمارت کی پہلی اینٹ ابوالانبیاء حضرت آدمؑ تھے اورسب سے آخری اینٹ محمد رسول اللہ کی ذات ہے۔ آپ ﷺ کی آمد کے بعد نبوت کی حسین عمارت کے ایک گوشے میں خالی جگہ آپ کی بعثت مبارکہ سے پوری ہوگئی، گویا نبوت کی خوبصورت عمارت تعمیر ہوچکی اب کسی بھی اینٹ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آپ کی نبوت آخری نبوت ہے اور قیامت تک اس چشمۂ نبوت سے لوگ سیراب ہوتے رہیں گے۔
ایک موقع پر آپ ﷺ نے تمام انبیاء کے مابین اپنی فضیلت سے لوگوں کوآگاہ کیا:
فضلت علی الانبیاء بست ، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجدا وطہوراً وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیّون۔ ۹؎
(مجھے چھ باتوں میں انبیاء سابقین پر فضیلت دی گئی ہے (۱) مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کا سلیقہ عطا کیا گیا ہے، (۲) مجھے رعب کے ذریعہ سے نصرت و تائید بخشی گئی ہے، (۳) میرے لیے اموال غنائم حلال کردیے گئے ہیں، (۴) میرے لیے پوری زمین کو مسجد بھی بنایا گیا اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی، (۵) مجھے پوری دنیا کے لیے مبعوث کیا گیا، (۶) اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ۔)
رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:
ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولانبی۔ ۱۰؎
(رسالت اورنبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اورنہ کوئی نبی۔)
سلسلۂ نبوت کے ختم ہوجانے کے تعلق سے آپ ﷺ یہ بھی فرماتے ہیں:
ایہاالناس انہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحۃ یراہا المسلم وتری لہ۔ ۱۱؎
(اے لوگو!نبوت کی کوئی بشارت قیامت تک باقی نہیں رہی، ہاں سچے اور مبارک خواب مسلمان دیکھ سکتا ہے یا اس کو دیکھائے جاتے ہیں۔ )
انسانوں کی ہدایت کے لیے وحیٔ الٰہی کا آخری ایڈیشن یا مستند ترین ترجمان قرآن مجید ہے جو محمد عربی ﷺ پر نازل ہوا اور جو قیامت تک من وعن برقرار رہے گا۔ اب اگر کسی کو کسی امر میں اگر کوئی اشارہ ملے گاتو زیادہ سے زیادہ اچھے خواب کی شکل میں جو بہرحال وحی الٰہی کے مساوی اورہم پلہ نہیں ہیں۔
اللہ و رسول پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ باعث شرف و سعادت ہے کہ وہ آخری اور اللہ رب العزت کے محبوب ترین رسول کے امتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ یہ امت محمدیہ آخری امت ہے اب نہ کوئی نبی آئے گا اورنہ ہی کوئی امت اس کی طرف منسوب ہوگی۔ اس سلسلے میں ارشاد نبوی بہت واضح ہے:
لانبی بعدی ولا امۃ بعد امتی۔ ۱۲؎
(میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں ۔)
دنیا کی مذہبی کتب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کے تذکرے ملتے ہیں۔ سامی مذاہب کے نوشتوںمیں بالخصوص بائبل کے اندر اس آخری رسول محمد عربی ﷺ کی آمد سے متعلق آج بھی تذکرے موجود ہیں۔ قبل اس کے کہ توراۃ وانجیل کی آیات محمد عربی ﷺ کی بعثت سے متعلق پیش کی جائیں، قرآن مجید کی چند آیات کریمہ ملاحظہ کریں۔نبی امی کا تذکرہ کتب مقدسہ (تورات و انجیل) میں ہے، یہ آیت کریمہ بطور دلیل دیکھی جائے:
الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُونَہُ مَکْتُوباً عِندَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیْلِ۔ ۱۳؎
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔)
توراۃ وانجیل میں آخری نبی کی آمد کا تذکرہ ہے اوربشارت دی گئی ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کو یوں بیان کرتاہے۔ آخری نبی کی بعثت کی بابت حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل سے مخاطب ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کی یہ شہادت موجود ہے:
وَإِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ إِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ۔ ۱۴؎
(اور یاد کرو عیسیٰ بن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والاہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام محمد ہوگا۔ )
رسول اللہ ﷺ کی آمد سے متعلق توراۃ میں جو آیات آئی ہیں ان میں یہ آیات قابل ذکر ہیں:’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کی سننا … میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرونگا اوراپنا کلام اس کے منھ میں ڈالونگا اور جو کچھ میں اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہے گا۔ ‘‘ ۱۵؎
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی۔ آپ کی تشریف آوری محمد عربی ﷺ کی بعثت کی نوید تھی۔ متعدد مقامات ۱۶؎ پر حضرت عیسیٰ کی بشارتیں انجیلوں میں موجود ہیں۔ ایک جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں، لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا، وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمھیں یاد دلائے گا‘‘۔ ۱۷؎
ایک جگہ یہ بات بھی مذکور ہے:’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کرونگا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔ ‘‘ ۱۸؎
انجیل یوحنا کی یہ آیت بھی آخری نبی محمد عربی ﷺ کی آمد پر دال ہے:’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا۔ میں جاؤںگا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوںگا‘‘۔ ۱۹؎
قرآن و سنت اور کتب مقدسہ میں ختم رسالت سے متعلق بیان کردہ تلقینات کے ملاحظہ کے بعد اس اہم مسئلہ پر صحابہ کرام کا اجماع بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ تمام معتبر تاریخی روایات سے یہ بات متفقہ طور پر سامنے آتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان مدعیان نبوت کی تائید کی، ان کے خلاف صحابہ کرام محاذ آراء ہوئے۔ مدعیان نبوت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف تمام صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق کی قیادت میں جنگی کاروائی کی۔قرآن ، کتب مقدسہ اور احادیث نبویہ کے ساتھ اجماع صحابہ کی روشنی میں ختم نبوت کا عقیدہ روز روشن کی طرح عیاں ہے تاہم امت کے ائمہ و مجتہدین اور علماء کے اقوال بھی اس سلسلے میں روشنی ڈالتے ہیں۔ ذیل میں چند معروف علماء تصریحات قلمبند کی جاتی ہیں جن کی روشنی میں ختم نبوت کے عقیدے کی تائید ہوتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص مدّعی نبوت ہوا اور اپنے معاصرین و مخاطبین سے موقع طلب کیا کہ وہ اپنی علامات نبوت ان کے سامنے پیش کرے۔ اس پر امامؒ نے فرمایا کہ جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت چاہے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ فرماچکے ہیں کہ لانبی بعدی۔ ۲۰؎
علامہ ابن جریر طبری مشہور و معروف تاریخ نگار اور عظیم مفسر ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر القرآ ن میں خاتم النبیین کے الفاظ پر خصوصی توجہ دی ہے۔ مراد ہے یہ ایسا شخص جس نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی اور تاقیامت باب نبوت اب کسی کے لیے نہیں کھلے گا۔ ۲۱؎
علامہ ابن حزم الاندلسی کے بقول یقیناً نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ دلیل میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وحی تو صرف نبی کی طرف ہوتی ہے اور اللہ عز و جل محمد عربی ﷺ سے متعلق فرماچکے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔ ۲۲؎
امام بغویؒ جو محی السنۃ سے ملقب ہیں، ختم نبوت کے سلسلے میں رقم فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ ﷺ کے ذریعہ نبیوں کے سلسلے کو ختم کردیا۔ پس آپ انبیاء کے خاتم ہیں اور ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت کریمہ کے تحت یہ فیصلہ صادر فرمادیا گیا ہے کہ نبی ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ۲۳؎
صاحبؒ الملل والنحل لکھتے ہیں جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا ہے تو اس کے کافر ہونے میں دو آدمیوں کے درمیان بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ۲۵؎
علامہ بیضاویؒ لکھتے ہیں کہ آپ انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں جس نے انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا اور جس کے ذریعہ انبیاء کے سلسلے پر مہر کردی گئی۔ جہاں تک رہی بات حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کی تو وہ نبی عربی ﷺ کے ایک امتی کی حیثیت سے ہوگی۔ ۲۶؎
تفسیر خازن میں خاتم النبیین کی وضاحت کے تحت علامہ بغدادی لکھتے ہیں کہ اللہ نے آپ پر نبوت ختم کردی۔ آپ کے بعد اب نہ ہی کوئی نبوت ہے اور نہ ہی اس منصب جلیل میں کسی کی شرکت روا ہے اور یہ بات خوب اللہ کے علم میں ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ ۲۷؎
ابن کثیرؒ اپنی معروف و مقبول تفسیر میں آیت ماکان محمد الی آخرالآیۃ میں لکھتے ہیں کہ پس یہ آیت اس باب میں نص قطعی کا حکم رکھتی ہے کہ نبی ؐکے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ حضور ؐ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا مدعی ہو وہ جھوٹا، مفتری، دجّال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ ۲۸؎
تفسیر جلالین میں آیت کے اس ٹکڑے وکان اللہ بکل شیئ علیماً کے تحت علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس بات کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور جب حضرت عیسیٰؑ نازل ہوںگے تو آپ ﷺ کی شریعت کے ہی تابع رہیں گے۔ ۲۹؎
صاحب الاشباہ والنظائر رقم کرتے ہیں کہ اگر کسی کا عقیدہ یہ نہ ہو کہ محمد ﷺ آخری نبی ہیں تو وہ اسلام سے خارج ہے، کیونکہ یہ ان حقائق میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا دین کے لوازم و مقتضیات میں سے ہے۔ ۳۰؎
عقلی دلائل:
لغت سے ثابت مفہوم، قرآن مجید کی آیات بینات، احادیث نبویہ کی تصریحات، کتب مقدسہ کے بیانات، صحابہ کرام کااجماع اور علمائے امت کی وضاحتوں کی روشنی میں ختم نبوت کا عقیدہ واضح اور تسلیم شدہ حقیقت کی حیثیت سے منصۂ شہور پر آجاتا ہے تاہم اس عقیدہ کے ثبوت و استحکام کے لیے بعض عقلی اور منطقی دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔فی الحقیقت نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا اہل کوئی ایسا شخص ہوجائے جو عبادت و ریاضت میں مشہور ہو اور اعمال صالحہ کی انجام دہی کے لحاظ سے بلندی پر متمکن ہو اور نہ ہی کوئی ایسی فضیلت و برتری اور انعام و اکرام کا نام ہے جو کسی عمل کے صلے میں نوازا جائے۔ یہ ایک عظیم الشان ذمہ داری اور اعلیٰ ترین منصب ہے جس پر ہدایت عامہ کی ضرورت کے تحت اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مامور فرماتا ہے۔ ضرورت پوری ہوجانے کے بعد کسی نبی کی ضرورت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ ختم نبوت کے عقیدہ سے متعلق چند دلائل اختصار کے ساتھ درج ذیل ہیں:(۱) اگر کسی خطّۂ ارض میں کوئی پیغمبر یا رسول نہیں بھیجا گیا ہو اور کسی دوسری قوم میں بھیجے گئے نبی کی دعوت بھی اس خطّۂ ارض کے لوگوں تک نہیں پہنچی ہو تو ضرورت متقاضی ہوتی ہے کہ وہاںکوئی نبی یا رسول بھیجا جائے۔ اس اصول کے تحت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے تک نبیوں کی آمد کا سلسلہ حالات و ضروریات کے لحاظ سے جاری رہا جیسا کہ فرمایا گیا:
’’لکل قوم ہاد‘‘۔ ۳۲؎ (ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہوا ہے۔)
جہاں تک محمد عربی ﷺ کی بعثت مبارکہ کا تعلق ہے قرآن مجید متعدد مقامات ۳۳؎ پر اس کی صراحت کرتا ہے کہ آپ ﷺ پوری انسانی برادری کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے اور نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوگیا عقلی طور پر یہ بات سمجھی جانی چاہیے کہ نبی خواہ کسی قوم میں اور جغرافیائی لحاظ سے کسی مخصوص جگہ پر آیا ہو، اگر انسانی ذہن و فکر اور وسائل و ذرائع اتنی ترقی کرگئے ہوں کہ نبی کی دعوت تمام اقوام تک پہنچ سکتی ہو اور پوری انسانی برادری اس سے فیض اٹھا سکتی ہو تو پھر کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیںرہتی ہے۔
محمد مصطفی ﷺ کی بعثت ایسے حالات میں ہوئی تھی جب کہ ہدایت کی ضرورت شدت سے متقاضی تھی اور کوئی نوشتہ ہدایت محفوظ نہیں رہ گیا تھا، اوریہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ ایک ایسے دور میں تشریف لائے جب انسانی تمدن بلوغت کے لحاظ سے آخری مرحلے میں پہنچ رہاتھا اور کسی بھی پیغام کا تمام اقوام عالم میں منتقل ہونا ناممکن نہیں رہ گیاتھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول:
’’دنیاکی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء کے آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی‘‘۔ ۳۴؎
(۲) نبی کی بعثت کی ضرورت اس وقت بھی پیش آتی ہے جب کوئی نبی آچکا ہو لیکن اس کی تعلیمات فراموش کی جاچکی ہوں یاان کے محفوظ و مامون رکھنے کا کوئی معقول انتظام نہ ہوا ہو، جس کی بنا پر ہدایت پر عمل پیرا ہونے کے امکانات کالعدم ہوجاتے ہوں۔ قرآن مجید کی تعلیمات اس سلسلے میں واضح ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دیا گیا مستند ترین ہدایت نامہ ۳۵؎ محفوظ و مامون ہے اور آپ کی سیرت کو دنیائے انسانیت کے لیے نمونہ عمل ۳۶؎ بنادیا گیا ہے۔
نزول قرآن کے زمانے سے ہی قرآن مجید کی کتابت اور اس کی حفاظت کا کام شروع ہوگیا تھا۔ خلافت صدیقی میں جنگ یمامہ میں حفاظ کی ایک قابل ذکر تعداد کی شہادت کا دلدوز واقعہ پیش آیا۔قرآن مجید کی باضابطہ جمع و تدوین کی جانب متوجہ کیا۔ چنانچہ زید بن ثابتؓ کی قیادت میں اس عمل خیر کو بخیر و خوبی انجام دیاگیا۔۳۷؎ آپ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آپ کی احادیث کو تاقیامت انسانوں تک پہنچانے کے لیے اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے فن وجود میں آئے جن کے ذریعہ رسول اکرم ﷺ کی مستند ترین تعلیمات سے فائدہ اٹھانا آسان تر ہوگیا ۔
(۳) کسی نبی کی بعثت تیسری شکل میں ناگزیر اس وقت ہوتی ہے جب کہ سابق نبی یا پیغمبر کی تعلیمات مکمل اورجامع نہ ہوں یا وقت کے ابھرتے ہوئے مسائل کا احاطہ نہ کیاگیاہو۔ قرآن مجید کی وضاحت ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت پر دین مکمل ہوا اور نعمت عظمیٰ کی تکمیل ہوئی۔ ۳۸؎
انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سیاسی ، اقتصادی، اخلاقی، مادی اور روحانی گو یا تمام شعبہ ہائے زندگی میں قرآن و سنت کی تعلیمات راہنما نقوش کی حیثیت رکھتی ہیںثابت ہوتی ہیں۔ محمد عربی کے ذریعہ دیے گئے ضابطۂ زندگی اور آپ ﷺ کی سیرت کی روشنی میں مسائل و مشکلات کی عقدہ کشائی میں کبھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ قرآن، سنت اور اجماع کے علاوہ قیاس وہ مصدر شریعت ہے جس کے ذریعہ بعثت نبوی کے بعد اٹھنے والے اشکالات کو رفع کیاگیا، چیلنجیز کے جوابات دیے گئے اور مسائل کاکافی و شافی حل پیش کرکے انسانیت کی خیر و فلاح کا کام انجام دیاگیا۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ زندگی۔ اجتہاد قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل کا جواب دیا جاتا رہے گا۔ محمد عربی ﷺ کے ذریعہ لائی گئی شریعت میں نہ نقص ہے نہ ہی جمود انشاء اللہ قیامت تک یہ شریعت جویائے حق کے لیے رحمت ثابت ہوگی۔ چنانچہ کسی نبی کی بعثت کی ضرورت تیسری شکل میںبھی باقی نہیں رہی۔
کسی نبی کی بعثت کی ضرورت کے لیے چوتھی ممکن شکل یہ ہے کہ ایک نبی کی مدد کے لیے کسی دوسرے نبی کی حاجت ہو۔ اگر کوئی مددگارنبی محمد عربی ﷺ کے عالمگیر مشن کے لیے درکار ہوتا تو آپ ہی کے ز مانے میں اس کی بعثت بھی ہوتی مگرایسا نہیں ہوا اِس کی ضرورت بھی نہیں تھی، تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ کسی نبی کی ضرورت کی یہ چوتھی شکل بھی باقی نہ رہی۔
لغوی وضاحتیں، قرآن مجید کی آیات بینات، خود محمد عربی ﷺ کی تصریحات، کتب مقدسہ کی شہادتیں، اجماع صحابہ ، علماء امت کے اقوال اورعقلی دلائل اس صداقت کو تشنۂ توضیح نہیں چھوڑتے کہ رسول اکرم ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ ختم نبوت کا عقیدہ انسان کو پگڈنڈیوں سے بے نیازکرکے شاہراہ مستقیم دکھاتا ہے ،اور قلبِ انسانی کو شریعت اسلامیہ کے چشمۂ صافی سے سیراب کرتا ہے۔
حواشی و مراجع:
۱؎شیخ ولی الدین محمد التبریزی: مشکوٰۃ المصابیح، ج…، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ص۳۰، کتب خانہ رشدیہ، دہلی
۲؎ابوالقاسم حسین بن محمد بن منظور: لسان العرب، ج…، الدار المصریۃ
۳؎ابوالقاسم حسین بن محمد راغب الاصفہانی: مفردات القرآن، ص۱۴۲، مطبع المیمنیۃ، مصر
۴؎ابوالفضل شہاب الدین سید محمود الآلوسی: روح المعانی، ج۲۲، ص۵۹، ادارۃ الطباعۃ المصفائیۃ، دیوبند
۵؎الاحزاب:۴۰
۶؎مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۰۳، ۲۰۰۴ء، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی
۷؎الاعراف:۱۵۷
۸؎ابومحمد بن اسماعیل البخاری: ج۱، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، ص۵۰۱
۹؎احمد بن حنبل: مسند احمد ، ج۲، ص۴۱۲
۱۰؎ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی: جامع الترمذی
۱۱؎ابن ماجہ القزوینی: سنن ابن ماجہ، ص۲۸۶-۲۸۷، ایم بشیر حسن اسنڈ سنز، کلکتہ
۱۲؎البیہقی: کتاب الروؤیا
۱۳؎الاعراف:۱۵۷
۱۴؎الصف:۶
۱۵؎کتاب استثناء، باب ۱۸، آیات ۱۵ تا ۱۹
۱۶؎مثلاً ملاحظہ فرمائیے متی باب ۲۱، آیات ۳۳ تا ۴۶، یوحنا ، باب ۱، آیات ۱۹ تا ۲۱، یوحنا، باب ۱۵ ، آیت ۲۶، یوحنا، باب ۱۶، آیات ۸ تا ۱۵ وغیرہ۔
۱۷؎یوحنا، باب ۱۴، آیات: ۱۵ تا ۲۶
۱۸؎یوحنا، باب ۱۴، آیت:۳۰
۱۹؎یوحنا، باب ۱۶، آیت:۷
۲۰؎ابن احمد المکی: مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ، ج۱، ص۶۱، ۱۳۲۱ھ، حیدرآباد
۲۱؎ابن جریر الطبری: جامع البیان عن تاویل آی القرآن، ج۱۹، ص۱۲۱، ۲۰۱۳ھ، دار عالم الکتب
۲۲؎ابن حزم الاندلسی: المحلی، ج۱، ص۲۶
۲۳؎امام بغوی: معالم التنزیل، ج۳، ص۱۵۸
۲۴؎محمود بن عمر الزمخشری: الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۳، ص۵۴۴-۵۴۵
۲۵؎ابن حزم الظاہری: الفصل فی الملل والاھواء والنحل، ج۳، ص۲۴۹، طبع اول، ۱۳۲۰ھ
۲۶؎البیضاوی : انوارالتنزیل: ج۲، ص۱۸۲، المطبع الاحمدی، دہلی
۲۷؎علاء الدین بغدادی: تفسیر خازن، ص۴۷۱-۴۷۲
۲۸؎اسماعیل ابن کثیر: ج۳، ص۱۰۰، ۱۹۹۳ء، احیاء التراث العلمی
۲۹؎جلال الدین السیوطی: جلالین، ص۳۵۵، ۱۳۷۶ھ، کلکتہ
۳۰؎ابن نجیم: الاشباہ والنظائر، کتاب السیر، ص۱۷۹
۳۱؎محمد اسحاق سندیلوی: مسئلہ ختم نبوت علی و عقل کی روشنی میں، ص۷۰، ۱۹۶۳ء، لکھنؤ
۳۲؎الرعد:۷
۳۳؎ملاحظہ فرمائیں، الانعام:۱۹، الاعراف:۱۵۸، الانبیاء: ۱۰۷، سبا:۲۸
۳۴؎مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۵۲
۳۵؎فصلت:۴۲
۳۶؎الاحزاب:۲۱
۳۷؎جمع و تدوین سے متعلق تفصیلات ملاحظہ فرمایے، محمد بن اسماعیل البخاری: الجامع الصحیح ، ج۲، کتاب النبی، ص۷۴۶
۳۸؎المائدہ:۳
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2014